New Age Islam
Fri Jul 18 2025, 03:36 PM

Urdu Section ( 6 Oct 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Why Is It Impossible To Reform Sharia Law? شریعت کی اصلاح ناممکن کیوں؟

 حسن محمود، نیو ایج اسلام

 13 اگست 2023

 گلوبل کنسورشیم 'ریزولو نیٹ ورک' نے بنگلہ دیش میں ایک تحقیقی سروے میں پایا کہ 80 فیصد سے زیادہ جواب دہندگان کا خیال ہے کہ اگر شرعی قانون نافذ ہو گا تو ملک میں بدعنوانی کم ہو جائے گی۔ 12-2011 میں پیو ریسرچ سینٹر کے سروے میں بھی ایسے ہی نتائج نکلے– (دونوں کی رپورٹنگ بنگلہ دیشی روزنامہ پرتھم الو نے 26 جنوری 2022 کو کی)۔

 مندرجہ ذیل مضمون - "Examples of Sharia Law" سے پتہ چلتا ہے کہ شریعت کی کتابوں میں بہت سے غیر منصفانہ اور جابرانہ قوانین پائے جاتے ہیں:-

 https://hasanmahmud.com/index.php/articles/islamic-english/240-examples-of-sharia-law

 مولانا مودودی نے لکھا - "(مسلمانوں نے) تلوار اور قلم کے زور پر حکومت کی، لیکن پھر ان کی کوششیں کمزور پڑ گئی، اور وہ بدلتے وقت کے مطابق شریعت کی تشریح کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو گئے۔" - صفحہ 8، - 'The Sick Nations of the Modern Age'۔ ان کی خواہش ہے کہ اگر علمائے اسلام"بدلتے وقت کے مطابق شریعت کی تشریح" کرنے کی کوشش کریں، تو وہ اپنی کچھ عجیب و غریب "مستند" احادیث اور اسلامی دستاویزات سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں۔

 کیا وہ اس پر قابو پا سکتے ہیں؟

 نہیں، وہ اس پر قابو نہیں پا سکتے۔ انہوں نے خود یہ قوانین بنا کر اپنے ہاتھ پاؤں باندھ لیے۔

 یہاں دو مثالیں ایسی ہیں جن سے میری بات اچھی طرح ثابت ہوتی ہے۔ براہ کرم نوٹ کریں کہ عام طور پر، درج ذیل جرائم کی سزائیں قرآن و سنت سے طے شدہ ہیں اور ان میں ترمیم نہیں کی جا سکتی۔ باقی تمام قوانین تعزیرات کے زمرے میں آتے ہیں جن میں ترمیم کی جا سکتی ہے:-

 (ا)     حدود کے جرائم ارتداد، حکمران کے خلاف بغاوت، چوری، شاہراہ پر ڈکیتی، زنا، غیبت اور شراب نوشی ہیں۔

 (ب)     قصاص - قرآنی قوانین کے مطابق جان کے بدلے جان اور زخم کے بدلے زخم کا دینا،

 (ج)     دیعت – مقتولین یا ان کے قانونی ورثاء کو قتل یا چوٹ پہنچانے کے جرم میں مالی معاوضہ۔

ان کے علاوہ باقی تمام قوانین تعزیر کے زمرے میں آتے ہیں جن میں ترمیم کی جا سکتی ہے۔

 اب چند مغلق اور پیچیدہ مسائل پر بھی روشنی ڈال لیتے ہیں

 منصوبہ بند قتل کی سزا شریعت میں موت ہے سوائے 5 صورتوں کے:-

 (1)       اسلامی ریاست کے سربراہ کو حدود کے جرائم کی سزا نہیں دی جا سکتی - (حنفی قانون ہدایہ صفحہ 188 اور CIL جلد 3 قانون #914C)

 (2)      نسل کشی اور/یا اجتماعی عصمت دری کے مجرموں کو سزا نہیں دی جا سکتی اگر وہ عدالت میں توبہ کرلیں (CIL** جلد1 قانون# 13)

 (3)      مرتدوں کے قاتلوں کو سزا نہیں دی جا سکتی - "اسلام میں مرتد کے قتل کی کوئی ہے" - شافعی قانون کی کتاب عمدۃ السالک، جس کی توثیق الازہر یونیورسٹی نے کی ہے۔ قانون #o.1.2.3۔

 منصوبہ بند قتل کے مجرموں کے دیگر مزید 2 قسم کے مقدمات یہ ہیں:-

 مثال 1:- اگر والدین یا دادا دادی اپنے بچوں یا نواسوں کو قتل کر دیں تو قاتل کو موت کی سزا نہیں دی جائے گی۔ (CIL جلد 1، قانون # 65A، 65B، شافعی قانون عمدۃ السالک قانون #o.1.2.4:-

 "مندرجہ ذیل افراد سے قصاص نہیں لیا جا سکتا: ایک باپ یا ماں (یا ان کے باپ یا مائیں) اپنی اولاد، یا اولاد کی اولاد کو قتل کرنے دیں"۔

 یہ واضح طور پر ایک غیر منصفانہ قانون ہے۔ لیکن اگر اس میں ترمیم کرنے کی کوشش کی گئی تو علماء صحیح ترمذی 1405 کی یہ حدیث آپ کے منھ پر دے ماریں بے۔

 سیدنا عمر ابن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ باپ اپنے بیٹے کو قتل کرنے پر قتل نہیں کیا جائے گا۔ صحیح ترمذی حدیث 1405۔

 اسی طرح کی احادیث صحیح ترمذی 1406 اور سنن ابن ماجہ جلد 3 حدیث 2662 میں بھی موجود ہیں۔ ایسی سنگین صورتحال میں علماء کیا کریں گے؟ شریعت-حدیث اتحاد کے ذریعے انصاف اور اسلام پر اس طرح کے خوفناک حملے کو وہ کیسے دفع کریں گے؟ کیا وہ ان احادیث کو تبدیل یا رد کرنے کی جرأت کر سکتے ہیں؟ مجھے ایسا نہیں لگتا۔ تاہم، ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اتنے ظالم اور غیر متوازن نہیں ہو سکتے تھے۔

 مثال 2: - کسی مسلمان کو کافر کے قتل کے جرم میں موت کی سزا نہیں دی جائے گی' - اسلام کا تعزیری قانون صفحہ 149، شافعی قانون کی کتاب عمدۃ السالک قانون # o1.2 اور o2.2۔

 ظاہر ہے کہ یہ بھی ایک ظالمانہ قانون ہے۔ لیکن اگر اس میں ترمیم کرنے کی کوشش کی گئی تو علماء 4 اسلامی دستاویزات کا حوالہ بغیر کسی تاخیر کے پیش کریں گے:

 ا. "کوئی مومن کسی کافر (کافر) کے بدلے میں کسی دوسرے مومن کو قتل نہیں کرے گا" - مدینہ چارٹر کا آرٹیکل 14، 'دنیا کا پہلا تحریری آئین' کا صفحہ 45 - ڈاکٹر حمید اللہ۔

 ب. 'کافر کو قتل کرنے پر مومن کو قتل نہیں کیا جائے گا' - سنن ابوداؤد حدیث 2745،

 ج. 'کسی غیر مسلم کو قتل کرنے پر کسی مسلمان کو موت کی سزا نہیں دی جائے گی' - "امام شافعی کا الرسالہ"،

 د. علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت - 'کسی مسلمان کو کافر کے قتل پر قتل نہیں کیا جائے گا' - صحیح بخاری جلد 4 حدیث 283۔

 ایسی سنگین صورتحال میں علماء کیا کریں گے؟ شریعت-حدیث اتحاد کے ذریعے انصاف اور اسلام پر اس طرح کے خوفناک حملے کو وہ کیسے دفع کریں گے؟ کیا وہ ان احادیث کو تبدیل یا رد کرنے کی جرأت کر سکتے ہیں؟ مجھے ایسا نہیں لگتا۔ مجھے ایسا نہیں لگتا۔ انہوں نے کبھی یہ سوال کرنے کی جرات نہیں دکھائی کہ شریعت کی کتابوں میں کس نے، کب، کیوں اور کس اختیار سے ایسے اسلام مخالف قوانین لکھے۔ ان میں سے اکثر قوانین حدیث پر مبنی ہیں۔ ہمیں احادیث، بخاری طبری سیرت وغیرہ کے الفاظ سے دھوکے میں نہیں پڑنا چاہیے، ہمیں ہر ایک حوالہ کا بغور جائزہ لینا چاہیے کیونکہ ان کتابوں میں انتہائی قابل اعتراض روایات موجود ہیں۔ چند مثالیں:-

 ا. صحیح بخاری ج  7 حدیث 173 انتہائی فحش ہے۔ یہ اتنا گندا ہے کہ میں اسے یہاں ٹائپ نہیں کر سکتا اور نہ ہی دوسروں کے سامنے پڑھ سکتا ہوں۔

 ب. "بندر نے ناجائز جنسی تعلق قائم کیا" - صحیح بخاری جلد 5 حدیث 188،

 ج۔ رجم سے موت کی آیات اور ایک عورت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بالغ مرد کو دودھ پلانے کا حکم دیا تھا لیکن یہ ہمارے قرآن میں نہیں ہیں کیونکہ ان آیات کو بکری نے کھا لیا – ابن ماجہ جلد 3 حدیث 1943 1944 اور صحیح مسلم 3424 تا 3429 (6 احادیث)

 د. حضرت موسیٰ علیہ السلام بھری سڑک پر برہنہ دوڑتے ہوئے – صحیح بخاری والیم 1 حدیث 277،

 ہ. ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے سامنے ننگے تھے - صحیح بخاری جلد 1 حدیث 360،

 فہرست بہت لمبی ہے۔ یہ ہماری کتابیں ہیں، اور ہمیں ان کا سامنا کرنا چاہیے۔ 2004 میں ترک صدر طیب اردگان نے "ترک حدیث پروجیکٹ" کا آغاز کیا اور اچھی احادیث کی ایک نئی کتاب مدون کی اور غیر مستند حدیثوں کو رد کر دیا۔ اب سعودی شہزادہ ایم بی ایس ایسا ہی کر رہے ہیں۔ ہمارے علماء کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔ لوگوں کا ان کے لیے احترام غیر مشروط نہیں ہے، انہیں اسلامی مصادر و مآخذ سے معاشرے کی فلاح و بہبود کرنا چاہیے۔ اسی لیے انہیں اجتہاد کا اسلامی طریقہ دیا گیا ہے جسے وہ کم ہی استعمال کرتے ہیں۔

 *صحیح بخاری کی 9 جلدیں جن کا حوالہ میں نے دیا ہے وہ مدینہ یونیورسٹی کے ڈاکٹر محسن خان کا ترجمہ ہے۔

 ** اس مضمون میں "CIL" سے مراد تین جلدوں پر مشتمل "Codified Islamic Law" ہے جو بنیادی طور پر حنفی قانون کے کتاب ہے جسے 6 علمائے اسلام کی ایک کمیٹی نے مرتب کیا گیا ہے۔ اسے بنگلہ دیش اسلامی فاؤنڈیشن نے شائع کیا ہے۔

English Article: Why Is It Impossible To Reform Sharia Law?

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/impossible-reform-sharia-law/d/130837

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..