حسین امیر فرہاد
آج کل تقریباً ہر چینل پر نون لیگ کے قابل وزیر پانی اور بجلی کا وہ بیان زیر بحث لایا جاتا ہے جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ ‘‘ دعا کریں کہ اللہ میاں بارش برسائے تو لوڈشیڈنگ کامسئلہ حل ہوجائے گا ۔’’ اس معمولی او ربے ضرر بیان پر اتنا واویلا نہیں مچانا چاہئے کیونکہ ہمارے ملک کا تو پورا ڈھانچہ دعاؤں پر چل رہا ہے ۔ مثلاً 3 مئی 2009 کو جیو نیوز پر کئی بار بتایا گیا اور اخبارات میں بھی اس پر لکھا گیا کہ ریلوے کے وزیر منگریو صاحب نے بیان دیا کہ ریلوے ٹریک بہت پرانے ہیں، پٹریاں پرانی اور خراب ہیں کسی وقت بھی کوئی حادثہ ہوسکتا ہے ، اور حالات بھی خراب ہیں مسافر درود شریف پڑھ کر سفر کیا کریں ۔ غور کیجئے کیا دنیامیں ہمارے علاوہ کوئی قوم ہے جو درودوں پر گاڑیاں ، ہوائی جہاز یا بسیں چلارہے ہیں؟ یا حادثات سے بچاؤ کے لئے درود استعمال کرتے ہیں اور حالات کو خراب کرنے کے لئے با رود استعمال کرتے ہیں ۔ کیا بھارت میں بھی سواریوں سے کہا جاتا ہے کہ بھگوان کانام لو، رامائن پڑھو یا وید پڑھو ۔ تاکہ تمہاری یاترا سر کھشش ہو۔
جس قوم کے وزراء کا یہ حال ہو اس قوم کا دنیا میں کیا مقام ہوسکتا ہے؟ وہی مقام جو آج ہمارا ہے یا کوئی اور ۔ ہم نے ہزار بار لکھا ہے کہ وزارت کیا اسمبلی کی ممبر شپ کے لئے جو اُمید وار کھڑا ہو اُسے ذرا سا انسانیت کے ترازو پر تولاجائے کہ پورا اترتا ہے یا یہ دعاؤں پر گاڑیاں چلایا کرے گا۔ سنا تھا کہ آج کل ہوائی جہاز ہائی جیک ہونے سے بچانے کے لئے دو تین کمانڈوز بھی جہاز میں ہوتے ہیں ۔ اب دو تین ملنگ ، فقیر بھی جہازوں میں بٹھانے چاہییں سنا ہے یہ بہت پہنچے ہوئےبزرگ ہوتے ہیں، اسی لئےمسافروں کو بھی بہت جلد منزل پر پہنچا دیتے ہیں ۔
جب صوبہ سر حد میں ایم ایم اے کی حکومت تھی اس وقت کراچی سے پشاور Air Hostess زنانہ تھیں پشاور سے کراچی کے لئے مرد مہمان نواز تھے ایک ملازم نےبتایا کہ اس وقت پشاور میں اسلامی حکومت ہے ا سلئے زنامہ Air Hostess کو بھول جاؤ اسلام میں زنانہ ہوسٹس منع ہے۔ پتہ نہیں یہ ہڈ حرامی ہم میں کہاں سے آگئی؟ اور یہ کہ یہ انفرادی ہے یا من حیث القیوم ہم پوستی اینڈ ہڈحرام ہیں؟ ۔ اور یہ ہمیں کہاں پہنچا کردم لے گی ۔
میں جب کسی وزیر وغیرہ کا اس قسم کا بیان سنتا یا پڑھتا ہوں تو سمجھتا ہوں کہ آوے کا آواہی بگڑا ہے۔ یہ دعائیں ، استخارے ، درود شریف، قرآن کی آیات کریمات اور اسمائے ربانی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر صحابہ کرام کو یاد تھیں ،پھر کفار کے ساتھ جنگیں اور ان میں جلیل القدر صحابہ کاقتل ہونا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے 87 جنگوں میں خود شرکت فرمائی ہے ۔ ذمہ داری سے جان چھڑانے کے لئے یہ بہترین نسخہ ہے کہ پٹریاں پرانی ہیں حادثہ کبھی بھی ہوسکتا ہے جان بچانی ہوتو درود شریف پڑھا کریں ۔ اگر ریل گاڑی میں مسیحی ہوں یا ہندو سکھ ہوں تو اس کو بھی درود سکھاؤ گے یا مرنے دوگے؟ دوسرے وزیر صاحب لوڈ شیڈ نگ کے لئے دعا کا علاج تجویز کر رہے ہیں ۔ رب نے اپنی کتاب میں کفار سے بچاؤ کے لئے فرمایا ۔ وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ (8:60) دشمن کے مقابلے کے لئے طاقت رکھو، تمہارے کھونٹوں پر ایسے گھوڑے مربوط ہونے چاہییں جنہیں دیکھ کر تمہارے دشمن اللہ کے دشمن اور جنہیں تم نہیں جانتے صرف اللہ جانتا ہے ان پر تمہاری دھاک بیٹھی رہے۔
رب نے یہ نہیں فرمایا کہ انہیں بد دعاؤں کے میزائل مارو یا درود کی مار مارو ۔ درود تو عربی لفظ ہی نہیں ہے ۔ پورے قرآن میں نہیں ہے ۔ پورا قرآن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ مبارک میں تھا لیکن انہوں نے قرآن سے یا اسمائے حسنہ سے یہ کام لیا ہی نہیں جو کام آج کل حضرت صاحب لے رہے ہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ قرآن کریم اِن کاموں کے لئے ہے ہی نہیں ۔ قرآن کریم تو اس صورت میں فائدہ دے سکتا ہے کہ اسے سمجھا جائے جو فرمایا گیا ہے اُس پر عمل کیا جائے ۔ جنہوں نے دعاؤں درودوں کا سہار ا لیا ان کا کیاحشر ہوا، مولانا ابوالکلام آزاد سے سنئے ۔
فرماتےہیں اٹھارہویں صدی کے اواخر میں نپولین بونا پارٹ نے مصر پر حملہ کیا تو مراد بیگ نے جامع ازہر کے علماء کو جمع کرکے ان سےمشورہ کیا تھا کہ اب کیا کرناچاہئے ؟ علمائے ازہر نے بالاتفاق یہ رائے دی تھی کہ جامع ازہر میں صحیح بخاری کا ختم شروع کردینا چاہئے کہ انجاح مقاصد کے لئے تیر بہدف ہے۔ چنانچہ ایسا کیا گیا ، لیکن ابھی صحیح بخاری کاختم پورانہیں ہوا تھا کہ احرام کی لڑائی نے مصری حکومت کاخاتمہ کردیا ( غبار خاطر صفحہ 161 مولاناابوالکلام آزاد)
یہ بھی ذہن نشین کر لیجئے کہ افرانسیسی حملہ آور جنہیں مصر پر فتح ملی کیا وہ بخاری شریف کا ختم کرکے آئے تھے ؟ یارو کچھ تو سوچو ۔ ایک بار اپنے گاؤں میں بارش کے لئے صلوٰۃ امستقاء کے لئے بلایا گیا تھا بادل چھا ئے ہوئے تھے نماز پڑھی تو بادل غائب اور سورج آپ و تاب سے چمک رہا تھا جیسے کہہ رہا ہو دفع ہوجاؤ گنہگارو! اپنے کردار پر نظر ڈالو ........ مجھے یہ چینی لڑکی یاد آگئی جس نے جاوید اقبال ( فرزند علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ) سے پوچھا تھا کہ اگر برسات نہیں ہوتی تو آپ لوگ کیا کرتے ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم نماز پڑھتے ہیں برسات کے لئے دعا کرتے ہیں ۔ ....... جاوید اقبال صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے اُس سے پوچھا آپ لوگ کیا کرتے ہیں؟ لڑکی نے کہا ہم کنواں کھود کر پانی نکالتے ہیں ۔
اندرون شہر لاہور کی ایک بس میں ایک امریکن لیڈی اپنی پاکستانی سہیلی کےساتھ سفر کررہی تھی ، ڈرائیور کے سر کے قریب ایک تختی لگی تھی ، اس پر لکھا تھا ۔
نہ انجن کی خوبی نہ ڈرائیور کا کمال
اللہ کے سہارے چلی جارہی ہے۔
امریکن لیڈی نے اپنی سہیلی سے پوچھا ، (Pakistani Peoples very Claver) اس ڈرائیور نے ضرور کوئی اہم یادداشت تختی پر لکھی ہوگی جیسے Next سروس یا آئل چینج کرنے کی ڈیٹ وغیرہ ........ جب پاکستانی سہیلی نے بتایا کہ یہ کیا لکھا ہے ۔ تو اس کی سٹّی گم ہوگئی کہا ، روکو، روکو اسے ، میں ایسی بس میں سفر نہیں کرونگی جو اللہ کے سہارے جارہی ہو۔ اللہ تو اُن ہی کو سہارا دیتاہے جو اپنے بازوؤں سے کام لیتے ہیں ۔
بچاری امریکن لیڈی جسے یہ پتہ نہیں تھاکہ یہاں تو ہر چیز اللہ کے سہارے 1947ء سے چل رہی ہے ۔ حتیٰ کہ پوری حکومت اور حکومت کی تمام مشینری اللہ کے سہارے چل رہی ہے ۔ اور اب وزیر پانی و بجلی دعا کے ذریعے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کررہے ہیں ۔ اللہ ان لوگوں کو محبوب یعنی پسند فرماتے ہیں جو دشمن او ر دیگر مصائب کامقابلہ کرنے کے لئے سینہ سپر ہوکر گویا سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتے ہیں ۔إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُم بُنْيَانٌ مَّرْصُوصٌ ( 61:4)
درود کی مار نہیں مارتے ۔ چالیس کروڑ ہندوستانیوں پر جب انگریزوں نے فتح پائی وہ درود کا ورد کرتے نہیں آئے تھے وہ توپ و تفنگ سے لیس تھے اور سمندری جہازوں میں آئے تھے ہماری نا اہلی کا اس سےبڑا ثبوت اور کیا ہوگاکہ مغلوں کے عظیم دور حکمرانی میں ہندوستان کے حاجی و لندیزی جہازوں میں حج کے لئے جایا کرتے تھے ۔ یعنی مغل ایمپائر کے پاس اپنا کوئی جہاز ہی نہ تھا ۔ انگریزوں کا مقابلہ کیسے کرتے؟ ۔ انگریز جب ہندوستان میں داخل ہوا اس وقت ہندوستان کی مسجدیں اذانوں سے گونج رہی تھیں، گھر گھر سے قرآن خوانی کی آوازیں آرہی تھیں ۔ مسجدیں نمازیوں سے آباد تھیں ، ہندو مسلم کوئی بھی فرنگی سیلاب کے سامنے بند نہ باندھ سکا خس و خاشاک کی طرح بہہ گئے، بندوق کا مقابلہ بندوق سےکیا جاتا ہے، بخاری شریف یا درود شریف سے نہیں ۔
یاد آیا کہ ابن انشاء جاپان جارہے تھے گھر والوں نے امام ضامن باندھا ۔ کہتے ہیں پورے پلین میں میرےعلاوہ کسی کے پاس امام ضامن نہیں تھا، کہتے ہیں امیگریشن وغیرہ میں میرا امام ضامن ڈھیلا پڑ گیا جیسے سامنے بیٹھی ہوئی امریکن لڑکی کو دیکھ کر میرا ایمان ڈھیلا پڑ گیا تھا، میں اسے ایک ہاتھ اور دانتوں کی مدد سے باندھنے کی ناکام کوشش کررہا تھا مگر ٹائٹ نہیں ہو پارہا تھا ۔ پرلی طرف جو امریکن لڑکی بیٹھی تھی، کہا میں ہیلپ کروں، میں نے کہا پلیز ۔ خیر امام ضامن اس نے کس کر باندھ دیا مگر پوچھا What is this میں نے کہا This is Imam zamin یہ امام ضامن ہے امام ضامن ہوجاتا ہے پھر جہاز کو کوئی حادثہ پیش نہیں آتا ۔ کہا ریلی پھر تم لوگ بڑے خود غرض ہو اگر یہ کار آمد چیز ہے تو تمہیں چاہئے کہ تمام ہوائی کمپنیوں میں تقسیم کردیتے تاکہ لوگ حادثات سے محفوظ رہتے مگر پچھلے دنو ں آپ کا بھی ایک پلین قاہرہ ایئر پورٹ پر اترنے میں کریش ہوا تھا کیا ان کے پاس یہ باندھنے والی چیز نہیں تھی؟ انشاء جی کہتے ہیں کہ یہ کافر لوگ ہیں میں نے اس سے بحث کرنا مناسب نہیں سمجھا ۔
بہتر ہے یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ کھیلوں میں ہماری ہار کی کیا وجہ ہے اور ہار کو جیت میں بدلنے کے لئے کیا کرناچاہئے؟ ۔ بڑی وجہ ہارنے کی یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی ہمت ، محنت اور بہتر کارکردگی سےنہیں کھیلتے یہ دنیا کی واحد قوم ہے کہ اپنے رب کو کھیل کے میدان میں لے آتےہیں ۔ عربی میں کھیل کو لعب کہتے ہیں کھلاڑی کو لاعب او رملعب کھیل کے میدان کو کہتے ہیں ۔قرآن نے اعلان کیا ! وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَعِبٌ وَلَهْوٌ ۖ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يَتَّقُونَ...... أَفَلَا تَعْقِلُونَ (6:32) تم بہلا لو اپنے آپ کو ان لغویات او رلعب و لہو سےاور سمجھ لو اسی کو دنیاوی زندگی کامال و متاع ۔ لیکن یاد رکھو یہ چیزیں تمہارے کچھ کام نہ آئیں گی ۔ تمہارے مستقل گھر (آخرت) کی زینت تمہارا تقویٰ بن سکے گا ۔کیوں برباد کررہے ہو اپنے آپ کو؟ کیوں کام نہیں لیتے عقل سے ۔ صرف تسکین نفس اور جذباتی سکون کے لئے اپنی آخرت ٹھکرادینا یہ تو بہت ہی بڑی حماقت ہے۔ یہ تو ہوئی ایک آیت جو کھیلو ں کے خلاف ہے۔
سورۃ محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں فرمایا ! إِنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ ۚ وَإِن تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا يُؤْتِكُمْ أُجُورَكُمْ وَلَا يَسْأَلْكُمْ أَمْوَالَكُمْ ( 47:36) یہ دنیاوی زندگی کی کھیل تماشے اور لعب و لہو میں برباد کردینے کے لئے نہیں ہے ۔ اگر تم اللہ کے قوانین کو سمجھ لو اور ان پر ایمان لے آؤ اور پھر تقویٰ کی زندگی اختیار کرلو تو تمہیں اندازہ ہی نہیں ہے کہ کس قدر نفع ہی نفع ہے تمہارے لئے اور اس کے لئے تو تمہارا کچھ خرچ بھی نہیں ہوتا ۔ کیا ورلڈ کپ کے حصول سے ہم تخریب کاری، بھتہ خوری، رشوت خوری، قتل و غارتگری بدامنی سے پاک ہو جائیں گے؟ ہم بندے دے پتربن کر دنیا میں سر اٹھا کر چلنے کے قابل ہوجائیں گے؟ ۔ اگر نہیں تو ایسی جیت سےکیا فائدہ ۔ مجھے صدمہ اس بات کا بھی ہے کہ اس کھیل میں پاکستان کا نام کیوں لیا جاتا ہے ۔ انڈیا کہتا ہے کہ 145 پر پاکستان ڈھیر ہوگیا، یا پاکستان کو شکست فاش ہوئی یا پاکستان ہار گیا، پاکستان کو منہ کی کھانی پڑی ، ہم پاکستان کو سبق سکھا دینگے ،ہم نے شارجہ میں پاکستان کا بھر کس نکال دیا وغیرہ وغیرہ ۔ مگر جن میں غیرت او رہمیّت نہ ہو وہ یہ سب سنتے رہتے ہیں ۔ چند جوا بازوں ، میچ فکسروں کے ہارنے یا جیتنے پر پاکستان کو کیوں بدنام کیا جاتاہے ۔ اس کے بدلے یہ کیوں نہیں کہتے کہ ہم نے پاکستانی ٹیم کو 145 پر ڈھیر کردیا، اور ہماری حکومت کو بھی چاہئے کہ اس کھیل یا کھلاڑیوں کی سر پرستی نہ کرے ۔ اگر یہ ورلڈ کپ بھی لے آئیں مگر دوسرے دن ہم ان ہارے ہوئے ملکوں سےقرض او رامداد کی بھیک مانگنے گئے تو ہماری جیت ہار میں بدل جاتی ہے ۔ سانحہ میچ فکسنگ نے سانحہ سیلاب کو پیچھے دھکیل دیا تھا ۔یہ سب میڈیا کی مہر بانی ہے ۔ انہیں بھی کچھ نہ کچھ چاہئے ۔مارگلہ میں جہاز کے حادثے پر مکھیوں کی طرح بھنبھنارہے تھے وہ دھندلا پڑا تو سیلاب ہاتھ آیا سیلاب کمزور ہوا تو کرکٹ ہاتھ آیا ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ 1947ء میں انگریز کسی طور پر جانے کے لئے تیار نہ تھا مجبوراً جب اسے جانا پڑا تو کہا ! جاتو ہم رہے ہیں مگر تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جارہےہیں ۔ جس کی وجہ سے تم کبھی بھی خوشی، سُکھ کا منہ دیکھنے نہ پاؤ گے ۔ ایک ہمارا نظام عدلیہ اور دوسرا کرکٹ کا کھیل ۔ دیکھ لیجئے آج آدھ صدی سے بات آگے بڑھ گئی مگر سُکھ کے گاؤں کا راستہ اور آثار بھی نظر نہیں آئے ۔
ورلڈ کپ ہو یا ٹرافی وغیرہ اگر کارنس پر رکھا ہوا ہو او رگھرمیں اندھیرا ہوتو وہ کسی مہمان یا دوست کو بھی نظر نہیں آئے گا۔ ہمیں ایسے شخص کی ضرورت ہے کہ پاکستان کو روشن کردے نہ پاکستان کے صرف نام کو ۔ ہر ایک بیان دیتا ہے کہ قوم کی دعائیں ہمارے ساتھ ہیں ، کیا قوم جوّا بازوں اور میچ فکسنگ والوں کے غم میں گھلی جارہی ہے ۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم نے داڑھیاں رکھ لی ہیں مگر دین سے ہر ایک بابلد ہے ۔ میرا مقصد یہ نہیں کہ یہ لوگ کسی مسجد میں کسی پیش امام کے مصلے کو سبنھالنے کے لائق ہوں امر لازم یہ ہے کہ کردار نہ سہی گفتار تو کسی مسلمان کی طرح ہو ۔ تو ہین خالق تو نہ کریں ۔ رب میں اور عبدالرب میں فرق کو تو پہچانیں ۔ مسلمانوں کے جذبات کا ذرا خیال تو رکھیں ۔ کوڑا کرکٹ کی گندگی میں اللہ کا نام نہ لیں ۔ وہ ذوالجلال والا کرام جب انتقام لینے پر آتاہے تو پھر ہارے ہوئے کھلاڑی ائیر پورٹ سے کارگو والے گیٹ سے نکلتے ہیں ۔ کیونکہ پاکستانی ٹماٹر اور گندے انڈے لئے منتظر ہوتے ہیں۔
پاکستانی کرکٹ ٹیم جمیکا جارہی تھی تو انضمام الحق نے کہا تھا کہ اللہ نے چاہا تو ہم ورلڈ کپ لے کر آئیں گے ۔ ہارنے کے بعد اتوار کی صبح وہ کسی انگریز کو انٹر ویو دے رہے تھے انہوں نے شکست کی وجہ بتائی کہا کہ God was not on our favour ۔ کر کٹ میں اللہ کو لانا یہ ایک لادینی بیان تھا ۔ اسی دن باب اوالمر نے بیان دیا ، کہا کرکٹ ایک کھیل ہے ، کھیل میں ہار جیت تو ہوتی ہے۔ یہ تھا ایک ایماندار کا بیان ۔ کھیل تماشوں میں رب کو شامل کرنے والوں نے اللہ کی توہین کی تھی ۔ رب نے اُن سے توہین کا ایسا بدلہ لیا کہ (Arrivel) سے نہیں آئے کارگو کے راستے آئے ۔ میری حکومت سے التجاء ہے کہ ناچنے ، گانے والوں ، اداکاروں اور کھلاڑیوں پر پابند ی لگادی جائے کہ وہ لہو و لعب میں اللہ کا نام نہ لیا کریں ۔ یہ توہین الہٰی ہے ، جو باز نہ آئے اس پر مقدمہ چلایا جائے ۔ انہیں سزا دی جائے جو توہین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی زیادہ ہو ۔ پاکستانی ٹیم اگر جیتنا چاہے تو ایک ہی راستہ ہے کہ کھیل میں اللہ سے مدد طلب نہ کرے ۔ بلکہ معافی مانگے ۔ کہ یا اللہ ہم آپ کا نام پسندیدہ عمل کرنے جارہے ہیں ہمیں معاف فرما ۔
ستمبر ، 2014 بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ، کراچی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/remember-supplications!-/d/99113