سہیل ارشد، نیو ایج اسلام
27نومبر،2023
زبانیں انسانوں کے جذبات ،
افکار ، نظریات اور حالات کے اظہار کا وسیلہ ہیں ۔ زبانیں پیغام رسانی اور معلومات
کے ترسیل وابلاغ کا بھی وسیلہ ہیں ۔ جیسے جیسے دنیا ترقی کرتی جاتی ہے زبان کی اہمیت
میں اضافہ اور اس کے دائرہء کار میں وسعت آتی جاتی ہے
ہر زبان اپنے ابتدائی دور
میں ذخیرہء الفاظ کے لحاظ سے محدود ہوتی ہے۔ کم ترقی یافتہ قوموں کی زبان بھی کم ترقی
یافتہ ہوتی ہے اور جیسے جیسے وہ قوم ترقی کرتی جاتی ہے اس کی زبان بھی ترقی کرتی جاتی
ہے۔
زبانیں اپنے ارتقائی مرحلوں
میں ترقی یافتہ زبانوں سے اثر قبول کرتی ہیں۔ اس طرح کسی بھی زبان پر دوسری کئی زبانوں
کا اثر ہوتا ہے۔
اردو بھی ہندوستان میں پیدا
ہوئی اور یہاں کی دوسری زبانوں اور غیر ملکی زبانوں سے اثر قبول کرکے اپنے ذخیرہء الفاظ
میں بھی اضافہ کیا اور اظہار کے ترقی یافتہ پیمانے اختیار کرکے خود کوترقی یافتہ عالمی
زبانوں کے مقابلے میں کھڑا کیا۔
ابتدائی دور میں اردو کا ذخیرہء
الفاظ بھی محدود تھا اور اسکا اسلوب بھی ناپختہ تھا ۔نیز اس کی نحوی ساخت بھی غیر ترقی
یافتہ تھی۔ اردو کے ابتدائی نثر نگاروں اور شاعروں کے سامنے عربی اور فارسی نثر کے
نمونے تھے جس کو سامنے رکھ کر ہی اردو کے ابتدائی نثر نگاروں نے اردو نثر کی زبان واسلوب
کی شیرازہ بندی کی ۔ اس کے نتیجے میں اردو کی شعر و نثر کی زبان بوجھل ، مشکل اور بے
لطف ہو گئی تھی۔ اس میں اس حسن و لطافت کی کمی تھی جو آج ہے۔
اردو کی ابتدائی نثر کے اسلوب
پر عربی اور فارسی کا بہت اثر تھا۔ عربی کا اثر اس لئے زیادہ تھا کہ اردو کا ابتدائی
ادب کا بیشتر حصہ علماء اور صوفیوں کی تصانیف پر مشتمل تھا جو عربی زبان وادب پر دسترس
رکھتے تھے۔ ان کی اردو نثر پر عربی زبان وادب کا گہرا اثر تھا۔ اس لئے اس دور کی لکھی
گئی اردو کتابوں کے نام بھی عربی میں ہوتے تھے جیسے حضرت شاہ ولی اللہ کی کتابیں الفوز
الکبیر، فیوض الحرمین، ازالة الخفا، شفاالعلیل اور سرور المحزون۔ عبدالماجد دریابادی
کی ایک کتاب کا نام بحرالمحبت ہے۔ سرسید کے رسالے کا نام تہذیب الاخلاق تھا۔ ان کی
ایک کتاب کا نام آثارالصنادید ہے۔ ڈپٹی نذیر احمد کی کتابوں کے نام توبتہ النصوح اور
مراة العروس ہیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد کے اخبارات کے نام بھی الہلال اور البلاغ تھے۔
یہی نہیں بیسویں صدی کے جدید اسلامی مفکر مولانا وحیدالدین خان نے بھی اپنے رسالے کا
نام الرسالہ رکھا ۔
شاہ ولی اللہ کے بیٹے شاہ
عبدالقادر نے قرآن کا پہلا اردو ترجمہ لکھا ۔چونکہ اس وقت تک اردو کے ادیبوں کو ترجمے
کے اصول سے واقفیت نہیں تھی اس لئے انہوں قرآن کا اردو ترجمہ اردو کی نحوی ساخت کے
تحت نہیں بلکہ عربی کی ہی نحوی ساخت میں کیا۔ یعنی عربی میں الفاظ کی جو ترتیب تھی
اسی ترتیب میں اردو کے الفاظ رکھے۔ اس کی تقلید میں دوسرے نثر نگاروں نے اسی نحوی ترتیب
میں نثر لکھنے کو افضل خیال کیا اور وہی اردو کا اعلی اسلوب قرار پایا۔۔ علمی وادبی
مضامین میں تو یہ اسلوب استعمال ہوتا ہی تھا اخبارات میں خبریں بھی اسی اسلوب میں لکھی
جانے لگیں۔ 1841ءمیں شائع ہونےوالے دلی اردو اخبار کی ایک رپورٹ کی زبان ملاحظہ کریں:
"واضح ہوتا ہے کہ پلٹن نصیری جو کہ چند مدت سے واسطے دیکھنے حال
سکھوں کے گئی تھی سو اس کے پہنچنے کو مردمان مقام کلو نے واسطے اپنی مدد کے سمجھ کر
سکھوں پر حملہ کیا اور قریب چار پانچ سو آدمیوں کے مار ڈالے جبکہ تھوڑے سے آدمی سکھوں
میں سے رہ گئے۔وہ بہ مجبوری قلعہ جات میں چلے گئے۔مگر مردمان بے رحم کلو نے وہاں بھی
انہیں ستایا ، اکثر آگ لگادی اور اکثر انہیں رسد نہ پہنچنے دی اور بھوکا مارا۔ غرض
کہ بباعث جانے پلٹن نصیری کے عوض مفاد قباحت ہوئی۔ لفٹننٹ اوبرائن صاحب ایک سو بیس
آدمیوں سے کوٹ گڈھ میں ہی مقیم ہیں اور اپنے آدمیوں کو کنارہء ستلج پر رام۔پور تک پھیلا
رکھا ہے اور راجہ ء کلو سامنے کوٹ گڈھ کے مستعد منتظر ہے بفور آنے سکھوں کے مقابلہ
کرے۔ لیکن سرکار لاہور کی طرف سے ابھی راجہء مذکور پر سپاہ نہیں بھیجی گئی ہے۔ کچھ
عجب نہیں کہ سرکار لاہور گورنمنٹ انگریزی سے واسطے تلف ہو جانے ان کے آدمیوں کے دعوے
کرے کیونکہ بباعث جانے پلٹن مذکور کے کوٹ گڈھ میں مردمان کلو نے سکھوں پر حملہ کرکے
انہیں قتل کیا۔
کلکتہ میں 19ویں صدی کے اوائل میں جان گلکرسٹ نے اردو
کو,آسان بنانے کی تحریک چلائی تھی اور فورٹ ولیم۔کالج کے زیراہتمام اردو کی نثری اور
شعری کتابیں شائع کیں۔ اس دور میں فورٹ ولیم۔سے شائع ہونے والی ایک کتاب خرد افروز
کے دیباچے میں حفیظ الدین بردوانی لکھتے ہیں:
"صاحبان عالیشان نجیبوں کے قدردان کو خدا سلامت رکھے۔فدوی نے حکم
اشتہار سن کر عیار دانش کو جو فی الحقیقت جواہر بے بہا ہے اور اب تک جواہر فارسی میں
مقفل تھی کلید کوشش سے کھول کر زبان ریختہ میں آب وتاب دے اردو معلا میں جلو گر کی۔امیدوار
ہے کہ نظروں میں خرد افراز کہلائے اور اس دعا گوئے دولت کا دامن امید تفضلات کے جواہر
سے مالامال ہووے امید کہ نامی گرامی ہووے، آرائش بزم کامی ہوئے۔"۔"
فورٹ ولیم کی اس آسان نثر
کا نمونہ ہم نے دیکھ لیا۔ لہذا ، فورٹ ولیم کی تسہیل زبان کی یہ کوشش زیادہ کامیاب
نہیں ہوئی کیونکہ اردو کے نثرنگار مشکل اور پیچیدہ نثر لکھنے کو اپنی علمیت اور زبان
دانی کاثبوت سمجھتے تھے۔ اس کے نتیجے میں معرب اور مفرس اردو علمی اور ادبی زبان بن
گئی۔ اس زبان کی بیشمار مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔
لیکن بیسویں صدی میں ہی زبان
کو آسان اور سادہ بنانی کی تحریک چلی۔اور اردو ہی نہیں بلکہ دنیا کی دوسری زبانوں میں
بھی تسہیل زبان کی مہم چلائی گئی۔ آسان اور عام فہم نثر لکھنے پر زور دیا گیا۔ طویل
اور پیچیدہ جملوں کی بجائے مختصر جملے لکھنے کی روایت کو فروغ دیا گیا۔
اردو میں بھی زبان کو آسان
بنانے اور آسان اور سہیل زبان لکھنے کی مہم چلائی گئی۔1973ء میں اردو املا کو منظم
کرنے کے مقصد سے اردو کے ماہرین لسانیات اور سرکردہ ادیبوں پر مشتمل ایک املا کمیٹی
تشکیل دی گئی جس نے املا پر اپنی سفارشات پیش کیں تاکہ اردو کے ادباء ایک طرح کی املا
کی ہی پابندی کریں ۔
اس کے ساتھ ہی آسان اور غیر
پیچیدہ زبا ن لکھنے کی عالمی تحریک کے زیر اثر اردو زبان بھی پہلے سے کافی نکھر گئی
ہے۔ لوگ اب آسان زبان لکھتے ہیں ۔ اردو میں عربی اور فارسی کا اثر کم ہورہا ہے اور
مقامی الفاظ کے استعمال کا چلن بڑھ رہا ہے۔
لیکن اس کے باوجود اب بھی
کچھ لوگ زبان کو اور زیادہ آسان بنانے کی وکالت کرتے ہیں۔ جبکہ زبان کو بہت زیادہ آسان
بنانا بھی زبان کے ایک مقصد کو نقصان پہنچانا ہے۔ زبان کا مقصد صرف خیالات کا اظہار
نہیں بلکہ ذہن ودماغ کی تربیت بھی ہے۔زبان کا بہتر استعمال ذہن کو صیقل کرتا ہے۔ اس
لئے جو لوگ زبان کے تخلیقی استعمال سے جڑے رہتے ہیں یعنی لکھنے پڑھنے یا علمی کاموں
میں مصروف رہتے ہیں وہ ضعیفی کی عمر میں بھی ذہنی طور پر فعال اور تندرست رہتے ہیں۔
زبان کے استعمال کے لئے ذہن پر زور دینا پڑتا ہے اور مشکل زبان استعمال کرنے والوں
کو ذہن پر زیادہ زور دنا پڑتا ہے۔اس سے ذہن اور دماغ کی ورزش ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ
جو زبان مشکل ہوتی ہیں ان کے بولنے والے زیادہ ذہین ہوتے ہیں۔ مثال۔کے طور پر جاپانی
اور چینی زبانیں مشکل زبانیں ہیں۔اس لئے چینیوں اور جاپانیوں نے بہت کم وقت میں دنیا
کی ترقی یافتہ قوموں کو سائنسی ترقی۔میں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ جاپانی زبان واحد زبان
ہے جس کے تین رسم الخط ہیں ہیرا گانا، کاتا کانا اور چینی لون ورڈ )مستعار لفظ)۔لفظ
ہیرا گانا جاپانی کا اصل رسم خط ہے۔کاتا کانا کا استعمال غیر جاپانی ناموں کو لکھنے
کے لئے ہوتا یے اور چینی الفاظ بھی چینی رسم خط میں استعمال کئے جاتے ہیں۔ انگریزی
بھی مشکل زبانوں میں سے ایک ہے۔اس میں جتنے اصول ہیں اتنے ہی استثنا بھی ہیں۔ یہی وجہ
ہے کہ انگریزی بولنے والی قوم نے دنیا پر حکمرانی کی ہے۔ اردو بھی ایک مشکل اور پیچیدہ
زبان ہے ۔ کچھ سال پہلے ہندوستان کے ایک ادارے نے ہندوستانی زبانوں کا ایک مطالعہ کیا
تھا جس میں یہ پایا تھا کہ اردو ایک مشکل اور پیچیدہ زبان ہے اور اس لئے اردو شاعری
سے ذہن صیقل ہوتا ہے۔جو حضرات اردو شاعری کا مذاق اڑاتے ہیں ان کے لئے یہ رپورٹ چشم
کشا ہوگی۔ ہاں شاعری سے مراد وہ شاعری نہیں ہے جو دیوبند کے مشاعرے میں شاعرہ نے پیش
کی تھی۔
لہذا، اردوزبان ارتقائی منازل
طے کرکے اب اس مقام پر پہنچ چکی ہے جہان اسے اب اور زیادہ سہل بنانے کی ضرورت نہیں
ہے۔ کچھ لوگ اسے اور زیادہ سہل بنانے کے لئے الفاظ کو توڑ کر لکھنے کی وکالت کرتے ہیں۔
گویا وہ اردو کو بچوں کی زبان بنانا چاہتے ہیں۔ املا کمیٹی نے الفاظ کو توڑ کر لکھنے
کے سوال۔پر جوسفارش پیش کی اس کا ایک اقتباس پیش ہے:
۔" مشتقات سابقوں یا لاحقوں کے ملانے سے بنتے ہیں۔بہ ، بے ، سار،
گار، وار، زار، گر، گسار، بان، آن ، رساں ، ساں، گیں، پن، لا وغیرہ۔ آزاد صرفئے نہیں
پابند صرفئے ہیں۔ یہ تنہا استعمال نہیں ہوسکتے اور تنہا طور پر اردو میں کوئی معنی
نہیں رکھتے۔جب الگ سے ان کے کوئی معنی نہیں تو ان کو الگ لکھنے کی سفارش کیسے کی جاسکتی
ہے۔ اگرچہ اصولی بات یہی ہے کہ تمام مشتقات کو ملا کر لکھنا چاہئے لیکن دشواری یہ ہے
کہ اردو میں مشتقات کی بعض شکلوں کو ملا کر لکھنے کا چلن نہیں ہے مثلاً شاندار ، جہاندار
، زمیندار، خریدار، دلدار، تھانیدار تو ملاکر لکھے جاتے ہیں لیکن ایمان دار، مہمان
دار۔۔، دکان دار ، چمک دار ، کانٹے دار ، لچھے دار الگ لکھا جاتا ہے۔اسی طرح اگرچہ
دستگیر، دلگیر، جہانگیر، عالمگیر ملا کر لکھے جاتے ہءں لیکن اتفاق گیر، ملک گیر، دامن
گیر، کف گیر، الگ لکھ جاتا ہے۔ ایسی صورت میں چلن کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
"۔۔
لیکن اسی کے ساتھ اس کمیٹی
نے گا، گے ، گی کو الفاظ کے ساتھ ملا کر لکھنے کی سفارش کی جبکہ اوپر مشتقات کو ملا
کر لکھنے کی سفارش کی۔ فعل کے ساتھ گا ، گے ، گی کو ملا کر لکھنے کی حمایت میں کوئی
دلیل نہیں پیش کی گئی ہے جب کہ گا، گے ، گی آزاد,صرفئے نہیں ہیں اور اردو میں الگ سے
کوئی معنی نہیں رکھتے ۔ان کا استعمال فعل کے صیغے کو بدلنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ لہذا،
ان کو فعل۔کے ساتھ ملا کر لکھنا ہی منطقی ہے۔
یہ کلیہ ہندوستان کی دوسری
زبانوں میں بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ ہندی اور بنگلہ میں بھی فعل سے گا ، گے، گی کو الگ
نہیں بلکہ ملا کر لکھا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ اس کمیٹی نے تجھکو،
مجھکو ، اسنے ، اسلئے کو ملاکر لکھنے بھی کو غلط نہیں کہا لیکن الگ لکھنےکو مرجح قرار
دیا ۔ساتھ ہی ساتھ شبنم (شب نم )، دستخط، بیدخل ، بیخود ، بیہوش ، بیوقوف ، بانداز
خاص، غرضیکہ، بشرطیکہ، کیونکہ وغیرہ کو بھی ملا کر لکھنا صحیح قرار دیا۔
یہاں یہ بھی قابل غور ہے کہ
عربی زبان میں میں بھی مشتقات کو ملا کر لکھنے کا رواج ہے۔ مثلکم ، اطعمنا ، علینا،
علیکم ، رفعنا، آتیناوغہرہ دو الفاظ کے مرکب ہیں۔
لہذا ، اردو میں تسہیل زبان
کی کوشش کا مطلب یہ نہیں ہے کہ الفاظ کو صرف توڑ کر لکھا جائے بلکہ تسہیل کا مطلب یہ
ہے کہ زبان کو غیر ضروری طور پر پیچیدہ نہ بنایا جائے جیسا کہ انیسویں صدی اور ابتدائی
بیسویں صدی میں کیا جاتا تھا۔
------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism