سید مجاہد علی
7 جولائی 2023
وزیر اعظم شہباز شریف نے
ملک بھر میں جمعہ کو ’یوم تقدس قرآن‘ منانے کا اعلان کرتے ہوئے تمام مذہبی و سیاسی
جماعتوں سے اپیل کی ہے کہ اس دن سویڈن میں قرآن سوزی کے خلاف احتجاج کیا جائے تاکہ
پاکستانیوں کے جذبات پوری دنیا تک پہنچائے جائیں۔ اس کے ساتھ ہی جمعرات کو پارلیمنٹ
کا مشترکہ اجلاس طلب کیا گیا ہے جس میں سویڈن کے واقعہ کے خلاف قرار داد منظور کی
جائے گی اور ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے پالیسی پر بات چیت ہوگی۔
شہباز شریف کا یہ فیصلہ
ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب عید الاضحی کے موقع پر پنجاب کے مختلف مقامات پر
قربانی کرنے کے ’الزام‘ میں احمدی کمیونٹی کے متعدد افراد کے خلاف ایف آئی آر درج
کی گئی ہے اور بعض جگہ گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں۔ حیرت ہے سویڈن کے مسلمانوں کے خلاف
اسلاموفوبیا پر پریشانی اور غم و غصہ کا اظہار کرنے والے وزیر اعظم کو پاکستان میں
ایک اقلیتی گروہ کے خلاف ہونے والے جرائم و زیادتیوں پر کوئی پریشانی نہیں ہے۔ کیا
بہتر نہ ہوتا کہ دنیابھر میں پھیلے ہوئے مسلمانوں کے خلاف نفرت و ہراسانی کا نوٹس
لیتے ہوئے وزیر اعظم اپنے ملک کی اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت بھی فراہم کرتے۔ یا کم
از کم اس موقع پر قرآن کی حرمت و تقدس کا ذکر کرتے ہوئے قوم کو یہ بھی باور کرواتے
کہ اگر پاکستان کے مسلمان دنیا سے اسلامی شعائر اور مقدسات کا احترام کرنے کی توقع
کرتے ہیں تو انہیں خود بھی دوسروں کے حق زندگی، عقیدہ و عبادت کا احترام کرنا ہو
گا۔
آج 5 جولائی ہے۔ 46 سال
پہلے اسی روز جنرل ضیا الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر
اپنے طویل آمرانہ دور کی بنیاد رکھی تھی۔ ضیا کا دور اس لحاظ سے تاریکی اور گمراہی
کا عہد کہلائے گا کہ انہوں نے عوام کے بنیادی جمہوری و آئینی حقوق سلب کرنے کے
علاوہ ملک میں مذہبی انتہا پسندی و منافرت کو عام کیا اور قوانین میں ایسی
متعصبانہ ترامیم کی گئیں جن کے نتیجے میں پاکستانی معاشرہ دھیرے دھیرے ایک نارمل
سماج سے گروہی و فرقہ ورانہ تقسیم کا شکار ہو گیا۔ مذہب کے نام پر الزام تراشی،
جھوٹے مقدمے قائم کرنے کا طریقہ یا دین کا نام لے کر بے گناہوں کو قتل کرنے کے
علاوہ اقلیتی گروہوں کی عبادت گاہوں پر حملوں کا باقاعدہ آغاز اسی دور میں متعارف
کروائے گئے قوانین اور مزاج کا شاخسانہ ہے۔ ضیا الحق پر ملک میں افتراق اور بدامنی
پیدا کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے اپنی سیاسی ضرورتوں کے لئے مذہبی
شدت پسندی عام کی اور لوگوں کو اس طرف راغب کیا۔ امریکہ نے سوویٹ یونین کے خلاف
جنگ کے جوش میں پاکستان میں پھیلنے والی مذہبی انتہا پسندی کو اپنی سیاسی کامیابی
سمجھا لیکن بعد میں یہی انتہا پسندی نائن الیون جیسے سانحہ کا موجب بنی اور
پاکستان کو دنیا بھر میں دہشت گردی کی ’ماں‘ کا درجہ حاصل ہوا۔
پاکستان نے دہشت گردی، اس
کے خلاف جنگ اور اسلامی تعلیمات کے نام پر پھیلائی جانے والی گمراہی، انتہا پسندی
اور منافرت کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ اس کے باوجود کوئی پاکستانی حکومت اب تک اس
مزاج کو ختم کرنے کے لئے سنجیدگی سے کام کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ بلکہ ہر آنے والی
حکومت مذہب کو ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اسلام کا علم بردار ہونے کا
دعویٰ کرتی ہے۔ یوں عوام کو مذہبی نعرے بازی سے رجھا کر سیاسی نااہلی و ناکامی کو
چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس سیاسی حکمت عملی کا کسی حکومت کو تو کوئی خاص فائدہ
نہیں ہوا لیکن نعرے بازی کی بنیاد پر کی جانے والی سیاست کی وجہ سے معاشرے میں
مذہبی انتہا پسندی کی جڑیں گہری ہوتی جا رہی ہیں۔ ایک کے بعد آنے والی دوسری حکومت
نے ہمیشہ ماضی کی حکومت کو تمام خرابیوں کا ذمہ دار قرار دیا لیکن مذہب کو نعرے کے
طور پر استعمال کرنے کا ہتھکنڈا ہر حکومت اسی جوش و خروش سے استعمال کرتی آئی ہے
جس کا مظاہرہ اس وقت شہباز حکومت کے طریقہ کار میں دیکھا جاسکتا ہے۔
مذہب کے نام پر پھیلائی
گئی اس گرمجوشی کی وجہ سے عام لوگ اپنے عقیدے، نظریہ یا خیال کو ہی سب سے بالا
تصور کرتے ہیں اور عقیدے کے نام پر مار دھاڑ اور خوں ریزی کا کلچر راسخ ہوتا جا
رہا ہے۔ ایک روز پہلے شہباز شریف نے شنگھائی تعاون تنظیم کے ورچوئیل اجلاس سے خطاب
کرتے ہوئے مذہب کے نام پر پھیلنے والی شدت پسندی اور دہشت گردی کو ختم کرنے کا
پرچار کیا تھا۔ وزیر اعظم او ر دیگر سرکاری زعما خاص طور سے بھارت میں پھیلنے والی
ہندو انتہا پسندی کا ذکر کرتے ہیں اور نریندر مودی کو اس کا ذمہ دار قرار دیا جاتا
ہے۔ جیسے سویڈن میں قرآن سوزی کا واقعہ قابل مذمت ہے اسی طرح ہندوستان میں
مسلمانوں کے خلاف جن سنگھی ہندوؤں کی خوں ریزی بھی ناقابل قبول ہے۔ البتہ ان
دونوں قسم کی انتہا پسندی کے خلاف کام کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان سمیت تمام
مسلمان ممالک میں مذہبی اقلیتوں کی حفاظت کی جائے اور انہیں مساوی حقوق حاصل ہوں۔
پاکستان کی حد تک یہ دعویٰ کرنا ممکن نہیں ہے۔ اسی لئے وزیر اعظم کی طرف سے ایک
دور دراز ملک سویڈن میں قرآن جلانے کے واقعے کے خلاف غم و غصہ کا اظہار اور اس کے
سیاسی اظہار کے لئے احتجاج کا مشورہ محض سیاسی شعبدے بازی سے زیادہ حیثیت نہیں
رکھتا، جب کہ اسی ملک میں ایک چھوٹی سی اقلیت کے لئے سانس لینا بھی دشوار کیا جا
رہا ہو۔
عید الاضحیٰ کے روز اور
اس کے بعد پنجاب میں متعدد مقامات پر احمدی عقیدے سے تعلق رکھنے والے افراد کے
خلاف قربانی کرنے کا الزام لگاتے ہوئے مقدمے درج کیے گئے ہیں۔ بعض گرفتاریاں ہوئی
ہیں اور خبروں کے مطابق پولیس نے بعض گھروں میں چھاپے مار کر قربانی کا گوشت بھی
’برآمد‘ کیا ہے۔ اس حوالے سے سیالکوٹ کے تھانہ قلعہ کلر والا میں درج کروائی گئی
ایف آئی آر کے مطابق شکایت کنندہ کا کہنا تھا کہ ’وہ ڈسکہ کا رہنے والا ہے۔ تاہم
29 جون کو اس کا کوٹ آغا جانا ہوا۔ اس نے دیکھا کہ احمدی کمیونٹی کے دو افراد اپنی
حویلی کے باہر قربانی کر رہے تھے۔ درخواست گزار کا دعویٰ ہے کہ احمدیوں کو اسلامی
شعائر پر عمل کرنے کی اجازت نہیں ہے، اس لئے ان کے خلاف ضروری کارروائی کی جائے۔
پولیس نے اس شکایت پر قانونی شق 295 اے کے تحت مقدمہ درج کر کے تحقیقات کا آغاز کر
دیا‘ ۔
اس کہانی میں کئی سقم
ہیں۔ اول تو یہ کہ ڈسکہ کا ایک شہری اپنے علاقے سے دور ایک جگہ جاتا ہے لیکن اسے
معلوم ہے کہ قربانی کرنے والے وہ دو افراد احمدی ہی ہیں۔ اس کے علاوہ اسے یہ بھی
خبر ہے کہ احمدیوں کو اسلامی طریقوں پر عمل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ پولیس بھی
درخواست گزار سے سوال نہیں کرتی کہ اسے کیسے یقین ہے کہ وہ دونوں افراد قربانی ہی
کر رہے تھے؟ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے کھانے کے لئے جانور ذبح کر رہے ہوں؟
واضح رہے کہ شہری یا پولیس کا مقصد نہ کسی قانون شکنی کو روکنا ہے اور نہ ہی اسلام
کی حفاظت مطلوب ہے بلکہ ایسے ہتھکنڈے معاشرے کے ایک چھوٹے سے گروہ کے خلاف نفرت
عام کرنے کے لئے اختیار کیے جاتے ہیں۔ اسی لئے پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن نے
قربانی کرنے کے الزام میں درج کیے گئے مقدموں اور گرفتاریوں کی مذمت کی ہے اور
مطالبہ کیا ہے کہ ایسے تمام لوگوں رہا کیا جائے اور ان کے خلاف مقدمے ختم کیے
جائیں۔
یہ مطالبہ بلکہ حکم
درحقیقت وزیر اعظم شہباز شریف کی طرف سے آنا چاہیے تھا تاکہ سویڈن میں توہین قرآن
کے خلاف احتجاج کی بات کرتے ہوئے ان کی دلیل میں وزن پیدا ہوتا اور حکومت یہ واضح
کرتی کہ وہ سویڈن سے جو مطالبہ کر رہی ہے، خود پاکستان میں اس اصول پر پوری طرح
عمل کیا جا رہا ہے۔ اقلیتوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے عناصر کے خلاف پوری حکومتی
مشینری حرکت میں آتی ہے۔ لیکن شہباز شریف ایسا اعلان نہیں کر سکتے کیوں کہ یہ
مذہبی جذبات کا معاملہ ہے جنہیں برانگیختہ کر کے سیاسی لیڈر اپنی کامیابی کے جھنڈے
گاڑنا چاہتے ہیں، خواہ اس سے معاشرے کا امن و امان اور خیر سگالی ہی کیوں نہ متاثر
ہو۔
انسانی حقوق کمیشن نے اس
معاملہ میں بیان جاری کرتے ہوئے 2022 میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلہ کا حوالہ بھی
دیا ہے جس میں اقلیتوں کو اپنے عقیدے پر عمل کرنے کا حق دینے کی بات کی گئی تھی۔
فیصلہ میں کہا گیا تھا کہ ’ہمارے ملک میں غیرمسلموں کو اپنے مذہبی عقائد پر عمل سے
روکنا اور انہیں اپنی عبادت گاہ میں اپنی مذہبی رسوم پر عمل کرنے سے انکار کرنا
پاکستان کے آئین اور اسلامی جمہوریہ کی روح سے متصادم ہے۔ اس سے انسانیت کی توہین
ہوتی ہے اور یہ طریقہ غیر مسلم اقلیتوں کے افراد کو نجی زندگی کا حق دینے سے انکار
کے مترادف ہے۔ ان لوگوں کو بھی آئین کے تحت معاشرے کے دیگر لوگوں کی طرح مساوی
حقوق حاصل ہیں اور ان کا تحفظ ہونا چاہیے۔ ملکی اقلیتوں کے خلاف چند افراد کا
متعصبانہ رویہ پوری قوم کی ناقص تصویر پیش کرتا ہے۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے گویا
پاکستانی عدم برداشت والے انتہاپسند لوگ ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم آئینی معیار پر
پورا اتریں اور احسن اسلامی تعلیمات پر عمل کیا جائے‘ ۔
جسٹس منصور علی شاہ نے یہ
فیصلہ احمدی کمیونٹی کے ارکان کی طرف سے اپنی عبادت گاہ کو مسجد کی شکل دینے اور
اسلامی تعلیمات کے بینر لگانے کے خلاف قائم ہونے والے ایک مقدمہ کا فیصلہ دیتے
ہوئے لکھا تھا۔ اس سے پہلے سپریم کورٹ 2014 میں اقلیتوں کی حفاظت اور انہیں مذہبی
حقوق فراہم کرنے کے بارے میں ایک تفصیلی حکم جاری کر چکی ہے۔ ستمبر 2013 میں پشاور
کے ایک چرچ پر دہشت گرد حملہ کے بعد عدالت عظمی نے سو موٹو اختیار کے تحت اقلیتوں
کے حقوق پر کارروائی کی تھی۔ اس حملہ میں 81 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
32 صفحات پر مشتمل یہ فیصلہ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے لکھا
تھا۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ حکومت اقلیتوں کی جان و مال اور ان کے حقوق کا
تحفظ یقینی بنائے۔ فیصلہ میں مذہبی قبولیت، معاشرے میں ہم آہنگی اور قوت برداشت کے
لئے کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اس حوالے سے تعلیمی
اداروں کے نصاب میں مناسب تبدیلی کا حکم بھی دیا تھا۔ اس کے علاوہ حکومت کو اقلیتوں
کے تحفظ کے لئے خصوصی ٹاسک فورس قائم کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے
فیصلہ میں اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے امور کی نگرانی کرنے اور فیصلہ سازی کے
مقصد سے خصوصی قومی کونسل بنانے کی تجویز بھی دی گئی تھی۔
عدالت عظمی کے اس فیصلہ
کے باوجود برسر اقتدار آنے والی کوئی حکومت اقلیتوں کی حفاظت اور انہیں معاشرے کا
مساوی قابل احترام رکن تسلیم کرنے کے حوالے سے کوئی قابل قدر اقدام نہیں کر سکی۔
جو حکومت ملکی آئین اور سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں
شدید بے حسی کا مظاہرہ کرتی ہو، وہ کس منہ سے دوسرے ممالک میں مذہبی آزادی اور
احترام کا نعرہ لگا سکتی ہے؟
7 جولائی 2023،بشکریہ: روزنامہ چٹان سری نگر
----------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism