ڈاکٹر خواجہ اکرام
آج ساری دنیا میں خود کش حملوں
سے ایک خوف ودہشت کی فضا پائی جارہی ہے۔ آئے دن اس کے بڑھتے رجحان سے ہزاروں کی جانیں
تلف ہورہی ہیں۔ کتنے معصوم ہلاک ہورہے ہیں اور خود ہلاک کرنے والے بھی لقمہ اجل بن
رہے ہیں۔ آخر وجہ کیا ہے کہ لوگ دوسرے کی جان لینے کے لئے خود کو بھی ہلاک کرنے سے
دریغ کرتے ۔ وہ کون سے اسباب ہیں؟ یا کون سے محرکات ہیں؟ کہ نوجوان نسل کی ایک پوری کھیپ تیار ہورہی
ہے۔ فلسطین ،عراق، افغانستان ، پاکستان ۔ ہندوستان ہر جگہ یہ وبا پھیل چکی ہے۔ افغانستان
،عراق اور پاکستان ہر روز کسی نہ کسی خودکش حملے کا شکارہوتا جس کے نیتجے میں سینکڑو
ں جانیں تلف ہوجاتی ہیں۔ کیا اسے عراق کی داخلی پالیسی کی ناکامی کی وجہ کہیں گے یا
امریکہ کی پالیسی کانتیجہ یہ سوال اتنا واضح ہے کہ ایک لحظے میں بلا تاخیر کوئی بھی
یہی کہتا ہے کہ یہ امریکہ کی زیادیتوں کا نتیجہ ہے مگر یہ کیا ہے کہ لوگ خود ایک دوسرے
کو ماررہے ہیں۔ عراق میں کیا ہورہا ہے؟ یہی کہ کبھی شیعہ آبادی کو نشانہ بنایا جارہا
ہے تو کبھی سنی آبادی کو ، اور ہر روز مرنے والوں میں کبھی سنی ہوتے ہیں تو کبھی شیعہ
۔ اسی طرح افغانستان میں جو خود کش حملوں کا سلسلہ جاری ہے اور اس کے نتیجے میں جو
جانیں ضائع ہورہی ہیں وہ زیادہ تر بے قصور اور معصوموں کی ہیں۔ عراق اور افغانستان
میں ملک کی آدھی آبادی اپاہجوں ،بیواؤں ،یتیموں کی ہوگئی ہے۔
مرنے والے بھی مسلمان اور مارنے
والے بھی مسلمان یہ کن کے خلاف جنگ کررہے ہیں یہ سب کے سب تو اسلام کے ماننے والے ہیں
اور سب کلمہ گو ہیں۔ اس طرح اسلامی اصول کے تحت دونوں آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ تو
کیااسے بھائی بھائی کی لڑائی کہیں گے ؟میرا خیال ہے کہ اس میں صرف یہی ایک ظاہری وجہ
نہیں ہے بلکہ اس میں ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ انہیں کئی سطحوں پر مشتعل کیا جاتا ہے ۔
اس اشتعال میں سیاسی ،معاشرتی اور ملکی مسائل اور غیر ملکی تسلط بھی بڑی اہمیت رکھتے
ہیں۔ انہیں سوالوں کی کئی انداتر سے ان کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اور اس طرح قائل کرالیا
جاتا ہے کہ وہ اپنی جان دے کر اسے حاصل کرنے کی کوششوں میں سرگرم ہوگئے ہیں۔ ذرا غور
کریں کہ دنیا صرف ایک پہلو کو دیکھتی ہے کہ مرنے والوں میں کتنوں کے جگر کے ٹکڑے ہوتے
ہیں ،کتنوں کے گھر تباہ ہوتے ہیں لیکن یہاں یہ بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ ان میں خود
کش حملہ کرنے والے بھی تو کسی کے جگر کے ٹکڑے ہی ہوتے ہوں گے۔ ان کے گھر بھی تباہ ہوتے
ہوں گے، ان کے والدین بھی اولاد کے غم سے گزرتے ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ کسی خود کش حملے
میں ایسے والدین بھی گرفت میں آئے ہیں جنہوں نے اپنی اولاد کواس کی تربیت دی تھی۔ میرے
علم میں اب ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ جماعتیں کچھ گروہ اور
تنظیمیں ایسی ہیں جو ان کی نہ صرف تربیت کرتی ہیں بلکہ انہیں اس طرح قائل کرلیا جاتا
ہے کہ وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔ ایسی صورت میں دوہی بات ہوسکتی ہےکہ ایسے
لوگوں کو تیار کرنے میں یا بچپنے سے انہیں تربیت میں لیا جاتا ہے یا بچوں کو اغوا کرکے
انہیں اس کے لیےتیار کیا جاتا ہے ۔ لیکن غور کریں کہ یہ کام کوئی جبراً نہیں کرسکتا
جب تک وہ دل سے اس کام کیلئے آمادہ نہ ہوجائے کیونکہ اس دنیا میں انسان کے پاس جو سب
سے بڑی نعمت ہے وہ خود اس کی جان ہے۔اب اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ خود
کشی اس ا عتبار سے کہ انسانی جان اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہے، اس کی ناقدری کفران نعمت
پر محمول کی جاسکتی ہے۔ اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ یہ خود کش حملے وہ مسلمان نوجوان کرتے
ہیں جن کو یہ بتایا جاتا ہے کہ شہادت حاصل کرنے کاواحد ذریعہ یہ ہے کہ اللہ کی راہ
میں خود کو قربان کردیاجائے۔ دینی حوالے سے بھی یہ لمحہ فکر یہ ہے کہ ان خود کش حملوں
کے لیے نوجوانو ں کو جو شخصیتیں ،تنظیمیں یا تحریکیں آمادہ کررہی ہیں اور جوان کو بتاتی
ہیں کہ جنت جانے کا یہی راستہ ہے ، کیا ان کی یہ فکر اور سوچ صحیح ہے؟ کیا اس طرح وہ
اسلام کی حقیقی خدمت انجام دے رہی ہیں؟ ان سوالوں کے جواب سے پہلے یہ بھی غور کریں کہ ان لوگوں کی باتوں
میں اتنی تاثیر ہوتی ہے کہ نوجوان ان کی نہ صرف باتوں میں آجاتے ہیں بلکہ وہ دنیا کی
ساری نعمتوں کو ٹھکرا کر اپنی جان بھی دے دیتے ہیں یعنی ایسا کرنے والے اور ایسا کرانے
والے دونوں میں ایک زبر دست صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ اگر ان کی یہی صلاحیتیں ملکی اور
قومی مفاد میں استعمال کی جاسکتیں تو کیا بات تھی۔
وہ نوجوان جو جان دینے کو تیار
ہتے ہیں۔اگر ان کو کچھ اور سبق پڑھا یا جاتا جس سےوہ ملک میں اصلاح اور ترقی کے لیے
کام کرتے تو شاید ایسے لوگوں سے بہتر اور کوئی نہیں ہوتا ۔مگر جوملک بھی اس سے پریشان
ہیں خودانہوں نے بھی اس سمت میں کچھ نہیں سوچا او رعالمی سطح پر بھی طاقت وقوت کے حامل
ممالک نے بھی اس جانب توجہ نہیں دی ہے۔ ابھی حال ہی میں خود امریکہ کی وزیر خارجہ ہلیر
کلنٹن نے ایک انٹر ویو میں فرمایا کہ جتنی دولت ، دہشت گردی کے خلاف جنگوں میں لگائی
جارہی ہے اس کا عشر عشیر بھی پاکستان میں تعلیم اور روزگار میں لگایا جاتا تو کہیں
زیادہ مثبت نتائج حاصل کیے جاسکتے تھے ۔عراق،افغانستان او رفلسطین کے بعد یہ رجحان
پاکستان میں بھی تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے۔ واقعات سامنے آئے ہیں اور ابھی جس طرح سے
انتہا پسندوں کی جانب سے مسلسل دھمکیاں مل رہی ہیں اس سے مزید ایسے حملے ہونے کے امکانات
پیدا ہوگئے ہیں ، پاکستان تو اسلامی ملک ہے وہاں تقریباً لوگ مسلمان ہیں تو وہاں خود
کش حملے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے ہی بھائیوں کی جان لینا، اپنے ہی ہم وطن او رشہری کو
مارنا کیا مطلب رکھتا ہے؟ اس میں ضرور کوئی ایسی وجہ ہے اور کسی مسئلے کو لے کر ایسی
شدت ہے کہ وہ ان سے باہر نہیں نکل پارہے ہیں ۔ اس کے علاوہ اس مسئلے کا ایک اہم پہلو
یہ بھی ہے کہ اگر تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ نوجوان ایسا کرتے ہیں۔ لیکن یہ سوال اب بھی
باقی رہتا ہے کہ آخر انہیں ہتھیار کون دیتا ہے ، انہیں اسلحے کون سپلائی کرتا ہے اور
بم بنانے کے طریقے کون سیکھاتا ہے ۔ ان کے پاس سرمایہ کہاں سے آتا ہے۔ وہ لوگ جو دنیا
کی نگاہوں سے چھپ کر سارا کام کررہے ہیں وہ اقتصادی طور پر کچھ بھی نہیں پاتے تو یہ
وسائل کہاں سے آتے ہیں ۔ کیا وسائل کی فراہمی میں بھی ایسے ہی ممالک کا ہاتھ ہے جو
خودا ن کے خلاف لڑنے کا دعویٰ کررہے ہیں۔ پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جو ان دہشت
گردانہ کاروائیوں کے خلاف جنگ میں شامل ہے۔ اب خود وہ ملک بھی اسی سے پریشان ہے۔ پاکستان
سمیت وہ تمام ممالک اگر ان کے اندر ون میں جھانک کر دیکھیں یا ان مسائل کے پس پردہ
اسباب وعوامل کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کریں اس کے بعد مسائل کی حل کی بات کریں تو شاید
یہ تیزی سے بڑھتا رجحان ختم ہوسکتا ہے۔
URL: https://newageislam.com/urdu-section/increasing-trend-suicide-attacks-/d/1892