New Age Islam
Fri Jul 11 2025, 04:46 AM

Urdu Section ( 28 Dec 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Indian Muslims and their Supposed Political Appeasement: the Spiritual Dimension ہندوستانی مسلمان اور ان کی مفروضہ سیاسی خوشامد

 ارمان نیازی، نیو ایج اسلام

 18 نومبر 2021

 ایک فرضی سیاسی خوشامدی کے چکر میں مسلمانوں نے اپنی سیاسی فراست اور شناخت کھو دی

 اہم نکات:

 1.  ہندوستان کی تقسیم کے بعد، مسلمان انتہائی ناپسندیدہ اور مہجور و متروک بن گئے۔

 2.  جب پاکستان اور بنگلہ دیش اپنی اقلیتوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرتے ہیں تو ہندوستانی مسلمانوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے جب کہ سیاسی جماعتیں (یہاں تک کہ سیکولر بھی) مسلمانوں کو نظر انداز کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔

 3.  بی جے پی، آر ایس ایس اور ان کی روز بروز بڑھتی ہوئی ذیلی تنظیموں کو ہندوستانی مسلمانوں کی زبوں حالی کے لیے قطعی طور پر مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا کیونکہ یہ دہائیوں پرانا ہے۔

 4. مسلمانوں کے تئیں لوگوں کی نفرت مضحکہ خیز خوشامدانہ پالیسی کا نتیجہ ہے جسے ہر نام نہاد سیکولر تنظیم انتخابات کے دوران اپنے سیاسی فائدے کے لیے اپناتی ہے۔ اس لیے کہ اس بات سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مسلمان ہر لحاظ سے کسی بھی دوسرے طبقے سے زیادہ پسماندہ ہیں۔

 -----

Hitler walking over the spineless leaders of democracy by British cartoonist David Low (Evening Standard (8th July, 1936)

-------

 ہندوستان کی تقسیم کے بعد، مسلمان انتہائی ناپسندیدہ اور مہجور و متروک بن گئے۔ کاغذ پر مسلمانوں کو ہر وہ حق حاصل ہے جو ہندوستان کا آئین اپنے شہریوں کو دیتا ہے لیکن آزادی کے بعد سے، ان کے ساتھ محض قربانی کا بکرا ہی سمجھا جاتا رہا ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کی غلطیوں کی سزا انہیں دی جاتی ہے۔ جب پاکستان اور بنگلہ دیش اپنی اقلیتوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرتے ہیں تو ہندوستانی مسلمانوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے جب کہ سیاسی جماعتیں (یہاں تک کہ سیکولر بھی) مسلمانوں کو نظر انداز کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اور جب مذکورہ ممالک اپنی اقلیتوں کے ساتھ قابل احترام شہریوں جیسا سلوک کرتے ہیں انہیں بدلے میں کوئی عزت نہیں دی جاتی۔

 میں آج بی جے پی، آر ایس ایس اور ان کی روز بروز بڑھتی ہوئی ذیلی تنظیموں کو ہندوستانی مسلمانوں کی زبوں حالی کے لیے قطعی طور پر مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا کیونکہ یہ دہائیوں پرانا ہے، جیسا کہ میں نے بذات خود تقریباً تیس سال قبل بہار کے اراہ ضلع میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا مشاہدہ کیا تھا۔ مسلمانوں کے خلاف یہ نفرت مفروضہ خوشامدانہ پالیسی کا نتیجہ ہے جو ہر نام نہاد سیکولر جماعت نے اپنے سیاسی فائدے کے لیے اختیار کی ہے۔ ہر سیاسی پارٹی نے اپنے قومی، علاقائی اور لسانی یا ذات پات کی شناخت سے قطع نظر اپنے ووٹوں کے لیے مسلمانوں کی فرضی خوشامدی کا راستہ اختیار کیا ہے۔

نام نہاد سیکولر پارٹیاں مسلمانوں سے بڑے بڑے وعدے کرتی ہیں جو کبھی پورے نہیں کیے جاتے، لیکن ہندوتوا جماعتوں کی جانب سے خود پر خوشامد کا الزام قبول کرتے ہیں۔ لوگوں کو لگا ہو گا کہ سچر کمیٹی کی رپورٹ کی اشاعت کے بعد کچھ تبدیلی آئے گی جس میں ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت زار پر روشنی ڈالی گئی تھی۔ لیکن کچھ بھی نہیں بدلا۔

 ایک فرضی سیاسی خوشامدی کے چکر میں مسلمانوں نے اپنی سیاسی فراست اور شناخت کھو دی۔ انہیں یہ باور کرایا گیا کہ تمہیں اپنی ترقی کے لیے ہر طرح کا تعاون مل رہا ہے جب کہ حقیقت کچھ اور ہی تھی۔ مسلمانوں کے پاس سیاسی دنیا میں اپنی رہنمائی کے لیے کبھی کوئی رہنما نہیں تھا۔ ان میں سے زیادہ تر لوگ جو مسلمانوں کے لیڈر بن کر منظر عام پر آئے وہ محض خود پسندی کی پالیسی پر عمل پیرا تھے۔ نام کے لیے ہر سیاسی جماعت، لیفٹ، رائٹ یا فار رائٹ میں کئی مسلم رہنما ہیں لیکن ان میں سے کسی نے بھی مسلمانوں کے لیے کھڑے ہونے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔ یہاں تک کہ اگر انہوں نے کبھی مسلمانوں کی بات کی بھی تو اپنی پارٹی کی پالیسی کے مطابق کی، مسلمانوں کو درپیش حقیقت کو درپیش مسائل کی بات نہیں کی۔

 جن رہنمائوں کو قرآن و حدیث کی سمجھ نہیں ہے، اگرچہ ایک کثیر المذاہب ملک کے رہنما ہونے کے ناطے ان کے پاس ہونا ضروری ہے، اور جو مسلم رہنما اس طرح کی غلط خوشامدانہ پالیسی کی حمایت کرتے ہیں، انہیں کچھ قرآن اور بائبل کی تعلیمات سے آشنا ہونا ضروری ہے تاکہ انہیں معلوم ہو سکے کہ آخرت کی زندگی میں ان کا کیا انجام ہے۔

خوشامد پر قرآنی آیات

 اور وعدے پورے کرو کیونکہ قول وقرار کی باز پرس ہونے والی ہے" (الاسراء: 34)

 اے ایمان والو! تم وه بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں۔ تم جو کرتے نہیں اس کا کہنا اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے۔ (الصف: 2-3)

 اور وعدے پورے کرو کیونکہ قول وقرار کی باز پرس ہونے والی ہے" (الاسراء: 34)

جب وعده کرے تب اسے پورا کرے، یہی سچے لوگ ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں۔ (البقرۃ: 177

 جھوٹے وعدوں یعنی خوشامدی پر عیسائیت کی تعلیمات

وہ انسان جو وعدہ کرتا ہے لیکن پورا نہیں کرتا ایسا ہی ہے جیسے بارش کے بغیر بادل اور ہوا۔ (پروورب 25:14)

 اور کوئی تعجب کی بات نہیں، کیونکہ شیطان بھی خود کو نورانی فرشتہ ہی مانتا ہے۔ (2 کرنتھیوں 11:14)

 ہندوستانی مسلمانوں کے سیاسی زوال میں مسلم دانشوروں کا کردار

 مسلم دانشوروں اور اسکالروں نے مسلمانوں کو 'ترقی پسند مسلمان'، 'اعتدال پسند مسلمان' اور 'آرتھوڈوکس مسلمانوں' میں تقسیم کر دیا تاکہ وہ حکومت سے اپنی تال میل بنائے رکھیں۔

 انہوں نے مسلمانوں کو کبھی بھی صحیح راستے پر نہیں چلایا جو انہیں ہندوستانی ثقافت اور تہذیب کے مرکزی دھارے میں شامل کر سکتا تھا۔ ہندوستانی مسلمان اب بھی ہندوستانی سماجی شناخت کے ثقافتی ماحول میں بالکل گھل مل گئے ہیں لیکن یہ اس علم کی وجہ سے ہے جو انہیں جمعہ کے دن خطبات اور دیگر گھریلو تقاریب میں تقریروں کے ذریعے فراہم کیا جاتا ہے۔

 مسلم دانشوروں اور اسکالروں نے اپنے لیے گورنری کے عہدوں کو مسلمانوں میں بے سہارا لوگوں کی مدد سے زیادہ اہمیت دی۔ لہٰذا ہر آنے والی حکومت نے مسلمانوں کی جماعت کے بجائے ان افراد کو خوش کیا ہے جنہیں انہوں نے کبھی اپنا قومی بھائی نہیں مانا۔

آزادی کے بعد سے ہی مسلمانوں کو درپیش مسائل کا جواب اقلیتی تعلیمی ادارے نہیں رہے ہیں۔ انہیں اپنی جڑیں مضبوط کرنے کی ضرورت تھی کیونکہ مولانا ابوالکلام آزاد کی دعوت پر ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمان بالکل مفلوک الحال تھے۔ جاگیردار، امیر اور پڑھے لکھے زیادہ تر لوگ جناح کی دعوت پر ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ ضروری تھا کہ عام مسلمانوں کو حقیقی ہندوستانی مانا اور تسلیم کیا جاتا کیونکہ انہوں نے ہندوستان کو اپنا مادر وطن بنانے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔

تمام اقلیتی برادریاں اور دیگر پسماندہ لوگ کبھی نہ کبھی کسی فرضی خوشامد کی پالیسی کا شکار ہو چکے ہیں۔ اس پالیسی نے انہیں دوسرے ہم وطنوں، بھائیوں اور بہنوں کے دلوں میں غصے اور حسد کے سوا کچھ نہیں دیا۔

 صدور، وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کا ہونا مسلمانوں کی خوشامدی نہیں ہے۔ یہ مسلمانوں کو درپیش مشکلات کا جواب نہیں ہے۔ جامعیت کے بغیر کسی بھی معاشرے کی ترقی نہیں ہو سکتی۔ جس طرح جھونپڑیوں اور گندگی کے ساتھ اسمارٹ سٹی نہیں ہو سکتا اسی طرح ایک ملک بھی ترقی یافتہ ملک نہیں ہو سکتا جب تک کہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی سے نہ رہیں۔

 ایک مہذب معاشرے کو پروان چڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ ملک کے ہر شہری کے ساتھ برابر کا سلوک کیا جائے۔ مہذب اور متمدن ہونا روحانی ہونے کی علامت ہے۔ اس لیے ہماری ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ ہم اپنے تمام لوگوں میں بھائی چارے اور جامعیت کے روحانی جوہر کو فروغ دیں تاکہ ایک ملک اور ایک معاشرے سے تعلق کا احساس پیدا ہو۔ سب کو یکساں مواقع میسر ہونے چاہیے۔ خوشامد کی پالیسی لوگوں میں انتشار پیدا کرتی ہے۔ ہمارے ملک کے تمام بڑے مذاہب خوشامدانہ اور انعامی مساوات کو ترک کرتے ہیں۔ خوشامد کی پالیسی کو اپنی سیاسی چال کے طور پر استعمال کرنے والے شاید اس بات سے بے خبر ہیں کہ ایسے لوگ منافق کہلاتے ہیں اور ان کے لیے آخرت میں جہنم کا وعدہ ہے۔

 جامعیت انسانی فطرت میں شامل ہے۔ انسان کو صرف اس کے مذہب کی تعلیمات کو یاد دلا دیا جائے تو وہ ایک ایسے نظریے کو قبول کر لیگا جو محبت، ہمدردی، بھائی چارے اور جامعیت کا درس دیتا ہے۔ انسانیت کو درج ذیل مذہبی تعلیمات پر عمل کرنے کے لیے ایک انسانی معاشرے کی جامعیت کا مزہ چکھنا ہوگا۔

 ایک لیڈر یا پارٹی جو خوشامدی کا کھیل کھیلتی ہے اسے صحیح معنوں میں 'منافق' کہا جاتا ہے۔ منافقوں کو ہر دور اور ہر معاشرے میں ہر ایک انسان ملامت کرتا رہا ہے۔ ان کا منافقانہ چہرہ ایک نہ ایک دن سب کے سامنے آجاتا ہے اور پھر ان کے پاس چھپنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ انسانوں نے اس دنیا کے روز آفرینش سے ہی ایسے منافقوں کو دیکھا ہے۔ منافقین کی صفات کے حوالے سے درج ذیل احادیث پر غور کریں اور انہیں اپنے درمیان پہچانیں۔

"چار خصلتیں ہیں، جس میں یہ سب ہوں وہ خالص منافق ہے: جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، جب وعدہ کرتا ہے تو خلاف ورزی کرتا ہے، جب وہ عہد کرتا ہے تو خیانت کرتا ہے، اور جب جھگڑا کرتا ہے تو فحش بات کرتا ہے۔ جس کے اندر ان میں سے کوئی ایک بھی ہو اس میں نفاق کی خصلت ہے، یہاں تک کہ وہ اسے ترک کر دے۔" صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3178 ) ۔ مسلم، 58۔

 منافق سیاست دان اور خوشامد کا کھیل کھیلنے والوں کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ بھگواد گیتا اور قرآن پاک کی آیات کی روشنی میں درج ذیل سبق کو یاد کر لیں:

 اس علم کو نیکی سمجھیں جس کے ذریعے انسان تمام متنوع جانداروں کے اندر ایک غیر منقسم غیر فانی حقیقت کو دیکھتا ہے۔ (بھگود گیتا باب 18، متن 20)

 "آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا ہوں...‘‘ (قرآن 7:158)

 "اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک (ہی) مرد وعورت سے پیدا کیا ہے اور اس لئے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو کنبے اور قبیلے بنا دیئے ہیں، اللہ کے نزدیک تم سب میں باعزت وه ہے جو سب سے زیاده ڈرنے وا ہے۔ یقین مانو کہ اللہ دانا اور باخبر ہے۔" [قرآن 49:13]

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: "اللہ تعالیٰ کے نزدیک انسانوں میں سب سے زیادہ پسندیدہ کون ہے؟" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص جو لوگوں کے ساتھ سب سے زیادہ بھلائی کرتا ہے۔

 خوشامد کے اس کھیل سے نہ صرف مسلمانوں یا دیگر پسماندہ ہندوستانیوں کو بلکہ خود ملک کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ ہم ہندوستانی شہریوں کو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ، 'اتحاد زندگی ہے اور اختلاف موت'۔

 اور اللہ خوب جانتا ہے۔

 English Article: Indian Muslims and their Supposed Political Appeasement: the Spiritual Dimension

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/indian-muslims-appeasement-spiritual/d/128730

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..