افتخار گیلانی
29 جون، 2016
پچھلے ہفتہ افطار کے بعد خلاف معمول آفس سے جلد فارغ ہوکر، میں نے ارادہ کیا کہ بستی حضرت نظام الدین جاکر رمضان کی رونقوں کالطف اٹھایا جائے اور تراویح بھی ادا ہوجائے ۔ مسلم بستیوں سےباہر یہاں رمضان کی رحمتوں کا ادراک ہی نہیں ہوتا۔ تاریخی بستی حضرت نظام الدین دہلی شہر کےقلب میں جنوبی دہلی اورانگریزوں کی بنائی ہوئی کیپٹل سٹی نئی دہلی کے بالکل درمیان میں واقع ہے۔ یہاں حضرت نظام الدین کے روضہ کے علاوہ ، امیر خسرو، اسد اللہ خان غالب، عبدالرحیم خان خانان، مغل تاجدار ہمایوں ، لا تعداد مغل شہزادوں کی قبریں بھی ہیں، بستی کے دروازہ پر ہی تحریک دعوت و تبلیغ کاہیڈکواٹر بھی ہے۔ گاڑی پارک کرتے ہی احساس ہوا کہ ماحول کچھ کشید ہ ہے۔ پولیس کی بھاری جمعیت اور رکاوٹوں کو دیکھ کر پہلی نظر میں لگا کہ شاید ہندو ۔مسلم فساد پھوٹ پڑا ہے۔ مگر جلد ہی معلوم ہواکہ تبلیغی جماعت کے ہیڈ کوارٹر مرکز نظام الدین المعروف بنگلہ والی مسجد میں ، دو گروہ دست و گریباں ہیں ۔ لاٹھیوں کا آزادانہ استعمال ہو رہا ہے ۔ چاقو ہاتھ میں لئے کئی باریش اشخاص کو پولیس قابو میں کرنے کی کوشش کررہی تھی ، جو دشنام طرازیوں کے ساتھ ساتھ مرنےاو رمارنے پر تلے ہوئے تھے ۔دہلی پولیس کے دو اعلیٰ افسران آلوک کمار اور ایس پی تیاگی ، جو موقع پر موجود تھے ،بتارہے تھے کہ تقریباً ایک ماہ سے جماعت کے صدر دفتر میں رسہ کشی کا ماحول ہے اور کئی بار پولیس مداخلت کر چکی ہے۔ افسوس در افسوس ، جہاں ملت اسلامیہ دنیابھر میں نشانہ پر ہے۔ معلوم ہوا کہ افطار کے دسترخوان پر مرحوم ‘‘حضرت جی’’ مولانا زبیر کے صاحبزادے مولانا زہیر او رمولانا سعد کے حامیوں کے درمیان تکرار او رمار پیٹ ہوئی ہے۔ کہتے ہیں کہ گھروں پر بھی حملہ ہوا ، مستورت کا بھی لحاظ نہیں رکھا گیا۔15 افراد کو زخمی حالت میں اسپتال میں داخل کرایا گیا۔
مولانا انعام الحسن کی وفات کے بعد ان کے فرزند مولانا زبیر کوامیر مقرر کیا گیا تھا،مگر مولانا انعام الحسن کے پیشتر مولانا یوسف کےپوتے مولانا سعد نےاس کو قبول نہیں کیا۔ جس کی وجہ سے مولانااظہار الحسن امیر مقرر ہوئے اور شورائی نظام کاقیام عمل میں آیا،مگر وہ جلد ہی داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ دینی جماعتوں میں تبلیغی جماعت یقیناً دنیا کی ایک بہترین نیٹ ورک تنظیم ہے۔ اس کی بنیاد 1926 میں دیوبند سے فارغ التحصیل مولانا الیاس کاندھلوی نے ڈالی۔ جب وہ کسی مسجد میں نماز کے بعد عبادت میں مشغول تھے کہ ان کی نظر دہلی سےمتصل میوات علاقہ کےکچھ مزدور پر پڑی ، جو غلط وضو کرنے کے بعد نماز کے ساتھ بھی انصاف نہیں کر پارہے تھے ۔مولانانے ان افراد کو اسلام کی بنیادی تعلیم دینے او رارکان کی ادائیگی سکھانے کابیڑا اٹھایا۔ مولانا نے جب ان سےدرخواست کی کہ وہ تین دن تک مسجد میں ہی قیام کریں تو ان لوگوں نے کہا ان کی مزدوری میں حرج ہوگا ، چونکہ وہ غریب ہیں ، ان کا انحصار یومیہ مزدوری پر ہی ہے۔ مولانانے ان کو آفر دی کہ وہ ان کا حرجانہ پورا کریں گے۔ اس کامیاب تجربہ کے بعد ان افراد نےمولانا کو اپنے علاقہ میوات آنے کی دعوت دی۔ دہلی سےمتصل اس علاقہ میں ہریانہ اور راجستھان کےکئی اضلاع شامل ہیں اور آج بھی یہ مسلم اکثریتی علاقہ حکومت کی غفلت اور پسماندگی کاشکار ہے۔ بانی تبلیغ نے دیکھا کہ یہا ں ارتداد کےبالکل قریب بس نام کےمسلمان رہتے ہیں ۔ اپنے تجربہ کااعادہ کرتےہوئے انہوں نے تین دن اور دس دن کے چلوں پر مشتمل ایک پلان وضع کیا، جن میں علاقہ کےافراد کو بنیادی ارکان کی تربیت دیکر خاصی حد تک ان کو بیدار کیا ۔
اس کا ماحصل یہ ہے کہ اس وقت دہلی کےبیشتر مساجد امام ، خطیب ، قاری وحفاظ ، میوات سےہی در آمد کرتےہیں مگر جس طرح اس دعوتی تنظیم میں آج کل جو تم پیزار چل رہی ہے ،ملت کے بہی خواہوں کااس سلسلے میں تشویش میں مبتلا ہونا لازمی ہے۔ یہ اب تبلیغی جماعت کاداخلی ایشو نہیں رہا ہے۔ کیونکہ آئے دن پولیس کی مداخلت اور مار پیٹ کی وجہ سے اب پانی سرسے اونچا ہوگیا ہے۔ مرکز نظام الدین میں امارت و اشورائیت کا مسئلہ کوئی نیا نہیں بلکہ مولانا یوسف کاندھلوی کےدور سے ہی شروع ہوگیا تھا۔ حضرت جی مولانا یوسف کاندھلوی کو بانی تبلیغ مولانا محمد الیاس کاندھلوی نے اپنا جانشین منتخب کردیا تھا، یہ انتخاب بظاہر اختلاف سے پاک تھا اندرون خانہ چی میگوئیاں ہوئی تھی ،پراکابرین امت نے معاملہ سنبھال لیا تھا، اس کے بعد جب مولاناانعام الحسن کاندھلوی حضرت جی بنے،اس وقت مولانا ہارون کاندھلوی اور ان کےمابین جو کچھ اختلاف و انتشار ہوا۔ بعد میں مرکزمیں شورائی نظام نافذ ہوااور جمیع ارباب حل و عقد نےاسے قبول کیا البتہ عملاً مولانا زبیر الحسن صاحب ‘‘حضرت جی’’ کے فرائض انجام دیتے رہے ، لیکن مولانازبیر الحسن صاحب کے انتقال کےبعدجب ان کے فرزند مولانا زہیر الحسن کاندھلوی کو شوری میں داخل کیا گیا تو یہیں سےاختلاف شروع ہوگیا، دیکھتے دیکھتے عالم اسلام کا یہ عظیم سرمایہ ایک خاندانی ورثہ بن گیا جس پر اجارہ داری کے لئے پگڑیاں اچھلنے لگیں ، گریبان پکڑے جانے لگے ، ہاتھا پائی سےآگے بڑھ کر بات زدوکوب تک آگئی ۔
چونکہ تبلیغی جماعت غیر مسلموں کے بجائے مسلمانوں کو ہی راہ راست پرلانے کا کام کرتی آرہی ہیں ، اس لئے شاید حکومتی اداروں کو بھی اس کے کوئی پرخاش نہیں رہی ہے۔ گو کہ ابھی تک خفیہ ایجنسیوں کو ایسا کوئی سراغ نہیں ملا جس سے یہ ثابت ہوسکے کہ ان لوگوں کی کوئی بھی سرگرمی ملک مخالف حتیٰ کہ سماج مخالف یا انسان مخالف ہے۔ دو وال خود رقم طراز ہیں کہ اس تبلیغی تنظیم میں شفافیت کی عدم موجودگی اور خفیہ پن ، شکوک وشبہات کو جنم دیتا ہے اور اس لئے انٹیلی جنس ایجنسیوں کا اس تنظیم کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا لازمی ہوگیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے ، کہ اتنی وسیع تنظیم کی فنڈنگ اور اس سلسلے میں برتی جانے والی راز داری بھی شک کے دائرہ میں آتی ہے۔ جماعت کے افراد کےمطابق مخیر حضرات رقوم فراہم کرتےہیں، جس کا بیشتر حصہ بنگلہ والی مسجد کےمرکز میں لنگر پر خرچ ہوتا ہے، جہاں روز ہزاروں کی تعداد میں لوگ طعام کرتے ہیں ۔ تبلیغی جماعت خود کبھی بھی چندہ کا نظم نہیں کرتی، نہ ہی رقوم دینے والوں کو کسی قسم کی رسید وغیرہ دی جاتی ہے۔ تبلیغی جماعت نےابتدائی دور سے ہی اپنے آپ کو سیاست سےکوسوں دور رکھ کر صرف اسلام کی ابتدائی تعلیم اور ارکان پر توجہ مرکوز کی ہے۔ ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ صرف آسمان سےاوپر اور زمین سےنیچے کی ہی باتیں کرتے ہیں او رروز مرہ کی زندگی گذار نے کے سلسلے میں ان کے پاس کوئی لائحہ عمل نہیں ہے۔ وہ مسلمانوں کو اسی حلیہ میں دیکھنا چاہتے ہیں، جو ان کےمطابق چودہ سو سال قبل اصحابہ کا ہوتا تھا۔ کچھ ہندو لیڈران تو ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ تویہ دنیا سے مسلمانوں کو کاٹنے کاکام کرتے ہیں ، اس لئے ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے ۔ تنظیم میں لاکھ کمیاں سہی، مگر اپنے میدان میں اس نے ارتدار کے قریب ان پڑھ اور غریب مسلمانوں کو اسلام کےابتدائی اراکین کا ادراک کروا کے ان کو جعلی پیروں وغیرہ کے چنگل سےآزاد کروا کے مذہب کے قریب توکر دیا ہے۔ یہ دیگر تنظیموں کی ذمہ داری ہے کہ اس کے بعد وہ ان مسلمانوں کی ذمہ داری سنبھالیں ۔
ایسے میں جب اس تحریک کو جو نظر بد لگ رہی ہے،ملت کے ذمہ داروں کا اس کا نوٹس لینا لازمی ہے۔ جس مرکز میں کبھی ایک سانس کی آواز بھی باہر نہ آتی تھی ،آج وہاں چاروں طرف پولیس کا پہرہ ہے ۔ اس پورے قضیہ کی جڑ میرٹ اور تقویٰ کے بجائے اقربا پروری او رامارت کو چند خانوادوں تک محدود رکھنا ہے ۔ چند ایک کو چھوڑ کر یہ سبھی مسلم تنظیموں کا المیہ ہے ۔ امام حسین کے نام لیوا اور کربلا کے شہیدوں پر جانیں نچھاور کرنے کا دعویٰ کرنے والے عملی زندگی میں امیر معاویہ کی ہی تقلید کرتےہیں،جنہوں نے اقربا پروری کی بنیاد ڈال کر خلافت اپنے فرزند یزید کومنتقل کی تھی۔ مولانا سعد صاحب امارت پر بضد ہیں مولانا زہیر الحسن صاحب شورائیت پر بضد ہیں ، مولانا زہیر الحسن صاحب شورائیت پر بضد ہیں ، مولانا زہیر الحسن صاحب شورائیت پر بضد ہیں اور دونوں کے حامیان آپس میں دست گریباں ہیں۔ دونوں اپنے ذاتی مفا دکی وجہ سے امت کےاس عظیم سرمایہ کو تباہ کرنے پر اڑے ہوئے ہیں۔ دونوں کے اختلاف کی وجہ سے مفاد پرست عناصر اپنی اپنی روٹیاں سینک رہی ہیں ۔ کروڑوں روپئے کے عطیات نےبہت سارے مفاد پرستوں کے کان کھڑے کر دیئے ۔ کیا جو عرف عام میں اللہ والے کہلاتے ہیں ،ان میں دنیاداری عود ٓائی ہے؟۔ اس لئے اب بھارت او رپاکستان کے علماء او رامت کےزعما ء کا دینی و ملی فریضہ ہے کہ فوری طور پر اس مسئلہ میں مداخلت کریں اور اس امانت کو لٹنے سے بچائیں ۔ امت کے خلاف پہلے سے ہی ایک سیلا ب بپا ہے او رجب سیلاب آتا ہے تو متاثرین کواپنی جان کی بقا کے خاطر اپنے اختلافات کو نظر انداز کرکے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جانا چاہئے سمجھ دار قوموں کا ہمیشہ یہی شیوہ رہا ہے۔
29 جون، 2016 بشکریہ : روز نامہ جدید خبر، نئی دہلی
URL: