امام محمد جمال داؤدی
13 نومبر 2015
جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مذہبی آزادی سے لطف اندوز ہونے اور سب سے پہلی مسلم کمیونٹی قائم کرنے کے لئے مدینہ منورہ کو ہجرت کیا تو اس وقت مدینہ ایک متنوع شہر تھا جس میں ایک بڑی تعداد میں مسلمان، یہودی، عیسائی، کفار ، مشرکین، قبائل، اقوام، امیر، غریب، آقا اور غلام آباد تھے۔ اس زمانے میں قبائلی وابستگی کا بھی احساس پایا جا تا تھا، اور ان کی آمدنی کے ذرائع مختلف تھے جن میں تجارت، زراعت، صنعت اور مویشیوں کو چرانا شامل ہیں۔ مدینہ میں دیہات اور چھوٹے چھوٹے شہر تھے۔
اسلام کا سب سے پہلا آئین تقریبا 626عیسوی میں مرتب کیا گیا تھا جو 52 شقوں پر مشتمل تھا، اور اسے مکمل طور پر محفوظ قدیم ترین دستاویز اور ایک کامل آئین سمجھا جاتا ہے۔ دیگر قدیم قوانین اسی اصل سے ماخوذ ہیں۔ اگر اس آئین کو ایک ساتھ جمع کیا جائے تو یہ ایک سب سے بڑے مشن کی شکل اختیار کر لیتا ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکمل کیا تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو متوازی ستون پر اس کی تعمیر کر کے اس کارنامے کو انجام دیا تھا، سب سے پہلے کا تعلق ان لوگوں سے تھا جو خدا پر اور پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھنے والے تھے، اور دوسرے کا تعلق تمام شہریوں کے درمیان بقائے باہمی اور پر امن نظام زندگی سے تھا۔
میں اس دستاویز سے چند اصولوں کا تجزیہ کر رہا ہوں اس لیے کہ میں ان باتوں کا جواب پیش کر رہا ہوں جن کے تعلق سے مسلمانوں کی جانب سے غیر مسلموں کی قبولیت کے بارے میں غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ یہ دستاویز گوگل پر تلاش کیا جا سکتا ہےلیکن اکثر قبائل کے نام عصر حاضر کے قارئین کے لئے غیر افادیت بخش ہو چکے ہیں۔
ایک قوم کا تصور: آئین مدینہ میں رہنے والے تمام لوگوں سے متعلق ہے اور اس سے ایک قوم یا اس سے تعلق رکھنے کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ یعنی اس میں مکہ کے تارکین وطن، مدینہ منورہ کے باشندے، ہمسایہ قبائل، اور ان کے ساتھ اور ان کے لئے لڑنے والے لوگ شامل ہیں۔ سب سے پہلے اسے قبیلے سے وفاداری کا کا نام دیا گیا تھا اس کے بعد مزید وہ ایک قوم کی شکل اختیار کر گیا۔
اس معاشرے میں موجود ہر ایک طبقے کے خصوصی، مذہبی روایتی اور ثقافتی پہلو کو تسلیم کرنا اور انہیں قبول کرنا۔ آج کل، گلوبلائزیشن دیگر ثقافتوں کی انفرادی شناخت کو تسلیم نہیں کرتا اور جمہوریت، آزادی اور تعلیم وغیرہ کی مختلف شکلوں کو یکساں کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تاہم، اسلام نے پہلے ہی دن سے دیگر ثقافتوں اور ان کی انفرادیت کو تسلیم کیا ہے۔
اس دستاویز پر دستخط کرنے اور اس پر اتفاق کرنے والے تمام شہریوں کے درمیان مالی مشکلات، خاندان کے ارکان، بیماری، غربت، بے گھر، تاوان، ناخواندگی، ظلم و زیادتی اور عصر حاضر میں پائے جانے والے سوشل سیکورٹی کے تصور کے مقابلے میں دیگر بے شمار معاملات میں خصوصی تعاون کرنا۔
وفاداری اور تعلقات میں بدعنوانی کی ممانعت: غریب اورمالدار، آقا اور غلام، اعلیٰ اور ادنیٰ، سیاہ، سفید اور سرخ تمام لوگ قانون کی نظر میں یکساں ہے۔ قانوں کی نظر میں اور ایک دوسرے کے درمیان تمام شہریوں کو یکساں مانا جائے گا؛ یہ عصر حاضر کی زبان میں سماجی، اقتصادی، سیاسی و مذہبی انصاف اور یکساں مواقع کے مقابلے میں کہیں زیادہ وسیع ہے۔
قوانین کی خلاف ورزی یا اس کے غلط استعمال کو مسترد کرنے میں تمام شہریوں کے درمیان مکمل اور جامع تعاون، اگر چہ اس کا تعلق کسی کے اپنے ہی خاندان کے کسی بالغ یا نوجوان فرد سے ہی کیوں نہ ہو؛ تمام فرائض اور ذمہ داریوں میں برابر اور یکساں ہیں۔ اس آئین کے تحت تمام شہریوں کو ایک ہی خاندان کا ایک خوبصورت ٹکڑا تصور کیا جاتا تھا۔ جس میں ہر طبقے کی اپنی ایک الگ خصوصیت، خلوت اور حد تھی۔
مشترکہ دفاع: اس آئین کے مطابق مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کو ایک دوسرے کا دفاع کرنا چاہئے، اور اس کے قوانین اور قواعد و ضوابط تمام شہریوں اور ان کے نمائندوں کی مکمل مشاورت سے ہی بنائے گئے ہیں۔
جو شخص اس آئین کی کسی بھی شق کی خلاف ورزی کرے گا اور امن شکنی کرے گا وہ اس آئین کی طرف سے حاصل اپنے تمام مراعات سے محروم کر دیا جائے گا، اور اسے اس کے نتائج کا بھی سامنا کرنا ہو گا، اور کوئی بھی شخص کسی دوسرے کا ذمہ دار نہیں ہو گا۔
ان تما قوانین نے مدینہ کو ایک ایسا مقدس شہر بنا دیا تھا جس میں تمام لوگ امن اور ہم آہنگی سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ یہ دستاویز صرف جنگ کے حالات کے لئے نہیں بلکہ خوشحال اوقات کے لئے بھی تیار کیا گیا تھا۔
اسلام کے اس سب سے پہلے آئین کے بارے میں لکھنے کا میرا بنیادی مقصد اس بات پر زور دینا ہے کہ اسلام نے دوسروں کو تسلیم کیا ہے، اختلافات کو قبول کیا ہے اور ان تمام لوگوں کو ایک شہری تسلیم کیا ہے۔ اسلام کے پہلے دن سے ہی شہریت اور مساوات کا تصورات قائم ہو چکا تھا۔ یہ دستاویز وسیع پیمانے پر پھیلا ہوا ہے، بہت سی زبانوں میں دستیاب ہے اور ان تک رسائی بہت آسان ہے۔ یہ ان تمام باتوں کی تردید کرتا ہے جو انتہا پسند انسانوں کے خلاف اپنے مظالم کا جواز پیش کرنے میں دعوی کرتے ہیں۔ اس سے اس بات کی تصدیق بھی ہوتی ہے کہ اسلام امن اور بقائے باہمی، بخشش اور رواداری کا پیغام لیکر آیا ہے۔
یہ اس اسلامی ریاست کا سب سے پہلا نمونہ ہے جس کی بنیاد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھی تھی۔
ماخذ:
goo.gl/SaO9LL
URL for English article:
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/islam-first-constitution-shows-religion/d/106036