ڈاکٹر ظہور احمد اظہر
15 جولائی 2022
یہ ایک حقیقت ِ ثابتہ ہے
کہ خلقِ خدا کی خدمت دراصل خدمت ِ خدا ہے اور اس خدمت کو عبادت کا درجہ حاصل ہے۔
اس لئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کا ذریعہ ہے اور ارشاد نبوی ﷺ کے عین مطابق ہے۔ آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ’’مخلوق اللہ تعالیٰ کا کنبہ ہے
اور اللہ تعالیٰ کا محبوب بندہ وہ ہے جو اس کے کنبہ سے حسنِ سلوک کرتا ہے۔‘‘
انسانیت کی اصلاح و فلاح
اورنیک اسلامی معاشرہ کی تعمیر انبیائے کرام علیہم السلام کے پیغام کا اولین مقصد
رہا ہے جسے ہمارے صوفیاء کرام، اصحابِ طریقت، اولیاء اللہ اور علمائے امت رحمہم
اللہ نے سنبھالا اور بصد حسن و خوبی اسے نبھایا ہے۔ یہ اصلاح و تعمیر کا کام جہاں
حکمت و تدبیر، مواعظِ اثر خیز اور قائل کر دینے والے دلائل کامرہون منت ہے وہاں یہ
خلقِ خدا کی خدمت کے طفیل بھی ممکن ہوا ہے بلکہ خلقِ خداکی خدمت اس کارِ خیر کا
ایک نمایاں اور اہم پہلو ہے۔ ایسی خدمتِ خلق جو منافقت و ریاکاری سے پاک ہو اور
سراپا اخلاص و محبت سے عبارت ہو، ایسی خدمت بلاشبہ خدمتِ حق تعالیٰ کا مظہر ہے۔
انسانی حقوق کی انجمنیں
یا جانوروں کے تحفظ کی تنظیمیں توکل کی بات ہے جو مغرب کے تاجرانہ ذہن اور ظالمانہ
ہوسِ دولت کی چیرہ دستیوں اور ستم رسانیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے بعض یورپی اہلِ دل
کی درد مندی کا نتیجہ ہیں مگر رحمۃ للعالمین ﷺ
نے تو آج سے کم و بیش ۱۴۵۰؍
سال پہلے نہ صرف یہ کہ حقوقِ انسانی کا واضح چارٹر دے کر ان کا تعین فرمادیا تھا
اور ان پر پورا پورا عمل بھی ہوا تھا بلکہ خدمتِ خلق کے ضمن میں انسانوں کی طرح
حیوانوں کے حقوق کے تحفظ اور خدمت کا حکم بھی فرمایا تھا۔ ان احکام پر عہدِ نبوی و
خلافت ِ راشدہ میں عمل ہوا اور اسے ایک اصولی روایت کا درجہ مل گیا۔ اموی خلیفہ
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے اپنے عہدِ خلافت میں یہ فرمانِ عام جاری کیا تھا کہ
جانوروں پر ظلم نہ کیا جائے اور ان کے حقوق اور خدمت کو بھی پیش نظر رکھا جائے،
سواری اور بار برداری کے جانوروں کو تیز دوڑنے کےلئے کوڑے نہ مارے جائیں۔
خدمتِ خلق کی حقیقی بنیاد
خلقِ خدا سے ہمدردی اور محبت ہے۔ جس دل میں اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے ہمدردی اور
محبت نہ ہو وہ دل آمادۂ خدمت کیسے ہوسکتا ہے؟ خلقِ خدا کے لئے دل میں بغض و نفرت
یا عداوت و کراہت رکھنا اس کی خدمت پر آمادہ نہیں کرسکتا۔ جو انسان اللہ تعالیٰ
کی مخلوق سے محبت نہیں کرتا، وہ اس کی خدمت بھی نہیں کرسکتا، اس لئے وہ حق تعالیٰ
کی خدمت و عبادت سے بھی محروم رہتا ہے۔ جس طرح خدمتِ خلق دراصل خدمتِ حق تعالیٰ کا
زینہ ہے، اسی طرح خلقِ خدا کی محبت بھی اللہ جل شانہ کی محبت کا وسیلہ ہے۔ چونکہ
’’حب الخلق‘‘ ’’حب اللّٰہ‘‘ کا ذریعہ ہے
اس لئے یہ جذبۂ محبت اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی تمام قسموں کے اندر ودیعت
فرمایا ہے۔
یہی جذبۂ محبت ہے جو
خدمت پر آمادہ کرتا ہے اور یہی جذبۂ محبت، خدمتِ خلق کا وسیلہ بن کر محبتِ الہٰی
کا حقدار بھی ٹھہراتا ہے۔ خدمتِ خلق، خدمتِ حق تعالیٰ تب قرار پاتی ہے جب انسان
خلقِ خدا کے حقوق سے آگاہ ہوتا ہے، اسی کا نام آدابِ معاشرت ہے یعنی مل جل کر
رہنا، ایک دوسرے کے حقوق جاننا اور اپنے فرائض پہچاننا، ایک دوسرے کے کام آنا،
ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہونا، دوسرے کے غم کو اپنا غم سمجھنا اور اپنے
بھائی کی خوشی کو اپنی خوشی تصور کرنا، بھائی کا غم بٹا کر اس کا بوجھ ہلکا کردینا
اور اس کی ہر خوشی میں شریک ہوکر خوشی کو دوبالا کردینا بھی خدمتِ خلق ہے اور اس
سے اللہ جل شانہ کی خوشنودی اور رضا نصیب ہوتی ہے، اسی کا نام خدمت و عبادتِ حق
تعالیٰ ہے۔
15 جولائی 2022، بشکریہ: انقلاب،
نئی دہلی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism