محمد نوشاد نوری قاسمی
29 جون 2023
ہندوستان میں حالات
دگرگوں ہیں، ایک تہذیبی کشاکش ہے ، ملک پرایک خاص فکراور تہذیب کو مسلط کرنے کی
منظم سازش جاری ہے، وقت کے ساتھ غیروں کے حوصلے بلند ہیں، انہوں نے ملک کی دیگر
تہذیبوں کو نگلنے، جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور اپنی تہذیب کو طاقت اور قوت کے زور پر
نافذ کرنے کی پوری تیاری کرلی ہے، سرکاری ادارے ، افسران، میڈیا ، عدالتیں اور بہت
حد تک عوام بھی ان کے قابو میں ہیں، ہندوستان میں مذہبی رواداری اپنے سب سے خطرناک
دور سےگزر رہی ہے، ماحول یہ بنایا جارہا ہے کہ ان کا اٹھایا گیا ہر قدم ملک اور
قومیت کے حق میں ہے، ان کی ادنیٰ سی مخالفت ملک سے غداری کے مترادف بن گئی ہے یا
بنتی جارہی ہے۔
ان حالات کازبردست منفی
اثر مسلم سماج پر ہواہے، سرکاری سطح پر متعدد قوانین ایسے بنادیے گئے جو ان کے
پرسنل لاء کو چیلنج کرتے ہیں اور شریعت اسلامیہ میں کھلی مداخلت کرتے ہیں، عوامی
سطح پر نفرت میں زبردست اضافہ ہواہے ، ہرمہینے دو چار مسلمان اس خوں ریز نفرت کا
شکار ہو رہے ہیں، ارتداد کی ہوا اب طوفان بلاخیز بن گئی ہے، اسکولوں میں ’سوریہ
نمسکار‘ اور ’وندے ماترم‘ عام سی بات ہوگئی ہے، اس تعلق سے مسلم سماج کی حساسیت
بھی انتہائی کمزور ہوچکی ہے، غیر مسلموں سے شادی کے واقعات میں کافی اضافہ ہواہے ،
شادی کے بعد، بے دردی سے مسلم لڑکی کا قتل ، اب معمول کی خبریں ہیں، عمومی طور پر
ہندؤوں کی اکثریت اپنی تہذیب کی بالادستی کا خواب آنکھوں میں سجائے ہوئے ہے،
داڑھی اورحجاب اور کوئی بھی ایسی علامت جس سے اسلام کی بُو آتی ہو، وہ ملک کے نئے
منظر نامے میں ناقابل قبول چیز بنتی جارہی ہے، یونیفارم سول کوڈ کا جِن ایک بار
پھر بوتل سے باہر آگيا ہے ، جو ہمیشہ کی طرح نفرت کے لیے ماحول ا ور زمین ہموار کرنے
میں اپناکردار ادا کرے گا۔
مسلم قوم کی اکثریت نئے
نظام کے سامنے سرتسلیم خم کرنے پر آمادہ ہے، قائدین کے لہجے تبدیل ہوچکے ہیں؛
بلکہ بعض تو کھلے عام غیروں کی زبان بول رہے ہیں، مفتیان کرام کے فتووں میں اگر
مگر کے ذریعہ تاویلات کا وسیع باب کھولا جارہا ہے، حالیہ دنوں میں بعض مدارس میں
’یوگا‘ کا منظم پروگرام ہوا۔ اس کی ویڈیوز اور تصویروں نے غیرت مند مسلمانوں کو
جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ کچھ مخلصین نے تحریریں لکھیں ، اپنا احتجاج درج کرایا؛ مگرکیا
کسی نے اس تنظیم کے کسی سربراہ کی کوئی تحریر یا اعلان برأت دیکھا، جس سے یہ
ادارے وابستہ ہیں؟ مطلب صاف ہے، یہ ادارے اپنے بڑوں کی منشا جانتے ہیں، انہیں پتہ
ہے کہ اشارہ یہی ہے کہ ہر وہ کام کرلیا جائے ، جس سے دستارِ قائد سلامت رہے ،سرکار
کی نظروں میں اپنی بھی آبرو بنی رہے ؛ رہ گئی آبروئے ملت ، تو وہ کب کی مرحوم
ہوچکی ہے، اب تو اس کی فاتحہ خوانی کا دور ہے ، سو اس میں وہ اہم کردار ادا کر ہی
رہے ہیں۔
جو لوگ جان بوجھ کر اس
سازش میں شریک ہورہے ہیں ، ان کے لیے نہ کوئی تحریر مؤثر ہو سکتی ہے ، اور نہ
کوئی نرم ونازک کلام،اس لیے نہیں کہ وہ نادان ہیں ؛ بلکہ اس لیے کہ وہ شاطر ہیں
،وہ ضمیر فروشی كو اپنا ہنر اور کاسہ لیسی کو اپنا نشانِ امتیاز سمجھتے ہیں، ان کی
فہمائش قانونِ فطرت کے بے رحم ہتھوڑوں سے ہی ممکن ہے، ہاں وہ لوگ جو اپنے ایمان کے
سرمایہ کو حرزِجان بنائے ہوئے ہیں اور کسی قیمت پر اس کا سودا کرنے کو تیار نہیں
ہیںوہ دشمنوں کی سازشوں کا اصل نشانہ ہیں، ضروری ہے کہ انہیں قرآن کریم کا وہ سبق
یاد دلایاجائے جو ان حالات میں ان کی رہنمائی کرتا ہے، انہیں حوصلے دیتا ہے، ان کے
سامنے ایک رول ماڈل اورمثالی کردار پیش کرتا ہے، و ہ ہے ابراہیمی کردار۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام
کا رشتہ امت محمدیہ سے بہت خاص ہے۔انہوں نے اس امت کے لیے اور اس کے نبی آخر
الزماں صلی الله علیہ وسلم کی بعثت کے لیے دعائیں کیں، انہوں نے اس امت کا نام
’’امت مسلمہ‘‘ رکھا ، یہود ونصاری نے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اپنے خصوصی
تعلق کا ذکرکیا تو اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمایا کہ حضرت ابرہیم علیہ السلام نہ تو
یہودی تھے اور نہ ہی عيسائی ؛ وہ تو مسلم تھے، مزید فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ
السلام سے خصوصی تعلق کا حق اس نبیؐ امی علیہ السلام اور ان کے پیروکاروں کو ہے،
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی متعدد یادگاروں کو اس امت کے شعائر میں شامل فرمایاگیا،
ان کی شخصیت كو بالخصوص ایمان اور توحید کے باب میں اسوۂ حسنہ اور رول ماڈل بنایا
گیا، شریعت محمدی كو ملت ابراہیمی کا لقب دیا گیا اور مسلمانوں کو اس کی پیروی کا
پابند کیا گیا، اس لیے کہ ملت ابرہیمی کے
اصول وفروع كو شریعت محمدی میں سمیٹ لیا گیا، اس طرح ان کی شخصیت اور ان کی ملت؛
دونوں امت مسلمہ کے لیے انتہائی اہمیت رکتی ہیں، جس میں فکری استقامت اور عملی
حرارت کاکافی سامان موجود ہے۔
توحيد کے علم بردار
ابراہیم:
انبیاء علیہم السلام تمام
کے تمام ہدایت کے ستارے اور روشنی کے مینار تھے، وہ اللہ کے انتہائی مخصوص بندے
تھے ، چشم فلک نے ان جیسی پاکیزہ اور مقدس جماعت نہیں دیکھی، وہ کفر وشرک کے لیے ننگی تلوار اور توحید
خداوندی کے بے باک علم بردار تھے، وہ جہاں رہے، ابليسی نظام کے لیے چيلنج بنے رہے؛
مگر يہ خصوصیت صرف حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حصہ میں آئی کہ نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم جیسی کامل مکمل شخصیت اور ان کا اسوۂ حسنہ ہوتے ہوئے الله تعالیٰ نے،
ایمان کے باب میں حضر ت ابراہیم علیہ السلام کو اسوۂ حسنہ قرار دیا ۔ سورۃ
الممتحنہ میں ارشاد باری ہے : ترجمہ: ’’ تمہارے لیے ابراہیم اور ان کے پیروکاروں
کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: ہم تم سے اور تمہارے
جھوٹے خداؤں سے بیزار ہیں ، ہم تمہارے نظام کو قبول کرنے والے نہیں ہیں، ہمارے
اور تمہارے درميان کھلی عداوت اور دشمنی ہے، یہاں تک کہ تم ایمان لے آؤ‘‘۔
حضرت ابراہیم عليہ السلام
توحید كا شعار تھے، ان کی اسی انفرادیت کی وجہ سے قرآن کریم میں انہیں ’’حنیف‘‘
کی صفت سے یادکیا گیاہے ، حنیف کا مفہوم ہے: وہ انسان جوساری دنیا سےکٹ کر، ایک
خدا کے لیےیکسو ہوجائے ، ظاہر ہے سارے انبیاء علیہم السلام ایسے ہی تھے؛ مگر توحید
کے معاملے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شان کچھ زیادہ ہی نرالی تھی، جس کی وجہ
سے انہیں اس صفت کا تمغہ دیا گيا ہے۔
ابرا ہیمی اسوہ کیا ہے؟
اسوۂ ابراہیمی کی حقیقت
کی طرف سورۃ الممتحنہ میں اشارہ کیاگیا ہے کہ جب ساری قوم توحید کے خلاف تھی، گھر
کے لوگ مخالف تھے، باپ آزر بت گر اور بت پرست تھا، پوری قوم شرک میں ڈوبی ہوئی
تھی، بادشاہِ وقت نمرود بزور قوت اس مشرکانہ نظام کی قیادت کررہا تھا، ایسے میں
اپنی جان ، مال اور عزت وآبرو کی پرواہ کیے بغیر، ابراہیم علیہ السلام نے توحیدکا
پرچم بلندکیا، بتوں کو توڑ ڈالا ، قوم پر حجت تمام کردی، اس لیے کہ علمی اور عقلی
قوت تو اہل ایمان کے پاس ہے، ایک فکری جنگ کا اعلان ہوگیا ، ایک طرف ابراہیم علیہ
السلام اور ان پر ایمان لانے والے دو خوش نصیب لوگ تھے ، جن میں ایک بھتيجا حضرت
لوط علیہ السلام اور دوسری ان کی بیوی حضرت سارہ عليہا السلام تھی اور دوسری صف
میں نمرود اپنی شان وشوکت کے ساتھ اور ان کی قوم پوری عددی قوت کے ساتھ صف آرا
تھی، توحید كی روشنی کوختم کرنےکے لیے ، آگ کا الاؤ بھڑکیا گیا ،جب وہ اپنے شباب
پر پہنچا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس میں ڈال دیا گیا ، یہی ہر دور کے
ظالموں اور مشرکوں کا طریقہ ہے، وہ دلیل کی دنیا میں مغلوب ہوجانےکے بعد، اپنی عقل
وخرد کو صحیح سمت میں لے جانے کے بجائے ، نشہ ٔاقتدار میں مست ہوکر، حق کی قوت کو
دبانا اور کچلنا چاہتے ہیں ، ان حالات میں اپنے عقیدہ پر ثابت قدم رہنا اور ہرطرح
کے فتنوں کا جواں مردی سے مقابلہ کرنا ہی اسوۂ ابراہیمی ہے اور حضرت ابراہیم علیہ
السلام کو اسوہ بنانے کے پیچھے راز یہی ہے کہ اس طرح کے حالات سے امت مسلمہ کو
دوچار ہونا پڑے گا، جہاں ان کے عقیدے اور شریعت پر خطرات کے بادل منڈلائیں گے، ان
حالات میں امت کو اپنے لیے عملی راہ متعین کرنے میں دشواری نہیں ہونی چاہیے، ایسے موقع
پر امت کے قائد اور رول ماڈل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شخصیت اور ان کے راستے
پر چلنے والے جو باکردار لوگ ہیں، امت کے لیے لازم ہے كہ وہ اس حقیقت کو یاد رکھے
،کسی جبہ و دستار سے دھوکہ نہ کھائیے، کسی مصلحت کو اپنے اوپر حاوی نہ کرے ،وہ
پوری قوت کے ساتھ طاغوتی نظام کے سامنے ڈٹ جائے، اگر غیروں کے پاس قوت ہے، طاقت
ہے، پیسے ہیں،سازشوں کا جال ہے، ایجنٹ ہیں، ضمیر فروشوںکی فوج ہے ،تو اہل ایمان کے
پاس ایما کی روشنی ہے، تقوی کی چمک ہے، توکل علی اللہ کا سرمایہ ہے، اخلاص کا
ہتھیار ہے، انبیاء علیہم السلام کی روشن روایات ہیں، ان ہی قوتوں سے اہل ایمان کل
بھی کامياب ہوئے تھے اور آج بھی کاميابی کا یہی راستہ متعین ہے، اگر دشمنوں نے
آگ کا الاؤ بھڑکا رکھا ہے، تو اللہ کی مدد اور نصرت ، اس آگ کو گلزار بنانےکے
لیےکافی ہے، اگر دشمنوں نے ہميں کیفرکردار تک پہنچانےکے لیے تانے بانے بُن لیے ہیں
تو اللہ رب العزت کا انتقام ان کے لیے گھات لگائے ہوئے ہے، بس ضرورت ہے کہ ہم اس
کردارکے حامل بن جائیں، ہم اپنے یقین اور توکل کو اس معیار تک پہنچائیں اور آتش
نمرود میں بے خطر کود جانےکا حوصلہ پیدا کریں، یہی حضرت ابراہیم علیہ السلام کا
اسوہ ہے اور یہی وقت کی ضرورت ہےاور اسی سبق کویاد اور تازہ کرنےکے لیے ہر سال
بقرعید آتی ہے اور حج جيسی عظیم الشان اجتماعی عبادت کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔
آج بھی ہو جو براہیم کا
ایماں پیدا
آگ كکر سکتی ہے انداز
گلستاں پیدا
تاریخ گواہ ہےکہ جس قوم
نے توحید كی امانت کو اپنے سینوں میں محفوظ رکھا ، وہ جاوداں ہوگئی، ان کو مٹانے
والے نشانِ عبرت بن گئے، وہ تعداد میں کم ہوتے ہوئے اور بے سروسامانی کے باوجود
غالب رہے ، فتحیاب اور سربلند رہے، آنے والی آزمائشیں در اصل ہمارے حوصلہ اور
ایمان کاامتحان ہیں، ایسے موقع پر، ہم سے ابراہیمی کردار پیش کرنے کا ایمانی
مطالبہ ہے، اگر ہم نےیہ سبق محفوظ رکھا تو ہماری عید بھی مبارک اور ہماری قربانی
بھی مبارک ۔
29 جون 2023،بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
---------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism