حسین امیر فرہاد
اپریل ، 2013
کامران خان اپنی پر اثر آواز میں جیو چینل سے فریاد کررہے تھے کہ آج کراچی والے حسرت سے لاہور کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہاں شہباز شریف نے 30 ارب کا منصوبہ کامیاب کر دکھایا ۔ اور ٹی وی کے آدھے سکرین پر میٹرو بسیں دکھائی جارہی تھیں کہ لوگ مہذب دنیا کی طرح آرام دہ سفر کا لطف اٹھارہےہیں بقیہ آدھے سکرین پر کراچی دکھائی جارہی تھی جہاں لوگ بسوں کی چھتوں پر اور دروازوں سے ایسے لٹک رہے ہیں جیسے تو ری لٹکی ہوتی ہیں۔ سائیں بابا کہتے ہیں یہ لوگ ایسے لگ رہے ہیں جیسے گڑ پر مکھیاں بیٹھی ہوں ۔ آخر میں کامران خان سے کہا ہم شہباز شریف سے کہیں گے کہ کراچی میں میٹرو بسو ں کا منصوبہ شروع کردیں۔
میرے پاس ان کا فون نمبر نہیں تھا ورنہ میں فون کرتا او ر کامران خان سے پوچھتا کہ بسیں کس لئے درکار ہیں ؟ جلانے کے لئے ؟ وجہ یہ ہے کہ ہم کراچی والوں کا ٹارگٹ کلنگ اور بس جلانے میں جواب نہیں ہمارا نام تو ورلڈ گنیز بک میں ہونا چاہئے ۔ یوں لگتا ہے کہ ہم نے دنیا میں یہ ایک ہی ہنر سیکھا ہے ۔ بہتر ہے میں اپنا مضمون قارئین کی خدمت میں پیش کروں جس دن کراچی میں سات آٹھ بسیں جلائی گئی تھیں ۔ عنوان تھا۔
بسیں ہندو یامسلمان ہوتی ہیں
میں جب لائٹ ہاؤس جانے کے لئے گھر سے نکلتا ہوں تو بس اسٹاپ پر بسیں بھری ہوئی آتی ہیں بیس پچیس آدمی دروازوں میں لٹکے ہوتے ہیں ، او ر چھت کی تو پوچھئے مت۔ یوں سمجھئے جیسے گُڑ پر مکھیاں چمٹی ہوں۔ میں اکثر مخالف سمت کی بس میں بیٹھ جاتا ہوں تا کہ آخر ی اسٹاپ سے خالی بس میں بیٹھ سکوں ۔ آج بھی ایسا ہی ہوا ۔ میں آخری اسٹاپ پر اترا وہاں چھپر ہوٹل میں ڈرائیور بیٹھے چائے پی رہے تھے اور گپیں ہانک رہے تھے ۔ میں نے ان سے پوچھا کس بس کا نمبر ہے؟ انہوں نے جس بس کی طرف اشارہ کیا وہ سب سے الگ ذرا دور کھڑی تھی اس میں ابھی کوئی مسافر نہیں بیٹھا تھا۔ اس کے پیچھے لکھا تھا ( ماں کی دعا۔ جنت کی ہوا) اور خیر نال جا ..... تے خیر نال آ۔ بس خالی تھی حتیٰ کہ ڈرائیور کنڈیکٹر بھی ابھی نہیں آئے تھے ۔ میں نے ایک ایسی سیٹ کا انتخاب کیا جس پر اب تو دھوپ پڑ رہی تھی مگر چلنے کے بعد منزل تک یہ سایہ رہے گا۔ اور ونڈو کے ساتھ والی سیٹ اس لئے بھی مفید ہوتی ہے کہ میرے سفید بال بسوں کے دھوئیں سے کالا کولا کے بغیر کالے ہو جاتے ہیں ۔ پشاور میں کالا کولا وغیرہ میں استعمال کرتا تھا جب سے کراچی آیا ہوں یہی طریقہ استعمال کرتا ہوں ۔ بس اسٹاپ پر دس منٹ کھڑا ہونے سے بھی یہ کام بخوبی ہو جاتا ہے۔
میں ابھی اطمینان سے بیٹھا ہی تھا کہ آواز آئی ۔ فر ہاد بھائی کبھی ہمارے بارے میں بھی خامہ فرسائی کیجئے یعنی لکھیں ۔ میں نے دائیں بائیں دیکھا مگر وہاں نہ بندہ تھا بندے کی ذات ۔ یا اللہ یہ آواز کہاں سے آرہی ہے؟ دوبارہ آواز آئی کہا یہ میں ہوں بتی بونجا 3252۔ میرے بارے میں لکھئے نا میں بہت دکھی ہوں اور آپ اچھا لکھتے ہیں ،وہ رونے لگی ۔ میں نے وعدہ کیا کہ ضرور لکھوں گامگر اللہ کے لئے آنسو پوچھئے ۔ اس کے وائپر چالو ہوگئے آنسو پونچھ لئے تو میں نے کہا ۔مجھے کیسے جانتی ہو کہ میں لکھتا بھی ہوں ؟۔
کہا یہ ڈرائیور آگ جلاکر ہاتھ تاپ رہے تھے اسی میں آپ کا رسالہ بھی تھا جو جلنے سے بچ گیا تھا اور اُس میں آپ کی تصویر بھی تھی او رمضمون بھی تھا ۔ آپ اچھا لکھتے ہیں ہمارے متعلق بھی ضرور لکھئے ۔
دیکھو میں انسانوں اور اُن کی تکالیف کے بارے میں لکھتا ہوں مگر تم تو ایک بس ہو بس کو بھلا کیا تکلیف ہوسکتی ہے؟
کہا فرہاد صاحب ! اس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جتنی بے بس میں ہوں اتنا کوئی اور نہیں ۔ میرے بارے میں ضرور لکھئے مگر پہلے یہ بتائیے کہ میں ہندو ہوں یا مسلمان ؟
یا اللہ یہ کیا مصیبت ہے ۔ میں نے کہا کیا نام ہے تمہارا میں بھول گیا ہوں ؟؟؟ کہا (بتی بونجا 3252) ہاں تو بتی بونجا صاحبہ جہاں تک میری معلومات کا تعکق ہے تو بس کا کولی دین و مذہن یا دھرم نہیں ہوتا جس طرح آج کل کوئی دین مذہب نہیں ہے ( یہ الفاظ میں نے آہستہ سے کہے) دین مذہب تو انسانوں کا ہوتا ہے۔ بے جان چیزوں کا نہیں ہوتا۔
بتی بونجا 3252 نے کہا اگر بسیں ہندو نہیں تو پھر ہمیں جلایا کیوں جاتا ہے ؟؟ کوئی سیاسی ورکر مارا جاتا ہے یا لیڈر کا سوگ ہو یا عاشورہ کا دھماکہ ہو یا ڈنمارک کے اخبار ی خاکے، آگ ہمیں لگائی جاتی ہے۔ میری باڈی کے پچھواڑے دیکھئے تین سوراخ نظر آئیں گے ۔ یہ ایک تو قدرتی سوراخ ہے سائیلینسر کا مگر دو سوراخ کلاشن کوف کی گولیوں کے ہیں ۔ مجھے دوبار جلایا بھی گیا مجھے رنگ کیا گیا ہے مگر میں نے ہمت نہیں ہاری اور میں اب بھی کراچی کے باشندوں کی خدمت کررہی ہوں۔ بچوں کو اسکول اور بڑوں کو روزگار کی جگہ لے جاتی ہوں ۔
اچھا یہ بتاؤ میں پشتون ہوں، مہاجرہوں ، بلوچ ہوں، سندھی ہوں یا پنجابی ہوں؟
یہ کیا واہیات سوال ہے بھلا بس کی بھی کوئی قومیت ہوتی ہے؟ ہاں تمہارا تعلق جاپانی خاندان مزدا سے ضرور ہے۔
تو پھر جب میرا تعلق کسی قوم سے نہیں تو ان قوموں کے پاس مجھے جلانے کا کیا جواز ہے؟۔ میں تو پٹھان ، مہاجر، بلوچ، پنجابی، سندھی ہر ایک کو آغوش مادر کی طرح گود لیتی ہوں ۔ یقین نہ آئے تو بسوں کی ڈرائیورنگ سیٹ کی طرف دیکھ لیا کریں یہاں مہاجر ، پٹھان، پنجابی، سندھی یا بلوچ ہر ایک آرام سے بیٹھا نظر آئے گا ۔ تو میری محبت کا بدلہ کراچی والے یہ کیوں دے رہے ہیں کہ ہر سڑک پرہماری جلی ہوئی لاشیں نظر آتی ہیں؟ ہماری بکھری ہوئیں راکھ ہیں ۔ شیر شاہ میں ہمار ا قبرستان ہے کیا یہ آپ لوگوں کے لئے خجالت اور شرمندگی کا باعث نہیں ہے ۔ انہیں حرکتوں کی وجہ سے دیگر ممالک نےکراچی میں کرکٹ کھیلنا چھوڑ دیا ، وہ ایسا فیصلہ کرنے میں حق بجانب ہیں ۔ کہ ہر شریف آدمی اپنے بچوں کو شرّی فسادی بچوں کے ساتھ کھیلنے سے منع کرتا ہے۔ میری باتیں فرہاد صاحب آپ کو کڑوی لگیں گی ، مگر اسے شیو کے بعد آفٹر شیو لوشن سمجھ کر برداشت کرلیں فائدہ مند ثابت ہوں گی۔ اللہ کے لئے اس ملک کے ہمدرد بنیں ، دشمن نہیں ۔ دیگر ممالک نے آپ کے ہاں سر مایہ لگا نا چھوڑ دیا ہے۔ جہاں امن دور دور تک نظر نہ آئے وہاں کون کاروبار کرے گا۔ بنگال سے تم لوگ جدا ہوئے تھے ۔ اب پاکستانی تاجر دو بارہ بنگلہ دیش میں اپنا کارو بار سیٹ کررہے ہیں ۔ میں تو ایک بس ہوں میرا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے یہاں ہر قسم کے لوگ بیٹھے ہیں میں ہر ایک کی سنتی ہوں۔
اللہ کے لئے ہوش میں آئیے ورنہ قوموں کی ہسٹری میں آپ کا نام و نشان بھی نہ ہوگا۔ کراچی ایک نیا موہن جودڑو ہوگا۔ تاریخ دان لکھے گا یہاں والے اپنے ملک کو خود برباد کررہے تھے جلارہےتھے ۔ اور نشانہ پکا کرنے کے لئے ساقط ہدف نا پسند کرتے تھے متحرک ہدف یعنی زندہ انسانوں کو ٹارگیٹ کے طور پر استعمال کرتے تھے ۔ فرہاد صاحب ! سنبھلو تمہاری تباہی کی گھڑی قریب آچکی ہے۔
دراصل تم می فرہاد صاحب! سود و زیاں کا احساس ہی نہیں رہا ۔
وائے ناکامی متاع کارواں لٹتا رہا کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
تمہاری تباہی کی ابتدا ء ہوچکی ہے دھواں اٹھ رہا ہے ۔ مگر تم یہ سمجھتے رہے کہ یہ دھواں دوسرے کی جھونپڑی سے اٹھ رہا ہے ، ہم تو سلامت ہیں۔ اصل وجہ یہ ہے کہ قوموں کو ہلاک کرنے کا قدرت کا قانون ہےکہ وہ سنبھلنے کا موقع ہر ایک کو دیتی ہے۔ آگ کا کام ہے پانی کھولا نا مگر ایک دم نہیں پہلے شوں شوں کی آواز آتی ہے، پھر چھوٹے چھوٹے بلبلے اٹھتے ہیں ( یہ ہوتی ہے مہلت) پھر ایک خاص ٹمپر یچر پر پہنچ کر پانی کھول جاتا ہے ۔ اس سے پہلے کہ وہ لمحہ آجائے تمہیں اس کا علاج کرنا چاہئے ۔ ورنہ پھر رب کا قانون حرکت میں آئے گا ۔ اس کا نقشہ یوں ہے۔
فَمَا بَكَتْ عَلَيھِمُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ وَمَا كَانُوا مُنظَرِينَ (29۔44)
پھر ان پر نہ آسمان کو رونا آیا نہ زمین کو او رنہ ہی ان کو مہلت ملی ۔(86۔7) أَھكْنَاھمْ فَلَا نَاصِرَ لھْمْ (13۔47) ہم نے انہیں ہلاک کر دیا اور انہیں اس انجام سے کوئی نہ بچا سکا ۔ فَصَبَّ عَلَيھِمْ رَبُّكَ سَوْطَ عَذَابٍ (13۔89) تو اللہ کے قانون مکافات نے انہیں بری طرح تباہ کردیا۔
فرہاد صاحب ! یہ ایک بس کا افسانہ نہیں یہ ایک بے بس کی دل کی آواز ہے ۔ ٹھوس حقائق ہیں، اور پھر تمہیں تو معلوم ہے شیخ سعدی نے فرمایا ہے کہ نصیحت آموز کلمہ اگر مٹی گار ے کی دیوار پر لکھا ہوا تو اسے نظر انداز نہ کرو کہ یہ تو مٹی کی دیوار پر لکھا ہے اگر مر مر کی تختی پر لکھا ہوتا تو قابل عمل ہوتا ۔ اچھی بات مسلمان کی گم شدہ اونٹنی ہے جہاں ملے نکیل سے پکڑے اور اپنے ہاں لے آئے ۔ میری بات اس لئے نظر انداز نہ کرو کہ میں ایک بے بس بس ہوں ۔ میری بات سنو اگر یہ سچ ہے تو ذہن نشین کرلیں۔ لو اب پسنجر آنے لگے ہیں میں ان کی موجودگی میں نہیں بولو ں گی ۔ میں نے جو بولنا تھا بول چکی ۔ اللہ حافظ۔
قارئین کرام اگر نئی میٹرو بسیں آجائیں کیا ان کا انجام بھی یہی ہوگا ؟ اگر یہی انجام ان کا بھی اگر کامران خان جلانے کے لئے بسیں مانگ رہے ہیں تو کیا برا ہے ان پرانی بسوں کو جلاؤ توڑ و پھوڑ و ضروری تو نہیں ہے کہ نئی کو جلاؤ ۔ اور اگر سفر کے لئے بسیں درکار ہوں تو قوم کو تربیت دینے کی اشد ضرورت ہے انہیں یہ بتانا چاہیے کہ یہ بسیں تمہاری ملکیت ہیں، اس پرتمہارا ہی پیسہ خرچ ہوا ہے ۔
ممتاز بھٹو صاحب سندھ کے گورنر تھے ۔ جاپان سے ریل منگائی تھی اس کے ساتھ جاپانی وزیر اور ایک انجینئر بھی آئے تھے معائنہ ہورہاتھا پاکستانی انجینئر نے کہا باقی تو سب کچھ ٹھیک ہے مگر یہ ( Mirror) جو باتھ روم میں لگا ہے یہ ٹھیک نہیں ہے صرف چار سکرو سے لگا ہے، اس طرح تو کوئی بھی آکر سکر وکھول کر آئینہ لے جائے گا۔
جاپانی انجنیئر سمجھا نہیں ، کہا تمہارا مطلب ہے انڈیا والے لے جائیں گے؟ پاکسانی انجینئر نے کہا نہیں لوگ لے جائیں گے ۔ جاپانی انجینئر پھر حیرت کے سمندر میں غوطے لگا پھر پوچھا کہ کیا ان کو معلوم نہیں کہ یہ ان کی اپنی ریل ہے؟
ممتاز بھٹو صاحب نے کہا یہاں اپنی اس اس کو کہتے ہیں جسے ہم گھر لے جاسکتے ہوں ۔ اور یہ ریل گھر نہیں جاسکتی ۔قوم کو یہ تعلیم دینی ہوگی کہ قومی ملکیت کی چیز کی حفاظت اپنی چیز سے زیادہ کرنی ہوگی۔ میٹرو بسیں ائیر کنڈیشنڈ ہیں ان میں شیشہ کھولنے کی سہولت نہیں ہے لہٰذا پہلے جیسے پان کی پیک تھوکنے کی سہولت نہیں ہوگی ، پرانی بسوں میں تو کوئی اندرہی فارغ ہو جاتا ہے او رکوئی جہاں بس رکتی ہے سواریاں اٹھانے کچھ لوگ دوڑ کر دروازے سے گردن نکال کر فارغ ہولیتے ہیں ۔ہوسکتا ہے وہ ان بسوں کے حق میں نہ ہو۔
اپریل ، 2013 بشکریہ : صوت الحق، کراچی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/metro-buses-our-favourite-hobby/d/11211