حسین امیر فرہاد
ہم سیاسی رہنما کا انٹرویو شائع کررہے ہیں ، تاکہ آپ کو بھی معلوم ہو کہ کس کس قسم کے لوگ آپ پر حکومت کرگئے ہیں اور کررہے ہیں ۔ میں اس کے لیے تیار نہ تھا، مگر جب یہ انکشاف ہوا کہ ایک ادارے نے سیاست دانوں میں رقومات تقسیم کی ہیں ۔ لوگوں کا اصرار بڑھا کہ سیاستدانوں کا تعارف ہونا ضروری ہے اس سے یہ بھی معلوم ہوگا کہ کون محبّ وطن ہے ، کون محبّ عوام ہے، اور کون میری طرح محبّ النفس ہے وغیرہ وغیرہ ۔
تو عوام کے بے حد اصرار پر سنیما والے بھی پرانی فلمیں چلا دیتے ہیں ہم بھی عوام کے اصرار کی قدر کرتے ہوئے یہ نا پسندیدہ فریضہ انجام دے رہے ہیں ۔ اگر قارئین کو نا پسند ہوا تو یہ پہلا اور آخری انٹر ویو ہوگا ۔ اس انٹرویو کے لئے مجھے ایک لیڈر صاحب کے دفتر جانا پڑا وہ بڑے تپاک سے ملے اور خندہ پیشانی پیش آئے ۔
کہا آپ کا فون ملا تو میں کہیں نہیں گیا حالانکہ یہ دیکھئے میں چھڑی لے کر عوام کی خدمت کے لئے نکل ہی رہا تھا ۔ فرہاد صاحب میں وعدے کا بڑا پابند ہوں یہ آپ کے ساتھ کون ہیں؟
میں نے بتایا کہ یہ میرا معاون کم باڈی گارڈ ہے نام طالب دین ہے پہلے یہ طالبان میں سے تھا ان کی تربیت دیتا تھا ۔ کبھی کبھی کوئی سوال یہ بھی پوچھ لیتا ہے۔
طالب دین نے کہا چالباز خان صاحب ابھی آپ نے فرمایا کہ میں وعدے کا بڑا پابند ہوں، آپ کو یاد ہوگا کہ آپ نے جلسہ گاہ میں عوام سے یہ وعدہ کیا تھا کہ جب ہمارا دور آئے گا تو ہم مزدوری کی تنخواہ دو تولے سونے کے برابر کر دیں گے ۔ کیا آپ نے اس وعدے پر عمل کیا؟۔
بات یہ ہے کہ میں وعدے کا پا بند ہوں مگر میری میموری پاور بڑی کمزور ہے ۔ مجھے یاد نہیں ۔ چالباز خان صاحب سچ سچ بتائیے کہ آپ بہ نسبت اپنے پانچ بھائیوں کے اتنے خوبصورت کیوں ہیں، حالانکہ آپ کے علاقہ کے لوگ اتنے گورے چٹے نہیں ہوتے ۔ آپ تو با لکل انگریز لگتے ہیں ، گورا رنگ بلیو آنکھیں ماشاء اللہ۔
کہا بات یہ ہے کہ ہماری یہاں تھوڑی سی زمین تھی آبادی سے دور ہم نے رہائش بھی یہیں رکھی ۔ کھیتی باڑی اور مویشی پالنا ہمارا پیشہ تھا ، جب کچھ ڈاکوؤں نے انگریزوں کی چھاونی پر چڑھائی کی تو ایک انگریز گھڑ سوار جان بچانے ادھر کو آنکلا میرے ابا جان سے کہا مجھے پناہ دیجئے ڈاکو میرا پیچھا کررہے ہیں ۔ میرے ابا جان بڑےجہاندیدہ آدمی تھے اور ان کا دل خدمت خلق کے جذبے سے معمور تھا، (میری طرح) ادھر باوردی انگریز کے کاندھوں پر ستاروں کی قطار ابا نے دیکھی انگریز کو پناہ دی کہ یہ کبھی کام آئے گا ، انگریز کاکاندھا زخمی بھی تھا ابا اسے اندر لے گئے چھوٹی ماں سے کہا اس کو گھی میں ہلدی لگاؤ اور فی الحال بھوسے میں چھپا دو اور ابا آکر چار پائی پر بیٹھ گئے اپنا ہاتھ درانتی سے زخمی کیا۔
ڈاکو آئے ابا جان سے پوچھا کہ ادھر کوئی انگریز تو نہیں آیا، ابا نے کہا یہاں آکر انگریز کیا کرے گا۔ اگر یقین نہ آئے تو گھر کی تلاشی لے لیجئے ۔ ایک ڈاکو نے خون دیکھ کر اپنے سردار کو کہا یہ دیکھئے جناب خون، وہ ضرور یہاں آیا ہے ۔ ابا نے انہیں زخمی ہاتھ دیکھایا کہ بھینس کے لئے چارہ کاٹ رہا تھا تو میرا ہاتھ کٹ گیا ۔وہ مطمئن ہوکر چلے گئے ابا جان نے بھو سے میں سے انگریز کو نکالا اور اسے سب کچھ بتایا کہ اب کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ انگریز بہت خوش ہوا۔ چھوٹی ماں گھی لگا کر اس کے گھاؤ کا علاج کرتی رہی سنا ہے دس پندرہ دن بعد وہ ٹھیک ہوکر چلا گیا ، پھر وہ ہفتے کی رات آکر اتوار ہمارے ہاں گزارتا تھا اس کی ابا سے دوستی ہوگئی تھی ۔ انہی دنوں چھوٹی ماں یعنی میری ماں کو حمل ہوا جب میں پیدا ہوا تو سب ہی کہتے ہیں تم با لکل انگریز کی طرح ہو تم پر اس انگریز کا سایہ پڑا ہے ۔ ابا نے کہا ایسا اثر ہوتا ہے ۔ انگریز چلا گیا اس نے جانے کیا لکھا کہ ہمیں یہ مربے ملے ۔ابا کو سیاست میں اسی نے شامل کیا ۔ ابا کو کہا کچھ بھی ہو آپ کے گھرانے کا ایک فرد ہر دور میں وزیر ضرور رہے گا اس کا کہنا با لکل سچ ثابت ہوا ہم میں سے ایک بھائی ضرور وزیر رہتا ہے ۔
چالباز خان صاحب ! یہ تبائیے کہ آپ سیا ست میں کیوں آئے؟
فرہاد صاحب ! ایک وجہ تو یہی ہے کہ اس نے کہا تھا ۔ یعنی ابا کے انگریز دوست نے ۔اور ابا جان نے بھی کہا تھا کہ کمائی کے تین ذریعے ہیں (1) اسکول کھولنا (2) انڈسٹری لگانا (3) اور سیاہ ست میں حصہ لینا ۔ میں کافی عرصے سے سیاہ ست میں ہوں یہی وجہ ہے کہ ہمارے تین چینی کے کارخانے اور ایک آٹے کی مل ہے ۔ ایک میری بیوی کے نام ہے دوسرا میری بہن کے نام اور تیسرا میری بیٹی کے نام ہے ۔ ان میں ایک میں ہی غریب ہوں ۔ میرے سیاہ ست میں ہونے کا یہی فائدہ ہے کہ قیمتوں کا اتار چڑھاؤ اسمبلی سےہوتا ہے میں وہاں قیمتوں کا تعین یعنی انتظام سنبھالتا ہوں ۔ اللہ کا فضل ہے فرہاد صاحب ! میں ہر سال اپنے خرچے پر دو آدمیوں کو حج پر بھیجتا ہوں ، اس سامنے والی مسجد میں ہم نے اپنی حلال کمائی سے پنکھے لگوائے ہیں ۔ فرہاد صاحب ! آخرت کے لئے بھی کچھ نہ کچھ کرنا چاہیے ۔ یہ دنیا تو فانی ہے اور میں نے سنا ہے آنی جانی ہے ۔
اس بار الیکشن پر آپ کتنا خرچہ آیا، حکومت نے تو پانچ ہزار کا ہدف دیا تھا ۔
فرہاد صاحب ! میرا بھی کچھ اتنا ہی خرچہ آیا ہوگا۔
چالباز خان صاحب ! یہ تو سراسر جھوٹ ہے ۔ آپ کے حلقے میں 200 پولنگ اسٹیشن تھے ۔ جن پر آپ کے چار ہزار ورکر کام کررہے تھے ۔ صرف دوپہر کے کھانے پر آپ نے چار ہزار لنچ بکس تقسیم کئے ، چھ لاکھ چالیس ہزار تو یہ بنتے ہیں ۔ آنے والے ووٹروں کی چائے بسکٹ سے تواضع کرنا الگ پھر ہر پولنگ اسٹیشن پر ووٹروں کو ڈھونے کے لئے دس ہزار سوزو کیاں آپ نے انگیج کی تھیں پھر پوسٹر اور پوسٹر لگانے والے الگ تھے ۔ اور آپ کہہ رہے ہیں پانچ ہزار خرچہ آیا ہوگا ۔ کچھ اللہ کا خوف کیجئے ۔ سچ سچ بتائیے ۔
فرہاد صاحب! مت بھولئے کہ محبت کرنے والے ورکر مفت بھی کام کرتے ہیں کھانا بھی گھر سے لاتے ہیں، ایسے میں تھےکہ اپنی جیب سے خرچ کرتے تھے کیونکہ ان کے دلوں میں میرے لیے محبت ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب حکومت نے اعلان کیا کہ امیدوار الیکشن کے لئے پانچ ہزار روپیہ سے زیادہ خرچ نہ کرے ۔ تو ان دنوں نہاتے ہوئے میرے کان میں پانی چلا گیا مجھے کم سنائی دینے لگا تھا حکومت نے ممکن ہے پانچ ہزار ہی کہا ہوگا میرے کانوں میں ایسا لگا کہ حکومت نے پچاس کروڑ کہا ہے ۔ لہٰذا ہوگیا خرچہ اب کیا کیا جائے ۔ جو ہوا سو ہوا۔ مٹی پاؤ۔
لیکن چالباز خان صاحب ! میرا اندازہ ہے کہ پچاس کروڑ سے زیادہ خرچ ہوا ہے ۔ بھئی ہوا ہوگا الیکشن کے دوران چھوٹی چھوٹی باتوں پر کون دھیان دیتا ہے ۔ اس وقت تو مخالف سے بازی جیتنے کی دھن لگی رہتی ہے ۔ جیب کو نہیں دیکھا جاتا ۔
چالباز خان صاحب ! اتنا بڑا خرچہ آپ نے برداشت کیسے کر لیا ؟ میں ہوتا تو مر جاتا ۔
فرہاد صاحب ! ایک تو یہ یاد رکھئے کہ قوم کی خدمت کا جذبہ ہر چیز پر حاوی ہوتاہے اور پھر اللہ کے راستے میں ایک خرچ کرو تو ستر ملتے ہیں ۔ نیک نیتی سے خرچ کئے تھے اللہ نے چینی کے بحران میں ایک بدلے ستر سے زیادہ لوٹائے ۔
چالباز صاحب ! رمضان میں آٹا چینی مہنگی کر کے کیا آپ نے قوم پر ظلم نہیں کیا ؟ فرہاد صاحب ! ہم نے کوئی ظلم نہیں کیا چینی وہ مضر چیز ہے جو ذیابطیس کا سبب بنتی ہے اور آدمی گھل گھل کر مر جاتا ہے ۔ ہم نے اس مضر چیز کو مہنگا کر کے عوام سے دور رکھ کر عوام کو زندگی بخشی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس بے مثال نیکی کے عوض اللہ نے ہمارے گھرانے کو ساڑھے چار ارب کا منافع دیا ۔ اگر چینی مہنگی کر کے ہم نے گناہ کا کام کیا ہوتا تو ہمیں یہ منافع کبھی نہیں ملتا ۔
طالب علم دین نے پوچھا کہ آپ نے ابتداء میں فرمایا تھا کہ ، یہ دیکھئے میں چھڑی لے کر عوام کی خدمت کے لئے نکل ہی رہا تھا کہ آپ لوگ آگئے یہ بتائیے کہ چھڑی سے قوم کی خدمت کس طرح کی جاتی ہے؟ ۔اور اگر چھڑی سے خدمت کی جاتی ہے تو بندوق پستول او رکلاشن کوف سےتو اور بہتر خدمت ہوگی ؟
چالباز خان صاحب نے جواب دیا ایسی بات نہیں ہے طالبان صاحب ۔ ایک تو چھڑی میرا انتخابی نشان تھی، دوسری بات یعنی خدمت کرنا۔ تو میں دیکھتا ہوں کہ جہاں نالی میں پانی رکا ہوا ہو۔ یہ پلاسٹک کے شاپنگ بیگز کی وجہ سے اکثر پانی رک جاتاہے تو میں اس چھڑی سے شاپنگ بیگ ہٹا کر پانی کو رواں دواں کردیتا ہوں ۔ یہ قوم کی خدمت نہ ہوئی؟ ہوئی جناب ہوئی ۔
چالباز خاں صاحب یہ بتائیے کہ کیری لوگربل کے خلاف آپ نےآواز کیوں نہیں اٹھائی ؟ کس مصلحت کی وجہ سے آپ خاموش رہے؟ فرہاد صاحب ! یہ بالکل غلط بات ہے ، یہ بل اپریل میں پیش ہوا اس وقت میں بولا تھا آواز بلند کی تھی، مگر میری آواز ذرا آہستہ تھی اچار کھانے کی وجہ سے میری آواز کمزور تھی آپ نے سنی نہیں ہوگی۔ ایسے اہم موضوع پر میں خاموش کیسے رہ سکتا ہوں ۔
یہ بتائیے کہ آپ ہمیشہ حکومت میں ہوتے ہیں اور عوام سے ہمدردی کا ڈھنڈورا بھی پیٹتے ہیں آپ کے آٹھ سالہ دور میں عوام کا معیار زندگی کیوں نہیں بلند ہوا آپ نے اس کے لئے کیا کوشش کی ہے؟
فرہاد صاحب ! مجھے عوام کی فکر ہے میں نے ذاتی طور پر ان کا معیار زندگی کافی بلند کیا ہے ( اقبال کی خودی سے زیادہ بلند) اس وقت ملک میں چودہ کروڑ موبائل ہیں یہ پہلے تو نہیں تھے ۔ ہر چھوٹے ، بڑے، عورت، مرد، اور سٹوڈنٹ کے پاس آپ کو موبائل ملے گا ۔
آپ کتنی بھی صفائی پیش کریں عوام کی نظروں میں آپ کا کردار داغدار رہے گا؟۔
فرہاد صاحب ! آپ کیسی باتیں کرتے ہیں ۔ اگر کسی اچھے کام میں داغ لگے تو داغ تو اچھے ہوئے نا۔
( کاش یہ عورت جو کہتی ہے داغ تو پھر اچھے ہوتے ہیں نا)
آپ پر یہ بھی الزام ہے کہ آپ اکثر یورپ چلے جاتے ہیں یہ کیوں؟
میں بڑا کمزور دل کا انسان ہوں مجھ سے قوم کی بد حالی نہیں دیکھی جاتی اسی لئے میں قوم کا غم بھلا نے کے لئے یورپ چلا جاتا ہوں۔صرف میں ہی نہیں صدر وزیر اعظم دیگر وزراء اور حزب اختلاف والے سب ہی یورپ امریکہ جاتےہیں کچھ لوگ دبئی جاکر غم کو خلیج کے پانی میں ڈبو دیتے ہیں ۔ اپنا اپنا غم ہے یہ غم کی نوعیت پر ہے کہ کہاں جاکر اس سے پیچھا چھڑا یا جاسکتاہے ۔ کچھ لوگ بوتل لے کر یہیں اپنے ڈرائنگ روم میں غم سے پیچھا چھڑا لیتے ہیں۔
چالباز خان صاحب ! آپ پرویز مشرف کو سزا دینے کے حق میں ہیں یا نہیں ؟
فرہاد صاحب ! میں ان کو سزا دینے کے حق میں ہوں مگر پاکستانی پولیس کی طرح نہیں کہ اگر کوئی ایک جرم میں پکڑا گیا توجو جرم پچھلے تین سال سے ٹریس نہیں ہورہے ہیں وہ بھی اس کے کھاتے ہیں ڈال دیئے جائیں ۔ آپ افتخار کو تو جانتےہوں گے جو بیچارا بول نہیں سکتا اشاروں سے بات کرتا ہے ۔ اس اسلام آباد میں ٹریفک آفیسر نے پکڑا کہ تم نے ریڈ سگنل کر اس کیا ۔ جب وہ عدالت پہنچا تو جج بہت ہنسا ۔ ایک وکیل نے پوچھا کیا بات ہے سر آپ کو کبھی اس طرح ہنستے نہیں دیکھا؟
جج نے کہا پولیس کا قائدہ ہے اگر کسی کو ایک معمولی جرم میں پکڑ لے تو دو تین جرم اور بھی لکھ دیتےہیں تاکہ کیس مضبوط ہو۔ اس کا بھی لکھا کہ اس نے مجھ سے بحث بہت کی ہے ۔ حالانکہ وہ تو بول ہی نہیں سکتا ۔
طالب دین نے کہا خاں صاحب آپ کس کے لئے کام کررہے ہیں؟ ۔
کہا میں خالصتاً غریب عوام کے لئے کام کررہا ہوں ۔
لیکن آپ نے اسکول کاٹھیکہ جس کو دیا گل رحمان وہ تو سنا ہے آپ کا داماد ہے، اور آپ نےجو سائیکلیں اور سلائی مشینیں گاؤں میں بانٹیں تو ایک سائیکل اور سلائی مشین اپنی بہن کو بھی دی ۔ سائیکل آپ کی بہن کے کس کام کی؟۔
کچھ بھی ہو طالب دین میری بہن میری بہن ہے او ربیوہ بھی ہے اور عوام میں سے ہے ۔ اور میں کہہ چکا ہوں کہ میں خالصتاً غریب عوام کے لئے کام کررہا ہوں اور کرتا رہوں گا۔
اچھا یہ بتائیے کہ آپ نے پیپلز پارٹی کو چھوڑا، مسلم لیگ میں شامل ہوگئے ۔ کیا انہوں نے اپنے منشور میں کوئی تبدیلی کی تھی جس کی وجہ سے آپ کو پیپلڑ پارٹی چھوڑ نی پڑی؟ ۔ فرہاد صاحب آپ بھی بہت سادہ آدمی ہیں مجھے تو یہ بھی پتہ نہیں کہ منشور ہوتی کیا بلا ہے میری نظر بٹوے پر لگی ہوتی تھی ، سیاست میں آدمی کو بے پیندے کا لوٹا بن کر رہنا پڑتا ہے ۔ روز وفاداریاں ہمدردیاں تبدیل کرنی پڑتی ہیں ۔ علامہ اقبال نے بھی قوم کو یہی سبق دیا ہے ۔
نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
کہ ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر ڈوبے ادھر نکلے
بات ہورہی ہے زندہ قوموں کی تو فرہاد بھائی ہم تو اللہ کے فضل سے زندہ ہے ذرا تم ہاتھ بڑھا کر ہمار نبض تو دیکھو ۔ سنا ہے جب آپ کوملٹری کا ٹھیکہ ملا تھا کہ آپ ہفتہ میں دو دن مرغی کا گوشت سپلائی کریں تو آپ نے بھینس کا گو شت سپلائی کیا تھا، یہ کیا چکر ہے ؟ پھر آپ کا کنٹریکٹ ، کینسل کردیا گیا تھا۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں ان پر دھیان نہ دیں، صحت پر اثر پڑے گا۔
مارچ، 2014 بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ، کراچی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/interview-with-pakistani-politician-/d/97748