حسین امیر فرہاد
اگست، 2013
اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنے حالیہ اجلاس میں فتویٰ صادر کیا ہے کہ اجتماعی عصمت دری کے مقدمات میں ڈی این اے ٹیسٹ کو بنیادی شہادت کے طور پر نہیں قبول کیا جائے گا۔ تقریباً یہی کچھ دنیا چینل سے اتوار 9 جون 2013 کو Front line Kamran Shahidمیں بھی پیش کیا گیا، عاصمہ جہانگیر اور شرمیلا فاروقی صاحبہ کو بھی مدعو کیا گیا تھا ۔ مفتی نعیم صاحب نظریاتی کونسل کے موقف پر مضبوطی سے جمے ہوئے تھے ۔ فرمایا اللہ نے قرآن میں زنا کی شہادت کے لئے چار گواہ رکھے ہیں ۔ موجود دین میں سے کسی نے اس کا انکا ر نہیں کیا کیونکہ انہیں کیا پتہ قرآن میں کیا لکھا ہے مولوی صاحب جو کہتےہیں سچ ہی ہوں گے ان سے زیادہ قرآن سے واقف کون ہے؟۔
ضرورت ا س بات کی ہے کہ ایسے موضوعات پربحث کے لئے کسی ایسے کمپیر کو رکھا جاے جو مولوی نہ ہو مفکر ہو قرآن سے واقف ہو۔ مفتی نعیم صاحب نے زنا اور فاحشۃ کو ایک ہی فعل سمجھ لیا قرآن کریم نے بلاشبہ فاحشۃ کے لئے چار گواہ کی شرط رکھی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے :
وَاللَّاتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشۃ مِن نِّسَائِكُمْ فَاسْتَشْھدُوا عَلَيھنَّ أَرْبَعَۃ مِّنكُمْ فَإِن شَھدُوا فَأَمْسِكُوھنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّی يَتَوَفَّاھنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللَّہ لھنَّ سَبِيلًا (15۔4) اور تمہاری عورتوں میں سے فاحشہ ہوں تو چار گواہ لو اگر وہ گواہ بنیں تو ان عورتوں کو گھروں میں بند رکھو حتیٰ کہ انہیں موت آجائے یا اللہ ان کےلئے کوئی او ر راستہ نکال لے۔یعنی یا وہ سدھر جائیں یا اُن کی شادی ہوجائے وغیرہ وغیرہ ۔ اگر فاحشہ اور زنا ایک ہی فعل ہوتو یہ ہوہی نہیں سکتاتھا کہ فاحشہ کے لئے ایک سزا اور ‘‘زنا’’ کے لئے دوسری سزا۔ فاحشہ کی سزا تو آپ نے دیکھ لی( ان عورتوں کو گھروں میں بند رکھو حتیٰ کہ انہیں موت آجائے یا اللہ ان کے لئے کوئی اور راستہ نکال لے) یہ ہوئی فاحشہ کی سزا۔ اب ملاحظہ ہو زنا کی سزا۔
الزَّانِيَۃ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا مِائَۃ جَلْدَة وَلَا تَأْخُذْكُم بِھِمَا رَأْفَۃ فِي دِينِ اللَّہ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّہ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلْيَشْہدْ عَذَابَھمَا طَائِفَۃ مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ (2۔24) زانیہ اور زانی دونوں کو سو سو کوڑے مارو اور دین کے معاملہ میں تمہیں ان پر رحم نہیں کرنا چاہیے ۔ اگر اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو اور چاہیے کہ دونوں کی سزا کے وقت مسلمانو ں کی ایک جماعت موجود ہو۔ برا واضح بیان ہے رب کا ۔
(1) الْفَاحِشۃ مِن نِّسَائِكُمْ فَاسْتَشْھدُوا عَلَيھنَّ أَرْبَعَۃ تمہاری عورتوں میں فاحشہ پر چار گواہ لو۔
(2) الزَّانِيَۃ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا مِائَۃ جَلْدَة ۔زنا کے مر تکبین کو سو سو کوڑے مارو۔
اگر فاحشہ اور زنا ایک ہی فعل کے دو نام ہیں یعنی دونوں ایک ہیں تو فاحشہ میں سزا صرف عورت کے لئے کیوں ہے؟ (تو ان عورتوں کو گھروں میں بند رکھو حتیٰ کہ انہیں موت آجائے یا اللہ ان کے لئے کوئی اور راستہ نکال لے) وہ مردار مرد کہاں گیا؟ اس کو کھلا کیوں چھوڑ دیا گیا؟ مولوی کی عقل یہاں کام نہیں کرتی ۔ دراصل فاحشہ ایک ایسا کام ہے کہ اس میں پارٹنر کی ضرورت نہیں ہوتی یہ کام اکیلے ہوتا ہے اس لئے رب نے سزابھی ایک کو سنائی ہے۔ زنا میں پارٹنر ہوتاہے بغیر پارٹنر کےیہ نہیں ہوسکتا اس لئے سزا بھی دونوں کو سنائی ہے، عورت مرد دونوں کو سو سو کوڑےبید مارو۔ کیا اتنی صاف اور واضح بات ان مولویوں کو سمجھ میں نہیں آتی ؟۔
زنا ایک ایسا فعل ہے کہ تاریک براعظم افریقہ ہویا ترقی یافتہ روشن خیال امریکہ یہ شارع عام پر نہیں ہوتا مکشوف مقام پر ہوتا ہے۔ تو گواہ کاملنا تو نا ممکن ہوا۔ لہٰذا ان کے لئے چار گواہ مل ہی نہیں سکتے ۔ یہ سوال تو ایک آسٹریلین جرنلسٹ نے بھی ضیا ء الحق سےکیا تھا کہ زنا کا ر کےلئے آپ کا یہ قانون سخت نہیں ہے؟ ( سنگسار کرنا) تو ضیاء الحق نے کہا تھا یہ دیکھئے کہ جب سے پاکستان بنا ہے کسی کو ایسی سزا ملی ہے؟....... او رملے گی بھی نہیں، نہ چار گواہ ملیں گے نہ زنا کاروں کو سزا ملے گی۔
اگر زنا کار کے لئے چار گواہ لازم ہیں اور بقول وضعی روایت کہ گواہوں نے یہ فعل اپنی آنکھو ں سے ایسا دیکھا ہو جیسے سرمہ دانی میں سلائی آتی جاتی ہے۔ تو یہ اس وقت ممکن ہے کہ مر تکبین زنا کا اعلان کریں کہ آؤ اے لوگوں ہم زنا کرنے والے ہیں آپ لوگ دیکھتے رہیے تاکہ بعد میں ہمیں سزا ملے ۔کیا ایسا ممکن ہے؟۔ یہ جو سرمہ سلائی والی مثال ہم نے دی یہ ہم نے اپنی طرف سے نہیں کہی یہ روایت ہے جو حدیثوں کی مشہور کتاب ‘‘ ابوداؤد’’ کی جسے حدیث کہتےہیں میں بہنوں ، بیٹیوں سے معافی کا خواستگار ہوں دل پر جبر کر کے یہ روایت پیش خدمت ہے۔
حضرت قاسم بن محمد رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن شدّاد نے فرمایا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے سامنے لعان کرنے والوں کا تذکرہ ہوا تو ابن شدّاد نے کہا ، کیا یہ دونوں وہی تھے جن کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر میں کسی کو بغیر بینہ (گواہ) کے سنگسار کروں گا تو انہی دونوں کو سنگسار کروں گا؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا نہیں وہ دوسری عورت تھی جواعلانیہ زناکاری کیا کرتی تھی ۔
(مسلم ، جلد دوم ، کتاب اللعان ،حدیث 1486، صفحہ 553)
ملاحظہ فرمایا ایک تیر سے کتنے شکار کئے ، کہیں تو زنا کے لئے چار شہود لازم قرار دیتے ہیں وہ بھی اس طرح کہ انہوں نے زنا کے مر تکبین کو نیچے سے جھک کر دیکھا ہو سرمہ دانی کی سلائی کی طرح ۔ ملاحظہ فرمایئے گواہوں کی باریک بینی ۔
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہودی اپنے میں سے ایک مرد و عورت کو لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے میں سے سب سے زیادہ دو عالموں کو لاؤ تو وہ صوریا کے دونوں بیٹوں کولائے حضور علیہ السلام نے ان دونوں کو قسم دی کہ تو رات میں ان دونوں زانیوں کے معاملہ کوکیسے پاتے ہو؟ وہ دونوں کہنے لگے کہ ہم تو رات میں تو یہ پاتے ہیں کہ جب چار آدمی گواہی دیں کہ انہوں نے اس آدمی کے ذکر ( آلہ تناسل) کواس عورت کی شرمگاہ کے اندر دیکھا ہےجس طرح کہ سلائی سرمہ دانی میں تو اس وقت دونوں کو سنگسار کیا جائے گا۔ پھر حضور علیہ السلام نےکہا کہ پھر تو دونوں کو کس بات نے روکا ہے انہیں رجم کیا جائے ۔ دونوں کہنے لگے کہ ہماری سلطنت ختم ہوچکی ہے تو ہم نے انہیں قتل کرنا ناپسند سمجھا پھر رسول اللہ نے گواہوں کو بلایا تو وہ گواہ لے آئے پس انہوں نے گواہی دی کہ انہوں نے اس آدمی کے عضو تناسل کو اس عورت کی شرمگاہ میں دیکھا ہےجیسا کہ سلائی سرمہ دانی میں ہوتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کو سنگسار کرنے کا حکم دے دیا ۔
(ابو داؤد ، جلد سوم ، باب 245، حدیث 345، صفحہ 323)
اگر یہ چار آدمی ( گواہ) باریک بینی سے سلائی کو سرمہ دانی میں آتا جاتا نہ دیکھتے ہمت سےکام لیتے زنا کرنے والے کاپیر پکڑ کر کھینچ کر ہٹا دیتے تو عورت اور مرد دونوں کی زندگیاں بچ جاتی ۔ مگر وہ تو نظارہ دیکھنے میں لگے تھے ۔ اے ۔محبوسیو! اسود وجو ھکم ۔ تمہارا منہ کالا ہوجائے ۔ پہلا شکار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم زنامیں گواہی کو ضروری نہیں سمجھتے تھے ۔ دوسرا شکار کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خلاف قرآن سزا سنگسار کا حکم بھی دیا کرتےتھے ۔جب کہ رب کا فرمان ہے۔کہ جو بھی اللہ کے نازل کردہ احکام کےمطابق سزائیں نہیں دیتے وہ کافر ہیں ۔
وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّہ فَأُولَٰئِكَ ھمُ الْكَافِرُونَ (44۔5)جو بھی اللہ کے نازل کردہ احکام کےمطابق سزائیں نہیں دیتے وہ کافر ہیں لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّہ فَأُولَٰئِكَ ھمُ الظَّالِمُونَ (45۔5)
جو بھی اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق سزائیں نہیں دیتے وہ ظالم ہیں ۔ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّہ فَأُولَٰئِكَ ھمُ الْفَاسِقُونَ (47۔5) جو بھی اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق سزائیں نہیں دیتے وہ فاسق ہیں ۔ یہ تھی دشمنوں کی سکیم جنہوں نے ہمارے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کواتنے تاج پہنا دیئے ۔ وجہ یہ ہے کہ قرآن کریم میں زنا کے مرتکبین کی سزا یہ ہے۔
الزَّانِيَۃ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا مِائَۃ جَلْدَة وَلَا تَأْخُذْكُم بِھِمَا رَأْفَۃ فِي دِينِ اللَّہ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّہ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلْيَشْہدْ عَذَابَھمَا طَائِفَۃ مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ (2۔24) زانیہ اور زانی دونوں کو سو سو کوڑے مارو اور دین کے معاملہ میں تمہیں ان پر رحم نہیں کرنا چاہیے ۔ اگر اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو اور چاہیے کہ دونوں کو سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت موجود ہو۔ ہمارے مولوی صاحبان اور عائلی قوانین میں بھی شادی شدہ زنا کاروں کے لئے سنگساری کی سزا ہے پتھروں سے اس وقت سنگسار کرو جب تک وہ مر نہ جائیں۔ اور غیر شادی شدہ کے لئے سو کوڑوں کی مار ہے۔ لیکن اللہ کے کلام میں ایسی کوئی تخصیص یا امتیاز نہیں ہے یہ ایجاد بندہ ہے۔
ایک صاحب نے ٹی وی پر مولویو ں کی بحث (زنا پر چار گواہ) سن کر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ رب کی نظروں میں زنا کوئی خاص گناہ نہیں ہے۔ وہ علیم و بصیر جانتا ہے کہ کمزور انسان سے ایسا ہوہی جاتا ہے ۔ لہٰذا چار گواہ کی شرط رکھ دی کہ کسی کو سزا ہی نہ ملے ۔ یہ ہے اللہ کا احکام کو مذاق بنانا جس سےرب نے منع فرمایا ہے ۔وَلَا تَتَّخِذُوا آيَاتِ اللَّہ ھزُوً (231۔2) میرے احکام کو ہنسی کھیل نہ بناؤ ۔ یہ ہنسی کھیل کس نے بنایا ؟ ان نام نہاد علما ء نے ۔ یعنی اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے ۔ چار گواہ کا لزوم قذف کے علاوہ فاحشہ کے لئے ہے۔ زنا کے لئے نہیں ہے۔ اگر فاحشہ زنا ہوتا جس کی سزا کے ہاں موت ہے۔ تو آدھی موت اور ڈبل موت کیسے ہوتی ہے؟ ۔ یعنی رجم کی سزا نہ تو نصف ہوسکتی ہے نہ ڈبل۔
جس طرح سورۃ نساء کی آیت نمبر 25 کےمطابق سنگساری کی سزا نصف نہیں ہوسکتی ، اسی طرح سورۃ احزاب کی آیت نمبر 30 میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کو مخاطب کرکے اشارہ ہواہے کہ اگر بفرض محال تم میں سے کوئی فاحشہ کا ارتکاب کرے گی تو اسے دگنی سزا دی جائے گی۔ لیکن قابل غور امریہ ہے کہ کیا رجم کی سزا د گنی ہوسکتی ہے؟کہ ایک مرتبہ پتھر مار مار کر ہلاک کرنے کے بعد دوبارہ پتھر مار ما ر کر ہلاک کیا جائے ۔ چونکہ رجم کی سزا نہ تو نصف ہوسکتی ہے نہ دگنی اس لئے خلاف قرآن ہے۔ زنا کی اصل سزا قرآن کریم کے مطابق سو کوڑے ہیں جو حکم الہٰی کے مطابق نصف بھی ہوسکتی ہے اور دگنی بھی ۔قرآنی آیت ہے۔ ان باندیوں کے متعلق جو ایمان لا کر مسلمانوں کی بیویاں بن جاتی ہیں ۔
فَإِنْ أَتَيْنَ بِفَاحِشَۃ فَعَلَيْھنَّ نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنَاتِ مِنَ الْعَذَابِ (25۔4)
ان باندیوں میں سے جو فحاشی کا ارتکاب کرے اس کی سزا آزاد عورت کے مقابلے میں نصف ہوگی۔ اور فرمایا ۔ يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ مَن يَأْتِ مِنكُنَّ بِفَاحِشَۃ مُّبَيِّنَۃ يُضَاعَفْ لَھا الْعَذَابُ (30۔33) اے بیگمات نبی تم سے اگر کسی مبینہ فاحشہ کی حرکت ہوئی تو اس کی سزا دگنی ہوگی۔
لب لباب یہ کہ زنا کی سزا تو اللہ کی طرف سے سو چھڑی ہے۔ مولوی صاحب کا فرمان ہے کہ زنا کی سزا رجم سنگسار ہے اور جب تک پتھر مارے جائیں کہ زنا کا ارتکاب کرنے والے مرنہ جائیں ۔ بفرض محال اگر مان لیا جائے تو پھر فاحشہ باندی کو نصف سزا کیسے دی جائے گی؟ ادے ادھ موا کر کے چھوڑ دیا جائے گا ؟ اور بیگمات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اگر فاحشہ کا ارتکاب ہوتا تو اسے دگنی سزا کیسے دی جاتی؟ ایک دفعہ پتھروں سےمار مار کر ہلاک کرنے کے بعد دوبارہ سنگباری شروع کردی جاتی؟ بات کرنے سے پہلے اگر تھوڑی سی عقل استعمال کرلی جاتی تو کیا حر ج تھا؟ اسی لئے زنا چیز د گراست و فاحشہ دگر۔
ایک اور اہم نقطہ ۔ اللہ نےفرمایا ۔الزَّانِي لَا يَنكِحُ إِلَّا زَانِيَۃ أَوْ مُشْرِكَۃ وَالزَّانِيَۃ لَا يَنكِحُھا إِلَّا زَانٍ (3۔24) رواں ترجمہ یہی ہے کہ زانی مرد نکاح کرے تو صرف زنا کا اور مشرکہ عورت سے اور زنا کار عورت نکاح کرے تو صرف زانی مرد سے .......... اس آیت کریمہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے دونوں کی زندگی کی ضمانت دی ہے،مگر جب اسے سنگساری سےہلاک کردیا جائے تو پھر شادی کیسے ہوگی؟
جو اللہ کے بجائے اپنا حکم چلاتے ہیں ان لوگوں کو اللہ نے خوش خبری دی ہے فرمایا : فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيھمْ ثُمَّ يَقُولُونَ ھٰذَا مِنْ عِندِ اللَّہ لِيَشْتَرُوا بِہ ثَمَنًا قَلِيلًا فَوَيْلٌ لّھم مِّمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيھمْ وَوَيْلٌ لَّھم مِّمَّا يَكْسِبُونَ (79۔2) یہ معمولی سی کمائی کے لئے لکھتے خود ہیں اور بتاتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے۔ تباہی ہے اس کےلئے اور تباہی وہ کمائی ہے جو یہ کماتے ہیں۔ سنگساری کو قرآن کی زبان میں رجم کہتے ہیں پورے قرآن میں زناکاروں کے لئے رجم کی سزا کا ذکر ہی نہیں ۔ ایک بنا وٹی روایت کے تحت وجود میں آیا اور قابل عمل ٹھہرا یا گیا۔
صحاح ستہ ( چھ سچی کتابوں) میں ایک ہے، ا س میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سےمنسوب حسب ذیل روایت ملتی ہے، جس سے قرآن کریم ناقص ثابت ہوتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ۔اٰیۃ رجم و رضا عۃ الکبیر عشر وہ لقد کان فی صحیفۃ تحت سر پر فلمامات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و تشا علنا بمونہ دخل دا جن فا کلھا۔ رجم کی اور بڑی عمر کے آدمی کو دس بار دودھ پلا نے کی آیت نازل ہوئی اور میرے تخت کے نیچے رکھی تھی ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات میں مشغول تھے تو ایک بکری اندر آئی اور وہ آیات کھا گئی ۔( ابن ماجہ ، جلد دوم کتاب النکاح ،حدیث نمبر 1944 ،صفحہ 51) رجم کی جھوٹی کہانی کو سچ ثابت کرنے کے لئے اللہ کے سچے قول کو بھی نظر انداز کردیا، اللہ کا قول ہے ۔إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لہ لَحَافِظُونَ (9۔15)تحقیق کہ ہم نے اس قرآن کو نازل کیا ہے او رہم ہی اس کے محافظ ہیں۔ یہ کس قسم کی حفاظت تھی کہ بکری آیت کھا گئی ۔ يَا لَيْتَنِي كُنتُ تُرَابًا (40۔78) بزرگوں نے کہا ہے کہ ایک جھوٹ کو چھپانے کے لئے کتنے ہی جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔
فَمَنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّہ الْكَذِبَ مِن بَعْدِ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ ھُمُ الظَّالِمُونَ (94۔3)
جو لوگ اپنی جھوٹی گھڑی ہوئی باتیں اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں درحقیقت وہ ظالم ہیں۔
وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَۃ إِلَّا يَعْلَمُھا وَلَا حَبَّۃ فِي ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ (59۔6)وہ جانتا ہے جو کچھ خشکی و تری میں ہے اور کوئی پتّا ایسا نہیں گرتا جس کا اسے علم نہ ہو سب کتاب مبّین میں ہے۔ زانی اور زانیہ کے لئے رجم کا کوئی حکم یا آیت قرآن کریم میں نہیں ہے۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم قرآنی حکم چھوڑ کر خارج از قرآن فیصلے کر ہی نہیں سکتے تھے ۔ کیونکہ اللہ نے واضح طور پر فرمایا ۔ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللّہ فَأُولَٰئِكَ ھُمُ الظَّالِمُونَ (229۔2) جو لوگ اللہ کے حدود سے تجاوز کرتے ہیں وہ ظالم ہیں ظالمین کی یہ بڑی جامع تعریف ہے۔ اس لئے کہ انسانیت کے حقوق کا تعین قوانین الہٰی کی رو سے ہی ہوسکتا ہے اور جو شخص ان قوانین کو توڑتا ہے وہ حقوق انسانیت غصب کرتا ہے ۔لہٰذا حدود اللہ ( قوانین الہٰی) کو توڑ نے والا ظالم ہے۔
(زنا بالجبر کی صورت میں عورت بے شک بے قصور ہے صرف مرد ہی واجب سزا ہے) جس طرح غذا بالجبر سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ مفتی نعیم صاحب نے بڑے فخر یہ انداز میں کہا کہ اگر کسی مرد کو عورت برباد کر نا چاہے اور وہ زنا بالجبر کا دعویٰ کرے تو کیسے پتہ چلے گا کہ یہ زنا بالجبر ہوا تھا یا بالرضا۔ دراصل مولانا صاحب بھی وطن سے باہر نہیں نکلے ، نہ وہاں کی عدالتیں دیکھیں نہ قسم التحقیق انویشیگیشن کے طور طریقے دیکھے ان پرکیا منحصر ہے ہمارا کوئی بڑا اس غرض سےباہر گیا ہی نہیں کہ کچھ سیکھ کر آئے ۔ البتہ عیاسی کرنا نہیں بھولتے۔
پچھلے دنوں جب حدود آرڈیننس پر ٹی وی میں مباحثہ ہو رہا تھا تو یہی بات زیر بحث آئی تھی کہ عورت جب زنابالجبر کی ایف آئی آر کٹوانے جائے تو ساتھ چار گواہ بھی لے جائے۔ مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا ، یوں لگا جیسے ہم لوگ ابھی تک اصحاب کہف کی طر ح غاروں میں رہ رہے ہیں۔ بات یہ ہے کہ جب عرب سے ہوا دین اپنا یا ہے ، تو ذرا وہاں بھی جھانک کر دیکھ آؤ کہ ایسی صورت حال میں وہ کیا کرتے ہیں؟ مثلاً عورت آئی پولیس اسٹیشن ۔ کاتب الاحوال کے سامنے رپورٹ درج کرائی جسےوہ لوگ شکوہ کہتے ہیں ۔ قسم التحقیق یعنی انو سٹیگیشن سیکشن میں آفیسر اس کا بیان لے گا۔ وہ اگر کہہ دے کہ چار گواہ لاؤ تو ہوسکتا ہے کہ ڈیپارٹمنٹ اسے پاگل خانے بھیج دے ۔ اگر عورت نے کہا کہ فلاں مجھے اپنے موٹر میں ڈال کر ( بادیہ) جنگل لے گیا تھا ،اتوار کا دن تھا شام کے چار بجے تھے ۔ راستہ میں ایک کرین کسی ایکسیڈیٹ شدہ موٹر کو اٹھارہی تھی یا میں نے فلاں کو دیکھا تھا ۔ پولیس تفتیش کرے گی کہ واقعی اتوار کی شام کو کرین ا س مقام سے کسی موٹر کو اٹھا رہی تھی؟ اُس شخص سےبھی پوچھ گچھ ہو گی کہ وہ واقعی شام چار بجے اس راستے سے گزرا تھا؟ پھر جائے واردات پر جاکر مشتکی علیہ کے گاڑی کے ٹائروں کے نشانات دیکھے گی اور اسے پلاسٹر آف پیرس سے اٹھالے گی، سگریٹ کے ٹکڑے بیئر کے ٹِن یا شراب کی خالی بوتل جو بھی ملا پولیس اٹھا لے گی اور ان پر فنگر پرنٹ تلاش کرے گی۔ سگریٹ کے برانڈ اور فلٹر پر دانت کے دباؤ تک کو دیکھا جائے گا، ا س طرح عورت کا کیس مضبوط ہوجاتا ہے اور مجرم کو سزا ملتی ۔ میرا ایک کیس تھا کہ ایک سپاہی کو میں نے کہاکہ زنا نہ جیل سے مصری عورت کو عدالت لے جاؤ کیا فیصلہ ہوتا ہے نتیجہ حکم یعنی کورٹ ریزلٹ میرے پاس لے آؤ اور عورت کو واپس جیل لے جاؤ ۔ عورت نے مجھے ہفتے بعد اطلاع دی کہ آپ کے سپاہی نے میرا ریپ کیا ہے۔ میں نے سپاہی عبدالمنعم شامی کو کسی کام سے بھیجا تا کہ یہ اس عورت کو دیکھ نہ سکے اور عورت کو دفتر بلوایا اس نے بتایا کہ عدالت سے واپسی پر یہ مجھے اپنے گھر لے گیا کہا میری ماں بہن آپ کو مل کر خوش ہو ں گی ایک کپ چائے پی کر چلیں گے۔
مجھے یہ اپنے گھر لے گیا اور وہاں مجھ سے زنا بالجبر کیا ۔ میں نے پوچھا اس کے گھر میں کتنے کمرے ہیں فرج کونسا ہے T.Vکون سا ہے ڈیکو ریشن کیسی ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ تاکہ ایسا نہ ہو کہ مرد بے گناہ ہو اور عورت اسےسزا دلوانے میں کامیاب ہوجائے ۔ اس نے بتایا دو کمرے ہیں ایک کا دروازہ ہرے رنگ کا تھا اور وہ بند تھا ۔ فرج ویسٹنگ ہاؤس تھا ٹی وی کا نام معلوم نہیں البتہ میز پر J.V.C ٹیپ ریکارڈ پڑاتھا، دیوار پر عبدالمنعم کی باورد ی تصویر ٹنگی تھی میں نے اپنی تسلی کرکےعورت کو جیل بھیج دیا ۔ اور دوسرے دن عبدالمنعم کو سامنے بیٹھا کر پوچھا اس نے انکار کیا میں نے کہا پھر اس عورت کو تیرے گھر کے سازو سامان کا کیسے پتہ چل گیا؟ میں نے شاپنگ بیگ میں رکھے ہوئے کپڑے دکھائے میں نے پوچھا اعتراف کرتے ہو یا یہ کپڑے لیبارٹری میں بھجواؤں اور تمہاری منی کے داغ دھبوں کی رپورٹ منگواؤں ؟ ۔ وہ رونے لگا اور اقرار کرلیا۔ جمعے کے روز اسے عدالت لے گیا اسے زنا کی وہ سزا ملی جو رب نے مقرر کی ہے سوکوڑے یعنی (Hundred Lashes) اور بالجبر کی سزا تین ماہ قید اور اس کی گریجوٹی (Gratuity) بحق سرکار ضبط بندروں والی (رجم) کی سزا نہیں ۔ پولیس والوں سے بھرتی کے وقت دستخط لئے جاتے ہیں کہ اگر وہ بد نامی سے نکالا جائے تو گریجوٹی نہیں ملے گی۔ وہاں اگر ایسے موقع پر کوئی کہہ دیتا کہ چار گواہ لازمی ہیں تو اسے پاگل خانے بھجوا دیا جاتا اور یہ کام بھی مجھے کرنا پڑتا کیونکہ کیس میرا تھا ۔
قارئین کرام معاملہ تو ختم ہوگیا مگر آپ لوگ سوچتے ہوں گے کہ زنا اور اس کی سزا تو واضح ہوگئی مگر فاحشہ کیا چیز ہے؟۔ملاحظہ ہو عربی کی مستند لغت سے فاحشہ کامفہوم ۔ Turpitude-immoderate Ugle Woman یعنی گستاخ، بے حیا، غیر شریفانہ ، اور بد زبان ، خسیس النفس عورت ۔ گناہ کی طرف راغب کرنے والی حرکات یعنی جو کچھ آج کل ٹی وی پر عورت سے کروایا جاتا ہے۔ وہ سب فاحشہ کے زمرے میں آتا ہے ۔ فاحشہ کا ذکر قرآن کریم میں 24 مقامات پر آیا ہے ۔169۔2 بے حیائی 268۔2 بے حیائی 28۔2 بے حیائی 24۔12 برائی اور بے حیائی 90۔16 بے حیائی 21۔24 برے کام 45۔29 بے حیائی 135۔3 گناہ برائی 15۔4 بے حیائی 19۔4 بدکاری 22۔4 بے حیائی 25۔4بے حیائی 80۔7 بے حیائی 23۔17 بے حیائی 19۔24 بے حیائی 54۔27 بے حیائی 28۔29 بے حیائی 30۔33 ناشائستہ حرکت 1۔65 بے حیائی 151۔6 بے حیائی 33۔7 بے حیائی 37۔42 بے حیائی 23۔53 بے حیائی ۔ قرآن کریم طبع تاج کمپنی ترجمہ فتح محمد خان جالندھر ۔مذکورہ بالا تر اجم میں کہیں بھی فاحشہ کا ترجمہ زنا نہیں کیا گیا، جب کہ فاحشہ میں چار گواہ کا ذکر ہے ۔ زنا میں نہیں ہے۔ فاحشہ ۔ بے حیائی کی وہ حرکات جس سےگناہ کی ترغیب ہو۔ جیسے کھڑکی میں ایک لڑکی مردوں کو اشارہ بازی کرے اس کام میں پارٹنر کی ضرورت نہیں ہوتی یہ کام اکیلے ہوتا ہے اس لئے رب نے سزا بھی ایک کو سنائی ہے ۔ زنا میں پارٹنر ہوتا ہے بغیر پارٹنر کے نہیں ہوسکتا اس لئے سزا بھی دونوں کو سنائی ہے، اتنی صاف اور واضح بات ان مولویوں کو سمجھ میں نہیں آتی؟ ۔ اور دانشور ،قانون دان، کمپیر بھی نہیں جانتے یہ ہے قوم کی بد نصیبی ۔
اگست، 2013 بشکریہ : صوت الحق ، کراچی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/islami-nazaryati-council’s-islam-/d/13132