New Age Islam
Fri Jul 18 2025, 04:19 PM

Urdu Section ( 15 Apr 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Need for Hindu-Muslim Unity in Current Times رواں حالات میں ہندو مسلم اتحاد کی ضرورت

ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی ، نیو ایج اسلام

15 اپریل 2025

یہ مبنی بر حقیقت ہے کہ اس وقت دنیا میں بدامنی، بے چینی اور فننہ وفساد عروج پر ہے۔ باہم اقوام دست و گریباں ہیں ۔ بر صغیر میں مسلمانوں کی آ مد کے بعد تاریخ کے مختلف ادوار اس بات پر شاہد ہیں کہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں ہمیشہ  کشیدگی اور تناؤ رہا ہے۔ اس کے پس پردہ  کبھی اہلیان سیاست کی کارستانی نظر آ تی ہے تو کبھی مذہبی رہنماؤں کے منفی رویہ نے بھی اس تناؤ کو بڑھانے کا کام کیا ہے۔ آج جو ملک کے منظر نامے پر باہم نفرت و عناد کے سیاہ بادل چھائے ہوئے ہیں اس کی پشت پناہی بھی سیاسی مراکز سے ہورہی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہیکہ ملک میں اب ہر مسئلہ کو مذہبی رنگ دیکر ایک طبقہ کو نشانہ بنانے کی واردات میں بھی اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔

 جب سے فرقہ پرستی نے ملک میں اپنے پاؤں پسارے ہیں تب سے اب تک نہ جانے کتنے بے گناہ ، اس کی زد میں آ چکے ہیں۔ جب کہ معاشروں کو مثالی اور فلاحی  ہونے کے لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم کبھی بھی ایسی واردات  انجام نہ دیں جس سے ملک میں فرقہ پرستی یا فسطائیت کو فروغ ملتا ہو۔ کیونکہ فرقہ واریت ایک ایسا ناسور ہے جو قوموں اور معاشروں کی باہم دیرینہ روایات کو کالعدم کرڈالتا ہے۔  انسانی رشتوں کو پامال کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے ناپاک اثرات انسانی  احترام وتقدس کوبھی نگل لیتے ہیں۔ یہ کہنے کی قطعی ضرورت نہیں ہے کہ موجودہ فرقہ واریت  مفاد پرست اور موقع پرست سیاست کی کوکھ سے فروغ پارہی ہے۔  کیونکہ اب ایسا لگتا ہے کہ اقتدار کے پرستاروں نے  فلاح ونجاح پانے کے لئے یہ اصول بنا لیا ہے کہ معاشرے میں سماجی کشاکش پیدا کی جائے اور پھر اپنی مخصوص ذہنیت کو عوام پر مسلط کیا جائے۔ جبکہ ہمارے وطن کی تہذیب و ثقافت، اس بات کی شاہد ہے کہ یہاں ہر دور میں ایسے کارہائے نمایاں انجام دیئے گئے ہیں۔

جن سے ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو تقویت و فروغ ملا ہے۔  جب انگریزوں نے ملک کے تانے بانے اور اس کی ہم آ ہنگ روایات کو روندنے کی کوشش کی  تو وطن عزیز کی دونوں برادریوں نے بڑے پیمانے پران کے مذموم و مکروہ عزائم کو مل کر ملیا میٹ کیا۔ اس کے لئے قول ، فعل، اورتقریروتحریر کا استعمال کیا۔ جہاں ایک طرف مسلم علماء نے،  باہم اتحاد کی روایت کو آ گے بڑھایا وہیں غیر مسلم دانشوروں اور محققین نے بھی اسلام اور پیغمبر رسالت کی تعریف و توصیف میں کسی بھی طرح کی کسر نہ چھوڑی۔ کیونکہ انگریز جانتا تھا کہ جب تک مسلم اور ہندو باہم ایک رہیں گے ہم اپنے اقتدار و جاہ کو وسعت نہیں دے سکتے ہیں۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ انگریزوں کی یہ پرفریب چال ناکام ونامراد ہوئی۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس وقت ہندوؤں نے جو سیرت یا اسلا م کے دیگر موضوعاتپرانتھائی قابل فخر  اقدامات کئے، انہوں نےفرقہ وارانہ ہم آہنگی کو  کسی بھی طرح کمزور نہ پڑنے دیا۔ اس سلسلے میں جن ہندو مصنفین نے ہندو مسلم اتحاد کی عرض سے ادب ولٹریچر منظر عام پر لایا گیا  نے رواداری اور باہم اتحاد و اتفاق کے استحکام میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ان میں گیان چند جین کی کتاب" ہندو مسلم اتحاد" لالہ ونی چند  صاحب کپور پرچارک کی کتاب"  دنیا کا ہادئی اعظم غیروں کی نظر میں " بڑی اہم ہیں۔ اسی طرح مسز سروجنی نائیڈو ( 1879- 1949) نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کی شخصیت کی تعریف وتوثیق کر ہماری صدیوں پرانی روایت کو بقاء بخشی ۔ بابو گنج دلوائی کی کتاب ، " حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام  " اسی طرح مسٹر دیوان شرما کی  our Indian Heritage اور the prophet of the east , بھی انتھائی اہم ہیں۔  

گوبند رام سیٹھی نے " چار مینار " نام سے کتاب لکھی اور بھگوان رام ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عیسی اور بابا گرو نانک کے احوال قلمبند کر کے ہندو مسلم اتحاد کو مستحکم بنانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ نیز لالہ شام لال جی کی کتاب " دنیا کے نو مذہبی رفارمر" بھی بقائے باہم  کی درخشاں مثال ہے۔ سوامی لکشمن پرشاد کی " عرب کا چاند " وغیرہ وغیرہ ۔ ان مصنفین کی کتابوں کا تذکرہ صرف اس لئے کیا گیا ہےکہ ان لوگوں کو علم ہو جائے کہ  جنہوں نے آ ج مسلم کمیونٹی کے خلاف پورا محاذ تیار کر رکھا ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو ہر طرح سے ہندو مسلم میں باہم  پرخاش برپا کرنے کی تاک میں رہتے ہیں۔ اہم بات یہ ہیکہ یہ کتابیں اس وقت حوالہ قرطاس کی گئیں جب ملک میں انگریزوں کا اقتدار تھا اور ہندو مسلم اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی جسارت کی جارہی تھی۔ یقینا ان مصنفین نے ملک میں روداری، وحدت ادیان ، اور ہندو مسلم اتحاد و اتفاق کا وہ نمونہ پیش کیا جو تاریخ میں ہمیشہ جلی حروف سے لکھا جائے گا۔ یہ ہمارے ملک کی تہذیب و ثقافت ہے ۔

یہی وہ قدریں ہیں جن سے ہندوستان میں گنگا جمنی تہذیب  کی بقاء کا انحصار ہے ۔ آ ج  معاشرتی اور جمہوری قدروں کو تحفظ  فراہم کرنا ہے تو ہمیں ان باتوں کو باہر لانا ہوگا جو ہندو مسلم اتحاد کے لئے ناگزیر ہیں۔  اسی طرح اگر ہم مسلم علماء اور مصنفین و محققین کی بات کریں تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے بھی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لئے ہندوستانی مذاہب کو اپنی تحقیق وتالیف کا میدان بنایا ہے۔ اور مزید اس موضوع پر کام کررہے ہیں۔ ہندو مذہب قدیم مذہب ہے اس کی اپنی تاریخ ہے۔ خوش آ ئند بات یہ ہیکہ  ہندو مذہب کے بیشتر بنیادی مصادر یعنی سنسکرت ادب کا اردو میں مسلمانوں نے ترجمہ رواداری کی غرض سے کیا ۔ چنانچہ  چانکیہ کی ارتھ شاستر، منودھرم شاشتر، رامائن ، رگ وید اور گیتا کے اردو تراجم موجود ہیں ۔ یہ تراجم  اس لئے بھی کئے گئے کہ جو لوگ ہندومذہب  کے بارے میں غلط فہمی میں مبتلا رہتے ہیں ان کی درست خطوط پر رہنمائی کی جاسکے ۔ خصوصا نوجوان طبقہ ان چیزوں سے واضح ہدایت حاصل کرے  ، نیز اختلاف دین ودھرم کے باوجود باہم پیارو و محبت سے رہ سکیں۔  البیرونی کی کتاب الھند ، سرسید، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا مناظر حسن گیلانی ڈاکٹر حمیداللہ کا مطالعہ ادیان کا لب لباب بھی یکجہتی اور قومی توازن و اعتدال کا غماز ہے۔ ہمیں آ ج دیکھنا ہوگا اور اپنی ماضی کی تاریخ سے سبق حاصل کرنا ہوگا ۔ کیونکہ ماضی سے سبق حاصل کرکے بہتر مستقبل کی تعمیر و تشکیل کرنا آ سان ہے۔  تاکہ ہمارے درمیان کوئی بھی بد خواہ آ کر ہمارے صدیوں پرانے رشتوں کو زد نہ پہنچا سکے۔

  المیہ یہ ہیکہ آ ج ہماری ماضی کی روایت سے نفرت پیدا کرنے کی سعی کی جارہی ہے۔ باہم نفرت و تعصب کو ہوا دینے کی کاوش ہورہی ہے۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم کسی بھی طرح اپنے قدیم ترین رشتوں کو مضمحل نہیں ہونے دینگے۔  آ ج بھی اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ ان خطوط پر کام کیا جائے۔ جن سے فرقہ پرست طاقتوں کا ازالہ ہو اور ہندو مسلم اتحاد کو جلا ملے۔ اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ ان گنت ایسے افراد ماضی میں بھی تھے اور آ ج بھی ہیں ،جو کسی بھی قیمت پر ملک کے رکھ رکھاؤ کو توڑنے نہیں دیں گے۔ اس لئے ہمیں ماضی اور حال کے ان روشن ستاروں کی قدر کرنی ہوگی۔ جنہوں نے اپنی فکر و نظریہ سے ملک کی تمام پاکیزہ روایات کو گرد آ لود ہونے سے بچایا ہے ۔ جب ملک میں  ہمارے اس پاکیزہ ورثہ کو ناپاک ارادوں سے چھونے یا نقصان پہچانے کی تگ ودو کرتا ہے تو اس کے سد باب کے لئے ۔ ہماری صفوں سے متعدد افراد و اشخاص آ جاتے ہیں۔  سوچنا تو اصحاب  حل و عقد اور صاحب اقتدار کو بھی ہوگا۔ بلکہ یہ تسلیم بھی کرنا ہوگا  کہ نفرت  اور جانب داری  کی بنیاد پرنہ ملک کی ترقی کا خواب پایہ تکمیل کو پہنچ سکتا ہے اور نہ ہم ان معاشروں کے ہم پلہ ہوسکتے ہیں۔

 جنہوں نے انصاف و عدل اور یکجہتی ، انسان دوستی کی بنیاد پر رشتوں کو بھی یقینی بنایا اور اپنا راج دھرم بھی بڑی سنجیدگی سے نبھایا، فرقہ پرستی کی بنیاد پر تشکیل دیا جانے والا کوئی بھی فعل وعمل چاہے اس کا تعلق زندگی کے کسی بھی شعبہ سے ہو دیرپا نہیں ہوتا۔ اب وقت ہے کہ نفرت کے اس ماحول کو سرے سے ختم کیا جائے اور اس ماحول تیار کیا جائے جس  میں پرسکون سانسیں لی جاسکیں۔ ہمیں ہرگز یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ  جب ہندوستان کا  ہندو مسلم ایک برتن میں کھا تا تھا ایک چوپال پر بیٹھتا تھا، اور ایک محلے میں رہتا تھا مگر کسی کو کسی سے کوئی شکایت تھی نہ خوف اور نہ ڈر ۔  مگر آ ج کے اس ترقی یافتہ دور میں ایک دوسرے سے خوف کھارہے ہیں۔  آ خر کیوں ؟ ذرا سوچئے کہ ہندوستان کا امتیازی وصف تعدد و تکثیریت اور باہمی اعتماد و ارتباط پر مبنی ہے ۔ اگر یہی ہمارا سرمایہ فرقہ پرستوں  کی بھینٹ چڑھ جائے تو پھر کیا بچے گا۔ اسلئے نہ صرف ملکی سطح پر خفت و شرمندگی ہوگی بلکہ عالمی منظر نامے پر بھی شرمندگی کا باعث ہوگا۔  اگر ملک میں یکجتی اور ہم آ ہنگی کی فضا پروان چڑھتی ہے تو اس سے ہماری تہذیب کا تحفظ یقینی ہوگا۔   سابقہ سطور میں ہندو مسلم اتحاد کی جو مثالیں پیش کی گئی ہیں ان کا مقصد  یہی ہےکہ ایک بار پھر ملک میں تحمل و بردباری اور اپنائیت و خیرسگالی کی روایت کو زندہ کرنے کے لئے دونوں برادریوں کو عمل کے ساتھ ساتھ تحریری سرمایہ بھی تیار کرنا ہوگا جس  سے ہماری مرکزیت و جامعیت ایک بار پھر بحال ہوسکے اور ہم قومی یکجہتی کےماحول میں گزر بسر کرسکیں۔

-------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/hindu-muslim-unity-current-times/d/135175

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..