پروفیسر سنیل گوئل، نیو
ایج اسلام
10 مئی 2023
حکومت ہند نے 1952 میں
کاکا کیلکر کمیشن قائم کیا جس کا مقصد او بی سی کی شناخت کرنا اور انہیں اسی طرح
کے فوائد فراہم کرنا ہے جو حکومت نے ایس سی اور ایس ٹی کو فراہم کیا تھا۔ کمیشن نے
اپنی رپورٹ 1955 میں پیش کی لیکن اس کی سفارشات کو عدالتوں میں چیلنج کیا گیا یہاں
تک کہ سپریم کورٹ نے 1963 میں فیصلہ دیا کہ ایس سی اور ایس ٹی کے لیے کل ریزرویشن
50 فیصد سے زیادہ نہیں ہو سکتا۔ اور اس کے بعد اگلے 15 سال تک کچھ بھی نہیں ہوا۔
1978 میں جب حکومت ہند نے
مسٹر بی پی منڈل کی صدارت میں دوسرا بیک وارڈ کلاس کمیشن قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔
کمیشن کا مقصد ذات پات پر مبنی امتیاز کو دور کرنے کے لیے پسماندہ اور پچھڑی ذاتوں
کے لیے مثبت کارروائی کی پالیسیاں تیار کرنا تھا۔ کمیشن نے پسماندگی کا تعین کرنے
کے لیے 11 اشاریوں کا استعمال کیا۔ کمیشن نے 3,743 ذاتوں اور برادریوں کی نشاندہی
کی، جو کل آبادی کا 52 فیصد بنتے ہیں، اور جو او بی سی کے زمرے میں آتے ہیں۔ سپریم
کورٹ کے 1963 کے فیصلے کے مطابق کمیشن نے مرکزی حکومت کی تمام خدمات اور پبلک
سیکٹر کے اداروں میں او بی سی کو 27 فیصد ریزرویشن دینے کی سفارش کی۔ اس نے اعلیٰ
تعلیم کے تمام سرکاری اداروں میں داخلے میں او بی سی کو 27 فیصد ریزرویشن دینے کی
بھی سفارش کی۔
اگرچہ کمیشن کی رپورٹ 1978
میں پیش کی گئی تھی لیکن حکومت کو اس کی سفارشات پر عمل درآمد میں 12 سال لگ گئے۔
اگست 1990 میں حکومت ہند نے کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد کا اعلان کیا۔ اس اعلان
کو زبردست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد کے خلاف
سپریم کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کی گئی۔ تاہم، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے (16 نومبر
1992) میں او بی سی کے لیے سرکاری نوکریوں میں 27 فیصد ریزرویشن کو برقرار رکھا۔
اس کے بعد مرکزی حکومت نے بل پیش کیا۔ سنٹرل ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشنز (داخلوں میں
ریزرویشن) بل نمبر 76 آف 2006 میں پارلیمنٹ میں 93ویں آئینی ترمیم کی گئی جس میں
ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی سے تعلق رکھنے والے طلباء کو ان تعلیمی اداروں میں
ریزرویشن فراہم کیا گیا جو مرکزی حکومت کے قائم کردہ یا زیر انتظام تھے۔
یہ بل بالترتیب 14 اور 18
دسمبر 2006 کو پارلیمنٹ کے ایوان زیریں اور ایوان بالا دونوں نے منظور کیا تھا۔
جیسے ہی اس بل کو صدر کی منظوری حاصل ہوئی اور جیسے ہی سینٹرل ایجوکیشنل انسٹی
ٹیوشنز (ریزرویشن ان ایڈمیشن) ایکٹ، 2007 بن کے تیار ہوا، اس کے آئینی جواز کو
سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ سپریم کورٹ نے 10 اپریل 2008 کو سنائے گئے اپنے
فیصلے میں آئین کی 93 ویں ترمیم کو برقرار رکھا جس کی مدد سے حکومت اعلیٰ تعلیم کے
تمام مرکزی حکومت کی مالی اعانت سے چلنے والے اداروں میں 27 فیصد OBC کوٹہ محفوظ کر سکتی
ہے۔
ہندوستان میں مسلم کمیونٹی
کل آبادی کا 13.43 فیصد ہے۔ آرٹیکل 29 اقلیتوں کو اپنی زبان، رسم الخط اور ثقافت
کے تحفظ کا حق فراہم کرتا ہے۔ آرٹیکل 30 اقلیتوں کو اپنی پسند کے تعلیمی ادارے
قائم کرنے اور ان کے انتظام و انصرام کرنے کا حق دیتا ہے۔ اس بات کا اظہار کیا گیا
ہے کہ جن میں اقلیتوں میں تعلیم کی کمی تھی، ان میں امتیازی سلوک کے نتیجے میں عدم
مساوات کا احساس دائمی ہو سکتا ہے جس کا سامنا اقلیتوں کو 'شناخت' میں فرق کی وجہ
سے کرنا پڑ سکتا ہے۔
اس سلسلے میں، حکومت ہند
قوم مسلم کی حالت میں معیاری بہتری لانے کے لیے کئی اقدامات شروع کر رہی ہے۔ مرکز
میں موجودہ حکومت نے ایک نئی 'وزارت برائے اقلیتی امور' تشکیل دی ہے جس کو مجموعی
پالیسی، منصوبہ بندی، تال میل، تشخیص اور اقلیتی برادریوں کے ریگولیٹری اور
ترقیاتی پروگراموں کا جائزہ لینے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اسی حکومت نے پارلیمنٹ
کے ایک ایکٹ کے ذریعے 11 نومبر 2004 کو اقلیتوں کی تعلیم سے متعلق کسی بھی سوال پر
مرکزی یا کسی بھی ریاستی حکومت کو مشورہ دینے کے لیے نیشنل کمیشن فار مائینارٹی
لرننگ انسٹی ٹیوشنز کا قیام بھی کیا تھا۔ اس کا کام اپنی پسند کے تعلیمی اداروں کے
قیام اور اس کے انتظام و انصرام کے اقلیتوں کے حقوق تلفی یا ان کی خلاف ورزی سے
متعلق مخصوص شکایات کو دیکھنا اور کسی یونیورسٹی سے وابستگی سے متعلق تنازعہ کا حل
کرنا اور اس کمیشن کے کل یا بعض مقاصد کے حصول کے لیے ضروری، ہنگامی یا دیھر
اقدامات کرنا ہے۔
حکومت نے سال 2004 میں
مرکزی وزیر برائے فروغ انسانی وسائل (MHRD) کی صدارت میں ایک
'قومی مانیٹرنگ کمیٹی برائے اقلیتی تعلیم (NMCME)' بھی قائم کی ہے۔
اس میں مستقل بنیادوں پر اقلیتوں کی تعلیم سے متعلق مسائل کو حل کرنے کے لیے NMCME کی ایک اسٹینڈنگ
کمیٹی بھی تشکیل دی گئی۔ نہ صرف یہ کہ حکومت ہند نے 2005 میں جسٹس راجندر سچر کی
سربراہی میں ہندوستان میں قوم مسلم کی سماجی، معاشی اور تعلیمی حیثیت کو سمجھنے کے
لیے ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی بھی قائم کی تھی۔
رپورٹ میں ان ریاستوں،
خطوں، اضلاع اور بلاکوں کی سطح پر معلومات کو یکجا اور ان کا تجزیہ کیا گیا ہے
جہاں اکثر مسلمان رہتے ہیں، جس میں حسب ذیل امور کا لحاظ رکھا گیا ہے ان کی
اقتصادی سرگرمیوں کا جغرافیائی نمونہ؛ آمدنی کی سطح؛ ان کی سماجی و اقتصادی ترقی
کی سطح؛ سرکاری اور نجی شعبے کے روزگار میں ان کا تناسب؛ اور او بی سی کی کل آبادی
میں قوم مسلم کا تناسب۔
اس کمیٹی کی رپورٹ میں ان
پہلوؤں سے متعلق معلومات کی نشاندہی کی گئی ہے تاکہ قوم مسلم کی سماجی، اقتصادی
اور تعلیمی حیثیت کے حوالے سے متعلقہ مسائل کو حل کرنے کے لیے حکومت کی مداخلت کی
نشاندہی کی جائے۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم نے اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے لیے ایک
نیا 15 نکاتی پروگرام بھی متعارف کرایا ہے، جس کا مقصد ان کے تعلیم کے مواقع میں
اضافہ کرنا، معاشی سرگرمیوں اور روزگار میں مساوی حصہ داری، اقلیتوں کے حالات
زندگی کو بہتر بنانا اور فرقہ وارانہ فسادات کی روک تھام کرنا ہے۔
آرٹیکل 350 (A) ابتدائی مرحلے میں
مادری زبان میں تعلیم کی وکالت کرتا ہے اور آرٹیکل 350 (B) لسانی اقلیتوں کے
مفادات کے تحفظ کے لیے ایک خصوصی افسر کا انتظام کرتا ہے۔ اس کے علاوہ، ہندوستان
کا آئین اپنی 'یونین'، 'ریاست' اور 'کنکرنٹ لسٹ' میں مرکز اور ریاستوں کے اختیارات
اور افعال کی وضاحت کرتا ہے۔ اصل آئین کے تحت، تعلیم بنیادی طور پر ریاست کا موضوع
تھا۔
چونکہ اس کی وجہ سے
ریاستوں کے درمیان تعلیم کا مختلف طعیق کار وجود میں آئے، لہٰذا 1976 میں ایک
آئینی ترمیم کے ذریعے تعلیم کو کنکرنٹ لسٹ میں منتقل کر دیا گیا، جس کا مطلب مرکز
اور ریاستوں کے درمیان بامعنی شراکت داری ہے۔ اگرچہ اس تبدیلی سے ریاستوں کے کردار
اور ذمہ داری میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، لیکن اس نے ملک میں تعلیم کے نظام کو
مضبوط بنانے میں مرکزی حکومت کو اہم کردار دیا۔ اس کے بعد سے، مرکزی حکومت نے
ریاستی حکومتوں کے ساتھ مل کر اثباتی پالیسی مداخلتوں کی شکل میں بڑی تعداد میں
اسکیمیں اور پروگرام شروع کیے ہیں تاکہ تعلیم کی پیشرفت میں رکاوٹ بننے والی کمیوں
کو دور کیا جا سکے۔ نتیجتاً، قدیمی امتیازی روایات تقریباً ختم ہو چکی ہیں۔ ملک کی
آزادی سے پہلے کے حالات کے مقابلے میں پسماندہ جماعتوں کی تعلیمی حالت بہت بہتری
ہوئی ہے۔
English Article: Protective Measures for Inclusivity of OBCs And
Muslims in Indian Constitution
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism