New Age Islam
Sat Feb 15 2025, 09:25 AM

Urdu Section ( 21 Jun 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Importance of Knowledge in Human Life انسانی زندگی میں علم کی اہمیت

 

شاہنواز فاروقی

20 جون، 2013

انسان کی زندگی میں ایمان کےبعد سب سے زیادہ اہمیت علم کی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید فرقان حمید میں ایمان کے بعد سب سے زیادہ اصرار  علم پرکیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ  نے علم کی فضیلت کو ظاہر کرنے کےلیے کہا کہ علم رکھنے والا اور علم نہ رکھنے والا برابر نہیں ہوسکتے ۔ اللہ تعالیٰ  نے علم کی اہمیت ظاہر کرنے کےلیے کہیں اہل ایمان سے کہا ہے کہ تم تفکر سےکام کیوں نہیں لیتے؟  کہیں فرمایا ہے کہ تم تدبر  کو کیوں بروئے کار نہیں  لا تے؟ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے ایک ارشاد کامفہوم  یہ ہے کہ علم انبیاء کا ورثہ ہے۔ اس کے معنی  یہ ہیں کہ نبی اور علم  لازم و ملزوم  ہیں۔ انبیاء دنیا میں علم  کے ساتھ تشریف لاتے ہیں  اور وہ دنیا سے رخصت ہوتےہیں تو اپنے پیچھے علم کی ایسی دولت چھوڑ جاتے ہیں جس سے صدیوں  تک انسانوں  کےبے شمار نسلیں  سیراب ہوتی ہیں۔ اس کے برعکس جو لوگ انبیاء کی ضد کے طور پر پیش کیے گئے ہیں ان کا ورثہ مال ومتاع  اور دنیا کی پرستش کے سوا کچھ نہیں۔

علم کی اہمیت اتنی بنیادی ہے کہ اس کے بغیر انسان کی زندگی  کا وجود ممکن ہی نہیں ۔ انسان کا انفرادی اور اجتماعی تشخص  کسی نہ کسی طرح  کے علم کا محتاج  ہے۔ انسان کھانے پینے ، یہاں تک کہ چار قدم چلنے  کے لیے بھی علم کا محتاج ہے۔ انسان نے اس دنیا میں جو کچھ تخلیق  اور ایجاد کیاہے اس کی بنیاد بھی علم  پر رکھی ہوئی ہے۔ انسان کا دوسرے انسانوں  سے تعلق  علم کا مرہونِ منت ہے، یہاں تک کہ انسان اپنے خالق  ، اپنے مالک  او راپنے رازق کو بھی علم ہی  کی وجہ سے جانتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں 800 سے زیادہ مقامات پر علم اور اس کے متعلقہ  تصورات  کی جانب انسانوں کی توجہ مبذول کرائی گئی ہے ۔ غور کیا جائے تو علم شعور کی بنیاد ہے ۔ علم کے بغیر شعور اور شعور کے بغیر انسان کا تصور محال ہے۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو فرشتوں پر جو فضیلت  دی اس  کا حوالہ علم  بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سےاشیاء کے اسماء معلوم کیے ۔ چونکہ فرشتوں  کو اسماء کا علم عطا نہیں  کیا گیا تھا اس لیے وہ چیز  وں کے نام بتادیے۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو انسان کے ماضی ،موجود اور ممکن کا انحصار  علم پر ہے۔ علم نہ ہوتو انسان کا کوئی ماضی  نہ ہو ۔ علم  نہ ہو تو انسان کا کوئی حال نہ ہو۔ اور علم  نہ ہوتو انسان کا کوئی مستقبل  نہ ہو۔ یہی وجہ  ہے کہ جہل کو تاریکی  اور علم کو روشنی  کہا جاتا ہے ۔ شیکسپیئر نے کہا  ہے کہ اصل مسئلہ ہونے  یا نہ ہونے کا ہے ۔ غور کیا جائے تو انسان کا ہوناعلم  کے ساتھ مشروط ہے۔

علم کا ذکر ہوتا ہے تو بر تر او رکمتر علم  کا سوال بھی ضرور سامنے آتا ہے ۔ انسان جاننا چاہتا ہے کہ بر تر علم کیا ہے اور وہ کہاں  سے آتا ہے ؟ اور کمتر علم کسے کہتے ہیں اور کیوں کہتے ہیں؟  دنیا میں بعض  لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کہتے ہیں کہ اللہ تک رسائی  کے لیے  انسان کو وحی کی ضرورت نہیں، انسان خود  اپنے تخیل  اور تفکر کی مدد سے خدا  کی موجودگی کا ادراک  کرسکتا ہے ۔ لیکن وجودِ  باری تعالیٰ  کے سلسلے میں ایک موہوم سا احساس  کافی نہیں  ۔ انسان خدا سے حقیقی  تعلق استوار کرنے کے لیے  اس کی ذات اور صفات ، اس کے احکامات اور اس کے خوش  اور ناراض  ہونے کی بنیادوں  کے علم کا محتاج  ہے۔ اس کے بغیر وہ دنیا اور آخرت  میں کامیاب  نہیں ہوسکتا ، اور  مسئلہ  یہ ہے کہ ان تمام چیزوں  کے علم کے لیے وحی کا علم ناگزیر  ہے۔ انسان اپنی عقل سے صرف اتنا جان سکتا ہے کہ اس زندگی اور کائنات کاکوئی نہ کوئی بنانے والا ہے۔ یہ بات بھی تمام انسان نہیں  جان سکتے ۔ اس اعتبار  سے دیکھا جائے تو علم وحی کی بر تری پوری طرح سے عیاں ہوکر سامنے آتی ہے۔ اس لیے کہ وحی کا علم من جانب اللہ ہے، اس لیے صرف علم وحی سو فیصد درست ہے۔ انسان کی نظر  اور عقل  کے نقص  کا یہ عالم ہے کہ انسان صحرا میں دور سے چمکتی  ہوئی ریت  کو پانی سمجھ لیتا  ہے ۔ قریب جاتا ہے تو اس کی  نظر اور ادراک کی حقیقت عیاں  ہوتی ہے  او رمعلوم ہوتا ہے کہ وہ جسے  پانی  سمجھ  رہا تھا  وہ صرف چمکتی  ہوئی ریت تھی ۔ انسان پانی میں پڑی  ہوئی چھڑی کو دیکھتا ہے تو وہ اسے ٹیڑھی  نظر آتی ہے ۔ چھڑی کوپانی سےباہر نکالا  جاتا ہےتو معلوم ہوتاہےکہ وہ سیدھی ہے ۔ اسی طرح شدید  محبت اور شدید نفرت  بھی انسان کو چیزوں اور حالات و واقعات  کی تہہ  تک نہیں پہنچنے دیتیں ۔ غصے  کی حالت میں انسان کے علم اور  فہم  کا بڑا حصہ  موجود  ہو کر بھی غیر موجود  ہوجاتا ہے ۔ اس لیے مرزا یاس یگانہ چنگیزی نے بالکل ٹھیک کہا ہے؟

علم کیا علم کی حقیقت کیا

جیسی  جس کے گمان میں آئی

عقل اپنی جگہ  ایک حقیقت  اور انسان کی ضرورت ہے ، مگر عقل صحیح  طرح  سےکام کرنے کے لیے علم وحی  کی محتاج ہے ، با لکل  اسی طرح  جس طرح آنکھیں  دیکھنے کے لیے بنائی گئی ہیں مگر دیکھنے کی صلاحیت کے لیے وہ ( سورج کی )  روشنی کی محتاج ہیں۔ قرآن مجید انسان کے گمان کو علم تسلیم نہیں کرتا، بلکہ وہ تو یہ تک  کہتا ہے  کہ بعض  گمان  گناہ  ہوتے ہیں۔ قرآن مجید  اپنے آغاز ہی میں یہ دعویٰ  کرتاہے کہ یہ ایک  ایسی کتاب ہے جس میں شک  نہیں ۔ اس کےبرعکس جدید فلسفے کی بنیاد یقین کے بجائے  شک پر رکھی  ہوئی ہے۔ اقبال کا ایک مشہور شعر ہے؟

مرا دل  مری رزم  گاہِ حیات

گمانوں  کے لشکر  یقیں  کا ثبات

کہنے کو یہ اقبال کی ذاتی  واردات کا بیان ہے لیکن در حقیقت یہ شعر جدید پڑھے لگے مسلمانوں کی ایک اجتماعی تصویر ہے۔ اس تصویر میں یقین  علم وحی کی ‘‘ عطا’’  ہے او رگمانوں  کے لشکر  جدید علوم کی ‘‘ بخشش  ’’ ہیں۔

اسلام کا ایک کمال  یہ ہے کہ وہ علم کو مجرد  نہیں رہنے دیتا ۔ اسلام کہتا ہے کہ علم کو عمل میں ڈھالو۔ یعنی  خیال کو تجربہ  بناؤ ۔ اگر تم  ایسا نہیں  کرو گے تو  تمہارا  علم مجرد رہ جائے گا ۔ مجرد  علم او رعمل میں ڈھل  جانے والے علم میں وہی فرق ہے جو گلاب کے پھول  کی تصویر  اور گلاب کے پودے پر لگے ہوئے گلاب میں ہے ۔ پوری انسانیت  او رخود مسلمانوں کی تاریخ میں یہ مسئلہ اتنا اہم ہے کہ اسے سمجھے بغیر ہم اپنی تاریخ کے مختلف  مراحل  کی معنویت  کونہیں  سمجھ سکتے  ۔ اقبال نے اپنے ایک شعر میں کہا ہے؟

 رہ گئی رسمِ اذاں  روحِ  بلالی نہ رہی

فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی

سوال یہ ہے کہ اس شعر میں ‘‘ روح بلالی’’  اور ‘‘ تلقینِ غزالی’’ کامفہوم  کیا ہے؟ روحِ  بلالی کا مطلب یہ ہے کہ اذان کے کلمات حضرت بلال رضی اللہ عنہ  کے لیے ‘‘ قال ’’ نہیں تھے، ‘‘ حال’’  تھے ۔ جب  کہتے تھے کہ اللہ بڑا ہے تو انہوں نے اللہ کی بڑائی کو بسر کرکے دکھایا ہوتا تھا ۔ بلاشبہ تلقینِ غزالی میں غزالی کاعلم اور ان کا اسلوب بھی شامل ہے مگر اپنی اصل  میں تلقین غزالی اسلام  کو بسر  کرنے کا تجربہ ہے۔ یعنی  غزالی کے لیے اسلام کوئی ذہنی  حقیقت  نہیں تھا بلکہ ایک ایسی واردات تھا جو ان کے پورے وجود کو گرفت  میں لیے ہوئے تھی ۔ مسلمان  جب تا تاریوں  سے  پٹ  رہے تھے تو وہ کافر اور مشرک  نہیں ہو گئے تھے اور ان کی علمی  میراث فنانہیں  ہوگئی  تھی، اصل مسئلہ یہ تھا کہ مسلمان علم کو بسر کرنے والے نہیں رہ گئے تھے ۔ چنانچہ  ان کے پاس علم تو تھا مگر اس میں زندگی  نہیں تھی ۔ ان کے پاس علم کا بیان تھا مگر اس میں ‘‘ تاثیر’’  نہیں تھی  ، و ہ لوگوں کو منقلب  کرنے والا نہیں رہا تھا۔ اس وقت بھی مسلمانوں کو اصل کمزوری یہی ہے۔ مسلمانوں  نے جہاں  اسلام کوبسر  کر کے دکھا یا ہے وہاں انہوں نے بہت بڑے نتائج  پیدا کیے  ہیں ۔ اس کی ایک مثال مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ  کا علم کلام  ہے جس نے کروڑوں مسلمانوں کی زندگی  کو بدلا ہے۔ اس  کی  دوسری  مثال  افغانستان  ہے جہاں مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی  جماعت  نے جہاد کو ‘‘ بسر’’  کر کے دکھا دیا ۔ نتیجہ  یہ کہ افغانستان  میں  30 سال کی مختصر سی مدت  میں وقت کیے دو سپر پاور ز کو شکست ہوگئی ہے۔ اقبال نے اس سلسلے  میں ایک اہم بات کہی  ہے۔ انہوں نے کہا :

یا مردہ  ہے یا نزع کے عالم میں گرفتار

جو فلسفہ  لکھا نہ گیا  خونِ جگرسے

 یہ صرف فلسفےکی بات نہیں ....... شاعری  ہو یا علم،  جس چیز میں خونِ جگر شامل نہیں  ہوتا اُس  میں نہ معنویت ہوتی ہے نہ حسن و جمال اور نہ ہی وہ چیز زیادہ دنوں تک زندہ رہتی ہے۔

اسلام میں علم کی ایک شان  یہ ہے کہ علم اصل میں اللہ تعالیٰ کی ذات ، صفات ،احکامات اور آیات کے علم کو کہتے ہیں ۔ لیکن اسلام میں علم کی پوری  روایت خدا مرکز یا  Centric God  ہے۔ بعض  لوگ اس سے یہ مراد لیتے ہیں کہ اسلام کی علمی روایت میں انسان او رمادے کاکوئی مقام  نہیں ۔ لیکن  یہ خیال  درست نہیں ۔ احکامات اور آیات کےعلم میں انسان اور مادے کاعلم شامل  ہے ۔ یہی  وجہ ہے کہ مسلمانوں  نے علم کی جتنی  بری روایت  پیدا کی ہے دوسری امتیں  اس کا تصور  بھی نہیں کرسکتیں ۔ مسلمانوں نے تفسیر  کا غیر معمولی علم پیدا کیا ہے۔ علمِ  حدیث کا بحرِ زخار  تخلیق  کیا ہے۔ وہ فقہ کے سمندر  کو وجود بخشنے والے ہیں ۔ انہوں نے شاعری کی کائنات تخلیق  کی ہے۔  انہوں نے علمِ  کلام کے دریا بہائے ہیں ۔ انہوں نے  اپنے علم سے آدھی سے زیادہ دنیا کو فتح کیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ مسلمان جتنا کچھ کرچکے ہیں اُس  سےزیادہ کا امکان اپنے اندر رکھتے ہیں۔ اس لیے  کہ ان کے پاس قرآن ہے۔ اس لیے  کہ ان کے پاس اسوۂ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔

20 جون ، 2013  بشکریہ : روز نامہ اود ھ نامہ ، لکھنؤ

URL:

https://newageislam.com/urdu-section/importance-knowledge-human-life-/d/12197

 

Loading..

Loading..