New Age Islam
Sun Jul 20 2025, 03:14 PM

Urdu Section ( 7 Feb 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

After Independence, We Were Made to Believe That Religious Madrasas Were Cut Off from the Mainstream آزادی کے بعد ہمیں ’سمجھایا‘ گیا کہ دینی مدارس ’مین اسٹریم‘ سے کٹے ہوئے ہیں او رہم نے اس پر یقین بھی کرلیا

مبارک کاپڑی

(حصہ اوّل)

2فروری،2025

چار دہائی پرانا آر کے لکشمن کا ایک کارٹون یاد آرہا ہے۔ ا س میں ایک باپ اپنے لگ بھگ 4-5سالہ بچے کو ڈانٹ کر کہتاہے کہ کوئی بھی مہمان یہ پوچھے کہ بڑے ہوکر کیا بنوگے تو اتنا کہنا کافی ہے کہ تم انجینئر بنوگے، ہر بار یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ تم انجینئر بنوگے اورامریکہ یا کینیڈا جاؤ گے۔ آج اس کارٹون کے جیسے نظارے اس ملک میں ہر سوُ نظر آرہے ہیں۔ ابتدائی یا ثانوی تعلیم حاصل کرنے کا منصوبہ یہا ں بن رہا ہے اور جس کی مالی حیثیت تھوڑی بہت ٹھیک ٹھاک ہے وہ کسی غیر ملکی یونیورسٹی میں پڑھنے کی تیاری کررہا ہے۔ بیرونی خصوصاً یوروپی ممالک پر اس کے تعلیمی نظام کی ساری ناکامیاں عیاں ہوچکی ہیں۔ اس لئے یہاں کے طلبہ کو اپنی طرف راغب کرنے کیلئے وہاں کے ہر ملک نے پالیسیاں مرتب کی ہیں۔ ہمارے ملک میں طلبہ کے ذہنوں پر نفرت کی کاشتکاری سے بھی تعلیمی وسماجی حلقوں میں بے یقینی او رمایوسی کا ماحول غالب ہوچکاہے، اس لئے بھی آج ساری تمام ممالک کو یہ اندازہ ہوچلا ہے کہ وہ ہندوستانی تعلیمی نظام کے زوال کے ساتھ اب یہاں کے طلبہ کو سُرخ قالین بچھانے کی ضرورت بھی نہیں۔ بہت زیادہ محنت بھی درکار نہیں، وہ جوق درجوق سبھی آجائیں گے۔

ہندوستانی تعلیمی نظام کامعاملہ اس قدر پیچیدہ کیسے ہوگیا؟ اس کے معیار کا زوال شروع کب ہوا۔ بظاہر تواعداد وشمار کی روشنی میں نظریہ آتاہے کہ اس ملک کا تعلیمی نظام جسامت کے لحاظ سے امریکہ اور چین کے بعد یعنی تیسرے نمبرپر آتاہے۔ یہاں 1140 یونیورسٹیاں ہیں اور 50 ہزار کالج، یہ پھیلاؤ دیکھ کر اور سوچ کر ہم سبھی خوشی سے پھولے نہیں سماتے مگر یہ کیا؟ عالمی سطح پرریٹنگ یہ سامنے آئی ہے کہ اس ملک کے صرف 19 فیصد انجینئر نگ گریجویٹس قابل ملازمت ہیں یعنی 81فیصد انجینئرنگ گریجویٹس نااہل ہیں؟ اس ملک کے آئی ٹی ٹی، آئی آئی ایم، ایمس او راین آئی ٹی کا بڑاچرچہ ہے مگر جب بڑی باریکی سے مطالعہ کیا گیا تب یہ راز کھلا کہ وہ ادارے واقعی قابل تعریف ہیں،مگر وہاں کے طلبہ کی وجہ سے نہ کہ اساتذہ یا ان اداروں کے انتظامیہ کی وجہ سے!جی ہاں! ہمارے یہ لائق طلبہ سرمایہ ثابت ہورہے ہیں البتہ طلبہ کا سرمایہ دوسرے ملکوں کی زینت بناہوا ہے یابننے جارہاہے اور ہر سال جارہاہے، ہر مہینے ہر دن جارہاہے۔

ملک کے تعلیمی نظام کی تنزلی کی داستان بڑی طویل ہے البتہ آج ہم اس کا مختصر جائزہ لیں گے۔ کئی صدیوں تک ا س ملک کا تعلیمی نظام مدرسہ اور گُروکُل پر مشتمل تھا۔پھر انگریزی دور شروع ہوا۔ اس دور میں نظام تعلیم میں نمایاں تبدیلی کے لئے سب سے پہلے مشورے پیش کئے تھامس میکالے نے، وہ ملک میں 1834ء سے 1838 ء تک رہا اور یہاں کے نظام تعلیم پر یورپی چھاپ چھوڑنے کے لئے اس نے ایک منظم منصوبہ تیارکیا۔ جس میں سرفہرست مشورہ یہ بتایا کہ فارسی زبان کو ختم کرکے انگریزی زبان کو تعلیم کا میڈیم بنایا جائے۔ا س نے اپنی تحریروں سے پورے برصغیر کو یقین دلایا کہ فارسی، عربی اور سنسکرت زبانیں زمانے سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ انگریزی شاعری وادب کو دنیا کی ساری زبانوں میں سب سے اعلیٰ وارفع ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ میکالے جیسی سوچ رکھنے والوں کی فرنگی حکومت میں کوئی کمی نہیں تھی۔ ان دو صدیوں میں عربوں کی تحقیق کا بھی طوطی بولتا تھا مگر انگریزوں نے اس سبھی تحقیقی مقالات او رکتب کو انگریزی زبان میں اپنانے کی دور اندیشی کامظاہرہ کیا۔ اس طرح انگریزی زبان کو آب حیات مل گئی۔

1854 میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے بور ڈ آف ڈائریکٹر وں کے صدر چالس اوڈے نے ہندوستانی تعلیمی اصلاحات کے لئے جو مراسلہ بھیجا تھا۔(جسے وڈس سپاچ کہتے ہیں)اس میں اپنی تعلیمی پالیسی کو بالکل واضح کردیا تھا۔ اوڈے نے لکھا تھا کہ ہندوستانیوں کی تعلیم ایسی ہونی چاہئے جو برطانوی تجارت کے لئے منافع بخش ثابت ہو اور جس سے کمپنی کو قابل اعتبار ملازمین فراہم ہوسکیں۔ جی ہاں انگریزوں نے تعلیمی نظام نہیں بلکہ ملازمتیں فراہم کرنے والی فیکٹریاں قائم کرنے کا ایک سسٹم رائج کیا لہٰذ ا 1857 ء میں مدارس، ممبئی اور کلکتہ میں جو یونیورسٹیاں انگریزو ں نے قائم کیں،اس وقت انگریزوں نے ہندوستانیوں کو خواب یہی دکھایا تھا کہ ان یونیورسٹیوں سے جب انہیں سند ملے گی، اس سے انہیں برطانوی حکومت کی ملازمتیں ملیں گی۔ یعنی انگریزوں نے اس ملک کو تعلیمی نظام کے نام پر جو مساوات دی وہ ہے: علم = جاب۔ ظاہر ہے اس مساوات کا نتیجہ ہے کہ یہاں کا تعلیمی نظام صرف روزی روٹی یا ملازمت کے ارد گرد گھوم رہا ہے۔ اور اسی بنا پر آج معلومات عام ہورہی ہے مگر علم عام نہیں ہورہا ہے۔

اسی دوران ہماری قوم کی تعلیمی پیش رفت کا مطالعہ دگرگوں ہوتا گیا۔ ہمارے یہاں درمتوازی تعلیمی نظام وجود میں آگئے،ایک جدید اسکول، کالج اور یونیورسٹی کا نظام اور دوسرا دینی مدارس ودارالعلوم کانظام۔ یہ دونوں نظام ایک عرصے تک اقلیدس کی دومتوازی لکیروں کی طرح چلتے رہے جو کبھی نہیں ملتے۔ اس سے افسوسناک بات یہ تھی کہ ان دونوں متوازی چلنے والی ٹرینوں کے مسافر ایک دوسرے پر ہنستے رہے اور تمسخر اُڑاتے رہے۔ ہماری قوم اسرائیل اور سنگھ پریوار کے مسلسل عتاب کے بعد اس شدّت میں کچھ کمی آئی البتہ لگ بھگ دو صدیوں تک ان دونوں نظاموں میں ایک دوسرے کی مخالفت بھی جاری رہی۔

اپنی تعلیمی نظام احسن طریقے سے قائم کرپانے کی بناء پرہمارے سارے ممالک سرمراج کے کس قدر غلام بن گئے اس کا ثبوت لیبیا کی درسی کتب میں درج اس دعا سے ملتے ہیں۔ ”اے خدا مجھے اٹلی سے محبت کرنے میں مدددے جو میرا مادروطن ہے“۔ دوسری نوآبادیوں میں اٹلی کی جگہ امریکہ، کینیڈا یا برطانیہ کا نام شامل کیا جاسکتا ہے۔

تعلیمی نظام کی تنزلی کا دوراس وقت شروع ہوا جب ’تعلیم، تعلیم‘ کا شور غل برپاہوا مگر نظام تربیت کو اس میں سے خارج کردیا گیا۔ سائنس کو اسلئے رائج کیا گیا کہ طلبہ ایٹم سے لے کر خلائی کہکشاؤ ں کے سحر میں گرفتار رہیں اور کبھی اس کا خیال تک دل میں نہ لائیں کہ اس انتہائی وسیع وعریض کائناتی نظام کا کوئی خالق بھی ہے۔ اس کے برعکس مدارس ودارالعلوم کے نظام کو کوسنے کاکام مسلسل جاری رہا۔ ان نام نہاد دانشوروں میں سے کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ انہی دارالعلوم سے آخر اُسناد احمد لاہوری کیسے پیدا ہوئے جو تاج محل او رجامع مسجد دہلی کے چیف آرکیٹیکٹ تھے؟ مدرسے کے ہی ایک فارغ استاد رومی خان نے مغلیہ سلطنت کو توپوں کا دفاعی نظام کیوں کردیا؟ انہی دینی مدارس نے صدیوں تک نسلو ں کو حساب، ہندسہ، طب، فارسی، عربی، منطق، عمرانیات اور فلسفہ سکھایا۔ آزادی کے بعد کی حکومتوں نے خصوصی طور پر ہمیں ’سمجھایا‘ کہ دینی مدارس موجودہ دھارے سیکٹے ہوئے ہیں او رہم نے یقین بھی کرلیا۔

انگریز جب اس ملک سے چلے گئے تب اپنے ہر نظام پر اپنی ایسی دہشت چھوڑ گئے کہ ان کے قائم کردہ نام نہاد اُصولوں سے انحراف کی کسی میں ہمت دکھا ئی نہیں دی۔ حتی کہ دستور ہند کی تیاری میں سارے سرکردہ اراکین قانون ساز نے انگریزی دستور ہی کو آخر ی اور ناقابل تسخیر وتنسیخ سمجھا۔ سارے قوانین، ضوابط، نظم ،اصول انتظامیہ یادستور تعلیم سبھی لگ بھگ نقل ہیں۔ انگریزوں کے اکابرین ملک نے انگریزی او ر یورپی فکر کو حرف آخر سمجھ لیا۔ اس وقت تعلیم اس دو ر کے سب سے بڑے مفکر مولانا آزاد کو سونپی گئی تھی جو تقسیم ہند کے سانحے سے مکمل ٹوٹ چکے تھے البتہ تعلیمی نظام میں اپنی فکر کی چھاپ چھوڑی او ر یونیورسٹی گرانٹس کمیشن، نیز چند اعلیٰ تکنیکی ادارے، مدارس وغیرہ بھی قائم کئے۔ یہ اور بات ہے کہ اسی دور سے حکمراں کانگریس پارٹی میں زعفرانی عناصر اپنی جگہ بناتے گئے۔ یہ وہ عناصر تھے جو یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ ملک صدیوں سے غلام تھااور آزاد ہوچکا ہے جس میں مسلمانوں کو ان کا حصہ مل چکا ہے۔ اب ان کا یہ زعفرانی راشٹر ہے جس میں کسی اقلیت کو کوئی جگہ حاصل نہیں ہے۔(جاری)

2فروری،2025، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/independence-believe-religious-madrasas-mainstream/d/134547

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..