ڈاکٹراصغر
علی انجینئر (انگریزی سے ترجمہ۔ سمیع الرحمٰن
، نیو ایج اسلام ڈاٹ کام)
ہمارا
مذہب سب سے زیادہ ترقی پسند مذاہب میں سے ایک ہے۔پیغمبر محمدﷺ اپنے تصورات میں حیران
کن طور پر کشادہ اور جدیدطرز نظر کے تھے۔آپ ﷺ نے الٰہی الفاظ کے ذریعہ نہ صرف اپنے
سے پہلے کے مذاہب کے وجود تسلیم کیا بلکہ اس بات پر زور دیا کہ اگردوسرے مذاہب کے لوگ
مسلمانوں کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھاتے ہیں تومسلمانوں کو انکے ساتھ پرامن بقائے باہم
کو فروغ دینا چاہۓ۔
تمام
مذاہب کے درمیان ہم آہنگی اور بقائے باہم کو فروغ دینے کے لئے آپ ﷺ نے مدینہ کے معاہدے
کو فروغ دیا اور سبھی کو ایک قبیلہ کہا۔قرآن ضمیر کی آزادی (لا اکراہ فی الدین...2:256) کے اصول پر زور دیتا
ہے جو اس زمانےمیں کسی انقلابی نظریے سے کم نہ تھا۔یہ انسانی حقوق کا بھی پیشوا ہے،
کیونکہ یہ اعلان کرتا ہے: ’ہم نے بنی آدم کوبرابر عزت بخشی ہے‘(17:70(
قرآن
صنفی مساوات کا بھی اعلان کرتا ہے: ’اور عورتوں کا حق (مردوں پر)ویسا ہی ہے جیسے دستور
کے مطابق (مردوں کا حق)عورتوں پر ہے۔‘یہ انقلابی اعلانات ہیں۔دنیا انسانوں کے مساوی
وقار ، صنفی مساوات اور ضمیر کی آزادی کے تصور سے 20ویں صدی میں روبرو ہوئی جبکہ اسلام
نے 1400سال پہلے ہی ان کا اعلان کر دیا تھا۔
لیکن
آج ہمیں اسلامی دنیا کا طرزعمل قرآن کے بالکل خلاف نظر آتا ہے۔جبکہ کئی لوگ الزام لگاتے
ہیں کہ اسلام انسانی آزادی کی اجازت نہیں دیتا ہے اور انسانی حقوق سے بھی انکار کرتا
ہے اور خواتین کومسلم دنیا میں محدود اختیارات ہی حاصل ہیں۔ایسا جزوی طور پر غلط تصورات
کے سبب ہے اور جزوی طور پر مسلم دنیا بھی ان تمام کے لئے زمہ دار ہے۔مسلم دنیا میں
جو قدامت پسندی آج ہم پاتے ہیں وہ ثقافتی اور سماجی ڈھانچے کے سبب ہے، کیونکہ صدیوں
کے بادشاہی حکومت اور نوآبادیاتی حکومت کے سبب موروثی اقدار کو تقویت حاصل ہوئی ہے۔
ان صدیوں
میں فقہا کے ذریعہ اس سلسلہ میں جو بھی کام کیا گیا اسے اسلام کی مستند تعلیمات کے طور پر لیا گیا جو
اس کے اقدار کی نمائندگی کرتا تھا۔تاہم، حقیقت یہ ہے کہ قرون وسطیٰ کے اوائل زمانے
کے لئے قرآن کی اس طرح کی انقالابی تعلیمات کو قبول کرنا آسان نہیں تھا اور ایسے میں
سماجی اقدار غالب آگئےتھے اور قرآنی کے اصول پر مبنی سماج کے قیام کا خواب نا مکمل
رہ گیاتھا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اس خواب کو اور مضبوطی سے شرمندۂ تعبیر کیا جائے ۔
نبی
کریم ﷺ نے اپنی دور اندیشی سے پہلے ہی یہ احساس کر لیا تھا کہ قرآنی تعلیمات کو آسانی
سے قبول نہیں کیا جائیگا، کیونکہ رائج سماجی ڈھانچہ قرآنی اقدار کو مغلوب کرنے کی کوشش
کرے گا۔اس کے علاوہ وہ چاہتے تھے کہ سماج ترقی پذیر ہو اوریہ جمودکا شکار نہ ہو۔اسی
لئے آپ ﷺ نے شریعت میں اجتہاد کے اصول کی گنجائش رکھی یعنی سماج میں پیش آنے والے نئے
مسائل کے حل کے لئے انسانی فہم و شعور پر زیادہ زور دینا۔
اس اصول
کاتعلّق صحابی معاز بن جبل کی ذکرکردہ حدیث سے ہے جنہیں رسول اللہ ﷺ نے یمن کا گورنر
مقرر کیا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ جب کسی مسئلے کا حل قرآن اور سنت
میں نہ پاؤ تو اسے اجتہاد کے ذریعہ حل کرو۔اللہ کے رسول ﷺ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ
اگر اجتہاد کرنے میں غلطی ہوتی ہے تو بھی مخلصانہ کوشش کے لئے انعام سے نوازا جائیگا
اور اگر صحیح حل تلاش کرتے ہو تو انعام دوگنا ہوگا۔
دوسرے
مذاہب کی تاریخ میں کسی کوایسی مثال کم ہی ملے گی جب روایتی انداز کے مقابلے انسانی
عقل کے ذریعہ مسائل کا حل تلاش کرنے کے لئے حوصلہ افزائی کی گئی ہو۔آگے کے راستے کو
طور پر علماء کے درمیان اجتہاد پر مکمل اتفاق ہے، اس کے باوجود المیہ یہ ہے کہ کوئی
بھی اس پر عمل کے لئے حوصلہ افزائی نہیں کرتا ہے۔ایسا اسلام کے سبب نہیں ہے بلکہ مسلم
دنیا میں رائج سماجی قدامت پسندی کے سبب ہے۔
اجتہادکاعمل
دور حاضر میں نہ صرف ایک ضروری ہے بلکہ میرے مطابق ایسے علماء پر جو قرآنی اقدار کے
پابند ہیں اور ایمان کی روح کو دوبارہ دریافت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اجتہاد لازمی
ہے ۔کئی انتہا پسندوں اور عسکریت پسند اسلامی گروپوں نے اسلامی اقدار ارو تعلیمات کے
متعلق سنگین غلط فہمیاں پیدا کی ہیں اور اپنے سیاسی ایجنڈہ کو حاصل کرنے کے لئے اس
پر قبضہ کر لیا ہے۔
پہلی
کچھ صدیوں کے مسلم اقتدار کے برعکس مسلمانوں کی بڑی تعداد غیر مسلم اکثریت والے ممالک
میں اقلیتوں کے طور پر رہتے ہیں ۔ایسے میں ان مسلمانوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک نیا
قانون بنانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ یہ لوگ بہتر اسلامی ضمیر کے ساتھ رہ سکیں۔
صرف
اجتہاد ہی اس کو ایک حقیقت بنا سکتا ہے۔
مصنف
اسلامی اسکالر ہیں اور سینٹر فار اسٹڈی آف سوسائٹی اینڈ سیکولرزم، ممبئی کے سربراہ
ہیں۔
بشکریہ۔
ڈان، پاکستان
URL for English article: http://www.newageislam.com/ijtihad,-rethinking-islam/urgent-need-for-ijtihad-in-our-times----/d/813
URL: