New Age Islam
Mon Jan 20 2025, 08:23 PM

Urdu Section ( 22 Nov 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

History of Namaz in Islam Part-3 (اسلام میں نماز کی تاریخ – نماز کی شکل اور با جماعت نماز (3

 

ناستک درانی، نیو ایج اسلام

22 نومبر، 2013

نماز کی شکل

ہر مذہب نے نماز کی ایک خاص شکل متعین کی ہے، جو اس کے مخصوص مفہوم، خداؤوں کی تعظیم وتوسل کی تعبیر سے مطابق رکھتی ہے، کسی مذہب نے نماز کو خاموشی اور تفکر بنا دیا تو کسی نے مخصوص حرکات وسکنات دے دیے جن میں کچھ مخصوص کلام پڑھا جاتا ہے وغیرہ۔

تاہم نماز میں خدا یا خداؤوں کے سامنے کھڑے ہونا زیادہ تر مذاہب میں نماز کا ستون رہا ہے جس کے بعد رکوع اور پھر سجود کی باری آتی ہے، سجدہ عام طور پر بت کے آگے کھڑے ہونے کے بعد کیا جاتا ہے جو مسجود کی تعظیم واحترام کی علامت ہے، یہودی مذہب میں درست سجدہ وہی ہے جو خالق خدا کو کیا جاتا ہے 1 جبکہ انسان کو کیا جانے والا سجدہ بُت پرستانہ ہے 2۔

عربی کو رکوع وسجود سے نفرت ہے کیونکہ اسے اس میں ذلت، برائی اور بے ہودگی نظر آتی ہے، سجدے سے تو وہ خاص طور پر متنفر ہے کیونکہ اس میں رکوع سے زیادہ بے ہودگی ہے، اور اس میں پچھواڑا اٹھانا پڑتا ہے اور پچھواڑے کو اوپر کی طرف اٹھانا بے ہودگی ہے، یہی وجہ تھی کہ عربی کے لیے نماز قبول کرنا ایک مشکل امر تھا کیونکہ اس میں رکوع وسجود موجود ہے، جب نو ہجری کو ثقیف کا وفد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آیا تو انہوں نے دو چیزوں میں چھوٹ کی درخواست کی: اول اپنے ہاتھ سے اپنے بُت توڑنا، اور دوم نماز کی ادائیگی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے بتوں کو تمہارے اپنے ہاتھوں سے توڑنے سے ہم تمہیں چھوٹ دیتے ہیں، رہی نماز تو جس مذہب میں نماز نہ ہو اس میں خیر نہیں“ تو انہوں نے کہا: اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تمہارے لیے یہ کر لیں گے اگرچہ کہ اس میں بے ہودگی ہے 3۔

قرآنِ مجید میں ہمیں ہر نماز کے رکوع وسجود کی تعداد کے بارے میں کوئی تحریر نہیں ملتی بلکہ صرف ”رکوع“ اور ”سجود“ کی تحریر ملتی ہے، قرآنِ مجید میں رکوع کا سب سے پرانا ذکر سورہ ص میں ملتا ہے: وَظَنَّ دَاوُودُ أَنَّمَا فَتَنَّاهُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ وَخَرَّ رَاكِعًا وَأَنَابَ (ترجمہ: داؤد (ع) نے خیال کیا کہ ہم نے ان کا امتحان لیا ہے تو انہوں نے اپنے پروردگار سے مغفرت طلب کی اور اس کے حضور جھک گئے اور توبہ و انابہ کرنے لگے۔) 4، سورہ ص مکی سورتوں میں سے ہے، یہ مکی سورتوں میں سے واحد سورت ہے جس میں یہ لفظ آیا ہے، دوسرے مقامات پر جہاں یہ لفظ آیا ہے وہ مدنی سورتیں ہیں جو مدینہ میں نازل ہوئیں۔

”سجود“ اور ”سجدہ“ کرنے والوں کا ذکر قرآنِ مجید میں مکی اور مدنی دونوں سورتوں میں آیا ہے، مکی سورتوں میں اس کا ذکر سورہ ص سے بھی پرانا ہے، مزید برآں قرآن میں سجدہ کا ذکر رکوع کے ذکر سے کہیں زیادہ ہے۔

روزانہ کی پانچوں نمازوں میں اللہ کی طرف خشوع وخضوع کے تمام عناصر اکٹھے کیے گئے ہیں، جیسے وقوف، جلوس، رکوع اور سجود، ما سوائے استثنائی حالتوں کے جیسے اگر نمازی مریض ہو تو وہ حسبِ استطاعت اپنے طریقہ سے نماز ادا کرے گا۔

با جماعت نماز

مذاہب نے انسان کو دوسروں کے ساتھ عبادت گاہ میں نماز پڑھنے کا پابند نہیں کیا، یعنی با جماعت نماز، تاہم مذاہب نے با جماعت نماز کو باعثِ برکت قرار دیا اور عبادت گاہوں میں آکر نماز کے فرائض کی ادائیگی پر اپنے ماننے والوں کی حوصلہ افزائی کی کیونکہ با جماعت نماز اتحاد، یکجہتی اور صف بندی کی علامت ہے۔

با جماعت نماز وہ نماز ہے جس کی ادائیگی لوگوں کا ایک گروہ ایک ساتھ کرے، بعض مذاہب نے اس عدد پر حد لگائی ہے جسے جماعت کہا جا سکے، اسلام کے بعض فقہاء نے دو لوگوں کی حاضری کو جماعت کی حد قرار دیا ہے جبکہ کچھ دوسرے فقہاء نے تین کی حد رکھی ہے جن کی حاضری سے نمازِ جماعت درست قرار پائے گی 5۔

اگر ہم جماعت کی تعریف میں فقہاء کی رائے پر انحصار کریں تو اسلام میں با جماعت نماز بہت پرانی ہے، یہ اسی دن ہی شروع ہوجاتی ہے جس دن نماز فرض ہوئی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ نماز ادا کی، یوں ان کی نماز با جماعت نماز ہے، پھر حضرت خدیجہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کے ساتھ نماز ادا کی، پھر کچھ دیگر لوگوں کی نماز کی امامت فرمائی جیسے جیسے اسلام میں داخل ہونے والے لوگوں کی تعداد بڑھتی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان لوگوں کی نماز کی امامت با جماعت نماز ہے اگرچہ یہ جماعت چھوٹی ہے، اس عدد سے بڑی نماز مدینہ میں ادا کی گئی کیونکہ اہلِ مدینہ اسلام میں داخل ہوگئے تھے، مدینہ کے لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ آمد سے قبل با جماعت نماز ادا کی تھی، کیونکہ اہلِ یثرب میں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنے والے اولین لوگوں کو آپ کی جملہ تلقینات میں سے اوصولِ نماز بھی شامل تھا جبکہ آپ ابھی مکہ میں تشریف فرما تھے، ان کے نقیب نمازیوں کی با جماعت نماز کی امامت کرتے تھے، پھر جب آپ وہاں تشریف لے گئے تب آپ خود امامت فرماتے تھے۔ 

اسلام میں نماز کی امامت کوئی وظیفہ یا وراثتی درجہ نہیں ہے، یہ نمازیوں کی صوابدید پر ہے، وہ جسے چاہیں اپنی امامت کے لیے منتخب کر لیں، نماز کے ختم ہونے پر اس کی امامت بھی ختم ہوجاتی ہے۔

نماز کا امام کوئی مادی اجر وصول نہیں کرتا، کیونکہ اس کی امامت رضاکارانہ اور عارضی ہوتی ہے، اس لیے بھی کہ ہر عقل مند اور اپنے دین کے امور سے واقفیت رکھنے والا شخص نماز میں دوسروں کی امامت کر سکتا ہے۔

ضرورت کے تحت مسلمانوں کو ان کے امورِ دین کی تعلیم کے لیے فقہاء کا انتخاب کیا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کا انتخاب کیا تاکہ وہ اسلام میں داخل ہونے والے لوگوں کو ان کے نئے دین کے معاملات سکھا سکیں اور انہیں ان کی نماز کی امامت کی ذمہ داری سونپی، خلفاء نے بھی نماز میں لوگوں کی امامت اور دینی احکام کی تعلیم کے لیے کچھ لوگ متعین کیے، ان فقہاء کو مسلمانوں کے مال سے کچھ رقم دی گئی تاکہ ان کی گزر بسر ہوسکے اور وہ اس کام کے لیے خود کو پوری طرح سے وقف کر سکیں، یہاں سے نماز میں لوگوں کی امامت اسلامی معاشرے میں ایک عام ملازمت کی شکل اختیار کر گئی۔

مسالک کے فرق کے با وجود فقہ کی کتابوں میں نماز کی امامت اور اس کی شرطوں پر تحقیقیں بھی ملتی ہیں۔

نماز کے امام کا کردار یہودیت میں ”سیلیح ہصبور“ (Shelih has-sibbur) نامی کردار سے ملتا ہے کیونکہ نمازیوں کی امامت کی ذمہ داری اسی کے سر ہوتی ہے 6۔        

حوالہ جات:

1- التکوین (کتابِ پیدائش), باب 24, آیت 26 اور 48, قاموس الکتاب المقدس 549/1۔

2- دانیال، باب 3، آیت 4، قاموس الکتاب المقدس 549/1۔

3- الطبری 99/3 دار المعارف۔

4- سورہ ص، آیت 24۔

5- ابن اسحاق الشیرازی التنبیہ 31، ابن ماجہ، اقامہ، پانچواں باب، صحیح مسلم، کتاب المساجد، حدیث 269۔

6- Becker, Der Islam III, 386, Mittwoch, S., 22, Shorter Ency., P. 496.

URL for Part 1:

https://newageislam.com/urdu-section/history-namaz-islam-part-1/d/14330

URL for Part 2

https://newageislam.com/urdu-section/history-namaz-islam-part-2/d/34490

URL for this article:

https://newageislam.com/urdu-section/history-namaz-islam-part-3/d/34528

 

Loading..

Loading..