New Age Islam
Sat Jul 19 2025, 08:03 PM

Urdu Section ( 2 Jun 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Historical Status of Studying Religions مطالعہ مذاہب کی تاریخی حیثیت

ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی ، نیو ایج اسلام

2 جون 2025

تاریخ کسے کہا جاتا اور اس میں سماج کے کن کن پہلوؤں پر روشنی ڈالی جاتی ہے اس حوالے سے معروف محقق  خلیق احمد نظامی  اپنی کتاب " تاریخ و تمدّن ہند" میں رقم طراز ہیں:

" اگر مجموعی حیثیت سے دیکھا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ تاریخی تحقیق کے نظریات بنیادی طور پر دو عوامل سے متاثر ہوئے ہیں ۔ سماج کے مختلف طبقات کی بڑھتی ہوئی اہمیت کے احساس اور جدید سائنسی علوم کے انقلاب آفریں انکشافات سے۔  ان دونوں محرکات کے زیرِ اثر تاریخی تحقیق کی نئی راہیں کھلی ہیں اور تلاش و جستجو کے نئے سانچے ڈھالے گئے ہیں ۔ایک زمانہ تھا کہ تاریخ تعبیر تھی بادشاہوں کی زندگی سے اور ان کی رزم اور بزم کی داستانوں سے لیکن جب مساوات و اخوت کے نظریات پھیلے اور سماج کے ہر طبقہ کی اہمیت کا احساس پیدا ہوا تو تاریخ کے اس محدود تصور سے تحقیق کا دم گھٹنے لگا اور عوام کی زندگی، ان کے رسم و رواج، سوچنے اور رہنے کے طریقے، اہل حرفہ کی صنعت ، اہل حرفت،  کاشتکاروں کی جدوجہد، علماء اور مذہبی رہبروں کی سرگرمیوں، شاعروں اور ادیبوں کی ذہنی کاوشوں ،غرض زندگی کی وسیع میدان میں ہر طبقے کی جدوجہد کا نقشہ تاریخ کا موضوع بننے لگا" اس اقتباس کے تناظر میں یہ کہنا مناسب معلوم ہوتا ہے مذاہب و ادیان اور ان کی تعلیمات و ارشادات بھی تاریخ کا جزوِ لاینفک ہیں ۔ مذاہب و ادیان سے تاریخی واقفیت پیدا کرنا سماجی رابطوں کی توسیع اور انسانی رشتوں کی تکمیل کے لیے ناگزیر ہے ۔

دنیا میں امن و سلامتی کے قیام  اور تہذیبی و ثقافتی قدروں کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ ہر دور اور اس میں پائے جانے والے مذہبی نظام ، سیاسی اتھل پتھل ، اقتصادی اور ثقافتی احوال  کی تاریخ کا صحیح صحیح علم ہو ۔ تاریخ سے واقفیت کی ضرورت صرف ارباب قلم اور اصحاب بصیرت کو ہی فائدہ نہیں دیتی ہے بلکہ سماج میں رہنے والے ہر شخص کو  تاریخ کی درست معلومات بےشمار  فوائد سے ہمکنار کرتی ہے ۔ واضح رہے کہ ہر مذہب ، نظریہ ، نظام ، تنظیم ، تحریک ، سماج اور ادارے کی اپنی تاریخ ہوتی ہے جو اپنے اندر عروج و زوال ، نشیب و فراز اور دیگر بہت سارے دلچسپ واقعات رکھتی ہے ۔ کسی چیز پر صحیح یا غلط کا حکم لگانے اور اس میں پائے جانے والے غلط اور منفی تصورات سے سماج کو آشنا اسی وقت کیا جاسکتا ہے جب ہماری تاریخ پر مضبوط گرفت ہوگی ۔ تاریخ کی درست معلومات کے نتائج سماج میں ہمیشہ اطمینان بخش رہے ہیں اور پھر معاشروں میں حقائق و شواہد کے برتنے کا رواج ہوجاتا ہے ۔ یہ بھی بدیہی صداقت ہے کہ جب سماج میں حقائق پر عمل کیا جانے لگے اوران تمام روایات و تصورات اور واقعات سے احتراز کیا جانے لگے جن کی بناء شکوک وشبہات پر رکھی گئی ہے تو اس سماج کے رہنے والے افراد باہم خیرو فلاح کا باعث ہوتے ہیں ۔ بہت سارے اختلافات و تنازعات کا حل آسانی سے نکل آتا ہے ۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب معاشرے میں رائج نظاموں ، نظریات ، خیالات اور مذاہب کی تاریخ سے کما حقہ واقف ہوں ۔

تاریخ کا درست علم سماج کو فطری طور پر ایسے راستہ پر لے جاتاہے جو راہ حقیقی معنوں میں توازن و اعتدال پر قائم  ہوتی ہے ۔ ظاہر ہے اعتدال و توازن  سے سماج کا متصف ہونا اپنے آپ میں ایک اخلاقی اور تہذیبی قدر ہے ۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ جو شخص تاریخی حقائق سامنے لا رہا ہے اور تاریخ کو ترتیب دے رہا ہے وہ تاریخ کا حق اسی وقت ادا کرسکتا ہے جب کہ وہ عقیدت اور تعصب سے پوری طرح پاک ہو ۔ مؤرخ کا اصولی طور پر ایماندار ہونا سماجی و قومی ہم آہنگی کے لیے بہت ضروری ہے ۔ موجودہ تاریخی لٹریچر کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں خواہ اس کا تعلق کسی بھی موضوع سے ہو تو اس میں جھول اور ادھورے پن کا احساس ہوتا ہے ۔ کہیں علمی بخل نظر آتا ہے تو کہیں عقیدت و تعصب کی بو محسوس ہوتی ہے ۔ حیرت یہ ہے کہ اسی کے ارد گرد  سارا تاریخی مواد گھومتا ہے۔ عقیدت میں ڈوب کر کسی تاریخ کو مدون کرنا بھی غلط ہے تو وہیں تعصب کی عینک لگا کر تاریخ کو پیش کرنا بھی اخلاقی اور علمی خیانت ہے ۔  عقیدت اور تعصب کی بناء پر مؤرخ اور محقق توازن و اعتدال سے تجاوز کرتا ہے اور افراط و تفریط کا شکار ہوجاتا ہے ۔  یہ بیماری ماضی میں بھی تھی اور عہد حاضر میں تو اس کے نمونے کثرت سے ملتے ہیں ۔

مذاہب کا تاریخی مطالعہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہر شخص کسی نہ کسی دھرم و دین اور فکر و خیال سے وابستہ ہے اور اس وابستگی کو سماج میں بہتر طور پر رواج دینے کے لیے ضروری ہے اپنے دین و مذہب کی تاریخ کی مکمل معلومات حاصل ہوں ۔ہندو دھرم کے  ماننے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے مذہب کے دینی مصادر جیسے وید ، اپنشد ، رزمیہ نظمیں ان کی ترتیب و تدوین کا علم ، اس مذہبی لٹریچر کو کس نے ترتیب دیا اور جس دور میں یہ مذہبی لٹریچر مرتب کیا گیا اس وقت کے سیاسی حالات کیا تھے ان تمام باتوں سے آشنا ہونا ضروری ہوتا ہے ۔ اسی طرح مقدس شخصیات ، ان کی معاشرتی زندگی کے احوال ۔ تہوار اور فرقوں کی تاریخی روایات کے بارے میں علم حاصل کرنا وغیرہ وغیرہ ۔ جب مذہب کی صحیح تاریخ سے واقف ہوگا تو پھر اسے مذہب کے نام پر کوئی شخص گمراہ نہیں کر پائے گا اور وہ ارباب سیاست کا کھلونا بھی نہیں بنے گا بلکہ پکا سچا مذہبی بن کر سماج میں امن و امان کا پیغام دے گا ۔

ہندو مذہب ام المذاھب ہے کیوںکہ بقیہ دونوں معروف ہندوستانی مذاہب جین ازم اور بدھ ازم  اسی سے نکلے ہیں اس لیے اس تاریخ کا جاننا ضروری ہے کہ آخر ایسی کیا وجوہات تھیں جن کی وجہ سے ہندو مذہب سے لوگ الگ ہوئے اور انہوں نے باقاعدہ الگ مذہب تشکیل دیا جو کسی نہ کسی شکل میں آج بھی روئے زمین پر موجود ہے اور اس کے متبعین بھی ملتے ہیں ۔ اس تناظر میں یہ بات کہنا بجا ہے کہ ہندو مذہب کے متبعین کو اپنے مذہب کے تاریخی احوال کا علم ہو تو وہیں جین ازم ، بدھ ازم اور سکھ ازم کا حامل بھی ان روایات و اقدار سے شناسائی حاصل ضرور کرے جو تاریخ کا روشن حصہ ہیں ۔

چھٹی صدی قبل مسیح کی پیداوار بدھ ازم اپنے بانی گوتم بدھ کی طرف منسوب ہے۔  اعلی انسانی اقدار کی تشہیر و تبلیغ اور عام مخلوقات سے شفقت و محبت جیسی تعلیمات کی وجہ سے اس نے ہندوستان کی سرحدوں کو چیرتے ہوئے برما، تبت ،شری لنکا، نیپال، تھائی لینڈ ،ویتنام، انگلینڈ ،جاپان اور چین وغیرہ ممالک میں استحکام حاصل کیا اور انہیں  اپنا  ٹھکانہ بنایا ۔ اس مذہب کا امتیاز اس صداقت میں مضمر ہے کہ اس نے ہندومت میں رائج ذات پات کے نظام اور مذہب پر برہمنوں کی اجارہ داری کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی اور مذہب و تعلیم کو عام انسانوں کا سرمایہ زندگی قرار دیا ۔انسان تو انسان جانوروں تک کے لیے اس کی تعلیمات رحمت ثابت ہوئیں۔

بدھ مذہب کی تاریخ کا یہ سنہرا باب ہے جسے جاننا نہایت ضروری ہے ۔

جین ازم چھٹی صدی قبل مسیح میں ہندوستان کی سرزمین میں نشونما پانے والا ایک مذہب ہے جو جین مت کے آخری تیر تھنکر اور معروف معنوں میں اس کے بانی مہاویر جین کی طرف منسوب ہے۔  معرفتانہ مسلک کا یہ علمبردار مذہب دنیاوی زندگی سے متعلق مخصوص  موقف کے علاوہ شخصی تصور الہ اور ذات پات کے نظام کے معدوم ہونے سے عبارت ہے۔  ہندومت اور بدھ مت کے علی الرغم اپنے بعض عقائد کے پیش نظر یہ مذہب اپنے وطن معروف کی سرحدوں سے آگے نہیں بڑھ سکا ۔ہاں حلقہ احباب و متبعین کی تعداد کی افزونی کے پہلو سے یہ اپنے گھر میں ہی خوب برگ وبار لایا۔

چنانچہ جین دھرم کے متعلق صحیح جانکاری اسی وقت حاصل ہوسکتی ہے جب کہ ہم اس مذہب کے تاریخی پہلوؤں کو سمجھنے کی کوشش کریں گے ۔

سکھ مت ہندوستان کے بڑے مذاہب میں نوزائیدہ مذہب ہے۔  پندرویں صدی کے  اواخر میں یہ ہندوستان کی سرزمین میں نمودار ہوا ۔ اس مذہب کے بانی سکھوں کی پہلے گرو، گرونانک ہیں ۔ مورتی پوجا ،کتب مقدسہ پر برہمنوں کی اجارہ داری، علوم و معارف پر طبقہ خواص کا تسلط،  بے جا رسوم و روایات کا اسیر بننا ، عملی زندگی میں مذہبی تعلیمات سے انحراف،  صدیوں کی محکومیت، سنتوں کے حب الہی اور بھگتی مت کے مخصوص رجحانات دراصل سکھ مت کے وجود میں آنے کے اسباب و محرکات ہیں ۔

ہندوستانی مذاہب میں متذکرہ بالا تاریخ  کے ایسے روشن پہلو ہیں جن سے واقفیت بھی ضروری ہے اور انہیں اجاگر کرنا بھی لازمی ہے، ورنہ تو عام شخص یہ اندازہ ہی نہیں کرسکے گا کہ ان مذاہب کی بنیادی تعلیمات اور افکار و نظریات میں کیا فرق ہے ۔ سچ یہ ہے کہ مذاہب کے تاریخی مطالعہ کی ہر دور میں اہمیّت مسلم رہی ہے اس لیے اس روایت کو زندہ کرنا چاہیے اور محقق کے لیے بھی ضروری ہے کہ مذاہب کا مطالعہ کرے تو تاریخ کے گمنام پہلوؤں سے ضرور پردہ اٹھائے تاکہ سماج میں مذہبی رواداری کی فضاء ہموار ہوسکے ۔

----------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/historical-status-studying-religions/d/135750

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..