ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی ، نیو ایج اسلام
28 مارچ 2025
بھارت میں اس وقت بنیادی اور اہم سوال یہ ہے کہ کہ آج ٹی وی مباحثوں ، سوشل میڈیا اور دیگر سماجی رابطوں کے توسل سے تاریخ و تہذیب اور اسلام کے متعلق جو باتیں عوام تک پہنچائی جارہی ہیں یا نوجوانوں کے پردہ سماعت سے ٹکرا رہی ہیں ان میں بنیادی طور پر بیشتر ایسی باتیں ہیں جن کا نہ تاریخ سے کوئی تعلق ہے اور نہ ان کا مذہب سے کوئی رشتہ ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ غلط تاریخ کا بیانیہ اور اسلام سے ایسی باتیں منسوب کرنا جن کا اسلام میں کوئی اتا پتا نہیں ہے کہاں سے آرہی ہیں؟
اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس وقت کے ملکی سطح پرسیاسی و سماجی احوال کا تجزیہ کرنا ہوگا۔
عصری منظر نامہ میں ایک کردار ان طبقوں اور عناصر کا ہے جن کے ہاتھوں میں اقتدار ہے ۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اس وقت اقتدار مخصوص نظریات کی حامل جماعت کا ہے ۔
اس گروہ سے وابستہ افراد اگر تاریخ کے حوالے سے کوئی بات کرتے ہیں تو وہ ان روایتوں کو پیش کرتے ہیں جن سے ان کا اپنا سیاسی فائدہ ہوتا ہے اور ہندو ووٹ متحد ہو ۔ اورنگزیب یا مغلوں کی بابت آج جو بیانیہ ٹی وی مباحثوں ، سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر نشر کیا جارہاہے وہ محض سیاسی ہے اور ان کی آئیڈیا لوجی کا حصہ ہے۔
ظاہر ہے ہر وہ بات یا تاریخ کا واقعہ جس میں کوئی مسلم زاویہ ہوتا ہے اس سے زعفرانی طاقتوں کا سیاسی فائدہ ہوتا ہے ۔ اس لیے ان کی یہ مجبوری ہی نہیں بلکہ اقتدار میں بنے رہنے کے لیے اس طرح کے تمام مدعوں کا گاہ بگاہ اجاگر کیا جاتا رہے گا ۔ یہاں یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ تمام باتوں کا جواب دینے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے بلکہ بعض سوالات اس نوعیت کے ہوتے ہیں کہ انہیں نظر انداز کیا جانا چاہیے ۔ راقم کا ماننا یہ ہے کہ اگر آج کوئی اورنگزیب یا مغلوں کے حوالے سے کوئی سوال کررہا ہے یا ان کے کسی کردار کو منفی طور پر پیش کررہا ہے تو ضروری نہیں کہ اس کا جواب دیا جائے کیونکہ مغلوں کے متعلق سب کچھ تاریخ میں درج ہے جسے چاہ کر بھی کوئی نابود نہیں کرسکتا ہے۔ جب ہم معاملہ اس وقت طول پکڑتا ہے کہ جب کوئی مسلمان اس طے شدہ اور منظم ذہنیت کا جواب دینے کے لیے آگے آتا ہے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی بتاتا چلوں کہ دوسرا فائدہ جو اس گروہ کو ہورہا ہےوہ یہ کہ یہ گروہ جانتا ہے کہ ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ تاریخ نہیں ہے اور نہ ہی اس میں کوئی صداقت و معقولیت نظر آتی ہے اس کے باجود دانستہ طور پر عوامی جلسوں یا میڈیا میں بیان اس لیے بھی دیا جاتاہے کہ کم از کم یہ غلط تاریخ جو بتائی جارہی ہے وہ اگلی ایک دو دہائی میں حقیقت میں تبدیل ہو جائے گی اور اب جو جنریشن تیار ہوگی وہ اس گروہ کی زبردست حامی اور معین و مددگار ہوگی ۔ اس لیے تاریخ کو عمدا توڑ مروڑ کر پیش کرنا ایک منظم اور سوچی سمجھی منصوبہ بندی ہے ۔ اس کو سمجھنے کی ضرورت بہر حال ہے ۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس طرح کی غیر فطری باتوں پر لوگ کیسے یقین کرلیتے ہیں کہ اورنگ زیب اس وقت تک کھانا نہیں کھاتا تھا جب تک کہ سوا من جنیو جمع نہ کرلیتا تھا۔ ہزاروں مندروں کا توڑا وغیرہ وغیرہ ۔ ان باتوں پر یقین کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جس طبقہ کو مخاطب کرکے یہ باتیں کی جاتی ہیں وہ ان پڑھ اور فہم و فراست یا ادارک و شعور سے پوری طرح عاری ہے ۔ مزید اس کو مذہبی رنگ دے کر اور ہندو مسلم نظریہ سے پیش کیا جاتا ہے تو نفسیاتی طور پر وہ اس کو سچ ماننے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں ۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ بلا تفریق سماج میں تعلیم و تربیت کے لیے کام کیا جائے اور ایسا لٹریچر تیار کیا جائے جو درست تاریخ کا آئینہ دار ہو اور ان زبانوں میں مرتب کرکے تقسیم کیا جائے جن علاقوں میں جو زبانیں بولی جاتی ہیں ۔ ٹی وی پر مباحثوں میں جانے سے کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ ٹی وی پر جو اینکر ہوتا ہے وہ پوری طرح مائنڈ سیٹ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی پینلسٹ صحیح بات کرتا ہے تو اس کی بات کو یہ نہ صرف روکتا ہے بلکہ بسا اوقات تو ایسی اول فول بکنے لگتا ہے کہ جیسا اس کی ذات پر کسی نے کچھ نقد کردیا ہے ۔ اس ماحول میں اپنی بات پوری وضاحت و صراحت اور حقائق و شواہد کی روشنی میں کسی عام پینلسٹ کے لیے نہ صرف مشکل ہے بلکہ محال ہے ۔ برعکس اس کے اگر کوئی شخص جو مخصوص فکر کا حامل ہے اسے پوری بات کہنے اور اس کے نظریات رکھنے کی آزادی دی جاتی ہے ۔ اس سیاسی پس منظر اور سیاسی بیانیہ کا تجزیہ ہمیں بڑی سنجیدہ سے کرنے کی ضرورت ہے ۔
اسی طرح اسلام کے متعلق بھی کچھ ایسا ہی ہو ہورہا ہے۔ اولا تو عالمی میڈیا نے اسلام کے متعلق جو کچھ لکھا اور نشر کیا اس نے ایک بڑے پیمانے پر عوام میں منفی اثرات مرتب کیے ۔ باقاعدہ اس بات کی تبلیغ و ترویج کی کہ اسلام اخلاق و کردار یا اپنے حسن نظام کی وجہ سے پروان نہیں چڑھا بلکہ مسلم مبلغین نے جور و جبر کا سہارا لیا۔ اس پروپیگنڈے کو خوب عام کیا گیا اور آج بھی کیا جارہاہے ۔ مغرب اور وہاں کے ذرائع ابلاغ نے تو اس میں خاصا بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے ، اسی کا اثر اب ہم بھارت میں بھی دیکھ رہے ہیں ۔ یہاں بھی اب ٹی وی مباحثوں اور آئینی مراکز میں مسلمانوں کو آتنک وادی جیسے الفاظ سے پکارے جانے کو کوئی عیب نہیں سمجھا جارہا ہے ۔ بلکہ ایک ٹی وی مباحثہ میں علی الاعلان ایک شخص نے کہا کہ اسلام پورا کا پورا شدت پسندی اور جبر و اکراہ سے پھیلا ہے ۔ اسلام کے خلاف یہ بھی ایک منظم سازش ہے ۔ اس کا بھی کہیں نہ کہیں ان طبقات کو فائدہ پہنچ رہا ہے جو انہی اشتعال انگیز تقاریر و بیانات کے ذریعے اپنی سیاسی روٹی سیک رہے ہیں ۔ اس سیاسی بیانیہ نے جس طرح سے آج کے معاشرے اور سماجی ماحول کو پراگندہ کیا ہے اور نفرت میں اضافہ کیا ہے وہ غیر معمولی ہے ۔ اسی طرح یہاں یہ بتانا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آج جو ماحول ہے اس کے تقاضے اور ضرورتیں کیا ہیں ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا ۔ آج اسلام اور تاریخ کے متعلق جو اعتراضات ہورہے ہیں ان کا دفاع ہمیں کیسے کرنا ہے اس پر بھی ملک کے تمام اصحاب علم وفضل کو غور کرنے کی ضرورت ہے ۔
ان تمام اسباب و وجوہات کی بناء پر زعفرانی طاقتیں کتنی تیزی سے سماج میں اپنا اثرورسوخ قائم کر رہی ہیں جس کی وجہ سے پیہم معاشرے میں شدت ، کشیدگی ، فکری و نظریاتی طور پر دوریاں اور سماجی تفریق میں اضافہ ہورہا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ آج کے اس پورے منظر نامہ میں سب سے زیادہ نقصان ایک بھارتیہ کا ہی ہو رہا ہے، خواہ وہ مسلم ہی کیوں نہ ہو ۔ آج ملک میں جتنے بھی کردار مغلوں کے خلاف ہیں ان تمام کو یہ بات کیوں نہیں سمجھ آتی ہے کہ مسلمانوں نے اپنا آدرش کبھی بھی کسی مغل حکمراں کو نہیں بنایا ہے ۔ حتیٰ کہ مغلوں کے دور حکومت میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز بھارت کے ہندو ہی تھے۔ یہ تاریخ ہے، اسے کبھی بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ مغلوں کی حکومت کو ختم ہوئے ایک زمانہ گزر گیا ہے ۔ یہاں جو مسلمان ہیں وہ ہندوستانی ہیں اسی مٹی سے وہ پیدا ہوئے ہیں اور اسی مٹی میں دفن ہونا ہے ۔ اگر اب کوئی آنچ کسی مسلمان پریا کسی اور پر آتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم ایک بھارتیہ کو زد پہنچا رہے ہیں اور ایک بھارتیہ دوسرے بھارتیہ کو کسی بھی طرح زد پہنچائے یہ کسی بھی ہندوستانی کے خواہ اس کا تعلق کسی بھی دھرم سے ہو شایان شان نہیں ہے ۔ عوام کو بھی آج کی ان سیاسی بیان بازیوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کیونکہ عوام ہی سے کوئی حکومت تشکیل پاتی ہے اور عوام ہی کی نقل و حرکت سے کسی معاشرے کی اچھائی یا برائی کا انحصار ہوتا ہے ۔
یاد رکھیے: تاریخ تاریخ ہوتی ہے اس میں اچھی اور بری دونوں چیزیں ہوتی ہیں اور تاریخ نام بھی اسی کا ہے ، لیکن تاریخ کے روشن اور مثبت کرداروں کو مٹانا یا اس کو کسی مخصوص فائدہ کے لیےمنفی طور پر پیش کرنا صرف تاریخ کے ساتھ ہی کھلواڑ نہیں ہے بلکہ اس کے اثرات سماج پر ہمیشہ مایوس کن اور متنفرانہ ہی ہوتے ہیں ۔
آج بھارت میں جس طرح کی تاریخ لکھی جارہی ہے اس سے کسی کا فائدہ ہونے والا نہیں ہے ۔
مہذب اور سنجیدہ معاشرے وہ ہوتے ہیں جو علمی ماحول بناتے ہیں اور فکری و نظریاتی طور پر عوام کو بیدار کرتے ہیں ، تاریخ کے واقعات سے کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کرتے ۔ایسے ہی سماج عالمی سطح پر سرخ رو اور کامران ہوتے ہیں ۔
------------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/history-history/d/134997
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism