New Age Islam
Mon Nov 10 2025, 06:26 PM

Urdu Section ( 27 Oct 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Holy Quran Describes the Earth’s Orbit Around the Sun in Its Own Unique Way-Concluding Part قرآن کریم زمین کی سورج کے گرد گردش کو اپنے مخصوص انداز میں بیان کرتا ہے

قاضی عبدالودود

(آخری قسط)

24 اکتوبر،2025

موسموں کی تبدیلی

جب زمین اپنے مدار یا فلک کے اندر حرکت کرتی ہے تو اس کا محور (Axis) ایک طرف کو اور ہمیشہ ایک ہی زاویہ پر جھکا رہتا ہے۔ یہ جھکاؤ عمودی خط سے ساڑھے ۲۳؍ ڈگری کے زاویہ پر ہوتا ہے۔ گویا یہ محور ہمیشہ خود اپنے آپ کے متوازی ہی رہتا ہے چنانچہ موسموں کی تبدیلی کی وجوہات حسب ِ ذیل ہیں :

(۱) سطح زمین کا جھکاؤ (۲) اس کا محور کے متوازی رہنا اور (۳) زمین کا سورج کے گرد چکر لگانا۔

چونکہ زمین کا خط استواء زمین کے مدار کی سطح کی نسبت ساڑھے ۲۳؍ ڈگری جھکا ہوا ہے اور سورج کے گرد پورے چکر میں اس کا جھکاؤ بدستور اسی طرح رہتا ہے اس لئے زمین کے دونوں قطبین میں پہلے ہر ایک سال کے ایک حصے میں سورج کے بالمقابل رہتا ہے اور باقی تمام سال اس کے الٹی طرف رہتا ہے۔ اسی کی بناء پر موسم تبدیل ہوتے ہیں۔ اگر زمین کی سطح اور زمین کے مدار کی سطح ایک دوسرے پر عمودی واقع ہوتیں تو آسمان پر سورج کا راستہ روزانہ ایک ہی ہوتا۔ اس صورت میں دن اور رات کی لمبائی ہمیشہ ایک ہی رہتی اور موسم کبھی تبدیل نہ ہوتے کیونکہ اس صورت میں سورج کی کرنیں ہمیشہ ایک ہی زاویے پر رہتیں اور روزانہ سورج ایک ہی وقت طلوع ہوتا اور ایک ہی وقت پر غروب ہوتا اور موسم جن کا انحصار سورج سے حاصل ہونے والی گرمی کی مقدار پر ہے، تمام سال ایک جیسے رہتے۔

دوسری طرف اگر زمین کا محور تو جھکا ہوا رہتا لیکن زمین، سورج کے گرد چکر نہ کاٹتی تو ایسی صورت میں دن رات برابر نہ ہوتے لیکن کسی ایک مقام پر دن اور رات کی لمبائی ہمیشہ ایک ہی رہتی اور ایسی صورت میں بھی سورج سے حاصل ہونے والی گرمی کی مقدار ہمیشہ ایک ہی رہتی چنانچہ موسموں کی تبدیلی واقع نہ ہوتی۔ گویا موسموں کی تبدیلی کا انحصار، زمین کے محور کے جھکاؤ اور زمین کی سورج کے گرد گردش پر ہے۔ زمین کے محور کے جھکاؤ کی وجہ سے سورج گرما میں موسم سرما کی نسبت اونچی سطح پر واقع ہوتا ہے جس کی وجہ سے دن لمبے ہوجاتے ہیں اور سورج کی کرنیں عمودی پڑتی ہیں۔ اگر زمین کے محور کا جھکاؤ ۲۳ء۵؍ ڈگری سے زیادہ ہوتا تو موسموں کی تبدیلی زیادہ نمایاں ہوتی یعنی موسم گرما میں گرمی زیادہ ہوتی اور سرماء میں سردی زیادہ ہوتی۔ موسموں کی تبدیلی میں باقاعدگی کا انحصار زمین کے محور کے متوازی رہنے پر ہے اور ہر موسم کی طوالت کا انحصار زمین کی گردش کے وقت پر ہے۔ اگر زمین کی گردش کا وقت لمبا ہوتا تو موسموں کے اوقات بھی طویل ہوتے۔

مشرقین اور مغربین

قرآنِ کریم زمین کی سورج کے گرد گردش کو اپنے مخصوص انداز میں بیان کرتا ہے۔ سورج کے نہ طلوع ہونے کا کوئی ایک مقام ہے اور نہ غروب ہونے کا۔ مشرق میں طلوع اور مغرب میں غروب ہونے کے مقامات سارا سال بدلتے رہتے ہیں اور یہ عام مشاہدہ ہے۔ اگر ہم سورج کے طلوع و غروب کے مقامات کا ریکارڈ رکھتے جائیں تو معلوم ہوگا کہ طلوع اور غروب کی دونوں طرف ایک حد ہوتی ہے۔ قرآن کریم ان حدود کو یوں بیان کرتا ہے:

’’(وہی) دونوں مشرقوں کا مالک ہے اور (وہی) دونوں مغربوں کا مالک ہے۔ ‘‘  (الرحمٰن:۵۵)

ایک جگہ بُعْدَ الْمَشْرِقَيْنِ یعنی دونوں مشرقوں کا فاصلہ کے الفاظ آئے ہیں۔ (الزخرف:۳۸)

باقی وہ مقامات جو انتہائی دو مشرقوں اور انتہائی دو مغربوں کے درمیان واقع ہیں ان کے متعلق ارشاد ہے:

’’سو مَیں مشارق اور مغارب کے رب کی قسم کھاتا ہوں۔ ‘‘  (المعارج:۴۰)

چنانچہ جہاں دو انتہائی مشرقوں اور دو انتہائی مغربوں کا ذکر تھا وہاں مشرقین اور مغربین کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور جہاں انتہائی دو مشرقوں اور انتہائی دو مغربوں کے درمیانی نقاط کا ذکر ہے وہاں مشارق اور مغارب کے الفاظ استعمال ہوئے۔ رب المشارق کے الفاظ (الصافات: ۵) بھی آتے ہیں۔

قرآن کریم زمین کی حرکات کو اپنے منفرد انداز میں ایک اور جگہ یوں بیان کرتا ہے:

’’اور (اے انسان!) تو پہاڑوں کو دیکھے گا تو خیال کرے گا کہ جمے ہوئے ہیں حالانکہ وہ بادل کے اڑنے کی طرح اڑ رہے ہوں گے۔ (یہ) اللہ کی کاریگری ہے جس نے ہر چیز کو (حکمت و تدبیر کے ساتھ) مضبوط و مستحکم بنا رکھا ہے۔ ‘‘  (النمل: ۸۸)

معیاری وقت

اگر دنیا کے ہر حصے میں کلاکس شمسی یا مقامی وقت کے مطابق پڑھے جائیں تو مشرق اور مغرب میں ہر جگہ وقت مختلف ہوگا۔ اس وقت تک تو یہ ٹھیک تھا جب دنیا میں ذرائع آمد و رفت محدود تھے لیکن اب یہ ناممکن ہوگیا ہے کہ کسی جگہ کا مقامی وقت لیا جائے اسلئے ایک معیاری وقت کی ضرورت پیدا ہوئی۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ وہ مقامات جو ایک دوسرے سے قریبی طول البلد پر واقع ہیں ان کے درمیان آمد و رفت کی سہولت ہوجائے۔ معیاری وقت کی پٹیاں چوڑائی میں ۱۵؍ ڈگری کے برابر ہیں چنانچہ یہ طریقہ اب ساری دنیا میں رائج ہے۔ بین الاقوامی طور پر طے شدہ دن کو کنوینشنل دن کہتے ہیں۔ یہ بین الاقوامی ’’ڈیٹ لائن‘‘ (Date Line) سے شروع ہوتا ہے اور ۱۵؍ ڈگری فی گھنٹہ مغرب کی طرف سورج کے ساتھ حرکت کرتا ہے چنانچہ دنیا کے کسی مقام پر اجتماعی دن اتوار ۳؍ مارچ ہوسکتا ہے اور دوسری جگہ پیر ۴؍ مارچ ہوسکتا ہے۔

سورج کی حرکت کے مطابق کیلنڈر بھی تیار ہوتے رہے ہیں اور چاند کی حرکت کے مطابق بھی۔ اس طرح تین قسم کے کیلنڈر معرض وجود میں آچکے ہیں : (۱) Lunar قمری کیلنڈر (۲) Luno Solar یا شمسی قمری کیلنڈر اور (۳) Solar شمسی کیلنڈر۔

قمری کیلنڈر: سب سے زیادہ سادہ ہے اور شروع شروع میں تمام اقوام عالم اسی کو استعمال کرتی تھیں۔ اس کا ہر مہینہ نئے ہلال کے آسمان پر نمودار ہونے سے شروع ہوتا ہے۔ فی زمانہ صرف ہجری کیلنڈر قمری ہے۔

شمسی قمری کیلنڈر: یہ چاند کی منزلوں کے ساتھ ساتھ چلنے کی بھی کوشش کرتا ہے اور موسموں کے ساتھ بھی۔ شروع میں اس کیلنڈر میں ایک تیرہواں مہینہ سال کے آخر میں بڑھایا جاتا تھا تاکہ سال کو موسموں کے مطابق بنایا جاسکے اور اس کے لئے قواعد مقرر تھے۔ واضح رہنا چاہئے کہ یہودیوں کا کیلنڈر اس کے مطابق ہے۔

شمسی کیلنڈر: یہ کیلنڈر چاند کی منزلوں کو چھوڑ کر حتی الوسع موسموں کے مطابق بنایا جاتا ہے۔ شمسی کیلنڈر کے مہینے قمری کیلنڈر کے بارہ مہینوں کی نسبت بڑے ہوتے ہیں۔ شروع شروع میں جنہوں نے اس کیلنڈر کو اختیار کیا وہ مصری اور رومن قومیں تھیں۔

ہجری کیلنڈر اس وقت شروع ہوا جب نبی کریمؐ نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ ہجری کیلنڈر ٹھیک ٹھیک قمری ہے۔ اس میں طلوع ہلال کے مطابق بعض مہینے ۲۹؍ دن کے ہیں اور بعض ۳۰؍ دن کے۔ ہجری سال شمسی سال سے گیارہ دن چھوٹا ہوتا ہے۔ اسلامی ممالک میں یہ بحث بھی سننے میں آتی ہے کہ آیا ان ممالک میں سال شمسی ہونا چاہئے یا قمری؟ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ قرآن میں کس کا ذکر ہے؟ چنانچہ فرمایا گیا:

’’ وہی ہے جس نے سورج کو روشنی (کا منبع) بنایا اور چاند کو (اس سے) روشن (کیا) اور اس کے لئے (کم و بیش دکھائی دینے کی) منزلیں مقرر کیں تاکہ تم برسوں کا شمار اور (اوقات کا) حساب معلوم کر سکو، اور اللہ نے یہ (سب کچھ) نہیں پیدا فرمایا مگر درست تدبیر کے ساتھ، وہ (ان کائناتی حقیقتوں کے ذریعے اپنی خالقیت، وحدانیت اور قدرت کی) نشانیاں ان لوگوں کے لئے تفصیل سے واضح فرماتا ہے جو علم رکھتے ہیں۔ ‘‘ (سورہ یونس:۵)

پھرکہا:

’’(وہی) صبح (کی روشنی) کو رات کا اندھیرا چاک کر کے نکالنے والاہے، اور اسی نے رات کو آرام کے لئے بنایا ہے اور سورج اور چاند کوحساب و شمار کے لئے، یہ بہت غالب بڑے علم والے (ربّ) کا مقررہ اندازہ ہے۔ ‘‘

  (سورہ الانعام: ۹۶)

پھر کہا:

’’اور ہم نے رات اور دن کو (اپنی قدرت کی) دو نشانیاں بنایا پھر ہم نے رات کی نشانی کو تاریک بنایا اور ہم نے دن کی نشانی کو روشن بنایا تاکہ تم اپنے رب کا فضل (رزق) تلاش کر سکو اور تاکہ تم برسوں کا شمار اور حساب معلوم کر سکو، اور ہم نے ہر چیز کو پوری تفصیل سے واضح کر دیا ہے۔ ‘‘  (سورہ الاسراء:۱۲)

پھر کہا:

’’سورج اور چاند ایک مقررہ حساب سے چل رہے ہیں۔ ‘‘  (سورہ الرحمٰن:۵)

اب دیکھئے، قرآن کریم نے برسوں کا حساب لگانے کے لئے سورج اور چاند دونوں کا ذکر کیا ہے۔ سورہ یونس کی آیت نمبر ۵؍ میں چاند کی منازل کو وقت کے شمار کا ذریعہ قرار دیا۔ سورہ الانعام کی آیت ۹۶؍ میں سورج اور چاند دونوں کو ذرائع شمار بتایا۔ سورہ الاسراء میں رات اور دن یعنی سورج کی گردش کو برسوں کا شمار اور حساب کا علم حاصل کرنے کے لئے کہا اور سورہ الرحمٰن میں سورج اور چاند دونوں کا ذکر کیا۔ یعنی جہاں تک حساب و شمار کا تعلق ہے دونوں قسم کے سال یعنی شمسی اور قمری مستحکم ہیں۔

چونکہ شمسی سال اب ساری دنیا میں رائج ہے اور پوری دنیا ذرائع آمد و رفت کے آسان ہونے کے بعد ایک وحدت بن چکی ہے اس لئے عملی طور پر تمام ممالک کے ساتھ لین دین اور دیگر معاملات کی خاطر شمسی سال پر انحصار عین مناسب ہے اور اس لئے بھی کہ اس میں موسموں کا لحاظ ہے لیکن اس مسئلہ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ مسلمان قوم کا قمری مہینہ سال بہ سال بدلتا جاتا ہے۔ ماہِ رمضان میں روزہ مسلمانوں کے لئے فرض قرار دیا گیا ہے۔ عسکری لحاظ سے بھی اور روحانی لحاظ سے بھی ماہِ رمضان امت ِ مسلمہ کے لئے ٹریننگ پیریڈ ہے اورٹریننگ پیریڈ کا مختلف موسموں میں واقع ہونا ضروری ہے۔

اس مسئلے کا ایک اور پہلو بھی ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ دنیا کی آبادیوں میں ہر قسم کے لوگ موجود ہیں، صاحب ِ علم بھی اور بے علم بھی۔ قمری مہینے کا حساب ہر ذہنی سطح کا انسان رکھ سکتا ہے چاہے وہ شہری باشندہ ہو یا کسی جنگل یا صحرا میں رہنے والا ہو۔ یہ بھی یاد رکھئے کہ رحم مادر کے اندر جنین کا قیام پورے دس قمری مہینوں تک ہوتا ہے۔

(بحوالہ: مظاہر فطرت اور قرآن)

----------------

Urdu Part: 1- The More We Reflect on Nature’s Wonders, the Deeper We Realize God’s Infinite Power and Wisdom-Part-1 مظاہر ِ قدرت پر جتنا زیادہ غور کیا جائیگا اُسی قدر اللہ کی لامحدود قوت اور علم کا ادراک ہوتا جائیگا

URL: https://newageislam.com/urdu-section/holy-quran-describes-earth-orbit-sun-concluding-part/d/137402

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..