ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد
22 نومبر،2024
آج کی دنیا میں مسلمان اتنہائی کرب، آزمائش اور امتحان کی ملی جلی کیفیات سے گزرہا ہے۔ ہر سوا سے کوئی نہ کوئی ایسی صورتحال کا سامنا ہے جو اس کی مشکلیں بڑھا رہی ہیں او رپہلے ہی سے الجھے ہوئے حالات کو مزید ابہام او رپیچیدگی کی نظر کررہی ہیں، دعوؤں کو جھوٹا او ربے بنیاد قرار دیا جارہا ہے او رپیش کردہ منطق او ردلیل صحیح ہوتے ہوئے بھی اپنا وزن کھو بیٹھی ہے۔
نام نہاد ہمدردان، فردسودہ جماعتی نظم، قیادت اور کثیر جہت مفروضے ہمیں مزید ابہام، غلط فہمیوں او رخوش فہمیوں کی ایک ایسی دلدل میں دھکیل رہے ہیں، جو علمی وعقلی تقاضوں سے متصادم ہیں۔ افہام وتفہیم اور تدارک کے عمل سے جن کا دور کا بھی تعلق نہیں، مگر اس مخصوص کیفیت کو باقی رکھنا او راسے مستحکم بنیادوں پر دوام بخشنا وہ سازشی حکمت عملی ہے، جس سے آزادانہ فکر و عمل و تحریک کو نہ بنیادملے اور نہ ہی مسلمانان ہند کسی ایسی فکر کی طرف اپنا رخ کرسکیں۔ جس سے ان کی سالہاسال سے جاری سیاسی استحصال کا قلع قمع ہوسکے۔
اس تصویر میں سمجھنے کا کیاہے؟ جواب بہت سیدھا اورآسان ہے۔ قومی و ریاستی سیاست، انتخابی کاروبار او را س میں نفع ونقصان، راست مسلم نفسیات، ملی فیصلوں،مزاج، فکر وعمل وردعمل پرموقوف ہوکر رہ گیا ہے۔ ہر گزرتے وقت کے ساتھ سیاست صرف مسلم مسائل، مسلم مزاج، مسلم طرز زندگی، مسلم آراء، مسلم تاریخ کے اوراق، مسلم منہ بھرائی، مسلم طرز معاشرت، زبان وبیان، تحریر وتقریر، دین اسلام، فقہ اسلامی، آیات قرآنی، سیرت رسول اللہ یہاں تک کہ صدیوں سے چلی آرہی تسلیم شدہ کھانے پینے، تہوار منانے، قربانی کرنے، رہنے سہنے، لباس و پہناوے، روایات واقدار، ساخت وشناخت، وجود، اساس اور تہذیب وتمدن اب کچھ بھی نہیں بچا، جو سوالات کے گھیرے سے باہر بچا ہو۔ یہ جہاں ہمیں قومی معاشر ے میں ایک سوال بنا کر کھڑا کررہا ہے وہیں کسی نئی حکمت عملی اور سوچ کی دعوت بھی دے رہا ہے۔
آج ہر گلی کو چے،نجی نشستو ں، چھوٹے بڑے اداروں، تنظیموں یا دیگر مقامات اس ذکر سے خالی نہیں کہ ملی وملّی حالات جہاں آگئے ہیں اس پر پار پانے کے طریقہ کار کو وضع کرنے پر گفتگو ومکالمہ نہ ہورہا ہو۔ اب یہ اتفاق ہر حلقے میں موجود ہے کہ بیساکھوں پر بھروسے کا دور ختم ہوچکا۔ ساتھ ہی یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اندرون ملت اور بیرونی گردنواح میں ملی مفاد کے نام پر نجی ذاتی مفاد کا کھیل برسرعام ہے۔ قائدین کی ذاتی زندگی اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ شعلہ بیانی بلا کی، جذبات کا ابھارنا انتہا کا، اکسانا، بھڑکانا، ورغلانا شباب پر اور کسی کے خلاف اس درجہ دشمنی کے لئے آمادہ کرنا کہ عقل اپنا آزادانہ استعمال و جوازہی کھو بیٹھے؟ اب ایک او رنیا فارمولہ آپ کے استعمال اور استحصال کا نکلالا گیا ہے۔ سابقہ نظام اپنی قصیدہ خوانی اورحمایت کے لیے نامور مسلم شخصیات اداروں کو کثیر رقم دیا کرتا تھا اور وہ ملت اسلامی کو اتحاد بین المسلمین، اشتراک عمل، سب مل کر سرجوڑ کربیٹھیں جیسی دنیا بھر کی فرضی باتوں میں پھانسنا شروع کیا، نئی نئی اصطلاحوں کے ذریعہ قوم سے ہمدردی ڈرامہ کیا،وصولی کی، کھایا کمایا اور ڈرکار بھی نہیں لی، پھر کسی نئے ایشو کا انتظار او راگلی کمائی اور کھیپ کی تیاری؟ کیا قومیں اس طرح بنتی ہیں؟ اس طرح ان کی تعمیر و تشکیل ہوتی ہے؟ یہ وہ مقام ہے جس کا آپ لقمہ بنے ہوئے ہیں۔
فی الوقت آپ کے مابین اب ایک ایسا طبقہ کھڑا کردیا گیاہے جو قیادت وقت، تنظیم وقت، نظریہ وقت اور حکومت وقت جس کے خلاف اور منہ کو آنے کی اچھے اچھے جرأت نہیں ہمارے ’چھٹ بھیئے‘ کس طرح انہیں چیلنج کررہے ہیں۔ کس طرح کی زبان، اسلوب، لہجے او ر مضمون کا استعمال کررہے ہیں، دندناتے پھر رہے ہیں۔ ان کے ارد گرد ہزاروں کا مجمع اکٹھا ہوجاتاہے او رجہاں مخصوص جماعت اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہے وہاں ملت اسلامیہ کے یہ فرزند اپنی خدمات عالیہ پیش کررہے ہیں،نتائج اس کے گواہ ہیں۔
معذرت کے ساتھ آپ آسانی سے بیوقوف بن جانے والے ہندوستانی سماج کا حصہ ہیں، جسے ظاہری دوست میری اصطلاح میں منافق اور ظاہری دشمن دونوں بدرجہ اتم اپنے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کرنے میں مکمل کامیاب ہیں۔ آپ ہر بار در کھڑے پائے جاتے ہیں اور عزت ووقار سے محروم ایک ایسی وحدت جو ہر گزرتے وقت کے ساتھ زمین میں دھنستی ہی چلی جارہی ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ ہند و سماج کے لوگ ہر سیاسی جماعت اورہر سیاسی نظریے سے جڑے ہیں اور کام کررہے ہیں۔ وہاں تو ملت فروشی، ضمیر فروشی، ظرف فروشی، خودداری فروشی کو ئی مسئلہ نہیں ہے۔ ایسا کیا ہم ہی کرتے ہیں جو روز اس طرح کے سیاسی فتوے دیئے جاتے ہیں او ربد قسمتی سے یہ کام وہ افراد کرتے ہیں جو اس خرید وفروخت کے ماہر ہیں۔ بڑی سیاسی جماعتوں کے چکر لگاتے ہیں۔ اسکیم بنا کر گھوم رہے ہوتے ہیں ساتھ میں بجٹ بھی ٹھیک ٹھاک رکھتے ہیں اور مسلمانان ہند کے ووٹ کو کیسے ادھر ادھر کیا جاسکتاہے اس دعوے کے ساتھ کہ ہم ایسے کو ویسا کرسکتے ہیں؟ کوئی تقریروں کا ٹھیکہ لیتا ہے، ماحول کو گرم کرتاہے، کوئی جلسے جلسوس کا ٹھیکہ لیتاہے تو کوئی احتجاج اور چیلنج کرنے والی بھڑکاؤ سیاست کا! بات اتفاق اور اتحاد کی کرتا ہے لیکن عملاً انجام تفرقے اور تقسیم کی شکل میں سامنے آتا ہے۔
بابری مسجد کے تمام اتار چڑھاؤ سے زمین بوسی تک، اقلیتی اداروں کی حیثیت کے تعلق سے سیاسی وادارہ جاتی اچھل کود، اردو کی زبو حالی، اقتصادی بدحالی، تعلیمی پسماندگی، سماجی پستی، گندی وغیرقانونی بستیاں بسا کر اپنے سروں پر چھت، بے روزگاری کی انتہائی کیفیات، فسادات کا یکطرفہ لامتناہی سلسلہ، لاکھوں جانوں کا ان میں نقصان، املاک وکاروبار کی تباہی اور آخر میں سچر کمیٹی کی رپورٹ جس نے بتایا کہ اب ماشاء اللہ آپ کو آپ کے مقام پر پہنچا دیا گیا ہے مگر ہم اور ہماری فکر سبحان اللہ۔
آخر اس تحریر کا مقصد کیا ہے؟ سیاست میں اپنے آپ کو نہ کہیں گروی رکھا جاتاہے، نہ کسی کی عارضی یا مستقبل غلامی قبول کی جاتی ہے، نہ کسی کھونٹے سے اپنے کو بندھنے کے لئے کھلا چھوڑ ا جاتاہے، نہ بے لگامی کو اپنی شیوہ بنایا جاتا ہے او رنہ ہی اتنے ہاتھ پیر چھوڑ دیئے جاتے ہیں کہ دلال آپ کا سودا کرتے پھریں، آپ کو بیچ ڈالیں اور آپ ان کے آلہئ کار بن جائیں مگر پھر بھی ان ہی کے گن گان کرتے پائے جائیں معذرت کے ساتھ! آج آپ نے اپنا یہ حشر کرلیاہے۔ آہ! آپ آج بھی خواب غفلت میں مبتلا کیوں ہیں؟
میں بار بار لکھ رہا ہوں اب انتخابات چار سال بعد ہیں قومی سیاست لوک سبھا کے انتخابات اور ان کے نتائج سے طے ہوتی ہے۔ ریاستی انتخابات کی اہمیت سے مجھے انکار نہیں۔ بحیثیت اس ملک کی دوسری سب سے بڑی وحدت ہونے کے باوجود ہم اپنے جائز مقام سے محروم کیوں ہیں؟ وقف ہمارے پاس 79سال سے ہے، حشر، ہزار ہا، ہر سطح کے تعلیمی ادارے آپ کے پاس ہیں۔ ریڑھ کی ہڈی غیر روایتی اقتصادی ڈھانچے پر آپ کی اجارے داری ہے، آپ اتنی بڑی فعال افرادی قوت رکھتے ہیں۔ قومی سیاست آپ کے گرد گشت کرتی اور اس سے نتیجہ نکالتی ہے۔عزم جواں پر کوئی قدغن نہیں، محنت، مشقت، معیار سازی، تعمیر وتشکیل کے عمل پر کسی جانب سے کوئی رکاوٹ نہیں۔ آپ جہاں ہیں وہاں معیار کو اس کی انتہاتک لے جانے میں آپ کے اپنے احساس ذمہ داری کے علاوہ کسی اور کا کوئی عمل دخل نہیں، مگر پھر حالات اتنے ناگفتہ بہ کیوں؟ سیاست اور تقریر پر اتنا زور کہ جہاں اصل زور چاہئے وہاں سے وہ خالی ہوگیا ہے۔
آخر میں عرض کرنا چاہتاہوں کہ سیاست میں متوازن شرکت رکھیے، فریق مت بنئے۔اپنے گردونواح کے لئے کیا بہتر ہے اس کو ملحوظ رکھیے۔بہت بڑا نہ سوچ کر بہت مقامی سوچ رکھئے، گردونواح درست ہوگئے تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ جتنی چادر ہو اتنا ہی پھیلانے اور اوڑھنے کی گنجائش ہوتی ہے۔ ہم قدوقامت سے زیادہ اہداف رکھ رہے ہیں۔ وہ سب تو ہاتھ نہیں آپاتا۔بات سفر، تعلیم، کاروبار، امن وامان، گزر بسر، عزت نفس، ملی غیرت وحمیت سب ہی کچھ تو داؤ پر لگ گیا ہے یا لگالیا ہے۔ اب رویوں پر توجہ پر دیجئے۔اپنے اطراف میں خیر سگالی کو اپنا ہدف بنائیں۔ کھوئی ہوئی رشتوں کی گرماہٹ کوبحال کرنے پر محنت کریں۔ بے وجہ کی بیان بازی سے پرہیز کریں، ردعمل میں احتیاط سے کام لیں۔ زبان سے وہ نہ کہیں جس کا انجام آپ کو او رملت میں احساس محرومی پیدا کرنے کا باعث ہو۔
22 نومبر،2024،بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
URL: https://newageislam.com/urdu-section/indian-muslims-current-perspectives/d/133812
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism