ابھے کمار
21جنوری، 2025
12سال کے طویل انتظار کے بعد پریاگ راج میں مہا کمبھ پر خوب ہلچل ہے۔ مقدس گنگا، جمنا اور سرسوتی کے سنگم پر عقیدت مند غسل کرتے ہوئے اپنے مذہبی فرائض اداکررہے ہیں۔ چھ ہفتوں تک جاری رہنے والے اس میلے میں کروڑوں عقیدت مند حاضر ہوئے۔ دعویٰ کیا جارہاہے کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا مذہبی اجتماع ہے۔ اگرچہ کمبھ میلے کی مقبولیت نے جدید دور میں شدت اختیار کی ہے۔ انگریزوں کی آمد اور ریل کی سہولتوں کے فروغ کے ساتھ عقیدت مندوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا۔بعد ازا ں، ہندو احیا پرستوں نے کمبھ میلے کو ہندو شناخت کا ایک اہم حصہ قرار دے کر اس کی اہمیت کو مزید اجاگر کیا۔اسی طرح، حکمرانوں کے درمیان کمبھ کے بہتر انتظام کا کریڈٹ لینے کے لیے بھی مسابقت دیکھنے میں آئی۔ اس بار بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کی یوپی حکومت کامحکمہ تعلقات عامہ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کونہ صرف کمبھ میلے کا کامیاب منتظم بلکہ ہندو سماج کے عظیم رہنما کے طور پر پیش کرنے کی بھرپور کوشش کررہا ہے۔ دوسری جانب، ہندو انتہا پسند کمبھ جیسے مذہبی اجتماع کو فرقہ وارانہ رنگ دینے سے باز نہیں آرہے ہیں۔ جہاں ملک اور دنیا کے میڈیا کی نظریں کمبھ میلے پر مرکوز ہیں، وہیں شدت پسند تنظیمیں مسلمانوں کے اس میلے میں داخلے کی اجازت روکنے اور ان کے معاشی بائیکاٹ کامطالبہ کر رہی ہیں۔
حالانکہ انتظامیہ کی جانب سے مسلمانوں کو کمبھ میں داخلے سے روکنے کے لیے کوئی حکم جاری نہیں کیا گیا، لیکن اقلیتوں میں یہ بے چینی محسوس کی جارہی ہے کہ یوگی حکومت نے شدت پسندوں کے خلاف کوئی واضح موقف اختیار نہیں کیا ہے۔ ایک مشہور ہندی نیوز چینل کو دیے گئے انٹرویو میں یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا کہ کمبھ میلے کے دروازے سب کے لئے کھلے ہیں، مگر ساتھ ہی فرقہ پرستوں کے بیانیے کے مطابق یہ بھی کہا کہ جو لوگ سناتن دھرم کا احترام نہیں کرتے، وہ اس میلے میں نہ آئیں تو بہتر ہوگا۔جہاں ایک طرف ایسے فرقہ وارانہ مطالبات بھارت کی سیکولر شناخت کو نقصان پہنچارہے ہیں، وہیں بہت سارے مسلمانوں کو یہ احساس ہورہا ہے کہ انہیں میلے میں اپنی دکانیں سجانے کے مواقع سے محض ان کے مذہبی تشخص کی وجہ سے محروم رکھا جارہا ہے۔
ہندوتو وادی نظریہ کی حامل تنظیم اکھل بھارتیہ اکھاڑہ پریشد نے مطالبہ کیا ہے کہ جو لوگ غیر سناتن ہیں،انہیں کمبھ میلے میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے او رنہ ہی انہیں میلے کے اندر کوئی ہوٹل یا دکان چلانے کاموقع ملناچاہئے۔ یہ نتظیم یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ مسلمانوں پر پابندی عائد کرے۔مسلم دشمنی کی شدت کاعالم یہ ہے کہ اس تنظیم سے وابستہ مذہبی لیڈروں نے ہندو روایات سے منسلک فارسی کے الفاظ کو بھی تبدیل کرنے کی تجویز دی ہے۔ مثال کے طور پر، ’شاہی اسنان‘ میں استعمال ہونے والے ’شاہی‘ لفظ کو بدلنے کی سفارش کی گئی ہے، اور جہاں بھی ’پیشوائی‘ جیسی اصطلاحات استعمال کی جارہی ہیں،انہیں بھی تبدیل کرنے کی وکالت کی جارہی ہے۔ ایک الزام یہ بھی عائد کیا جارہاہے کہ مسلمانوں کی موجودگی یا ان کے ہوٹل چلانے سے کمبھ میلے میں نظم وضبط کامسئلہ پیداہوسکتا ہے۔ انتہا پسندوں کے بے بنیاد دلائل کے مطابق، اگر مسلمانوں نے کمبھ میلے میں کھانے پینے کے ہوٹل کھول لیے، تو اس سے عقیدت مندوں کے عقائد مجروح ہوسکتے ہیں کیونکہ ان کے مطابق مسلمان دانستہ طور پر کھانے پینے کی اشیاء کو آلودہ کرکے پیش کرتے ہیں۔ نفرت پر مبنی افواہوں کا بازار اس قدر گرم ہے کہ فرقہ پرست افراد بے بنیاد الزامات لگاکر نکل پڑتے ہیں، اور ان سے جواب طلب کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ حال ہی میں ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی، جس کی بنیاد پر یہ خبر چلا ئی گئی کہ کسی مسلم شخص نے کمبھ میلے کے بینرپرپیشاب کردیا تھا۔اس افواہ کا مقصد یہ تھا کہ ہندوؤں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پیداکی جائے کہ مسلمان ان کے مقدس میلے کمبھ کی بے حرمتی کررہاہے۔ تاہم،رائے بریلی کی پولیس نے 11/ جون کو واضح کردیا کہ پیشاب کرنے والا شخص مسلمان نہیں، بلکہ ایک ہندو تھا، جونشے کی حالت میں تھا اور اس نے کسی دیوار کے قریب پیشاب کیا تھا۔اس واقعے کا کمبھ میلے کے بینر کی بے حرمتی سے کوئی براہ راست تعلق نہیں تھا۔ اس نوعیت کی افواہیں اور متعلقہ ویڈیوز حالیہ دنوں میں خوب وائرل کی گئی ہیں، جن میں مسلمان جیسی شکل یا نام والے شخص کو کھانے پینے کی اشیاء کو آلودہ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ جہاں تک ہوٹلوں میں صفائی کا تعلق ہے،یہ ایک اہم مسئلہ ہے اور انتظامیہ کو چاہئے کہ وہ صفائی کے معاملے میں غفلت برتنے والے ہوٹل مالکان کے خلاف کارروائی کرے۔ تاہم، یہ بالکل بھی مناسب نہیں کہ صفائی جیسے اہم مسئلے کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر مسلم مخالف نفرت پیدا کی جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ فرقہ پرست اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب تک وہ مسلم مخالف بیانیہ نہیں پھیلائیں گے، تب تک انہیں مسلم مخالف پالیسی بنانے میں مشکلات کا سامنا ہوگا۔ اسی مقصد کے تحت یہ بات خوب پھیلائی جارہی ہے کہ مسلمان ہوٹل والے جا ن بوجھ کر گندہ اورناپاک کھانا پیش کرتے ہیں۔ اس پروپیگنڈے کا اصل مقصد مسلمانوں کے ہوٹلوں کو بند کرانا اور ان کی کاروباری سرگرمیاں ہندوتووادی جماعت کے قریبی لوگوں کے حوالے کرناہے، تاکہ مسلمانوں کو معاشی طور پر مجبور او رمفلسی میں مبتلا کردیا جائے۔ کئی اقتصادی ماہرین یہ بات فراموش کردیتے ہیں کہ نسل پرستی، فرقہ پرستی،اور ذات پات کا گہرا تعلق تجارت کی کامیابی اور ناکامی سے ہوتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہوٹلوں میں کام کرتے ہوئے اکثر دلت مزدور دکھائی دیتے ہیں، مگر دلتوں کے نام سے ہوٹل کم دکھائی دیتے ہیں۔ قانونی طور پر چھوت چھات کا خاتمہ سالوں پہلے ہوچکا ہے، لیکن دلتوں او رمسلمانوں کے خلاف تعصب اورامتیاز کی ذہنیت اب بھی برقرار ہے۔جیسے ہی کسی فرقہ پرست کو یہ پتہ چلتا ہے کہ کسی دکان یاہوٹل کا مالک دلت یا مسلمان ہے، وہ اس کا بائیکاٹ کرتاہے۔ بی جے پی حکومت نے مذہبی عقیدت کے احترام کے نام پر ہوٹل مالکان کو اپنے نام کی پلیٹ ظاہر کرنے پر مجبور کیا ہے، جس کامقصد یہ ہے کہ دلت او رمسلمان مالکان کی پہچان واضح کی جائے تاکہ محکوم طبقات کے خلاف معاشی بائیکاٹ کا دروازہ کھل جائے۔
سرکاری نوکریوں میں مسلمانوں کی شرح تقریباً 5فیصد ہے، اور بیشتر مسلمان مزدوری یاچھوٹے کام کرکے اپنا گزارہ کرتے ہیں۔ اگر فرقہ پرستوں کے مذکورہ ناپاک عزائم کمبھ کے میلے میں کامیاب ہوگئے تو مسلمانوں کی موجودگی کا روبار اور تجارت میں مزید کم ہوجائے گی، او روہ سڑکوں پر آجائیں گے۔ فرقہ پرست طاقتیں یہی چاہتی ہیں کہ مسلمانوں کو ہر محاذ پرکمزور کیاجائے۔لیکن اس وقت کی سب سے اہم ضرورت یہ ہے کہ ہم حکومت کو یہ یاد دلائیں کہ سیکولر نظام میں دھرم پر مبنی پالیسی نہیں بنائی جاسکتی، اسی طرح حکمراں جماعت کو یہ بات واضح کرنی ہوگی کہ عید، دسہرا، اور کرسمس کے موقع پر لگنے والامیلہ کسی ایک مذہبی گروپ کا نہیں ہوتاہے بلکہ انہیں پورا معاشرہ مل کر مناتا ہے۔
21 جنوری،2025، بشکریہ:انقلاب،نئی دہلی
-----------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/india-kumbh-mela-muslims/d/134406
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism