سمت پال، نیو ایج اسلام
11 اگست 2022
"آزادی، مذہب،
روحانیت اور خدا سب سے زیادہ استعمال ہونے والے اور غیر حقیقی تصورات ہیں۔"
- البرٹ کاموس، 'مزاحمت،
بغاوت، اور موت: مضامین'
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یومِ آزادی سر پر ہے اور
آنے والا یومِ آزادی سب سے زیادہ اہم ہونے والا ہے کیونکہ یہ ہندوستان کا 75 واں
یومِ آزادی ہے۔ اگرچہ ہم اکثر لفظ 'خودمختاری' اور 'آزادی' کو مترادفات کے طور پر
استعمال کرتے ہیں، لیکن ان میں ایک لطیف فرق ہے۔ مورٹیمر جیروم ایڈلر اپنی کتاب
'دی آئیڈیا آف فریڈم' میں بیان کرتے ہیں کہ 'خود مختار ہونا آزاد ہونا نہیں ہے۔
خود مختاری کی کچھ حدود
ہوتی ہیں، لیکن آزادی بے حد ہوتی ہے۔' بالکل سچ ہے۔ خود مختاری وجود کی حالت ہے،
جبکہ آزادی دماغ کی کیفیت ہے۔ جبکہ اول الذکر عارضی
ہے اور مؤخر الذکر ماورائی ہے۔ رومی آزادی کے نظریے کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں،
"میں کون تھا اس سے آزاد، موجودگی سے آزاد، خطرناک خوف اور امید سے آزاد،
عظیم خواہشات سے آزاد۔"
انسانی نسل کی جڑیں کم و
بیش خود مختاری کے (محدود) خیال میں ہے اور وقت، مکان اور جگہ کے پابند ہیں۔
انفرادی آزادی کے بارے میں جین پال سارتر کے مشہور اقتباس کو نقل کیا جائے تو، ہم
بالکل آزاد نہیں ہیں، جب کہ ہماری آزاد ہونے پر مذمت کی جاتی ہے۔ آزادی ایک خیال ہے۔
یہ ایک روح ہے۔ قلعہ احمد نگر میں قید کے دوران، ابوالکلام آزاد نے اپنی سوانح
عمری 'غبارِ خاطر' میں لکھا ہے کہ 'جسم کو قید کیا جا سکتا ہے، روح کو نہیں'۔
یہاں، 'روح' سے مراد ناقابل تسخیر انسانی جذبہ ہے۔ لیکن نہ صرف ہندوستانی بلکہ
زیادہ تر انسان حقیقی معنوں میں آزاد نہیں ہیں۔
کیا کوئی اتنا آزاد ہے کہ
یہ کہے کہ میں صرف ایک انسان ہوں؟ ہم اپنے وجود کو ایک ہندو، مسلمان یا عیسائی
بنانے کے لیے آزاد ہیں لیکن ہم یہ کہنے کے لیے آزاد نہیں ہیں کہ ہماری روح آزاد
ہے۔ آزادی تمام نسلی اور وجودی بوجھ سے پاک ہونے کا نام ہے۔ حکیم سنائی دری میں
کہتے ہیں، "می از آزاد من خیالِ آزادی" (آزادی کے تصور سے آزاد ہونا
آزادی ہے)۔ اس کا مطلب ہے، کوئی بھی خیال، چاہے وہ خود آزادی کا ہی کیوں نہ ہو،
ایک خیال ہے اور ایک خیال بالآخر ایک نظریے میں بدل جاتا ہے اور نظریہ آخر کار آپ
کو اور آپ کی آزادی کو نگل جاتا ہے۔
انسان نظریاتی جانور اور
نظریاتی حیوان ہیں۔ یہ نظریہ، وہ نظریہ، ہم ہمہ وقت اصول و نظریات کے بوجھ تلے دبے
رہتے ہیں، خواہ کتنا ہی بلند کیوں نہ نظر آتا ہو۔ اب قوم پرستی کا خیال لوگوں کو
دیوانہ بنا رہا ہے۔ میں کسی کی ملک سے محبت کا مذاق نہیں اڑا رہا ہوں اور نہ ہی
میں کسی طرح سے ان آزادی کے متوالوں کی قربانیوں کو گھٹا رہا ہوں جنہوں نے اپنی
مادر وطن کی خاطر اپنی جانیں نچھاور کیں، بلکہ میرا کہنا یہ ہے کہ: کیا آپ کے مذہب
کی طرح قومیت بھی ایک حادثاتی واقعہ نہیں ہے؟ ایک آزاد انسان کے لیے ساری دنیا ایک
وسیع ملک ہے۔ پاسپورٹ کے لحاظ سے یا آپ کے آدھار کارڈ کی رو سے آپ ایک ہندوستانی
ہوسکتے ہیں، لیکن کیا یہی آپ کی پہچان ہے؟ یاد رکھیں، ہم سب ہندوستانی ہو گئے ہیں،
بنے نہیں ہیں۔ اسی طرح تم مسلمان ہو گئے ہو، مسلمان بنے نہیں ہو۔ آپ نے اپنے مذہب
اور ملک کا انتخاب نہیں کیا۔ بلکہ یہ آپ پر مسلط کر دیا گیا۔ تو آزادی کہاں ہے؟ آپ
کچھ محدود چیزوں کو کرنے کے لیے محدود معنوں میں خود مختار ہیں۔
آپ کو اپنے مذہب، دیوتاؤں،
خداؤں، نبیوں، کتابوں، ذات، طبقے اور ان تمام احمقانہ باتوں سے
آزاد ہونا پڑے گا۔ آپ کو آزاد روح اور پرندہ احرار (ایک آزاد پرندہ) کہلانے کے لیے
عالمی ہونا ضروری ہے۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا، آپ ملک اور رنگ کے جال میں ہی پھنسے
رہیں گے اور اس سے آگے نہیں سوچ سکیں گے۔ آپ کو آپ کی موت تک ذہنی طور پر مقید ہی
کہا جائے گا۔ ویسے یوم آزادی مبارک ہو۔
English
Article: The Ideas on Independence and Freedom
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism