محمد نوید دیوبندی
9 نومبر، 2014
مولاناابوالکلام آزاد رحمۃ اللہ علیہ ( محی الدین احمد آزاد) کی شخصیت ناقابل فراموش ہے، آج ہندوستان کے جو لہلہاتے چمن ہمارےسامنے ہیں ان کو انگریزوں کے چنگل سے آزاد کرانے میں جن شخصیات نے اپنی تمام ترکوششیں ہندوستان کے آزاد کرانے میں لگائیں ان میں سے ایک مایہ ناز شخصیت مولانا آزاد کی ہے، مولانا آزاد 11 نومبر 1888 کو سعودی عرب ( حجاز) میں پیدا ہوئے اور 10 برس تک عرب (حجاز) میں ہی رہے ، مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے والد ہندوستانی تھے اور والدہ عربی تھیں، پھر 10 سال بعد مولانا اپنے والد کے ہمراہ ہندوستان تشریف لائے ۔ مولانا ابوالکلام آزاد ہندوستان کی آزادی اور ہندوستان کی تعمیر نو کے سالاروں میں میں سے ایک تھے ۔ یہ ایک خوبصورت اتفاق تھا کہ ہندوستان کے دو عظیم مجاہد ( مولانا ابوالکلام آزاد، پنڈت جواہر لال نہرو ) ایک سال کے وقفہ سے پیدا ہوئے ، پنڈت جواہر لال نہرو 1889 میں پیدا ہوئے او رمولاناابوالکلام آزاد 1888 میں ، اور ان دونوں مجاہدوں کی پیدائش سےچند سال پہلے ہی کانگریس کا قیام عمل میں آیا تھا ۔ مولانا ابوالکلام آزاد رحمۃ اللہ علیہ نے نسبتاً کم عمر ہی سے فکر آزادی اور خیال سازی کے شعلے بھڑکانے شروع کردیئے تھے ،مولانا بیسویں صدی کے نصف اول کے دوران مسلمانوں کے مذہبی تفکر کا روشن ترین مرکز اجتہاد رہے ، ایسے کہ اسلامی تاریخ کے ایوان دانش کو ان کیلئے ایک خاص نشست قائم کرنی پڑی ، جنہوں نے اسی عرصہ میں آزادی کی تحریک میں نمائندگی کی اہم جگہ کو بے پناہ اہلیت کے ساتھ پر کیا اور آئندہ سیکولر جمہوری، جدید اور شمولیت پسندانہ ہندوستانی شبیہ اور منصوبہ سازی میں نا قابل فراموش فکر ی اور عملی عطیات پیش کیے۔ مولانا آزاد ایک عالم ، صحافی، مصنف ، شاعر، مفکر ، فلسفی ، اور سب سے بڑھ کر اپنے زمانے کے ایک بڑے عالم دین تھے ۔مولانا آزاد ہندوستان کی مختلف قوموں خاص کر ہندو مسلم اتحاد کے حامی تھے ،مولانا زندگی بھر دو دشمنوں سےلڑتے رہے ایک برطانوی حکومت اور دوسرے ہندوستان کے ان لوگوں سے جو آپسی بھائی چارہ میں اتفاق نہیں رکھتے تھے ۔
مولانا آزاد رحمۃ اللہ علیہ کے اندر ایک خوبی یہ تھی کہ مولانا اپنی عمر سے زیادہ بڑے کام بڑی آسانی سے انجام دیتے تھے ،انہوں نے نہ صرف بارہ سال کم عمر ہی میں ایک لائبریری ، پڑھنے کے لئے ایک مخصوص کمرہ ( ریڈنگ روم) اور بحث و مباحثہ کے لئے ایک سوسائٹی قائم کی تھی ۔ بلکہ مولانا نے 13 سال سےلیکر 18 سال کی عمر میں کئی رسالوں کی نمائندگی بھی کی اور مولانا پندرہ سال کی عمر میں اپنی عمر سے دو گنی عمر کےطالب علموں کو تعلیم دیا کرتے تھے ۔ جب مولانا 16 سال کے ہوئے تب ایک رسالہ اپنی ادارت میں شائع کرنا شروع کیا، 1923 میں جب مولانا کو انڈین کانگریس کا صدر منتخب کیا گیا تو پنڈت جواہر لال نہر و نے مولانا کے صدر منتخب ہونے پر کہا تھاکہ ‘‘ مولانا کانگریس کے سب سے کم عمر صدر ہیں ’’۔1901 میں وہ کمزور سانوجوان لیکن بلند حوصلہ والا سلگتے دل لیکن ٹھنڈے دماغ والا ، نفاست کا عادی لیکن فیصلہ کا اٹل، بلا کا ذہن مگر نرم مزاج ، عظیم ہندوستانی سپاہیوں کی اس فوج میں شامل ہونے کاارادہ رکھتا تھا جو قوم کی آزادی کی راہ کی طرف گامزن تھی ۔ مولانا آزاد اپنے پیارے وطن اور اس کے باشندوں کے لئے ہر طرح کی تکلیف برداشت کرنے اور قربانی پیش کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہا کرتے تھے ۔ 1904 میں لاہور کے لوگوں نے ( جو مولانا کے مضامین سے بہت متاثر تھے ) مولانا آزاد رحمۃ اللہ علیہ کو ایک بہت بڑے جلسہ میں خطاب کی دعوت دی ان کے استقبال کے لیےلاہور اسٹیشن پر ہزاروں لوگوں کی بھیڑ تھی، جب ایک دبلا پتلا ، ایک گورا چٹا نوجوان جس کے ابھی داڑھی بھی نہیں آئی تھی ، ٹرین سےباہر آیا تو لوگ حیرت زدہ رہ گئے ۔ لیکن جب اسی 16سالہ نوجوان نے ڈھائی گھنٹے کی زبردست تقریر کی تو 63 سالہ جلسہ کے صدر، شاعر، نقاد اور عالم مولانا حالی نے انہیں گلے لگایا اور کہا ‘‘کہ مجھے اپنی آنکھوں اور کانوں پر تو بہر حال یقین کرنا پڑا لیکن حیرت مجھے اب بھی ہے’’۔ مولانا آزاد یہ محسوس کرتے تھے کہ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد بعض وجوہات کی بنا ء پر مسلمان اپنے دوسرے بھائیوں سے پیچھے رہ گئے تھے ، ان میں سے بہت سے یہ سمجھتے تھے کہ انگریزوں کے خلاف لڑنا بے کار ہے کیونکہ اب ہندوستان پر ہمیشہ انگریزوں کی حکومت ہوگی ، مولانا اپنے مضامین کے ذریعہ لوگو ں کو للکار تے تھے، کہ آزادی حاصل کرنا نہ صرف ایک قومی تقاضہ ہے بلکہ مذہبی فریضہ بھی ہے ۔ ایک مرتبہ مولانا آزاد نے اعلان کیا کہ ‘‘ مسلمانوں کے لئے یہ آسان ہے کہ وہ سانپوں اور بچھوؤں کے ساتھ امن سے رہیں، پہاڑوں پر جاکر غاروں میں رہنے لگیں، جنگلی جانوروں کے ساتھ امن سے رہیں لیکن ان کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ انگریزوں سے صلح کی بھیک مانگیں ’’۔
اپنے اس پیغام کو لوگوں تک پہنچانے کے لئے مولانا نے 1912 میں اپنا مشہور ہفتہ واری اخبار ‘‘ الہلال’’ شائع کیا ، آج بھی غور کریں تو تعجب ہوگا کہ ‘‘ الہلال’’ ہند اور بیرون ہند کتنی جلدی کتنا مقبول ہوگیا تھا ۔ چند مہینوں کے اندر ‘‘ الہلال’’ کی 26 ہزار کاپیاں چھپنے لگیں تھیں، لوگ جمع ہوکر سبق کی طرح اخبار کے ایک ایک حروف کو بغور سے سنتے اور پڑھتے تھے ، کم ہی عرصہ میں اخبار نے لوگوں کے اندر بیداری کی ایک لہر پیدا کردی ، نہ صرف مسلمانوں میں بلکہ دوسرے لوگوں میں بھی ، کیونکہ اس زمانہ میں اردو سے بہت لوگ واقفیت رکھتے تھے ۔ اس حیرت انگیز صورت حال کو دیکھ کر انگریز حکومت نے مولانا سے پہلے 5 ہزار کی ضمانت مانگی اور ضبط کرلی، پھر 10 ہزار کی ضمانت مانگی اور ضبط کرلی ، آخر میں مولانا آزاد رحمۃ اللہ علیہ کو حکومت کے خلاف لکھنے کی وجہ سے جلا وطن کردیا گیا۔ مولانا آزاد رحمۃ اللہ علیہ کا شروع سے اس بات پر یقین تھا کہ ہندو مسلم اتحاد کے بغیر ہندوستان کے لوگ ایک منظّم او ربڑی قوم نہیں بن سکتے ہیں ،مولانا آزاد نے اپنی زندگی کی قوم کے اتحاد و اتفاق کے لئے وقف کررکھا تھا ، مولانا آزاد نے انڈین نیشنل کانگریس کے اجلاس میں اپنے پہلے صدارتی خطبہ میں کہا تھا کہ ‘‘ آج اگر کوئی فرشتہ آسمان سے اتر کر دہلی کے قطب مینار کی بلندی سے اعلان کرے کہ ہندوستان کو 24 گھنٹے کے اندر ‘‘ سوراجیہ’’ مل جائے گا اگر وہ ہندو مسلم اتحاد کا خیال چھوڑ دیں ، تو میں ہندو مسلم اتحاد کے مقابلہ میں ‘‘ سوراجیہ’’ کو قبول نہیں کرونگا ، کیونکہ اگر سوراجیہ ملنے میں دیر ہو تو صرف ہندوستان کا نقصان ہوگا ، لیکن اگر ہندو مسلم اتحاد نہ ہوسکا تو پوری دنیا کی انسانیت کا نقصان ہوگا’’۔
بہت سے لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے مولانا کی مخالفت کی ، اور ان کو طرح طرح کے نام دیے مولانا رحمۃ اللہ علیہ کا مذاق اڑایا ، لیکن مولانا آزاد رحمۃ اللہ علیہ ثابت قدم رہے او ران کے ساتھ صلح نہ کی۔ جب گاندھی جی نے ہندو مسلم اتحاد قائم کرنے کے لئے 21 دن تک ‘‘ آمرن انشن برت’’ رکھا تھا ، مولانا اس سلسلہ میں ہر فرقے کے پاس جاکر آپس میں صلح کی تلقین کرتے ، اور گاندھی جی سے برت ختم کرنے کی درخواست کرتے رہے ۔ اسی طرح مولانا آزاد رحمۃ اللہ علیہ ہندوستان میں اتحاد کے لئے بہت دوڑ دھوپ کرتے رہے ، دراصل اپنے وطن اور اس کے باشندوں سے محبت اور اپنے فرض کا یہ احساس ہی تھاکہ جس نے ایک پڑھنے لکھنے والے شخص کو کتب خانہ سے نکال کر لاکھوں لوگوں کے درمیان لا کر کھڑا کردیا ۔ لیکن فریب کارانہ جذباتیت کی آندھی نے اس آفاقی اور فطری سچائی پر دھول بکھیر دی ۔ او رملک تقسیم ہوگیا لیکن اس وقتی شکست کے باوجود مولانا کا متحدہ قومیت کا تصور آج بھی اتنا ہی مبنی بر حق ہے جتنا اس وقت تھا ۔ 15 اگست 1947 ء کو ہندوستان آزاد ہوگیا، تمام بڑے بڑے رہنماؤں نے اس کا دکھے دل سے خیر مقدم کیا کیونکہ ان کا متحدہ ہندوستان کا خواب خواب ہی رہ گیا تھا، ہندوستان کا بٹوارہ ہوگیا لیکن مولانا آزاد اطمینان کا سانس لئے بغیر و ترقی میں مصروف ہوگئے ۔ اپنی خراب صحت او رقلم وکتاب پھر سے اٹھا لینے کی اپنی خواہش کے باوجود مولانا آزاد نے نئی ذمہ داریوں کو قبول کیا۔ ہندوستان کے پہلے وزیر برائے تعلیم و تمدن اور فنون لطیفہ کی حیثیت سے وہ ایک ایسی تعلیم رائج کرنا چاہتے تھے جو ہندوستانیوں میں ایک نیا ذہن پیدا کرے ، انہوں نے اسکول ، کالج اور یونیورسٹیاں قائم کرنے کے علاوہ ہندوستان کے تمدن کو نئی زندگی دینے کے لئے ساہتیہ اکیڈمی ، سنگیت ناٹک اکیڈمی، للت کلا اکیڈمی اور انڈین کاؤنسل برائے تمدنی تعلقات جیسے ادارے قائم کئے ۔ اس کے علاوہ مولانا اخیر تک ہندومسلم اتحاد کی ترغیب دیتے رہے۔ اور 22 فروری 1958 کو ہماری قوم کا ایک روشن چراغ گل ہوگیا ۔
9 نومبر، 2014 بشکریہ : روز نامہ صحافت، دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/imam-ul-hind-maulana-abul/d/99975