New Age Islam
Mon May 12 2025, 06:14 PM

Urdu Section ( 1 Jun 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Human History Cannot Present an Example like The Prophet, A Well-Known Reformer, Teacher, and and Mercy for the World رحمۃ للعالمین ؐجیسے عظیم مصلح اور معلم کی مثال تاریخ ِانسانی پیش نہیں کرسکتی

محمد عنایت اللہ سبحانی

31 مئی 2024

دنیا کی مختلف قوموں اور مختلف ملکوں میں ایک سے ایک مصلح گزرے ہیں، جنہوں نے انسانی معاشرہ کو سدھارنے کی جدوجہد کی، جنہوں نے اچھائیوں کی دعوت دی اور برائیوں سے روکا، لیکن ان میں سے ہر ایک کا حال یہ تھا کہ اس نے کچھ خاص خاص اچھائیوں پر زور دیا اور چند ایک برائیوں کے خلاف آواز اٹھائی۔

ایسا کوئی مصلح نہیں پاؤگے، جس نے پوری انسانی زندگی کو اچھائی کے سانچے میں ڈھال دیا ہو، جس نے زندگی کے تمام پہلوؤں کا گہرا مطالعہ کیا ہو، ہر شعبۂ زندگی میں جتنی اچھائیاں ہوسکتی تھیں ان سب کی تاکید کی ہو اور جتنی برائیاں ہوسکتی تھیں ان سب کے خلاف آواز اٹھائی ہو۔

یہ خصوصیت صرف محمد عربیؐ کو حاصل تھی، جنہیں ربّ العالمین نے رحمۃ للعالمینؐ بنا کر بھیجا تھا اور تورات و انجیل میں، جن کی خصوصیات میں سے یہ خصوصیت خاص طور سے ذکر فرمائی تھی: ’’جو انہیں اچھی باتوں کا حکم دینگے اور بری باتوں سے منع فرمائینگے۔ ‘‘ (الاعراف : ۱۵۷)

چنانچہ اس پیش گوئی کے مطابق آنے والا نبی آیا تو اس نے ایسا نہیں کیا کہ عام انسانوں سے الگ تھلگ رہتے ہوئے کچھ اچھائیوں کی تلقین کردی اور کچھ برائیوں سے دُور رہنے کی نصیحت کردی، بلکہ اس نے عام انسانوں کے درمیان اور مسائل کے منجدھار میں رہتے ہوئے اپنی زندگی گزاری اور قدم قدم پر پیش آنے والے معاملات میں بتایا کہ خیر کیا ہے؟ شر کیا ہے؟ جائز کیا ہے؟ ناجائز کیا ہے؟ کیا کرنا ہے؟ اور کیا نہیں کرنا ہے؟

تاجر کو ہدایت

اس نے بتایا کہ اگر تجارت کی جائے تو اس طرح کی جائے کہ کسی کو دھوکا نہ دیا جائے، اس نے تاکید کی کہ جو چیز لوگوں کو دکھاؤ وہی چیز ان کے ہاتھ فروخت کرو۔ ایسا نہ ہو کہ سامنے تو اچھا مال رکھ دو اور دیتے وقت غلط مال دے دو۔

ایک بار آپؐ نے دیکھا کہ ایک شخص غلے کی تجارت کر رہا ہے اور سامنے غلّے کا ڈھیر لگا ہوا ہے۔ آپؐ نے اس غلّے کے اندر اپنا ہاتھ ڈال دیا۔ دیکھا تو اوپر جو غلہ تھا، اندر کا غلہ اس سے مختلف تھا۔ اوپر تو سوکھا ہوا غلہ تھا مگر اندرکا غلہ بھیگا ہوا تھا۔

آپؐ نے فرمایا: ’’اے گندم بیچنے والے، یہ کیا ہے؟‘‘ اُس نے جواب دیا: ’’اللہ کے رسولؐ! یہ بارش سے بھیگ گیا ہے‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: ’’ اس بھیگے ہوئے غلے کو اوپر کیوں نہیں رکھا کہ لوگ اسے دیکھ سکیں۔ یادرکھو، جو لوگوں کو دھوکا دیتا ہے وہ ہم میں سے نہیں۔ ‘‘ (مسلم:۱۰۲)

ایمان کا دلکش تصور

حد یہ ہے کہ آپؐ نے ایک مومن کے ایمان کی علامت ہی یہ قرار دی کہ اسے اچھائی کرکے خوشی ہو اور برائی سرزد ہو جائے تو تکلیف ہو۔ (سنن ترمذی) آپؐ نے مومن کی شان ہی یہ بتائی کہ لوگ اس کی طرف سے پرامن رہیں۔ اس سے کوئی اندیشہ نہ رکھیں۔ (سنن النسائی)

آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ہاں بندے کا نام مومنین کے رجسٹر میں لکھا ہی نہیں جاتا جب تک لوگ اس کے ہاتھ اور زبان سے محفوظ نہ ہوں، اور وہ مومنین کا درجہ نہیں حاصل کرسکتا جب تک اس کا پڑوسی اس کی اذیتوں سے محفوظ نہ ہو۔

آپؐ نے فرمایا: تین چیزیں ایسی ہیں، جو کسی کے اندر بھی ہوں تو وہ منافق شمار ہوگا، چاہے وہ روزے رکھتا ہو اور نمازیں پڑھتا ہو۔ حتیٰ کہ اس نے حج اور عمرہ بھی کرلیا ہو اور یہ دعویٰ کرتا ہو کہ وہ مسلم ہے۔ وہ شخص جو بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے۔

ظلم کا خاتمہ

انسانی زندگی کی سب سے بڑی برائی ظلم ہے۔ ظلم کے خلاف بے شمار لوگوں نے آواز اٹھائی، لیکن رحمۃ للعالمین نے ظلم کی جڑوں پر جس طرح تیشہ چلایا کہ اس کی کوئی نظیر نہیں پاؤگے۔

آپؐ نے فرمایا: اگر کوئی کسی کے بارے میں جانتا ہے کہ وہ ظالم ہے، اور پھر وہ اس ظالم کے ساتھ اس کی مدد کیلئے چند قدم بھی چلتا ہے، تو وہ اسلام کے دائرے سے خارج ہے۔

آپؐ نے فرمایا: اگر کوئی ظلم و زیادتی سے کسی کی زمین پر قابض ہو جاتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر سخت غضب ناک ہوگا۔

ظلم تو بہت دور کی بات ہے، آپؐ نے تو یہ تاکید فرمائی کہ اگر کسی مزدور سے تم نے خدمت لی ہے تو اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے پہلے اس کی مزدوری ادا کردو۔

آپؐ نے یہاں تک تاکید فرمائی کہ اگر کوئی آدمی کسی سے کوئی سودا کر رہا ہو تو تم اس کے بیچ میں نہ کودو۔ اگر کسی نے کسی کونکاح کا پیغام دیا ہے تو تم اس کے قریب نہ پھٹکو، اور اس کا معاملہ خراب نہ کرو۔ غرض آپؐ نے ظلم اور حق تلفی کے تمام دروازے، بلکہ یوں کہو کہ ظلم اور حق تلفی کے تمام رخنے بند کردیئے۔ کوئی بھی ایسی بات، کوئی بھی ایسا معاملہ، کوئی بھی ایسا انداز، جس سے ظلم کی بوآتی ہو، اس سے آپؐ نے کبھی چشم پوشی نہیں کی۔

حیوانوں کے ساتھ شفقت

انسان تو انسان، آپؐ نے کسی حیوان کو بھی مظلومی کی حالت میں دیکھنا پسند نہیں فرمایا۔ آپؐ کا ارشاد ہے: اگر کسی نے کوئی ننھی سی چڑیا بھی ناحق ماری تو قیامت کے دن وہ اللہ کے یہاں جوابدہ ہوگا۔ آپؐ نے فرمایا: لعنت ہے اس شخص پر، جو کسی حیوان کا مُثلہ کرے۔ محض اپنی تفریح کے لئے اس کے جسم میں چیر پھاڑ کرے۔

آپؐ نے ظلم و زیادتی کو، چاہے وہ کسی پر کسی بھی شکل میں ہو، ایک لمحے کے لئے بھی برداشت نہیں کیا۔ اس کے برعکس آپؐ نے اخوت اور محبت کا درس اور شفقت اور دل سوزی کا پیغام دیا۔

ایک موقعے پر آپؐ نے مہاجرین و انصار کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’اے گروہِ مہاجرین! اور اے گروہِ انصار! تمہارے کچھ بھائی ایسے بھی ہیں، جن کے پاس نہ مال ہے، نہ ان کا کوئی گھر بار ہے، تو تم میں سے ہر شخص دودو تین تین آدمیوں کو اپنے ساتھ ملا لے۔ ‘‘

ایک اور موقعے پر صحابہ کرامؓ سے فرمایا: ’’جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو، وہ ایک تیسرے آدمی کو بھی اپنے ساتھ لے جائے۔ جس کے پاس چار آدمیوں کا کھانا ہو، وہ اپنے ساتھ ایک پانچواں، بلکہ چھٹا شخص بھی لے جائے۔ ‘‘

اخوت ومحبت اور ہمدردی و غم خواری کا کتنا زبردست پیغام ہے یہ!

پیغام ِمحبت

آپؐ کا پیغام محبت مسلمانوں کے لئے خاص نہ تھا بلکہ ہر ہر انسان سے آپؐ نے محبت کرنا سکھایا ہے۔ ہر انسان کے دکھ درد میں شریک ہونے اور مصیبت میں اس کا ساتھ دینے کا پیغام دیا۔

آپؐ نے فرمایا: اگر کوئی آسودہ اور سیر شکم ہوکر سوتا ہے اور اس کے بغل میں اس کا پڑوسی بھوکا رہتا ہے، اور ایسا وہ جانتے بوجھتے کرتا ہے تو اس کا ایمان قابل قبول نہیں۔

وہ پڑوسی، جس کے ساتھ ہمدردی و غم خواری کو آپؐ نے ایمان کے لئے ضروری قرار دیا، اس کا مسلم ہونا ضروری نہیں ہے۔ وہ یہودی بھی ہوسکتا ہے، عیسائی بھی ہوسکتا ہے، ہندو بھی ہوسکتا ہے، سکھ بھی ہوسکتا ہے۔ وہ کسی بھی قوم، کسی بھی نسل اور کسی بھی مذہب کا ہو سکتا ہے۔

آپؐ نے پڑوسی کے حقوق کی مزید تاکید کرتے ہوئے فرمایا:تم میں سے کوئی شخص اپنی زمین یا گھر یا کھیت یا باغ بیچنے کا ارادہ کرے تو پہلے اپنے پڑوسی کو اس کی اطلاع دے۔

یہاں بھی آپؐ نے کسی پڑوسی کو خاص نہیں کیا۔ یہ پڑوسی کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ کسی بھی طبقے اور کسی بھی مذہب کا ہوسکتا ہے۔ جو بھی پڑوسی ہو اسے یہ حق حاصل ہوگا۔

آپؐ نے ساتھیوں کو تاکید فرمائی: لوگوں کی نقالی نہ کرو۔ یہ نہ کہو کہ لوگ اچھا سلوک کریں گے تو ہم بھی اچھا سلوک کریں گے، لوگ ظلم کریں گے تو ہم بھی ظلم کریں گے۔ تم اپنا یہ اصول بنا لو کہ لوگ تمہارے ساتھ اچھا سلوک کریں تو ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ وہ براسلوک کریں، تو تم بُرا سلوک نہ کرو۔ تم کبھی کسی پر ظلم نہ کرو۔

کیا باہمی سلوک اور انسانی تعلقات کے سلسلے میں اتنی جامع اور مکمل تعلیمات کہیں اور ملتی ہیں ؟ کیا انسانی تعلقات کیلئے اس سے زیادہ خوب صورت ہدایات کسی اور مصلح کے یہاں موجود ہیں ؟

انسانی مساوات

آپؐ نے فرمایا: سارے انسان آدمؑ سے ہیں اور آدمؑ مٹی سے بنائے گئے۔ کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی گورے کو کسی کالے پر برتری حاصل نہیں ہے۔ تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے، جو سب سے زیادہ خدا سے ڈرنے والا ہو۔

آپؐ نے یہ ارشاد فرما کر پوری نوعِ انسانی کو کیسی عظمت عطا کردی! وہ مظلوم اوربدحال طبقے، جو پشت ہا پشت سے بلکہ ہزاروں سال سے کچلے ہوئے ہیں، جو ہر طرح سے دبائے اور ستائے ہوئے ہیں، جو ہر طرح کی عزت اور ہر طرح کی رعایت سے محروم ہیں، ان کے ٹوٹے ہوئے زخمی دلوں پر آپؐ نے کیسا ٹھنڈا مرہم رکھ دیا!!

سارے انسان ایک ماں باپ کی اولاد ہیں، لہٰذا وہ سب برابر ہیں۔ آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ پیدائشی طور سے ان میں کوئی اونچ نیچ نہیں۔ کوئی چھوٹا بڑا نہیں۔ ان میں سب سے اونچا اور سب سے بڑا صرف اور صرف وہ ہے جو اپنے کاموں کے لحاظ سے سب سے اونچا ہو، جو اپنے رب سے سب سے زیادہ ڈرنے والا اور اس کا سب سے زیادہ فرماں بردار ہو۔ غو ر کیجئے عزت و ذلت کا کیسا منصفانہ اور کیسا بے مثال پیمانہ ہے یہ! اگر کسی سماج میں عزت و ذلت کا یہ پیمانہ رائج ہوجائے تو اس سے بہتر سماج اور کون سا ہوسکتا ہے؟

حکام کو بُرا بھلا نہ کہو!

پھر آپؐ نے جہاں برائی اور خدا کی نافرمانی میں کسی حاکم کی اطاعت سے منع فرمایا، وہیں رعایا کو اس بات کی تاکید فرمائی کہ وہ اپنے ذمے داروں یا سربراہوں کو بُرا بھلا نہ کہے۔ آپؐ نے فرمایا: امرا و حکام کو گالیاں نہ دو، ان کے لئے دعائیں کرو کہ اُن میں اصلاح ہو، کیونکہ ان کے سدھر جانے سے تمہارے تمام معاملات سدھر جائیں گے۔

کتنی حکیمانہ بات فرمائی ہے آپؐ نے! امرا اور حکام کی برائیوں اور بدعنوانیوں سے نفرت اور بے زاری تو بہت اچھی اور قابل قدر بات ہے، لیکن اس کا علاج یہ تو نہیں ہے کہ انہیں گالیاں دی جائیں۔ انہیں گالیاں دینے سے ان کی برائیاں اور بدعنوانیاں تو دور نہیں ہوں گی، البتہ اس سے ایک نئی برائی جنم لے گی۔ ان سے خود گالیاں دینے والوں کا کردار داغدار ہوگا۔

ایسے موقعے پر تو بہترین طرزِ عمل یہی ہوسکتا ہے کہ ان برائیوں کو دور کرنے کی سنجیدہ کوشش ہو اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی جائے کہ وہ حاکموں اور سربراہوں کو ہدایت دے، ان کے حق میں صحیح روش اختیار کرنے کی توفیق ارزانی ہو۔

رحمۃ للعالمین ؐ کا امتیاز

یہ رحمۃ للعالمینؐ کی ایسی خصوصیت ہے، جس میں آپ ؐ کا کوئی شریک نہیں۔ دنیا کی ایک ایک قوم کے مصلحین اور دانشوروں کو دیکھ لو۔ ان کے کاموں اور ان کے پیغاموں کو دیکھ لو، ان کی ہدایتوں اور ان کی نصیحتوں کا مطالعہ کر لو، تم کسی کے یہاں بھی نیکی اور بدی، حق اورناحق، صحیح اور غلط کا وہ واضح، وسیع اور ہمہ گیر تصور نہیں پاؤگے، جو رحمۃٌ للعالمینؐ کے یہاں نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔

اپنی بعثت کا تعارف کراتے ہوئے آپؐ نے کتنی صحیح بات فرمائی تھی: میں بھیجا گیا ہوں، تاکہ اچھے اخلاق کی تکمیل کروں، تمام اچھائیوں کو بلندیوں تک پہنچا دوں۔ (موطا)

اگر آج دنیا چاہتی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرہ اور ایک پاکیزہ ماحول کے اندر ایک پاکیزہ زندگی بسر کرے تو اس کیلئے ضروری ہوگا کہ وہ کسی تعصب سے کام لئے بغیر رحمۃ للعالمینؐ کی دی ہوئی تعلیمات اور ہدایات کو اپنے لئے مشعل راہ بنائے۔ وہ زندگی کی تاریک گلیوں میں ان سے روشنی حاصل کرے، ورنہ زندگی کی ظلمتوں سے نکلنا ممکن نہیں۔ انسانی سماج کی برائیوں سے نجات پانا ممکن نہیں اور ان ظلمتوں اور برائیوں کے ہاتھوں آج کا انسان کرب و اضطراب کے، جن انگاروں پر لوٹ رہا ہے، ان انگاروں سے چھٹکارا پانا ممکن نہیں۔ ہم سب کو ان تمام باتوں پر ازحد غور کرنا چاہئے اور انہیں دوسروں تک پہنچانا چاہئے۔

31 مئی 2024، بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی

-------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/human-history-prophet-mercy-world/d/132422

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..