New Age Islam
Sun Mar 26 2023, 03:37 AM

Urdu Section ( 31 Oct 2012, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Society Will have to get Better قوم کو ٹھیک ہونا ہوگا

امتیاز علی شاکر

30 اکتوبر ، 2012

ایک دفعہ ( خلیفہ وقت) حضرت عمر نے خطبے کے دوران لوگوں سے پوچھا کہ اگر میں صحیح راہ پر نہ چلو ں تو تم لوگ کیا کروگے؟ ایک بدو اٹھا اور تلوار نکال کر بولا عمریا د رکھو تجھے میں اس تلوار سے سیدھا کردوں گا۔ حضرت عمر نے اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ قوم میں ایسے لوگ موجود ہیں جو مجھے غلط راہ پر چلنے سے روک سکتے ہیں ۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص بندوں کی زندگی کے ہر پہلو کو آنے والے زمانوں کے عام لوگوں کو سمجھانے کے لیے ترتیب دیا ہے۔ اسی حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے آج مجھے بڑے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستانی قوم میں  حکمرانوں کو سیدھا کرنے والے لوگ ختم ہوچکے ہیں ۔ مجھے آج اپنی صحافی برادری سے ایک اپیل کرنی ہے لیکن کچھ حالات واقعات پر بات کرنے کے بعد جیسا کہ گزشتہ دنوں دوران سماعت بلوچستان بدامنی کیس چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ صوبے کے معاملات آئین کے مطابق نہیں چلائے جا رہے ۔

 انہوں نے بلوچستان میں امن و امان کی خراب تر صورتحال کا سخت نوٹس لیتے ہوئے باور کرایا کہ جب سیشن جج کے قتل ہوجانے پر بھی حکومت حرکت میں نہیں آتی تو باقی کیا رہ جائے گا ؟ جناب چیف جسٹس آف پاکستان  کی خدمت میں عرض ہے ۔ ( کچھ بھی کہنے سے پہلے میں یہ بتا تا چلوں  کہ چیف جسٹس افتخار چودھری کی ایمانداری پر مجھے کسی قسم کا شک و شعبہ نہ ہے ۔ میرے نزدیک وہ انتہائی ایماندار شخص ہیں اور میری اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اور زیادہ علم و شعور ، ہمت ، طاقت ، صحت، عزت اور زندگی عطا فرمائے آمین) لیکن کسی ایک شخص کے ٹھیک ہونےسے ریاستی نظام نہیں بدلہ کرتے کیونکہ یہ کوئی دو ، تین  گھنٹے کی ایکشن فلم نہیں جس میں اکیلا ہیرو دو چار ہزار لوگوں سے لڑکر جیت جاتا ہے یہ حقیقت ہے یہاں نظام کو ٹھیک کرنے کے لئے پوری قوم کو ٹھیک کرنے کےلئے پوری قوم کو ٹھیک ہونا ہوگا ۔

بات چلی تھی چیف جسٹس آف پاکستان کے بیان سے۔کیا حکومت صرف بلوچستان کے معاملات کو آئینی طریقے سے نہیں چلا رہی  ؟ کیا آج کی آزاد عدلیہ جس کے لئے پاکستانی قوم ایک طاقتور آمر کے سامنے ڈٹ گئی تھی وہی عدلیہ عام پاکستانی کو انصاف فراہم کررہی ہے ؟ ہوسکے تو مجھے اس سوال کا جواب دے دیں کہ معزول ہونے والی عدلیہ کی بحالی سے لے کر آج تک عدالتی نظام میں کیا فرق آیا ہے ؟ کیا اب اگلی تاریخ لینے کے لیے عدالتی عملے کو رشوت نہیں دینی پڑتی ؟ سوال تو اور بھی بہت ہیں میرے ذہن میں لیکن میں جانتا ہوں کہ مجھے کوئی جواب نہیں دے گا۔ قارئین محترم چیف جسٹس صاحب کا یہ باور کروانا بھی سمجھ سے بالا تر ہے کہ ایک سیشن جج کے قتل ہونے پر بھی حکومت ایکشن نہیں لیتی  تو پھر باقی کیا رہ جائے گا ۔ بڑی عجیب بات ہے کیا سیشن جج دوسروں سے زیادہ انسان ہے؟ کیا اسے انسان ہونے کا کوئی حق حاصل نہیں جو سیشن جج یا کسی دوسرے بڑے عہدے پر تعینات نہیں؟ اور باور کن کو کروایا جا رہا ہے جو اپنی ہی حکومت میں اپنی ہی لیڈر محترمہ کو شہید بے نظیر بھٹو کے قاتلو ں کو گرفتار نہیں  کرسکے۔

 قارئین محترم ایک سوال میں آپ سے بھی کرنا چاہتا ہوں کہ جو اپنے آپ کو تحفظ اور انصا ف نہیں دے سکتی کیا ایسی حکومت اور ایسی عدلیہ عوام کو تحفظ اور انصاف فراہم کرسکتی ہے؟اب بات کرتے ہیں بلوچستان کی خراب صورتحال پرجیسا کہ ہم سب دیکھتے ہیں  کے نیوز چینلز ہر وقت بلوچستان کی خراب صورتحال کو عوام کے سامنے رکھتے رہتے ہیں ۔ مختلف سیاست داں اور اینکر پرسن بڑا ہی خوبصورت میک اپ کر کےا سکرین کے پردے پر نمودار ہوتے ہیں اور کچھ اس انداز سے تبصرے  تجزیئے پیش کرتے ہیں کہ جیسے سب جانتے ہیں او رمنٹوں سیکنڈوں کے اندر سارامسئلہ حل کرسکتے ہیں۔ ان لوگوں کے پروگرام میں اس قدر شور ہوتا ہے کہ پورا گھنٹہ سننے والوں کے پلے کچھ نہیں پڑتا ۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح شام کے وقت کسی بڑے درخت پر سینکڑوں پرندے جمع ہوکر اپنی اپنی بولیاں بولتے ہیں تو انسان صرف اتنا سمجھ پاتا ہے کہ پرندے چہچہا رہے ہیں لیکن پرندے آپس میں کیا گفتگو کرتے ہیں سمجھ پانا انسان کے بس کی بات نہیں ۔ جب یہی حالت میں میڈیا ٹاک شوز میں دیکھتا  ہوں تو یوں محسوس ہوتا جیسے جنگل کے ماحول کی بنی فلم دیکھ رہا ہوں ۔ الزام لگانا بھی اب سیاست دانوں کا کام نہیں رہا۔ جب میڈیا پرسن کی ذات پر بات آتی ہے تو اسی وقت مرغیوں میں برڈ فلو پھیلنے کی خبر  چل جاتی ہے جو دو سےچار گھنٹے گزرنے پر ختم ہوجاتا ہے۔

 خاکسار نے اس بات پر بہت غور کیا بہت سوچا کہ یہ لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں۔ نہ تو یہ بچے ہیں او رنہ ہی پاگل ان کو یہ پتا ہوتا ہے کہ ان کو دنیا بھر میں دیکھا اور سنا جارہا ہوتا ہے پھر بھی یہ لوگ ٹی وی سکرین پر انسان ہونے کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ جانوروں سا سلوک کرتے ہیں اور پروگرام ختم ہوتے ہی ایک دوسرے کے گلے ملتے او ربڑے حسن سلوک سےپیش آتے ہیں ۔ لیکن میری سمجھ میں کچھ نہ آیا اس اضطراب کی حالت نے مجھے سونے نہ دیا اور میں رات کو ایک بجے کے قریب اپنے استاد جناب محترم ایم اے تبسم کے گھر یہ سوچے بغیر جا پہنچا کہ اتنی رات گئے وہ تنگ ہوں گے ۔ ان کے آرام میں خلل پڑے گا۔ میرے استاد ایم اے تبسم انتہائی شفیق انسا ن ہیں ۔  میرے پاس ان کی شخصیت پر بات کرنے  کے لئے مناسب الفاظ کی ہمیشہ کمی رہی ہے ۔ اب یہ ان کا حسن ظرف تھا کہ وہ میرے چہرے پہ چھائے اضطراب کے بادل دیکھ کر سمجھ گئے کہ میں  پریشانی کے عالم اتنی رات گئے ان کے پاس پہنچا ہوں ۔ انہوں نے بڑی محبت سے بیٹھنے کوکہا میں کچھ بولنے ہی والا تھا کہ انہوں نے کہا شکر ہے کہ تیرے پاس بھی میرے لیے وقت نکل آیا۔ کہنے لگے آج میرا بہت دل کررہا تھا کہ ایک چائے کا کپ تیرے ساتھ بیٹھ  کر پیئوں اچھا کیا تم نے جو چلے آئے ۔

 تم بیٹھو میں چائے کا کہہ دوں ۔ یہ کہہ کر و ہ اندر چلے چند منٹ بعد واپس آئے تو میں اپنا اضطراب ان کے سامنے رکھنے کے لیے تیار تھا کہ تبسم صاحب بولے میں جانتا ہوں کہ آج تم بہت پریشان ہو اور مجھ سے کوئی بات کہنا چاہتے ہو ۔ میں نے کہا جی آپ بالکل ٹھیک سمجھے میں بہت زیادہ پریشان ہوں اور میری پریشانی  اتنی بڑی ہے کہ میں نے اس وقت آپ کو تکلیف دی ۔ وہ بولے مجھے تکلیف نہیں خوشی ہوئی کہ تم نےپریشانی کی حالت میں میرا انتخاب کیا جس کا مطلب ہے کہ تم سچے دل سے میری عزت کرتے ہو، کوئی ایسی بات نہیں پہلے چائے پیتے ہیں پھر تمہاری پریشانی کا حل نکالیں گے۔ کوئی آدھا گھنٹہ چائے آنے اور پینے میں صرف ہوگیا۔ اس کے بعد تبسم صاحب نے مجھ سے میری پریشانی کی وجہ پوچھی جس پر میں نے اپنے اضطراب کی وجہ بیان کرتے ہوئے ان کے سامنے یہ سوال رکھا کہ جب ہمارے ملک کے سیاست داں اور صحافی ملک کو درپیش مشکلات کی بنیادی وجوہات جانتے ہیں۔ او ران میں سے ہر ایک کے پاس ہر مسئلے کے ایک سے زیادہ حل موجود ہیں تو پھر مسائل حل کیوں نہیں ہوتے ؟ وہ میرے سوال پر مسکراتے ہوئے بولے امتیاز ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دیکھانے اور والی کہاوت توتم نے سنی ہوگی ۔

یہ لوگ جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں اور جو کرتے ہیں وہ کہتے نہیں ۔ یہ سارے وہی ہیں جن کے بارے میں  قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ میری جیب میں موجود کچھ سکے کھوٹے ہیں ۔ جب سے پاکستان آزاد ہوا تب سے آج تک چند خاندانوں کی حکمرانی ہے اگر یہ ملک و قوم کے ساتھ مخلص ہوتے تو پاکستان آج مشکلات کا شکار او رترقی پذیرملک ہونے کے بجائے دنیا میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک بن چکا ہوتا۔ لیکن  خوشی کی بات یہ ہے کہ اب عوام سمجھ رہی ہے کہ جو لوگ ایک دوسرے پر الزام تراشی بھی کرتے ہیں اور ایک دوسرے سےعہدے بھی لیتے دیتے ہیں ۔ یہ سب کرپٹ ہیں ۔ میرے صحافیوں کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں تبسم صاحب نے کہا کہ صحافی کبھی نہیں  بکتا ۔ موجودہ صحافت میں جو لوگ بکےہوئے ہیں وہ صحافی نہیں ہیں بلکہ وہ سازشی لوگ ہیں جنہوں نے ملک کے ہر صحافتی ادارے کو یرغمال بنا رکھا ہے ۔ یا یوں کہا جاسکتا ہے کہ صف صحافت میں کچھ ضمیر فروش درندہ صفت انسان شامل ہوگئے ہیں لیکن میں ان کو صحافی نہیں مانتا  ۔

یہ لوگ صحافت کا لبادھا اوڑھے ہوئے ایسے بھڑ یئے ہیں جن کو سوائے پیسے کی ہوس کے کچھ دکھائی نہیں دیتا، ان چند مفاد پرست عناصر کیوجہ سے اچھے اور محبّ وطن صحافیوں پر بھی انگلیاں اٹھ رہی ہیں ۔ ایم اے تبسم نے مزید کہاکہ جب سے پاکستان بنا ہے تب سے ہی چند مفاد پرست لوگوں کا ٹولہ اس ملک کی جڑیں کاٹنے لگا تھا اور اسی ٹولے کی باقیات  آج بھی ہم پر دیمک کی طرح مسلط ہے ۔ جسے نوجوان طبقہ ہی ختم کر سکتا ہے ۔ اور مجھے یقین ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب وطن عزیز ان کرپٹ اور مفاد پرست قسم کے لوگوں سے پاک ہوگا۔ قارئین محترم راقم کے خیال میں صحافتی شعبہ میں ضمیر فروشوں کو ملک و قوم کے دشمنوں نے سازش کے تحت شامل کیا ہے ۔ تاکہ میڈیا یر غمال بن جائے اور وہ من پسند نتائج حاصل کرسکیں ۔ اگر کسی کا خیال ہے کہ یہ سازشی لوگ صرف میڈیا میں موجود ہیں تو یہ اس کی بہت بڑی غلط فہمی  ہے ۔ کیونکہ یہ ملک کے ہر ادارے میں موجود ہیں ؟ یہاں تک کہ یہ سازشی لوگ عبادت گاہوں ، مسجدوں ، امام بارگاہوں ، درگاہوں ، گرجا گھروں ، گرودواروں  او رمندروں میں بھی موجود ہیں ۔

 لیکن آج کل تنقید صرف میڈیا پرکی جارہی ہے۔لیکن جن مشکلات میں پاکستانی میڈیا کام کررہا اس بات کااندازہ صرف ایک صحافی ہی لگا سکتا ہے ۔ اب اس بات کا فیصلہ آپ خود کریں کہ ہمارا میڈیا یرغمال ہے یا نہیں ؟ خاکسار کی صحافی برادری سے اپیل ہے کہ اپنی صفوں  میں گھسے بھیڑیوں کو پہچان کو فوراً باہرکریں ورنہ یہ صرف صحافیوں کو  ہی نہیں پوری قوم کو کھا جائیں گے اور ان سازشی عناصر کی موجودگی میں آئین و قانون کی حکمرانی بھی ممکن نہیں ۔ میں اس دعا کے ساتھ اجازت چاہوں گا ۔ اے پروردگار اہل قلم کو اتنا با اختیار کر دے کہ انہیں دنیا کی کسی دولت سے خرید انہ جاسکے ۔ پروردگار اہل قلم کو حق وسچ لکھتے رہنے کی توفیق و طاقت عطا فرمائے ۔

30 اکتوبر ، 2012  بشکریہ : اخبار مشرق ، نئی دہلی

URL: https://newageislam.com/urdu-section/the-society-get-better-/d/9164

Loading..

Loading..