New Age Islam
Wed May 31 2023, 03:20 PM

Urdu Section ( 15 Sept 2009, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Hijab, West And Muslim World حجاب ،مغرب اور مسلم دنیا

شاہنواز فاروقی

مسلم دنیا میں مغرب کے حوالے سے رد عمل کی ایک نفسیات کام کررہی ہے۔مغرب میں ایک کام ہوتا ہے اور عالم اسلام میں اس پر رد عمل کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ ظاہر ہے یہ ایک فطری بات ہے ۔مگر دیکھا گیا ہے کہ اکثر عمل سے ردعمل کی نوعیت متعین ہوجاتی ہے۔

حجاب کے حوالے سے بھی یہی صورت حال رونما ہوتی نظر آرہی ہے۔مثلاً گذشتہ جمعرات ہی کو مسلم دنیا میں یوم حجاب منایا گیا ہے۔ اس کا فیصلہ عالم اسلام کی بعض معروف شخصیات نے کیا ہے۔

دیکھا جائے تو کسی چیز کا یوم منانے میں کوئی نقص نہیں ۔ یہ کسی مسئلے پر توجہ مبذول کرانے کا ایک جدید طریقہ ہے۔ مغرب کے بعد ملکوں میں حجاب سے منسوب کر کے مغرب کواچھا جواب دیا جاسکتا ہے ۔ لیکن مسئلہ یہ بھی ہے کہ موجودہ صورتحال میں یوم منانے کی روایت اوراس کی نفسیات بھی مغرب ہی سے آئی ہے اور اس کا ایک مخصوص پس منظر ہے۔

مثلاً مغرب میں خاندان کا ادارہ بکھر گیا اور ماں کی اہمیت صفر ہوگئی تو اہل مغرب کو یاد آیا کہ ماں بھی ایک چیز ہے اور اسے بھی ایک دن یاد کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ وہاں سے ماؤں کا عالمی دن برآمد ہوا ہے اسی سے والد ین کا عالمی دن نمودار ہوگیا۔ بچے عدم توجہ کا شکار ہوئے تو بچوں کا عالمی دن منایا جانے لگا۔ زمینی تہہ اور اسکی فضا کو زہر سے بھر دیا گیا تو یوم ارض ایجاد کرلیا گیا۔ خواندگی کا عالمی دن بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ لیکن ماؤں کا عالمی دن کب سے منایا جارہا ہے کیا اس کے نتیجے میں ایک ماں کی توقیر بھی بحال ہوئی؟ بچوں کے عالمی دن سے بچوں کو حقیقی معنوں میں اب تک کیا فائدہ ہوا ہے؟ یوم ارض منانے والے مدت سے یوم ارض منائے جارہے ہیں اور اس کے خلاف کام کرنے والے اپنی ’’شاعری ‘‘ عرض لئے چلے جارہے ہیں۔

دراصل یہ سارا سلسلہ ایک طرح کی دفع الوقتی Pass Timeہے۔ ایک طرح کا مشغلہ ۔ہماری زبان کا محاورہ ہے سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ یہ اس کے برعکس معاملہ ہے یعنی سانپ بھی نہ مرے لاٹھی بھی نہ ٹوٹے اور مقابلے کا لطف بھی آجائے۔

ماں کے مسئلے ہی کولے لیجئے ۔ایل مغرب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ معاشرے میں ماں کی مرکزیت ،اہمیت اور اس کی محبت کی بحالی کی حقیقی صورت کیا ہے لیکن اگر مغرب ی دنیا و اقعتا ماں کی توقیر بحال کرے گی تو پھر اس کا پورا معاشرتی ڈھانچہ بدل کررہ جائے گا اور اہل مغرب کو خاندان کے ادارے کے مذہبی تقدس کی طرف لوٹنا ہوگا ۔ اور مغربی دنیا یہ کرنا نہیں چاہتی ۔مگر مسئلہ بھی موجود ہے۔ تو یہ کیا کیا جائے ؟ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ مسئلے کا عالمی دن منالیا جائے۔ اس طرح شورمچانے والوں کی توانائی بھی ٹھکانے لگ جائے گی۔ اور وہ خاموش ہوجائیں گے۔ یہ بھی لگے گا کہ مسئلے کے حل کے لئے کچھ نہ کچھ بلکہ بہت کچھ ہورہا ہے اور معاشرتی ڈھانچے میں کوئی بنیادی تبدیلی بھی نہیں لانی پڑے گی ۔ گویا یہ سب تو خوش رکھنے کا منصوبہ ہے۔

البتہ مغربی دنیا کو جہاں واقعتا نتائج پیدا کرنے ہوتے ہیں تو وہ ایک دوتین کی طرح بات کرتے ہیں۔ ابتداء سے کام کی ابتدا ء کرتے ہیں ۔ ترجیحات واضح کرتے ہیں اور اپنے تئیں نتائج کے حصول تک چین سے نہیں بیٹھتے ۔

اندیشہ ہے کہ کہیں ہمارے یہاں یوم حجاب کے ساتھ یہی کچھ نہ ہوجائے ۔ ہمارا مزاج تو ویسے بھی کچھ زیادہ ہی تقریباًتی ہے ۔ہمارے یہاں تو تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہئے کا مصرعہ بھی موجود ہے۔

ظاہر ہے عالم اسلام کے لیے حجاب کوئی سیاسی مسئلہ نہیں ہے۔ نہ ہی اس سلسلے میں ہمیں ردعمل کی نفسیات میں الجھنے کی ضرورت ہے ۔ البتہ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ خود مسلم معاشروں میں حجاب کے مسئلہ کی صورت Anatomyکیا ہے؟ کیا یہ خود کوئی مسئلہ ہے یا یہ اپنے سے زیادہ بڑے مسئلے کا محض جزوہے۔

جو لوگ مسلم معاشروں میں حجاب پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ وہ اس تصور کواس کی حقیقی روح کے ساتھ معاشرے میں فروغ دیں انہیں اچھی طرح معلوم ہونا چاہئے کہ مسئلہ محض حجاب کا نہیں ہے یہ تصورذات یا Image Selfکا مسئلہ ہے ، حجاب جس کا محض ایک پہلو ہے۔

ہمیں نہیں معلوم کہ ’’ڈی بریفنگ ‘‘ کی اصطلاح مثبت معنوں میں استعمال ہوتی ہے یا نہیں ،لیکن اگر نہیں ہوتی تو بھی فی الحال اس سے ہم مثبت غرض وابستہ کرلیتے ہیں۔ ڈی بریفنگ عام طور پر ایک فرد یا چند افراد کی ہوتی ہے لیکن مسلم دنیا میں قوموں کو قوموں کو ’’ڈی بریفنگ‘‘کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس بات کے معنی کیا ہیں؟

مغربی اقوام کی غلامی اور مغربی تہذیب کے نے تسلط ہمارے لیے جو سب سے بڑا اجتماعی نفسیاتی مسئلہ پیدا کیا وہ یہ تھا کہ ہمارے لیے ہماری ہر چیز ’’ناکافی‘‘ ہوگئی۔ مغربی تہذیب کے مقابلے پر ہمیں اپنی تہذیب ناکافی نظر آنے لگی ،مغربی علوم کے مقابلے پر ہمیں اپنا ادب ناکافی نظر آیا مغربی علوم کے مقابلے پر ہمیں اپنے علوم ناکافی محسوس ہوئے ، مغربی سیاست نے ہمارے لیے ہمارے سیاسی تصورات کو ناکافی کردیا ،مغربی مر د کے مقابلے پر ہمیں اپنے مرد ناکافی لگنے لگے اور مغربی عورت کے مقابلے پر ہمیں اپنی عورت ناکافی دکھائی دینے لگی۔ اس گفتگو کو آپ جہاں تک پھیلانا چاہیں پھیلاسکتے ہیں اوردس ہزار عنوانات کی ایک فہرست آسانی سے مرتب ہوسکتی ہے۔ حجاب پر گفتگو اور اس حوالے سے کام کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ اصل مسئلہ یہ ہے ۔ہمیں اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں بہت سی ’’ناکافیوں ‘‘ کو دور کرنا ہے۔ ہمیں اپنے انفرادی اور اجتماعی تصور ذات کو بہتر کرنا ہے۔صرف بہتر نہیں کرنا ہے بلکہ اسے زیادہ دلکش زیادہ عقلی اور منطقی بھی ثابت کرنا ہے اور اسے لائق بنانا ہے کہ اس سے ایک شاندار عمل اور ایاک شاندار تجربہ جنم لے سکے۔یہ اپنی کائنات کی تشکیل نوکا عمل ہے۔مغربی تہذیب کے تجربے نے اس کائنات کو ناکافی بھی بنادیا ہے اور جہاں یہ کائنات پوری طرح ناکافی ثابت نہیں وہاں اس نے اس کے سورج ،چاند،ستاروں کو ان کے مقامات سے ہٹا کر نیا بندوبست متعارف کرایا ہوا ہے۔ ہمیں اس بندوبست کو جہاں تک ممکن ہو اس کی اصل صورت میں بحال کرنا ہے۔ لیکن مغربی تہذیبوں کے تجربے نے مسلم عورت کے تصورذات کے ساتھ کیا کیا؟ آئیے دیکھتے ہیں۔

نئی تہذیب کی آمد سے قبل مسلم معاشرے میں عورت کا اصل میدان کار ’’گھر ‘‘ تھا۔ اس میدان کار میں علم وفضل کی ممانعت کبھی نہ تھی۔ لیکن جدید تعلیم آئی تو یہ سوال پیدا ہوا کہ ہم اپنی بچیوں کو اسکول ،کالج اور یونیورسٹی بھیجیں نہ بھیجیں۔ ابتداء میں اس کی مزاحمت ہوئی مگر پھر اسکول ،کالج پردے کے ساتھ قبول کرلیے گئے اور کہا گیا کہ ہمیں لڑکیوں سے نوکریاں تھوڑی ہی کرانی ہیں۔ مگر سماجیات اور معاشیات کے جبر نے یہ کام بھی کرالیا ۔ اس پر یہ بات کہی گئی کہ حدود میں نوکری بھی ٹھیک ہے اور اب ہم کہتے ہیں کہ پردہ مشرق کی راہ میں رکاوٹ تھوڑی ہے۔ بات ٹھیک ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہوا کہ اس نئے تجربے نے خواتین کے دل میں گھر ،اس کی زندگی اور اس کے کاموں کی تحقیر پیدا کردی اور رفتہ رفتہ یہ سمجھا جانے لگا کہ کام تو ’’باہر‘‘ ہوتا ہے گھر میں گھر داری ہوتی ہے یعنی گھر داری تو کوئی کام ہی نہیں ہے۔ ظاہر ہے اب مسئلہ اسکول ، کالج اور Jobکارہا ہی نہیں ۔اب تو اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنی خواتین کے دل ودماغ میں گھر کے کام کی توقیر اور عظمت کا سکہ بٹھا سکتے ہیں یا نہیں ؟

تصور ذات کا مسئلہ صرف خواتین کو لاحق نہیں ہوا۔ مرد بھی اس کی زد میں آئے ۔ کبھی ہمارے معاشرے میں مرد کے حوالے سے ’’اچھے انسان‘‘ کا سکہ چلتا تھا جسے دیکھتے ہی دیکھتے ’’کامیاب آدمی‘‘ کے تصور نے پسپا کردیا او ر خود اس کا قائم مقام نہیں اصل بن بٹھا ۔ نتیجہ یہ ہ کہ اب بیچارے اچھے آدمی کو کوئی پوچھتا بھی نہیں ۔ ہر جگہ کامیاب انسان کا سکہ چل رہا ہے ۔ظاہر ہے کامیاب انسان سے مراد’’معاشی‘‘ اعتبار سے کامیاب انسان ہے اس میں گھر بار عہدہ ومنصب اور کاروبار وبینک بیلنس تک کئی امور آتے ہیں ۔زیر بحث موضوع کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہی آدمی ’’کافی‘‘ ہے ۔ اس کے سواانسان کیا جتنی اقسام ہیں وہ سب ’’ناکافی‘‘ہیں ۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو انداز ہ کیا جاسکتا ہے کہ حجاب کا مسئلہ کن دائرہ سے متعلق ہے اور اس کے سلسلے میں اسلامی معاشروں کو کیا کرنا ہوگا ۔ یہ مسئلہ دن مانے سے حل ہوگاcauses a for Walkاس مسئلے کا حل ہے۔ اس سلسلے میں مظاہروں اور مذاکروں کی اہمیت بھی ثانوی ہوگی ۔ یہ ایک تصور اور ایک کامل Imageکی بحالی کا معاملہ ہے، حجاب اس کا صرف ایک جزو ہے۔

https://newageislam.com/urdu-section/hijab,-west-muslim-world-/d/1726


Loading..

Loading..