New Age Islam
Mon May 19 2025, 10:17 PM

Urdu Section ( 2 Jan 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Include Muslims in SC/ST Act, 1990 مسلمانوں کو دلت-آدیواسی انسداداور تشدّد ایکٹ 1990 میں شامل کیا جائے

ڈاکٹر ایم اعجاز علی

31دسمبر،2024

ایسا اندازہ ہو رہاہے کہ شمالی ہندوستان میں سیاست کا سب سے بڑا مرکز ایودھیا بنے گا۔ جنوبی ہند کے مختلف مندروں کی طرح ایودھیا کے رام مندر کی آمدنی دیگر مندروں سے سیکڑوں ہزاروں گنا زیادہ ہوگی اور یہ بھی امید ہے کہ جو سیاسی جماعت ’رام کو دوبارہ وہاں لانے‘ کا دعویٰ کررہی ہے وہی اس آمدنی کا استعمال کرکے بھارت کو ہندوراشٹریہ بنانے میںاہم رول ادا کرے گی۔اسی منصوبہ کے تحت اب ہر سال ۲۲؍جنوری کو ایک نئی دیوالی کی طرح منایا جائے گا اور اس سے منسلک ایک نئی تاریخ سےبرادروطن کوروشناس کرانے کام کیاجائے گا۔ اب تک تو برادران وطن ایک ہی دیوالی ہرسال مناتے رہے ہیں جو شری رام جی کے ’بن واس‘ کے بعد ان کی واپسی کے موقع سے منائی جاتی ہے۔ اب جو نئی دیوالی کی شروعات ۲۲؍جنوری سے ہونے والی ہے اس کے پیچھے کا واقعہ یہی بتایا جائے گا کہ رام جی کو اپنے جنم استھان سے ۵۰۰؍برس قبل بے دخل کردیاگیا تھا اور پچھلے سال ۲۲؍جنوری کو انہیں دوبارہ اپنی جائے پیدائش میں انٹری ملی ہے، اسی خوشی کی مناسبت سے یہ نئی دیوالی منائی جاتی ہے۔ رہا سوال ان کے عقیدے کا تو اس پر کسی کو کیوں اعتراض ہو گا، لیکن ملک والوں کوجب یہ بتایاجائے گا کہ پانچ سوسالوں تک اس بے دخلی کی تاریخی حیثیت کیا ہے تو اس پر مغل سلطنت کے بانی بابر کے مندر توڑ کر مسجد بنائے جانے کے ایک مفروضہ واقعہ کو ہرسال دوہرا جائے گا تاکہ اسی آڑ میں ہندی، ہندو اور ہندوستان (ہندوراشٹر) کی پالیسی کو عملی جامہ پہنایاجاسکے۔

بہرحال۲۲؍جنوری۲۰۲۴ء سے قبل ہم سارے بھارتی، آزادی کے بعد کے بھارت (فیز-1)میں جی رہے تھے اور اب ہم ایودھیا کے بعد بھارت(فیز-۲۔) میں قدم رکھ چکے ہیں۔ اس فیز میں کون کون سی نئی تواریخ گڑھی جائیں گی یہ سوچ سے پرے ہے لیکن خاموشی سے دیکھتے رہنے کی بجائے ہمیں بھی غور وفکر کرنا ہوگا۔ہمیں اس بات پر غورکرنے کی ضرورت ہے کہ آج ہماری قوم کس حالت میں ہے۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ نے۹؍سال قبل ہی بتادیا تھاکہ مسلمانوں کی بڑی آبادی کے حالات دلتوں سے بھی خراب ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کا محنت کش طبقہ، جو کسی نہ کسی پیشہ سے جڑا ہواہے اور جو آبادی کا بڑا حصہ بنتاہے وہ تعلیمی، اقتصادی اور سیاسی لحاظ سے دلتوں سے بھی پیچھے ہے۔ یہ رپورٹ حقیقت پر مبنی ہے کیونکہ پورے ہندوستان میں ایسی بڑی بستیاں مل جائیں گی جہاں لوگ پستی کی زندگی گزارتے ہیں۔ خود ملک کی راجدھانی دہلی میں ایسی مسلم بستیاں ملیں گی جو گھنی یا گندی بستیاں کہی جاسکتی ہیں۔ ان آبادیوں میں غیرتعلیم یافتہ اور غرباء کی تعداد زیادہ ہے۔ طویل عرصہ سے تعلیم پر زور دینے کے باوجود ان کے بیچ اس کا گراف اونچا ہوہی نہیں سکا۔ پھر مالی کمزوری بھی ٹھیک نہیں کی جاسکی جبکہ ملی تنظیموں نے ان حالات کا حوالہ دے کر چندہ خوب جمع کیا اور خرچ کیا۔ سچ پوچھئے تو ان کے یہ حالات صدیوں سے ایسے ہی چلے آرہےہیں۔ دلت لیڈر رام ولاس پاسوان بڑی حیرت سے کہتے تھے کہ جس ملک میں مسلمانوں کی حکومت لگ بھگ ۸؍سوبرسوں تک رہی ہو وہاں اس قوم کی بڑی آبادی دلتوں سے پیچھے کیسے رہ گئی۔ ان کی یہ بات مسلمانوں کے حکمراں طبقوں کے رویوں کو ظاہر کرتی ہے۔ اس مفاد پرستی کا ہی اثر ہے کہ غریبی اور تعلیم کی کمی وجہ سے ان پر مذہبی بوٹی جلد اثر کرجاتی ہے۔تعلیم کے نام پر جو بھی تحریکیں چلتی ہیں اس کی آڑ میں میڈیکل کالج، انجینئر نگ کالج اور شہروں میں ہائی اسکول کھولے جاتے ہیں لیکن بنیادی تعلیم کیلئے کوئی سوچ کبھی نہیں رہی۔ کوئی تو ہوتا جو Education at the Doorکا انتظام کروانے میں دلچسپی رکھتا۔لیکن پھر وہی سوال یہ دلچسپی کیوں اورکن طبقات کیلئے ہو۔ بھارت کی تاریخ میں پہلی بار بہار میں مسلمانوں کے بیچ عصری تعلیم کو عام کرنے کیلئے ’تعلیمی مرکز‘ کی سوچ بنی اور نتیش کمار نے اس میں پہل کرکے اسے قائم کیا، لیکن بہار کے باہر کہاں کسی نے اس مہم کو ہوادی۔ وجہ آپ خود سمجھیں۔ بھلایہ کیسی سوچ ہے کہ مسلمانوں کی بڑی اور کمزورآبادی موٹرسائیکل پنکچر بنانے، گیراج سروس، چکن، مٹن، انڈا وسبزی کے بازاروں کو سجائے اور بنکری، دھنکری، سلائی، صفائی ودیگر مزدوری کرکے اپنا اور اپنے پریوار کا پیٹ تو پال لے لیکن دو مسئلے اس کا پیچھا نہ چھوڑیں۔ایک تو یہ بنیادی تعلیم سے بے بہرہ رہیں اور دوسرا یہ کہ مذہبی نظریے سے انہیں جذباتی بناکر رکھاجائے تاکہ مذہبی معاملات میں یہ صرف جوش سے ہی کام لیں (عقل سے نہیں)۔ ایسا اس لئے تاکہ وقت بوقت اپنی لیڈر شپ چمکانے یا پھر اپنے مفاد کیلئے ان کو روڈ پر آسانی سے لایا جاسکے اور ٹکرائو کی سیاست میں آسانی سے استعمال کیاجاسکے۔

اسی الٹی سوچ کی وجہ سے آج ملک کاماحول الٹ گیا ہے جس پر سماج ومسلم مخالف طاقتوں کا غلبہ ہوگیاہے۔ حالت یہ ہے کہ اب موقع ملتے ہی ماب لنچنگ، بلڈوزرکارروائی، جھوٹے مقدمے اور جیل ٹھوسو جیسی کارروائیوں کا بول بالا ہوتا جارہا ہے۔مشاہدے کی بات تو یہ ہے کہ اس لہر میں محنت کش طبقات ہی پھنس جاتے ہیں۔ یعنی آج کے ماحول میں تعلیم اور تجارت سے بھی بڑا مسئلہ ’تحفظ‘ کا ہوگیا ہے جس پر کوئی بات نہیں کرتا۔

بہر حال بھارت کے (فیز-۱) میں ہمارے نمائندگان سے غلطیاں ضرور ہوئی ہیں۔ تبھی آج مسلمان دلتوں والی پوزیشن حاصل کر سکیں گے۔ایودھیا کے بعد بھارت (فیز-۲) میں بھی اسی طرح کی غلطیاں ہوتی چلی جائیں گی تو پھر یوں سمجھئے کہ نعوذ باللہ کہیں بھارت  میں بھی میانماریافلسطین جیسے حالات نہ پیدا کر دیے جائیں۔ لہذا۲۲؍جنوری کے موقع کو ہمیں’یوم محاسبہ‘ کے طورپر منانا چاہیے یعنی مسلم مخالف طاقتوں کی نئی دیوالی کے دن ہمیں اپنے اندر خود جھانک کر دیکھنا پڑے گا اور حالات کا سچا جائزہ لیتے ہوئے ہرسال نیا روڈ میپ تیارکرنا ہوگا۔

میری رائے اگر آپ مانیں تو سب سے پہلے ہمیں ان محنت کش طبقوں کے ’قانونی تحفظ‘ کا انتظام کرنا ہوگا۔ ہم اس نکتہ پر دبائو اس لئے ڈال رہے ہیں کیونکہ دلتوں کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ۸۰؍کی دہائی کے پہلے دلتوں کے ساتھ بھی مختلف قسم کے جبر، ظلم وتشدد ہواکرتے تھے جو مسلمانوں سے بھی زیادہ تھے۔ اسی خوف کےسبب شیڈول کاسٹ ریزرویشن (۱۹۵) کا پورا فائدہ دلت سماج کی نچلی سطح تک نہیں پہنچ رہاتھا۔ حتیٰ کہ اس سماج کے جو پڑھے لکھے اور اونچے عہدوں پر فائز ممبران ہوتے تھے، انہیں بھی سڑک سے لے کر سکریٹریٹ تک گالی گلوج ودیگر تشدد کا سامنا کرنا پڑتاتھا۔ تب۱۹۸۹ء میں آنجہانی راجیو گاندھی کی سرکار میں انسداد تشدد ایکٹ نامہ (The Scheduled Castes and the Scheduled Tribes (Prevention of Atrocities) Act, 1989, commonly known as the SC/ST Act) نامی اسپیشل قانون بنایا جس میں شیڈول کاسٹ اور شیڈول ٹرائب کو شامل کردیاگیا۔ اس ایکٹ کےنافذ ہونے کے بعد دلت اور آدی واسی طبقات تو ایسے قانونی تحفظ میں چلے گئے، کہ ان کو یا ان کی جائیداد کو ہاتھ لگانا تو دور کی بات تھی۔ ان کے ساتھ گالی گلوج یا جذبات کو ٹھیس پہنچانے والے نعرے یا الفاظ کا استعمال کرنا بھی مہنگا ہوگیا۔ اس قانونی تحفظ نے ان کی زندگی میں بہت تبدیلی پیدا کی اور پھر یہ دیہات سے لے کر دہلی تک ترقی کے دوڑ میں تیزی سے آگے نکلنے لگے اور تعلیمی، اقتصادی، سماجی اور سیاسی اعتبار سے یہ ملک کے مین اسٹریم میں آگئے۔ میری رائے یہ ہے کہ جب تک اس ایکٹ میں دلتوں اور آدیواسیوں کے ساتھ ان محنت کش مسلمانوں کو شامل نہیں کیاجائے گا یہ قوم بھی ملک کے مین اسٹریم میں نہیں آسکتی ہے۔ مزید یہ کہ اس قانون میں شمولیت کے بعد تو گویا ملک سے فرقہ وارانہ فسادات کا بھی کام تمام ہوجائے گا اور لمبے عرصے سے چلی آرہی ’فرقہ وارانہ سیاست‘کا بھی خاتمہ ہوجائے گا۔ اس طرح اس ایشو سے ملک، ملت اور اصل باشندوں تینوں کو فائدہ ہوگا اور قومی یکجہتی کا سچا دور سامنے آئے گا جس کی اس وقت ملک کو سخت ضرورت ہے۔

31 دسمبر،2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

-------

URL:   https://www.newageislam.com/urdu-section/include-muslims-sc-st-act-1990/d/134216

 

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..