(قسط اول)
محی الدین غازی
3جولائی،2020
ایک رات مالک بن دینارؒ کے گھر میں
چور گھس آیا۔ اس نے وہاں کچھ نہیں پایا، بوسیدہ سی چٹائی اور پرانے سے لوٹے کے
سوا وہاں کچھ نہ تھا، وہ نکلنے لگا تو مالکؒ نے آواز دی اور سلام کیا، اس نے سلام
کا جواب دیا، مالکؒ نے کہا: تمہیں یہاں دنیا تو ملی نہیں، تو کیا آخرت کا کچھ
سامان پسند کروگے؟ اس کے دل میں بات اتر
گئی، اور اس نے کہا: ہاں، انہوں نے کہا، لوٹے میں پانی ہے وضو کرو، دو رکعت نماز
پڑھو اور اللہ کے حضور توبہ و استغفار کرو۔ دو رکعت کے بعد اس نے رات بھر عبادت کرنے
کی اجازت مانگی، اور پھر یہ ہوا کہ دونوں نے رات بھر ایک ساتھ تہجد پڑھی، صبح
مالکؒ مسجد کیلئے نکلے تو وہ بھی ساتھ تھا، ان کے شاگردوں نے پوچھا یہ کون ہے آپ
کے ساتھ؟ انہوں نے کہا: یہ ہمیں چرانے آیا تھا ہم نے اسے ہی چرا لیا۔ (یہ قصہ
امام ذہبیؒ اور دیگر شخصیت نگاروں نے ذکر کیا ہے)۔
اصلاح کا مشن پارساؤں کو جمع کرلینے
کا کام نہیں، بلکہ گناہ گاروں کو توبہ کے راستے اپنا بنالینے کا کام ہے۔
اگر آپ اپنی اصلاح کے لئے فکر مند
ہوگئے ہیں، تو جان لیں کہ سب سے پہلے آپ کو توبہ کے طہارت بخش چشمے میں نہانا ہے،
اور پھر آخر دم تک توبہ کی پاکیزہ کیفیت اور حالت کو ساتھ رکھنا ہے۔ توبہ جتنی
سچی اور خالص ہوگی اصلاح اتنی ہی گہری اور ہمہ گیر ہوگی۔ اگر آپ دوسروں کی اصلاح
کا مشن لے کر اٹھے ہیں تو آپ کو سب سے زیادہ قوت کے ساتھ توبہ کا صحیح تصور اور
سچی رغبت پیدا کرنی ہے۔ دنیا کا کوئی اصلاحی مشن توبہ کے صحیح، تسلی بخش اور امید
افزا تصور کے بغیر کامیاب ہوہی نہیں سکتا۔
اگر صالحین اور مصلحین کی ایک جماعت
تشکیل پاتی ہے تو اس جماعت کا حقیقی اثاثہ وہ تائبین ہوں گے جو غفلت اور کوتاہی کی
اپنی پچھلی روش پر توبہ کرکے اس جماعت میں شامل ہونگے۔ توبہ کے تجربے سے گزرے بغیر
اس جماعت میں جو شامل ہوگا، یا جو اس جماعت میں شامل ہونے کے بعد توبہ کے تجربے سے
نہیں گزرے گا، وہ اس جماعت کا ایک بے روح پرزہ ہوگا۔ قرآن مجید میں تمام مومنوں
کو توبہ کرنے کی تلقین کی گئی: (ترجمہ)’’اے مومنو، تم سب اللہ سے توبہ کرو، توقع
ہے کہ فلاح پاؤ گے۔‘‘ ( النور:۳۱)
معلوم ہوا کہ فرد اور جماعت دونوں کی کامیابی کا راستہ
توبہ سے ہوکر گزرتا ہے۔
توبہ کا ایک ناقص طریقہ جزوی توبہ کا
طریقہ ہے، یعنی صرف کچھ گناہوں سے توبہ کرنا، یہ طریقہ بہت عام ہے، کسی تذکیر یا
تنبیہ کی وجہ سے آدمی کا دھیان اپنے کسی ایک گناہ کی طرف جاتا ہے، اسے اس پر
ندامت ہوتی ہے، وہ اس سے توبہ کرتا ہے، اللہ سے معافی مانگتا ہے، اسے دوبارہ نہ
کرنے کا عہد کرتا ہے، اور اس عہد پر قائم بھی رہتا ہے لیکن اپنی توبہ کو وہ صرف اس
ایک گناہ یا ایسے کچھ گناہوں تک محدود رکھتا ہے۔ باقی کتنے گناہوں نے اس کی زندگی
میں گہرے بِل (سوراخ) بنا رکھے ہیں، اس کا خیال اسے نہیں ستاتا۔ قرآن مجید پوری
اور مکمل توبہ کا طریقہ سکھاتا ہے کہ آدمی ایسی توبہ کرے کہ اپنی زندگی کے ہر
گناہ سے تائب ہوجائے، وہ ایک گناہ سے پاک ہونے ہی کا عہد نہیں کرے، بلکہ پوری
زندگی پاکیزگی کے ساتھ گزارنے کا عہد کرے اور اس عہد پر زندگی بھر قائم رہنے کی
کوشش کرے۔ اس دوران جب جب کوئی گناہ سرزد ہوجائے
اس سے سچی توبہ کرتا رہے۔ غرض توبہ کا تقاضا یہ ہے کہ زندگی کسی ایک گناہ
کے لئے بھی مسکن نہ بنے۔ اور یہ کبھی نہ بھولیں کہ چھوٹے گناہ کے پیٹ سے بڑے سے
بڑے گناہ بھی جنم لے لیتے ہیں۔
گناہوں کو قسطوں میں چھوڑنے کا تصور
غلط ہے، یہ وہ منصوبہ ہے جو کبھی کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوتا۔ توبہ یک بارگی
شفٹنگ کا تقاضا کرتی ہے، گناہوں والی زندگی سے توبہ والی زندگی میں منتقل ہوجانا
توبہ ہے۔ ایک ہی جست میں گندگی اور غلاظت بھرے کھڈ سے باہر نکل کر اچھی طرح نہا
دھو کر پاکیزہ مقام پر چلے جانا ہی پاک ہونا ہوتا ہے۔ ہاں جب کسی انتہائی مجبوری
کی وجہ سے گندگی سے پوری نجات ممکن ہی نہیں ہو تو جتنا ممکن ہو اس قدر ضرور پاک
صاف ہوجائے، اور پورے طور پر نکلنے کی کوشش جاری رکھے۔ لیکن پوری پاکی ممکن ہو پھر
بھی آدمی کچھ پاکی پر قناعت کرلے، یہ توبہ کی روح کے خلاف ہے۔
توبہ کے سلسلے میں ایک ناقص تصور یہ
ہے کہ توبہ کو محض معافی کا ہم معنی سمجھ لیا گیا ہے، معافی کا عام مطلب یہ ہوتا
ہے کہ آدمی اپنے جرم یا مجرمانہ زندگی کو ترک کردے، اور عام انسانوں جیسی زندگی
گزارنے لگے۔ لیکن توبہ کا مطلب اس سے بہت اعلیٰ ہوتا ہے، توبہ کا مطلب ہوتا ہے کہ
آدمی گناہوں والی زندگی ترک کردے اور پھر اللہ والی زندگی گزارنے لگے۔ توبہ بہت
عالی شان لفظ ہے، قرآن مجید میں لفظ توبہ کا مطلب ہوتا ہے اللہ کی طرف متوجہ
ہوجانا، اللہ کی طرف لوٹ جانا، اور اللہ کا ہوجانا۔
جب کوئی شخص گناہ کرتا ہے اس وقت اس
کی توجہ اللہ کی طرف سے ہٹی ہوئی ہوتی ہے، وہ اللہ سے اتنا زیادہ غافل ہوجاتا ہے
گویا ایمان ہی سے دور ہوگیا ہو۔ توبہ کرنے
کا مطلب اپنے ایمان کی تجدید کرنا، اللہ کی طرف دوبارہ متوجہ ہوجانا اور ایک نئی
مومنانہ اور پاکیزہ زندگی گزارنا ہوتا ہے۔ توبہ زندگی میں ہونے والی سب سے بڑی
تبدیلی ہوتی ہے۔ توبہ صرف ایک گناہ سے نہیں ہوتی بلکہ خراب طرز زندگی اور غلط سمت
سفر سے ہوتی ہے۔ توبہ کرنے والا صرف اپنے گناہوں سے چھٹکارا پانے والا نہیں ہوتا،
بلکہ وہ توبہ کرکے اللہ والا بن جاتا ہے۔ اس کی زندگی عام انسانوں کی سی نہیں بلکہ
عام انسانوں سے بہت مختلف، بہت پاکیزہ اور بہت اعلیٰ ہوجاتی ہے۔
سورہ ہود میں نبیوں کی دعوت کے تذکرے
ہیں، اس سورہ میں نوٹ کرنے کی خاص بات ایک
ہی مفہوم کے یہ چار جملے ہیں:
’’اور
یہ کہ تم اپنے رب سے معافی چاہو اور اس کی طرف پلٹ آؤ۔‘‘ (ہود:۳) (قرآن
کا پیغام)
’’اور
اے میری قوم کے لوگو، اپنے رب سے معافی چاہو، پھر اس کی طرف پلٹو۔‘‘ (ہود:۵۲) (ہود ؑ کا پیغام)
’’تم
اس سے معافی چاہو اور اس کی طرف پلٹ آؤ۔‘‘ (ہود:۶۱) (صالحؑ کا پیغام)
’’اپنے
رب سے معافی مانگو اور اس کی طرف پلٹ آؤ۔‘‘ (ہود: ۹۰) (شعیبؑ کا پیغام)
ان میں سے پہلی آیت میں قرآن مجید
کی دعوت کا ذکر ہے، پھر تین آیتوں میں تین نبیوں کی دعوت کا ذکر ہے۔ اس سے اندازہ
ہوتا ہے کہ نبیوں کی دعوت میں استغفار اور توبہ کی دعوت کو بہت بنیادی مقام حاصل
تھا۔ چاروں مقامات پر ایک ہی دعوت ہے، وہ یہ کہ رب سے استغفار کرو، پھر رب کی طرف
لوٹ آؤ۔ استغفار سے آدمی اپنے گناہوں سے پاک ہوتا ہے، اور توبہ سے نیکیوں والی
زندگی گزارنے لگتا ہے۔
توبہ کی تکمیل صالحیت سے ہوتی ہے
توبہ اپنا عملی ثبوت مانگتی ہے۔ اس کا
ایک ثبوت یہ ہے کہ آدمی اس گناہ کو دوبارہ نہ کرے جس سے اس نے توبہ کی ہے۔ یہ
ضروری لیکن ناکافی ثبوت ہے، اصل ثبوت یہ ہے کہ آدمی کی زندگی میں صالحیت اور صالح
اعمال کی بہار آجائے۔
قرآن مجید میں توبہ کو اصلاح کی راہ
کے اہم ترین سنگ میل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اور توبہ کی قبولیت کے لئے توبہ کے
بعد صالحیت اور اعمال صالحہ کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ فرمایا گیا:’’پھر جو ظلم
کرنے کے بعد توبہ کرے اور اپنی اصلاح کر لے تو اللہ کی نظر عنایت پھر اس پر مائل
ہو جائے گی، اللہ بہت درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔‘‘
(
المائدہ :۳۹)
’’اور
جو شخص توبہ کرے اور نیک عمل کرے وه تو (حقیقتاً) اللہ تعالیٰ کی طرف سچا رجوع
کرتا ہے۔‘‘ ( الفرقان:۷۱)
’’ہاں
بیشک میں انہیں بخش دینے والا ہوں جو توبہ کریں، ایمان لائیں، نیک عمل کریں اور
راه راست پر رہیں۔‘‘ (طٰہٰ: ۸۲)
یہ حقیقت پسندی کا تقاضا بھی ہے، ایک
شخص اللہ کی نافرمانی کرکے اللہ کے غضب کا سزاوار ہوجاتا ہے، اب اگر وہ نیک اعمال
کے ذریعے اللہ کو خوش کرنے کا جذبہ تو نہیں رکھتا ہو، اور چاہے کہ محض توبہ کے نام
پر زبانی جمع خرچ سے اللہ اس سے راضی ہوجائے تو یہ جھوٹی امید باندھنا ہوگا۔اور یہ
پورے طور پر قرآن مجید کے اصلاحی مشن سے ہم آہنگ بات ہے۔ اللہ کی طرف سے بندوں
کو خصوصی رعایتیں دی جاتی ہیں تاکہ وہ اپنی اصلاح میں ان سے مدد لے سکیں۔ گناہ
کرکے آدمی اپنے آپ کو بہت نیچے گرادیتا ہے، ایسے میں اگر وہ پستی سے بلندی کا
سفر کرنے پر تو آمادہ نہ ہو، لیکن توبہ کرنے والوں کے بلند مقام کی خواہش رکھے،
تو ظاہر ہے اس کی یہ خواہش قابل قبول نہیں ہوسکتی کیونکہ شخصیت کی تعمیر وترقی میں
ایسی بے ثمر توبہ سے خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوتا۔ توبہ تو اصل میں اس کی ہوتی ہے جو
توبہ کے پروں سے قابل رشک بلندیوں میں پرواز کرنے لگتا ہے۔ عام طور سے توبہ کی
قبولیت کی شرطوں میں اس کا ذکر نہیں کیا جاتا، لیکن قرآن مجید عمل صالح کی اس شرط
کا بار بار ذکر کرتا ہے۔
توبہ کرنے کی جگہ دنیا ہے
قرآن مجید میں توبہ کا ذکر صرف دنیا
کی زندگی کے لئے ہے، آخرت کی زندگی کے لئے توبہ کا ذکر ہمیں قرآن مجید میں کہیں
نہیں ملتا۔ قرآن مجید جب دنیا میں لوگوں کو اپنی اصلاح کرنے کی دعوت دیتا ہے، تو
توبہ کے دروازے پورے طور پر کھلے ہوئے دکھاتا ہے:
’’اے
نبیؐ کہہ دو کہ اے میرے بندو، جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت
سے مایوس نہ ہو جاؤ، یقیناً اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے، وہ تو غفور و رحیم
ہے۔‘‘ ( الزمر:۵۳) (جاری)
3جولائی،2020
بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/in-qur-an-repentance-presented-part-1/d/122351
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism