New Age Islam
Sat May 24 2025, 05:30 AM

Urdu Section ( 29 Jan 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

ICJ Interim judgment and Islamic organisations عالمی عدالت کا عارضی فیصلہ اور اسلامی تنظیمیں

سہیل ارشد، نیو ایج اسلام

29جنوری 2024

ساؤتھ افریقہ نے غزہ میں اسرائیل کے ذریعہ قتل عام اور نسل کشی کا جومقدمہ عالمی عدالت میں دائر کیا تھا اس میں اس نے جنگ میں فلسطینیوں کے قتل عام کو روکنے کے لئے کچھ ہنگامی اقدامات کا حکم دینے کی بھی درخواست کی تھی۔ چونکہ کسی ملک کی حکومت، فوج یا حاکم کے خلاف کسی خطے کے عوام کی نسل کشی یا قتل عام کا فیصلہ آنے میں کچھ وقت لگتا ہے اس لئے غزہ میں بنجامن نتن یاہو کی حکومت اور اس کی افواج کے خلاف نسل کشی کے مقدمے کا فیصلہ آنے میں ایک ڈیڑھ سال کا وقت لگ سکتا ہے اس لئے عالمی عدالت نے 26 جنوری کو اپنے عارضی فیصلے میں اسرائیل کی حکومت کو غزہ کے شہریوں کاقتل عام بند کرنے کا حکم دیا ہے۔ عالمی عدالت نے فلسطین کے تمام عوام کو حماس ماننے سے انکار کردیا جیسا کہ اسرائیل کہتا رہا ہے کہ غزہ میں کوئی معصوم نہیں ہے۔ سبھی حماس کے کارکن ہیں۔ عالمی عدالت نے کہا کہ عالمی قوانین کے مطابق فلسطین کے عام شہریوں کا قتل نسل کشی کے زمرے میں آتا یے اس لئے اسےاس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ عام فلسطینیوں کا قتل نہ ہو۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل عام فلسطینیوں کو جسمانی نقصان نہ پہنچائے۔ تیسرے یہ کہ اسرائیل فلسطین کی عمارتوں اور انفراسٹرکچر یعنی اسکول ، اسپتال ، رہائشی عمارتوں ، پناہ گزیں کیمپوں اور عبات گاہوں کو نقصان نہ پہنچائے اور چوتھی بات یہ کہ وہ فلسطینی قوم کی افزائش نسل میں رکاوٹ نہ ڈالے۔ عالمی ادارہء صحت کے اعدادو شمار کے مطابق غزہ میں 15 فیصد عورتیں حاملہ ہیں اور بہت سی عورتیں مناسب سہولیات کے فقدان کی وجہ سے زچگی کے دوران فوت ہو جاتی ہیں۔لہذا، اسپتالوں کے انہدام اور ادویات کی دستیابی میں رکاوٹ سے زچگی میں رکاوٹ پیدا یوتی ہے اور حاملہ عورتوں کی جان کو خطرہ ہے۔ لہذا، عالمی عدالت نے اسرائیل کو حکم دیا ہے کہ وہ حاملہ عورتوں کی جان کو خطرہ پیدا کرنے والے اقدامات سے باز رہے۔ اس کے علاوہ عالمی عدالت نے اسرائیل کو حکم دیا کہ اسرائیلی حکومت کے جن عہدہ داران اور وزیروں نے فلسطینیوں کی نسل کشی کرنے کی ترغیب دی اور ان کے خلاف نسل پرستانہ بیانات دئیے ان کے خلاف قانونی کارروائی کرے اور ان کے خلاف کئے گئے اقدامات کی رپورٹ ایک ماہ کے اندر عدالت کو پیش کرے۔ واضح ہو کہ جنگ کے دوران اسرائیل کے کئی وزیروں نے فلسطینیوں کا صفایا کردینے اور انہیں غزہ سے باہر نکال دینے کی بات کہی تھی۔ اسرائیل کے ہیریٹیج منسٹر ایمیائی ایلیاہو نے غزہ میں نیوکلیر بم گرادینے کی دھمکی دی تھی ۔ اس کے بیان کے بعد عالمی سطح پر احتجاج ہوئے تھے جس پر نتن یاہو نے اس منسٹر کو کیبینیٹ کی میٹنگوں میں شرکت کرنے سے روک دیا تھا۔ اسرائیل کے وزیردفاع یوواہ گیلینٹ نے کہا تھا کہ ہم انسان نما جانوروں سے لڑرہے ہیں اس لئے ہم انہیں بجلی ، پانی ، غزا اور ایندھن سب کچھ سے محروم کردینگے ۔اسرائیل کے لوگ سوشل میڈیا پر فلسطینیوں کو چوہے اور بلی کہتے ہیں۔ ان سب باتوں کا نوٹس عالمی عدالت نے لیا اور اسرائیل کو حکم دیا کہ ان وزیروں کے خلاف قانونی کارروائی کرے۔

بہرحال عالمی عدالت نے فریقین کو جنگ بندی کا حکم نہیں دیا جو کہ اتفاق سے امریکہ بھی چاہتا ہے۔ امریکہ نے اقوام متحدہ کی سیکیوریٹی کونسل میں جنگ بندی کی قرارداد کی سختی سے مخالفت کرتے ہوئے ویٹو کردیا تھا۔ جنگ بندی کا حکم نہ دئیے جانے پر بنجامن نتن یاہو نے اسے اپنے ملک کے حق دفاع کی تائید سے تعبیر کیا ہے جبکہ اس نے اپنے دفاع کے نام پر غزہ کے تمام اسپتالوں کو تباہ کردیا،اسکول، کالج ، یونیورسٹی ، پناہ گزیں کیمپوں اور عبادت گاہوں کو تباہ کیا حتی کہ اس نے ایمبولینسوں کو بھی نشانہ بنایا۔ عالمی عدالت کے حکم کے مطابق اب اسے عوامی مقامات اور شہری سہولیات پر حملے بند کرنے ہونگے۔ چونکہ اب تک وہ اپنے دفاع کے پردے میں غزہ کی آبادی کی نسل کشی کررہا تھا اور رہائشی مقامات اور شہری اور طبی سہولیات کو نشانہ بنارہا تھا اس لئے اب اسے ان حملوں کو روکنا ہوگا۔ اس حکم کی خلاف ورزی پر ایک ماہ کے بعد اسے عالمی عدالت میں ایک بار پھر ہزیمت اٹھانی پڑے گی اور اس کے خلاف فلسطینیوں کی نسل کشی کا مقدمہ اور بھی مضبوط ہوگا۔

اگر اسرائیل عالمی عدالت کے احکامات پر عمل درآمد نہیں کرتا اور فلسطینیوں کی نسل کشی جاری رکھتا ہے تو پھر اقوام متحدہ کے سیکیوریٹی کونسل کے اراکین سیکیوریٹی کونسل میں اسرائیل کے خلاف فوجی مداخلت کی قرارداد لا سکتے ہیں تاکہ فوجی کارروائی کرکے اسرائیل کو غزہ میں نسل کشی سے روکا جاسکے۔ امریکہ اور برطانیہ نے سیکیوریٹی کونسل میں ہی قرارداد پاس کراکر عراق اور لیبیا پر حملہ کیا اور ان ممالک کو تباہ کردیا۔ لیکن اسرائیل کے خلاف کسی بھی قرارداد کو امریکہ ایک بار پھر ویٹو کردیگا۔اگر امریکہ ایسا کرتا ہے تو وہ بھی غزہ میں فلسطینیوں کی نسل۔کشی کا مجرم سمجھا جائے گا۔ امریکہ کی پشت پناہی کی امید میں ہی بنجامن نتن یاہو نے ڈھٹائی سے کہا ہے کہ وہ عالمی عدالت کے فیصلے کے آنے کے بعد بھی حملے جاری رکھے گا۔ فلسطین کے وزیر خارجہ المالکی نے عالمی عدالت کے فیصلے کو انسانیت کی فتح بتایا اور عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ عالمی عدالت کے احکام کو نافذ کرائے۔

اس عارضی فیصلے کا اثر اسرائیل حماس جنگ پر کتنا پڑے گا اس کا اندازہ آئندہ ایک ماہ میں ہوگا لیکن اس فیصلے سے یہ واضح ہوگیا کہ عالمی عدالت نے یہ تسلیم کرلیا کہ اسرائیل غزہ کے شہریوں کی نسل کشی کررہا ہے ، وہاں کے انفراسٹرکچر کو تباہ کررہا ہے اور انہیں طبی سہولیات سے محروم کررہا یے۔یہ اسرائیل کی عالمی عدالت میں ایک بڑی ہار اور ساؤتھ افریقہ سمیت دنیاکے انصاف پسند عوام کی ایک بڑی جیت ہے۔ آنے والے دن اسرائیل خصوصاً بنجامن نتن یاہو اور اس کے آقا بائیڈن کے لئےاچھے نہیں ہیں۔ عالمی عدالت نے اپنے فیصلے سے تمام فلسطین نواز ممالک کو اسرائیل کے خلاف لام بند ہونے اور اس کے خلاف فوجی مداخلت کا قانونی جواز دے دیا ہے۔ اب روس ، ترکی، ایران ، نارتھ کوریا اور یوروپ کے فلسطین نواز ممالک اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف محاذ بنا کراسرائیل کی سرکشی اور مظالم کے خاتمے کے لئے فوجی یا سیاسی حل کی طرف ؔمؤثر قدم بڑھا سکتے ہیں۔

اس حکم کے بعد عرب لیگ اور او آئی سی بھی اسرائیل کے خلاف اپنے طور پر مؤثر اقدامات کر سکتے ہیں۔ عرب لیگ کے 22 ممبر ممالک ہیں جن میں فلسطین بھی شامل ہے۔ اس لئے فلسطین کا مسئلہ عرب لیگ کی تےجیحات میں شامل ہونا چاہئے تھا۔ اس تنظیم۔میں سعودی عرب ، مصر ، اردن اور شام اور عراق جیسے طاقتور ممالک بھی شامل ہیں۔ اس کے باوجود عرب لیگ فلسطینیوں پر اسرائیلی جارحیت کو روکنے اور غزہ میں غذائی اشیاہ کی بے روک ٹوک فراہمی کو یقینی نہیں بنا سکا۔ 57 اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی سوائے اسرائیلی جارحیت کی۔مذمت کے کچھ نہیں کرسکی۔ 11 نومبر کو ریاض میں عرب لیگ اور اوآئ سی کی مشترکہ میٹنگ منعقد ہوئی تھی لیکن اس میں بھی69 ممالک۔ملکر ایک اسرائیل کے خلاف کوئی سخت فیصلہ نہیں لے سکے اور صرف مذمت اور گذارش کی ہی ہمت جٹا پائے۔ شاید انہی ں اسرائیل سے امید تھی کہ وہ 69 اسلامی ممالک کی مؤدبانہ درخواست پر غزہ کے بچوں پر بمباری روک دے گا۔عرب لیگ اور اوآئ سی عالمی عدالت کے فیصلے کو جواز بنا کر اسرائیل۔کے خلاف اقتصادی اور تجارتی پابندیاں عائد کرسکتے ہیں اور اسرائیل۔کو گھٹنوں پر لا سکتے ہیں لیکن عرب لیگ اور او آئی سی میں شامل کئی اسلامی ممالک اسرائیل کے پٹھو اور غلام۔ہیں جس کی وجہ سے وہ اسرائیل کے خلاف کوئی سخت قدم۔نہیں اٹھا سکتے ۔ سعودی عرب اب جو کہہ رہا ہے کہ وہ ۔ فلسطینی ریاست کے قیام کی شرط پر ہی اسرائیل سے تعلقات بحال کرے گا تو صرف اس لئے کہ اس کا آقا امریکہ دودو ریاستی حل کی بات کررہا ہے۔ ورنہ 7 اکتوبر سے قبل تو سعودی عرب امریکہ کے اشارے پر اسرائیل سے سفارتی رشتے بحال۔کرنے کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اس وقت تو اس نے ایسی کوئی شرط نہیں رکھی تھی۔ اس لئے فلسطین پر اس کے حالیہ۔مؤقف کو اس کی فلسطین سے ہمدردی اور اسرائیل سے دشمنی پر محمول نہ کیا جائے۔

------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/icj-interim-judgment-islamic-organisations/d/131608

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..