سہیل ارشد، نیو ایج اسلام
12 اپریل 2024
سائنسی تحقیق کے مطابق اس
زمین پر انسان لاکھوں برس سے آباد ہیں۔ ایسے انسانی ڈھانچے اور کھوپڑیاں دریافت
ہوئی ہیں جو لاکھوں برس پرانی مانی جاتی ہیں۔مذہبی صحیفے زمین پر انسان کی عمر
نہیں بتاتے لیکن ان کے مطابق زمین پر انسانی نسل حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت
حوا علیہ السلام سے پھیلی اور انہیں اللہ نے تخلیق کیا۔
مسلمانوں کا یہ بھی عقیدہ
ہے کہ دنیا میں انسانوں کی ہدایت کے لئے تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر آئے۔
ان انبیاء نے انسانوں کو اخلاقی اقدار ، سماجی آداب اور عبادت کےطور طریقے
سکھائے۔ابتدائی دور میں دنیا کے مختلف علاقوں میں ایک ہی وقت میں کئی انبیاء مبعوث
کئےجاتے تھے۔ الگ الگ بستیوں اور لسانی قوموں میں انیی کی زبان بولنے والے انبیاء
مبعوث کئے جاتے تھے۔ مثال کے طور پر حضرت ابراییم علیہ السلام کو مصر کے لوگوں کی
ہدایت کے لئے مبعوث کیا گیا۔ اسی دور میں ان کے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام کو
سدوم کے علاقے کی قوم میں مبعوث کیا گیا۔ ان انبیاء کی امتیں ایک محدود علاقے میں
آباد ہوتی تھیں اور ان کی آبادی بھی کم ہوتی تھی۔ جیسے حضرت یونس علیہ السلام۔کو
موجودہ عراق کے نینوا میں مبعوث کیا گیا تھا اور ان کی قوم کی آبادی ایک لاکھ سے
کچھ زیادہ تھی۔ حضرت موسی علیہ السلام کو مصر میں مبعوث کیا گیا جہاں فرعون کی
سلطنت تھی۔ اسی دور میں مدین میں حضرت شعیب علیہ السلام نبوت کے فرائض انجام دے
رہے تھے۔ اسی طرح مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک دنیا کے ہر خطے میں انبیاء
کرام اللہ کی طرف سے دینی اور اخلاقی تعلیمات کی تبلیغ و اشاعت کررہے تھے۔
بہر حال جیسے جیسے انبیاء
کی تعلیم وتربیت کے نتیجے میں انسان تہذیب یافتہ ہوتا گیا اور اس کی عقل اور اس کا
شعور بالیدہ ہوتا گیا ویسے ویسے انبیاء کرام کے دائرہ ء کار میں بھی وسعت آتی گئی
اور ان کے درمیان وقفہ بھی زیادہ ہوتا گیا۔ مثال کے طور پر حضرت عیسی علیہ السلام
کو فلسطین میں مبعوث کیا گیا لیکن ان کے بعد ان کے حوارہوں نے دور دراز کے خطوں
میں ان کے پیغام اور تعلیمات کی اشاعت کی۔ اس طرح حضرت عیسی علیہ السلام کے دور سے
بڑے پیمانے پر دین کی تبلیغ واشاعت کی روایت کا آغاز ہوا۔ اس طرح حضرت عیسی علیہ
السلام کسی خاص قوم یا بستی کے لئے مخصوص نہیں رہ گئے۔ ان کے بعد تقریباً چھ سو
سال تک دنیا میں کوئی نبی نہیں آیااور تمام دنیا کے لئے حضرت عیسی علیہ السلام کی
تعلیمات چھ سو سال تک آفاقی حیثیت کی حامل رہیں۔ قرآن میں کہا گیا ہے۔
"اے کتاب والو آیا ہے تمہارے پاس رسولہماراکھولتا ہے تم پر
رسولوں کے انقطاع کے بعد کبھی تم کہنے لگو کہ ہمارے پاس نہ آیا کوئی خوشی یا ڈر
سنانے والا ، سو آچکا تمہارے پاس خوشی اور ڈر سنانے والا۔اور اللہ ہر چیز پر قادر
ہے۔ "(المائدہ:19)۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے
کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے بعد چھ سو سال تک نبوت کا سلسلہ عارضی طور پرمنقطع
رکھا گیا ۔ اس دوران حضرت عیسی علیہ السلام تمام عالم انسانیت کے آفاقی رسول تھے۔
ساتویں صدی میں حضرت محمد ﷺ کو نبوت عطا کی گئی اور انہیں قرآن عطا کیا گیا جس میں
پچھلی تمام آسمانی کتابوں کا نچوڑ اور نئے دور کے تقاضوں کے مطابق دینی اور اخلاقی
تعلیمات بھی شامل ہیں۔۔ قرآن آخری آسمانی کتاب ہے اور سورہ الاحزاب کی آیت نمبر 40
کے مطابق حضرت محمد ﷺ آخری نبی اور رسول ہیں۔انہیں قرآن میں خاتم النبین کہا گیا
ہے۔
اب یہ امر غورو فکر کا
متقاضی ہے کہ اللہ نے ساتویں صدی عیسوی میں نبوت کا سلسلہ قیامت تک کے لئے کیوں
ختم کردیا جبکہ نبی آخرزماں ﷺ کے بعد 1445 سال۔گزر چکے ہیں۔ اس سے قبل اللہ نے
زمین کو اتنی طویل مدت تک انبیاء سے خالی نہیں رکھا۔ حضرت عیسی علیہ السلام کے بعد
صرف چھ سو سال تک اللہ نے کوئی نبی نہیں بھیجا۔ تو حضرت محمد ﷺ کے بعد ہمیشہ کے
لئے نبوت کا سلسلہ بند کردینے کے پیچھے کیا مصلحت ہے جبکہ ابھی قیامت کے بھی آثار
نہیں ہے کیونکہ حضرت امام مہدی اور حضرت عیسی علیہ السلام کی آمد نہیں ہوئی ہے۔
اس کے پیچھے حکمت اور
مصلحت یہ ہو سکتی ہے کہ خدا چاہتا ہے کہ انسان انبیاء کی تعلیمات کے سہارے اب اپنے
شعور کو ترقی دے اور اب اپنے شعور اور حکمت ودانش کا استعمال کرکے اپنی زندگی ،
اپنے معاشرے اور اپنی دنیا کو بھی سنوارے اور آخرت میں بھی اللہ کے حضور سرخرو
ہوکر حاضر ہو۔ یہ انسانی فطرت کا تقاضہ ہے کہ جب بچہ چھوٹا ہوتا ہے اور ذہنی و
جسمانی طور پر کنزور ہوتا ہے تو باپ کی انگلی پکڑ کر چلتا ہے۔ لیکن جب وہ بڑا
ہوجاتا ہے اور اس کا جسم اور شعور بالیدہ ہوجاتا ہے تو وہ بغیر سہارے کے چلنے اور
دوڑنے لگتا ہے۔یہی حال بنی نوع انساں کا ہے۔ابتدائی دور میں انسان ذہنی اور شعوری
طور پر کمزور تھا اس لئے اسے ہر قدم پر انبیاء کی ضرورت پڑی۔ اس لئے اللہ نے اس کی
رہنمائی کے لئے تواتر کے ساتھ انبیاء بھیجے۔ لیکن جب انسان کا شعور بالیدہ ہوگیا
تو اللہ نے انبیاء کی بعثت میں وقفہ رکھ دیا اور حضرت عیسی علیہ السلام کے بعد چھ
سو سال۔کا وقفہ رکھا تاکہ وہ دیکھے کہ انسان انبیاء کی تعلیمات پر عمل۔کرتے ہوئے
خود کو کسطرح سنوار سکتا ہے اور ایک مثالی معاشرہ کی تشکیل۔کرسکتا ہے۔ چھ سوبرسوں
کے بعد اللہ نے آخری نبی کو مبعوث کیا اور قرآن کو قیامت تک۔کے لئے تمام۔انسانیت
کے لئے ہدایت اور رہنمائی کا ذریعہ بنا دیا ۔ساتویں صدی تک آتے آتے انسان ذہنی اور
شعوری طور پر بہت ترقی یافتہ ہو چکا تھا۔یہ دور عہد وسطی کے دور کا آغاز تھا جب
سائنسی ترقی کا سلسلہ شروع ہوا اور انسان نے سائنس کے میدان میں اہم ایجادات اور
دریافتیں کیں۔ قرآن کی رنمائی میں اور اس میں موجود سائنسی اشاروں سے مدد لے کر
مسلم سائنس دانوں نے سائنس کے مختلف شعبوں میں اہم دریافتیں اور ایجادات کیں جو
سائنسی تحقیق میں سنگ میل ثابت ہوئیں۔ مسلم سائنسدانوں کے علم اور دریافتوں سے فیض
حاصل کرکے مغربی سائنسدانوں نے سائنسی ترقی کے سلسلے کو آگے بڑھایا۔ اس طرح ساتویں
صدی تک انسانوں نے انبیاء کی رہمائی میں اخلاقی اور تہذیبی اقدار کو اپنے شعور اور
سیرت میں پختگی سے جمایا اور ساتویں صدی سے سائنسی ترقی پر اپنی توجہ مرکوز کی ۔
قرآن نے اخلاقی اور سائنسی دونوں پہلوؤں پر زور دیا ہے ۔ لہذا،انسان نے اخلاقی
پہلو کو پختگی عطا کرنے کے بعد سائنسی پہلو پر اپنا سارازور صرف کیا تاکہ سائنسی
دریافتیں اور ایجادات انسان کو بے قابو اور بے راہ نہ کردیں۔اگرسائنس اخلاقی اور
تہذیبی قدروں سے بے نیاز ہو جائے تو یہ دنیا سائنسی قوتوں کے غلط استعمال کی وجہ
سے جہنم بن جائے اور انسانوں کو فائدے کے بجائے نقصان پہنچائے۔ یہی وجہ ہے کہ
ساتویں صدی تک انسانوں میں اخلاقی اور دینی تعلیمات کی اشاعت کے لئے انبیاء بھیجے
گئے اور ساتویں صدی سے اس کے لئے سائنسی علم و دانش کے دروازے کھول دیئےگئے تاکہ
انسان کا سائنسی شعور اخلاقی قدروں کے دائرے میں رہے۔
اگر اللہ نے قیامت تک
انسانوں کی رہنمائی کے لئے انبیاء کی بعثت کا سلسلہ قائم رکھا ہوتا تو اس کا مطلب
یہ ہوتا کہ انسان بھی دوسری مخلوقات کی طرح علم و شعور سے عاری ہے اور اس کے اندر
سیکھنے کی قوت نہیں ہے۔ وہ اشرف المخلوقات کہلانے کے لائق نہ رہتا۔ گزشتہ 1400 برسوں
میں انسان نے جتنی ترقی کی ہے وہ اپنے شعور اور عقل کی بنا پر کی ہے۔ اور دنیا اور
کائنات کے اسرار پر سے پرہ اٹھانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ وہ چاند اور مریخ پر
پہنچ چکا ہے اور نئے جہانوں کی تلاش میں سرگرداں ہے۔اس کے ساتھ ہی اس نے انبیاء کی
تعلیمات کی بنیاد پر اخلاقی اقدار کو سائنسی قوتوں کے استعمال کی بنیادبنایا ہے۔
اس لئے سائنسی قوتوں کے صحیح یا غلط استعمال کا فیصلہ انبیاء کی اخلاقی تعلیمات کی
کسوٹی پر ہی ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے مذاہب عالم کی تاریخ میں ساتویں صدی کی بہت اہمیت
ہے ۔
----------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism