پروفیسرمحمد قطب الدین
18 اگست،2024
روز نامہ ’انقلاب‘ دہلی
میں 10 اگست کو شائع ایک رپورٹ کے مطابق ’سپریم کورٹ نے ایک اہم فیصلے میں ممبئی
کے ایک پرائیویٹ کالج کے ذریعے مسلم طالبات کے حجاب پر پابندی عائد کرنے کے حکم پر
روک لگا دی ہے۔ عدالت نے اس سلسلے میں عبوری حکم جاری کرتے ہوئے کالج انتظامیہ کی
سخت سرزنش بھی کی او رکئی سوالات کیے۔ جسٹس سنجیوکمار کھنہ اورجسٹس سنجے کمار کی
بنچ نے اسی کیساتھ ہی بامبے ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر بھی روک لگادی جس میں کالج
انتظامیہ کے فیصلے کو درست قرار دیا گیا تھا۔
واضح ہوکہ ممبئی کے این
جی اچاریہ اور ڈی کے مراٹھے کالج انتظامیہ کے کالج میں ڈریس کوڈ سے متعلق حالیہ
ہدایات کے خلاف کچھ مسلم طالبات نے کالج میں حجاب پہن کر آنے پر پابندی کے خلاف
بامبے ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی تھی، بامبے ہائی کورٹ کا فیصلہ کالج انتظامیہ کے
حق میں آنے کے بعد تین مسلم طالبات نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا
اور اب اسی فیصلے پر سپریم کورٹ نے 18 نومبر تک روک لگادی ہے۔ سپریم کورٹ کایہ قدم
وہاں کی مسلم طالبات کے لیے باعث راحت سمجھا جارہاہے اور جن طالبات نے کالج آنا
چھوڑ دیا تھا وہ دوبارہ آکر اپنی تعلیم مکمل کرنا چاہتی ہے۔دراصل،عصری تعلیمی
اداروں میں مسلم طالبات کے حجاب پہننے پر پابندی اور اس کے نتیجے میں انہیں تعلیم
سے محروم کرنے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، بلکہ آئے دن اس طرح کے مسائل سے
مسلم طالبات کو دوچار ہونا پڑتا ہے۔ حال ہی میں انگریزی اخبار ’دی ٹائمس آف انڈیا‘
نئی دہلی میں 10 اگست کو شائع ایک رپورٹ کے مطابق کانپور کے ایک اسکول میں بارہویں
کلاس کی تین مسلم طالبات کو حجاب پہن کر اسکول کیمپس میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔
فی الواقع حجاب کو تعلیم
کی راہ میں رکاوٹ سمجھنا سب سے بڑی جہالت ہے۔ کیونکہ ہمارے سامنے ایسی بہت ساری
مثالیں موجود ہیں جہاں حجاب او راپنے پورے تشخص کے ساتھ مسلم طالبات نے تعلیم حاصل
کی اور دنیا کے مختلف میدان عمل میں کامیاب ہیں۔ کامیابی کی راہ میں نہ تو کبھی ان
کا حجاب رکاوٹ بنا او رنہ ہی ان کا تہذیبی وثقافتی تشخص، دراصل حجاب کا مسئلہ کھڑا
کرنا اس سازش کا حصہ ہے جس کا مقصد مسلم خواتین کو اپنے مذہبی،تہذیبی وثقافتی تشخص
سے دورکرنا او رانہیں تعلیم سے محروم کرنا،نیز انہیں با اختیار بننے سے روکنا ہے۔
کسی بھی تعلیمی ادارے میں
کوئی ایسا ڈریس کو ڈ نافذ کرنا جو وہاں پڑھنے والو ں کے مذہبی، تہذیبی وثقافتی
تشخص کے منافی ہو اور اس بنیاد پر طلباء کے درمیان کسی طرح کا امتیاز برتنا تعلیم
کے بنیادی حقوق سے محروم کرناہے۔ ہر قوم کے طریق، تمدن او رمعاشرت کے لحاظ سے ان
کے لباس،وضع اور طور طریقے دوسروں سے مختلف ہوسکتے ہیں جن کا تعلق بسا اوقات ان کے
ملی تشخص او رکچھ مذہبی پابندیوں سے بھی ہوسکتا ہے جن کا لحاظ سیکولر او رجمہوری
معاشرے میں ضروری ہے۔
حجاب کی وجہ سے مسلم
طالبات کے ساتھ امتیازی سلوک کا مسئلہ صرف ہندوستان کے بعض تعلیمی اداروں تک ہی
محدود نہیں ہے بلکہ دنیا کے مختلف گوشوں میں بھی اس مسئلہ پر تنازعہ کھڑا کیا
جاتاہے، جس کی خبریں ہم اور آپ اکثر پڑھا اور سناکرتے ہیں۔ اس کے مختلف اسباب
ہوسکتے ہیں جن میں اسلام مخالف ذہنیت اور صحیح اسلامی تہذیب وتمدن سے ناواقفیت
سرفہرست ہے۔ امت مسلمہ ان جیسے مسائل سے وقتاً فوقتاً دوچار ہوتی رہی ہے۔ انہیں
دور کرنے کا سب سے موثر او رکار گر طریقہ یہ ہے کہ اسلامی تاریخ او راسلامی مسائل
کو دنیا میں رائج مختلف زبانوں میں زیادہ سے زیادہ پہنچا یا جائے تاکہ نہ جاننے
والو ں تک صحیح بات براہ راست پہنچ سکے۔ حجاب کے مسئلے پر مسلم طالبات کے ساتھ
وقتاً فوقتاً امتیازی سلوک کے واقعات ہمیں خود احتسابی کی دعوت دیتے ہیں مگر ہم ان
پر غور نہیں کرتے او رنہ اس مسئلے کا دائمی حل تلاش کرتے ہیں بلکہ کچھ مذمتی
بیانات وخیالات کے اظہار پر ہی اکتفا کرجاتے ہیں۔ نہ ہم اپنا محاسبہ کرتے ہیں او
رنہ ہی کوئی مثبت لائحہ عمل وجود میں آتاہے۔
حقیقت یہ ہے کہ 15
اگست،1947 ء کو ملک عزیز ہندوستان انگریزی سامراج کے چنگل سے آزاد ہوا۔ آزادی کے
بعد ہندوستان میں بسنے والی مختلف قومیں مختلف مسائل سے دوچار ہوئیں مگر تقریباً
ہر قوم نے دیر یا سویر اپنے اپنے مسائل کاحل تلاش کرلیا بطور خاص اعلیٰ ومعیاری
تعلیمی ادارے قائم کرکے اپنے تعلیمی مسائل کا حل تلاش کرلیا اور وہ قومی دھارے میں
برابر کے شریک ہوگئے،مگر آج مسلم قوم تعلیمی میدان میں ابھی بھی دوسروں کی محتاج
ہے۔ البتہ بستی بستی اور شہر شہر دینی مکاتب ومدارس کے جال بچھ گئے، جو بلاشبہ ایک
خالص دینی ضرورت ہے اور امت مسلمہ کے لیے سانس کا حکم رکھتے ہیں۔مگر یہ بھی ایک
تلخ حقیقت ہے کہ سائنسی علوم و فنون،صنعت وحرفت اور دیگر عصری علوم کے درس و تدریس
کا ہم معقول وخاطر خواہ انتظام نہیں کرسکے جب کہ ان کی بھی دینی و دنیوی اہمیت
وافادیت سے کوئی بھی سلیم العقل انسان انکار نہیں کرسکتا۔صنعتی وسائنسی علوم کی
تعلیمی افادیت و اہمیت او ران کے لیے ادارے قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے
مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندویؒ فرماتے ہیں: ’او رایسے مرکزکی ہرشہر
میں ضرورت ہے او رمسلمانوں کو ایسے ادارے چلانے کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ اب بھی
سیاسی یا جمہوریت او رعلم وفن کے دور میں ٹیکنالوجی کی صنعت اور تحقیقات کی او
رسائنس کی مختلف شاخوں کی اہمیت ہے اور افادیت ہے او راہمیت او ربڑھے گی او رہم
ہندوستان میں عزت کی زندگی اپنی صلاحیت سے گزارنے پر قادر اور خود کفیل بننے کے
قابل اس وقت تک نہیں ہوسکتے جب تک ہم ان میدانوں میں بھی مہارت حاصل نہ
کرلیں۔مسلمانوں کو ان علوم سے جو بے بیگانگی او ربعد پیداہوگیا ہے وہ دور ہو اور
ان اداروں سے ایسے ماہرین نکلیں کہ وہ پھر ملکوں کو، وہا ں کی طاقتوں کو اور ان سب
کے راز کو سمجھنے بلکہ ان کو بنانے کی صلاحیت پیدا کرلیں تاکہ مسلم ممالک او رمسلم
معاشرہ کی جو اقدار او رمعیار او رمقاصد ہیں ان کی حفاظت کرسکیں، یہ بہت بڑی خدمت
ہوگی۔۔۔ اور یہ اپنے کسب معاش کے ساتھ ساتھ ایک کثیر الفوائد کام ہوگا“۔ (خطبات
علی میاں۔ص:230-31)
سچ تو یہ ہے کہ کسی بھی
قوم کی ترقی کے لیے 78سال کی مدت کم نہیں ہوتی، لیکن بقول شاعر: ’وہی رفتار بے
ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے‘۔ دنیا میں ترقی کا دارومدار جس چیز پر ہے وہ
تعلیم ہے مگر 78 برس کی مدت میں کیاہم اپنی آبادی کے اعتبار سے اپنے بچے او ربچیوں
کی تعلیم کا بہتر قابل نمونہ انتظام کرسکے؟ کیا ہم اس میدان میں بھی دوسروں کی
محتاج سے چھٹکارا پاسکے؟ کیاہم اپنے محلوں، قصبوں اور شہروں میں ایسے معیاری
تعلیمی ادارے قائم کرسکے جہاں ہمارے بچے او ربچیاں اپنے تہذیبی وثقافتی تشخص کے
ساتھ بنیادی او راعلیٰ تعلیم حاصل کرسکیں؟ یہ ان جیسے بہت سارے پہلو ہیں جن پر غور
کرنا اوران کا حل تلاش کرنا ازحد ضروری ہے۔
آئیے! آزادی کے 78 ویں
سالگرہ کے موقع پر ہم اپنا معاسبہ کریں کہ اس طویل مدت میں ہم نے کیا کھویا او
رکیاپایا؟ تعلیمی میدان میں آج ہم کہاں کھڑے ہیں اور اس میدان میں ہم دوسروں کی
محتاجی سے کیسے نکل سکتے ہیں؟ نیز آزاد ہندوستان میں آزادی کے ساتھ ہماری نسل نو
کیسے اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکتے ہیں؟
18 اگست،2024،بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
--------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism