New Age Islam
Sat Jun 14 2025, 01:35 AM

Urdu Section ( 1 March 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Hindu Deities Applauded by Muslim Scholars اسلام اور ہندو دھرم میں تکریم انسانیت

ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی ، نیو ایج اسلام

1 مارچ 2025

دنیا کا ہر فرد قابل احترام ہے اس لیے کہ وہ انسان ہے، دنیا کے تمام مذاہب نے احترام انسانیت کا درس دیا ہے۔ اگر ہم کہیں کہ احترام انسانیت دنیا میں بسنے والے انسانوں اور مذاہب کا مشترکہ ورثہ ہے تو غلط نہیں ہوگا ۔ ایک دوسرے کا احترام ،اقوام کی ترقی کا راز اور امتیاز ہے۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ کتنی ہی اقوام اور ثقافتیں صرف اسی لیے قابل رشک ہوئیں کہ وہ ایک دوسرے کا احترام کرتی تھیں۔

عہد حاضر میں ہر طرف انسانیت کی عزت کو پامال کیا جا رہا ہے، ہر طرف توہین آمیز جرائم کا ارتکاب کیا جارہاہے ۔انسانی احترام کے رویوں کے پیمانے بدل رہے ہیں، خلوص، سچائی، انسانی مساوات اور اقدار کی جگہ فریب ،حرص ،حسد اور خود عرضی لے رہی ہے۔ انسانوں کا احترام انسان ہونے کی بنا پر نہیں کیا جا رہا ہے بلکہ اس کے معاشرتی رتبہ، اختیار، عہدہ اور وسائل کے مطابق کیا جارہا ہے ۔ جب کہ انسان کی عزت و تکریم اس کا بنیادی حق ہے، اس لیے کوئی بھی شخص اپنی عزت نفس کو مجروح ہوتا ہوا نہیں دیکھ سکتا۔

Amir Khusrau was an Indo-Persian Sufi singer, poet and scholar | Photo Credit: Special Arrangement

---------

احترام نفس اور عدل و انصاف جیسی پاکیزہ تعلیمات کا ذکر ہندو دھرم میں موجود ہے، جن پر عمل پیرا ہوکر ایک صحتمند اور صالح معاشرے کی تشکیل عمل میں لائی جاسکتی ہے ۔

اس تناظر میں جب ہم ہندو دھرم کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہقدیم  ہندو روحانی اور ثقافتی ورثے میں اقدار اور تعلیم کا ایک ایسا انوکھا اور منفرد نظام شامل ہے  جو انسانوں کے لیے رہنمایانہ روشنی کا کام انجام دیتا ہے۔ نظام اقدار و اخلاق اور انسانی ہمدردی کی بنیادیں ویدک صحیفوں میں موجود ہیں ۔ ہندو دھرم کی تعلیمات میں باہمی امن اور ہم آہنگی کا  عنصر نظر آتا ہے۔ جب ہم ہندو دھرم کے مقدس صحیفوں اور شاشتروں کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ رواداری اور اتحاد ، مل جل کر رہنا جیسی واضح ہدایات ملتی ہیں۔اسی طرح یہ کہنابھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سنا تن دھرم طرز زندگی میں ایسے فطری نظام کی طرف  نشاندہی کرتا ہے جو آفاقی اور عالمگیریت کا حامل ہے۔ 

(From Files_Prince Dara Shikoh)

---------

ہندو دھرم کے صحیفوں میں موجود سناتن دھرم کی بنیادی تعلیم کا مختصرا  خلاصہ یہ پیش کیا جاسکتا ہے کہ  دوسروں کے ساتھ بھلائی کرنا سب سے بڑی نیکی ہے اور انھیں تکلیف دینا سب سے بڑا گناہ ہے۔ سب کے ساتھ پیار محبت سے پیش آئیں، سب کا احترام کریں اور کبھی بھی کسی کے ساتھ ایسا سلوک یا کوئی ایسا عمل نہ کریں جس سے ہم خود اپنے ساتھ نہیں کرنا چاہتے ہیں، ہندو دھرم اسی کی علامت ہے۔

ہندو دھرم کا مذہبی ادب  اور مقدس صحیفے یہ تعلیم دیتے ہیں کہ ہم اپنے ہم منصب انسانوں سے نہ صرف وقار اور احترام کا سلوک کریں بلکہ دیگر تمام ذی روح مثلا جانوروں ،پرندوں، نباتات اور پورے قدرتی ماحول کے ساتھ انتہائی ہمدردی، شفقت اور احترام کا مظاہرہ کریں۔ یہاں تک کہ گھاس کے چھوٹی سی پتی میں بھی خدائی وجدان موجود ہے، لہذا ہمیں فطرت کے ساتھ بھی ہم آہنگی اور پرامن بقائے باہمی کو برقرار رکھنے کے لیے مستقل جدوجہد کرنی ہوگی، یہ سناتن دھرم کی کچھ انوکھی خصوصیات ہیں جو سب کے درمیان ہم آہنگی اور باہمی افہام و تفہیم پر زور دیتی ہیں ۔

(Krishna Jeevan, a book authored by Khwaja Hassan Nizami)

-----------

 سناتن دھرم " وسودھیواکٹمب کم" کے بارے میں بھی بات کرتا ہے یعنی پوری کائنات ایک کنبہ ہے۔ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہر فرد خدا کی تخلیق ہے اور خدا قادر مطلق ہے ۔خدائی طاقت ہر جگہ اور ہر وقت موجود ہوتی ہے ۔اس کے نتیجے میں ہم کسی کے ساتھ پس منظر، مذہب، ذات یا نسل کی بنا پر بھید بھاؤ نہیں کرتے ، ہم نہ صرف رواداری پر بلکہ ہر ایک کی غیر مشروط شمولیت و قبولیت پر یقین رکھتے ہیں ۔

ہندو دھرم میں انسانیت کی تکریم کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی ہوتا ہے کہ مہابھارت جیسی عظیم ترین دینی کتاب میں منو کو اعلی علم و حکمت سے سیراب کیا گیا ہے۔ ہندو دھرم کے مطابق نوع انسانی کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ تین باتوں سے پرہیز کرے (1) خواہشات (2) قہر و غصہ (3) حرص ۔ ظاہر ہے یہ تینوں ایسے مکروہ اعمال ہیں جو احترام نفس اور سماجی رشتوں کے ارتباط میں سد باب ہوتے ہیں ۔ اسی وجہ سے نوع انسانی کو روکا گیا ہے کہ متذکرہ بالا چیزوں کو اختیار کرنے سے گریز کرنا چاہیے ۔ تصور  کیجیے! انسانوں میں اگر یہ تینوں بیماریاں پیدا ہو جائیں تو وہ معاشرہ تباہی اور زوال کی طرف گامزن ہو جاتا ہے ۔ انسان میں طمع اور غصہ یا دوسروں کو دیکھ کر سب حاصل کرنے کی خواہشات ابھرنے لگیں تو ایسا شخص ہر جائز و ناجائز طریقہ اختیار کرے گا اور پھر اس کی وجہ سے معاشرے کا امن تباہ ہوگا۔ ہندو دھرم میں اخلاقیات پر بھی زور دیا گیا ہے اور باضابطہ یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ایسا کوئی بھی عمل اختیار نہ کرے جو اس کے حسن اخلاق یا دوسروں کے تکریم کے منافی ہو ۔ہندو دھرم کی تعلیمات کے مطابق انسان کو اخلاقی و روحانی قدروں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہر قسم کے غلط خواب و خیالات دیکھنے سے گریز کرنا چاہیے، کیونکہ غلط خواب اور غلط سوچ ہی سے اخلاقی  قدریں متاثر ہوتی ہیں اور پھر اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان ایسے کام کرنے لگتا ہے جو احترام نفس کے مغایر ہوتا ہے۔

احترام  انسانیت اور تحفظ نفس کا تقاضا یہ بھی ہے کہ ہر فردو بشر کے ساتھ انصاف و عدل کا معاملہ اختیار کیا جائے ، ذات و نسل یا رنگ و قوم کی بناء پر کسی طرح کی تفریق روا نہیں رکھنی چاہیے ۔ اس حوالے سے بھی ہندو دھرم میں مثبت اور تعمیری تعلیمات ملتی ہیں ۔ ہندو دھرم کے مطابق بادشاہ اور حکمرانوں کا فرض ہے کہ جو انصاف سے محروم ہو، اسے انصاف فراہم کیا جائے ۔ بادشاہوں کو قانون کے مطابق فیصلہ کرنا چاہیے حق و سچ کا ساتھ دینا چاہیے ۔

ہندو دھرم میں احترام نفس کا یقینی طور پر ایک جامع نظام اور تصور موجود ہے اور اس کی باقاعدہ تعلیم بھی ہندو مقدس نوشتوں میں ملتی ہیں ۔ ہاں ہندو دھرم میں جو ذات پات کا تصور ہے وہ یقیناً کہیں نہ کہیں تفریق و امتیاز سے ہم آہنگ ہے ۔

اس تصور کو نظر اندازہ کرتے ہوئے  ہندوؤں کے دیگر مذہبی صحیفوں میں تکریم انسانیت کے حوالہ سے خاصا کچھ ملتا ہے ۔

علاوہ ازیں جب ہم  مذہب اسلام کا  مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں ایسے تمام شواہد اور دلائل ملتے ہیں جو تکریم انسانیت کی نہ صرف تعلیم دیتے ہیں بلکہ تاکید کرتے ہیں۔  ہر نفس کا احترام کرنا چاہیے۔

اسلام کے دین رحمت ہونے کا جو مفہوم نکلتا ہے

وہ یہ ہے کہ وہ دین، جو رحم دلی کے اسلوب اور اس کے مظاہر پر استوار و برقرار ہے۔ سارے عالم کے لیے ایک پرامن اور انسانیت پسند مذہب ہے ۔  تمام انسانوں کے حقوق کی صحیح پاسداری اور رعایت اسلام میں ملتی ہے ۔ مظلوموں اور ظلم وستم کے شکار معصوم لوگوں کو عدل وانصاف کی  بات کرتا ہے ۔ایک صاف ستھرا اور پاکیزہ معاشرہ کی  تشکیل کا خواہاں ہے۔  انسانی نسل کے ہر دائرے اور زمرے کے لوگوں میں ہم آہنگی، توازن اور آپسی معاونت کا نیک اورانسانی جذبہ پیدا کرنے  کی تعلیم اسلام دیتا ہے ۔ اور ایک ایسی تہذیب کی داغ بیل ڈالتا ہے ،جو بہرصورت انسانیت کی مسیحائی کا بہترین اور عمدہ نمونہ بن سکے۔ درحقیقت اسلام کا  مقصد اور اساسی ہدف اور اس کی لازمی ترجیحات ایک ایسی سوسائٹی کی تشکیل ہے جہاں انسان امن وسکون اور طمانیت کے ساتھ زندگی گذارسکے۔

اسلام  کے بنیادی ماخذ میں بڑی وضاحت سے یہ حکم ملتا ہے کہ ہم نے بنی آدم  کو معظم اور قابل احترام بنایا ۔ اس لیے سبھی انسان برابر ہیں کسی کو فوقیت اور رتبہ حاصل نہیں سوائے تقوی کے ۔ اسلام کے مطابق اس شخص کی تو کچھ فضیلت و برتری  ہے جو اپنے زندگی کو صالح خطوط پر استوار کرتا ہے ۔ اسی کے ساتھ اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ اسلام تمام بنی آدم کی تکریم کا قائل و حامی ہے۔ خواہ وہ مرد ہو یا عورت یا اس کا تعلق اسلام کے علاوہ دیگر مذہب سے ہو ۔ سب انسان برابر ہیں ، کسی انسان کی عزت و احترام صرف اس وجہ سے نہ کی جائے کہ وہ دولت مند ہے ، یا اعلیٰ عہدہ پر فائز ہے ۔

عدل و انصاف سے لے کر جملہ سماجی تقاضوں اور ضرورتوں کی تکمیل کے لیے اسلام پوری طرح  عمل درآمد کرنے کی بات کرتاہے ۔

تکریم انسانیت اور تحفظ نفس کا تقاضا یہ بھی ہے کہ دوسرے مذاہب اور ان کی مقدس شخصیات کو سب  وشتم نہ کیا جائے ۔ اسلامی تعلیمات اس بابت بڑے  دو ٹوک انداز میں اپنے ماننے والوں کو ہدایت کرتی ہیں ہیں دیگر مذاہب کی مقدس شخصیات کو برا نہیں کہنا چاہیے ۔ اسلام انصاف ، عدل اور مساوات کی تعلیم بھی دیتا ہے البتہ اسلام میں کہیں بھی اس بات کی تخصیص نہیں کی گئی ہے کہ عدل ، انصاف اور مساوات کا رویہ کسی خاص کمیونٹی کے ساتھ کرنا چاہیے اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ ظلم کا ارتکاب کرنا چاہیے ۔ اسی  طرح اسلام میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو تکریم انسانیت کے فروغ میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں ۔

اسلام اور ہندو دھرم دونوں ایسے مذاہب ہیں جو بنیادی طور انسانیت کی بات کرتے ہیں ۔ سماجی رشتوں اور قومی تعلقات کو برقرار رکھنے پر زور دیتے ہیں ۔ ا دونوں مذاہب حترام انسانیت کو ضروری اس لیے بھی گردانتے ہیں اگر سماج سے تکریم انسانیت کا احساس ختم ہو جائے تو یقینی طور پر معاشرے میں بد امنی اور تنزلی کا دورہ ہو جائے گا ۔ افرا تفری مچ جائے گی ۔

عہد حاضر میں اسلام اور ہندو دھرم کے متعلق بہت ساری ایسی باتیں منسوب کردی گئیں ہیں جن سے عالمی سطح پر دونوں مذاہب کی روح مجروح ہوتی ہے اور ان باتوں کو سن کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسلام اور ہندو دھرم کے خلاف کچھ سماج دشمن عناصر عمدا منفی باتیں منسوب کررہے ہیں تاکہ دونوں مذاہب کے حاملین باہم دست و گریباں ہو سکیں ۔ ہمیں اس فتنہ کو سمجھنا ہوگا اور دونوں مذاہب کے متبعین کو ان خطوط پر اپنے افعال و اعمال کو  استوار کرنے کی ضرورت ہے جن سے سماج میں احترام انسانیت کا فروغ ہوسکے۔

------------------

URL:  https://newageislam.com/urdu-section/hindu-deities-applauded-muslim-scholars/d/134752

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..