سہیل ارشد، نیو ایج اسلام
28 جون 2024
ابھی تک ہندوستان کے مسلمان
حجاب پر پابندی پرہی ماتم کررہے تھے لیکن 98 فی صد مسلم آبادی والے "سیکولر ملک
" تاجکستان کی حکومت نے 19 جون کو حجاب کے ساتھ عید میں بچوں کو دی جانے والی
عیدی پر بھی پابندی کا قانون پاس کردیا۔ اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں پر 60 ہزار
روپئے سے لیکرپانچ لاکھ روپئے تک کا جرمانہ لگ سکتا ہے۔ تاجک پارلیامنٹ نے حجاب مخالف
قانون پاس کرتے ہوئے حجاب کو ایک غیر ملکی پوشاک قرار دیا اور بچوں کو عیدی دینے اور
تہواروں میں ان کی شمولیت پر پابندی کی حمایت میں یہ دلیل دی کہ ایسا انکی صحیح تربیت
کے پیش نظر کیا گیا ہے۔
واضح ہو کہ تاجکستان مرکزی
ایشیا کا ایک مسلم اکثریتی ملک ہے اور اس خطے کے مسلمانوں میں اسلامی شناخت سے زیادہ
مقامی کلچر زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ حجاب کا رواج تاجکستان میں گزشتہ چند برسوں میں ہی
ہوا ہے اس لئے اس کو تاجک کلچر کا حصہ نہیں سمجھا جاتا بلکہ عرب کلچر کا حصہ سمجھا
جاتا ہے۔ تاجکستان کے صدر امام علی رحمان نوے کی دہائی سے تاجکستان میں برسراقتدار
ہیں اور ملک کی اسلامی شناخت کو مٹاکر اسے ایک سیکولر ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ لہذا
، ان کی حکومت نے2007ء کے آس پاس ملک میں تاجک کلچر کو فروغ دینے کے بہانے اسلامی روایات
اور مذہبی امور پر پابندی کا سلسلہ شروع کیا۔ ملک میں 2007ء میں اسکولوں میں حجاب اور
منی اسکرٹ دونوں پر پابندی لگائی گئی اور گھنی داڑھی یعنی شرعی داڑھی پر غیرسرکاری
طور پر پابندی لگائی گئی۔ پولیس نے جبرا ہزاروں لوگوں کی داڑھیاں منڈوائیں۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر
ہے کہ تاجک حکومت 18 برس سے کم عمر بچوں کو مذہبی سرگرمیوں میں شریک ہونے کی اجازت
نہیں دیتی۔18 برس سے کم عمر کے بچوں کو مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھنے کی بھی اجازت نہیں
ہے۔ حکومت کا مؤقف یہ ہے کہ بچوں اور نوجوانوں کو مذہبی سرگرمیوں میں زیادہ دلچسپی
لینے کے بجائے تعلیم میں زیادہ وقت گزارناچاہئے۔
حجاب اور داڑھی پر پابندی
لگانے کے پیچھے تاجک حکومت کا یہ تصور کارفرما ہے کہ یہ دونوں انتہا پسندی کی علامت
ہیں ۔ اس لئے امام علی رحمان نے عوامی سطح پر مذہبیت کی نمائش کو ختم کرنے اور آبائی
اقدار اور قومی کلچر کو فروغ دینے کی مہم چلا رکھی ہے۔ ان کے نزدیک اسلامی تشخص سے
زیادہ تاجکستان کے آبائی اقدار اور قومی کلچر زیادہ اہم ہیں۔
تاجکستان میں اسلام پر پابندی
تو نہیں ہے لیکن ملک میں مذہبی سرگرمیوں ، مذہبی تعلیم اور مسجدوں میں دئیے جانے والے
خطبوں پر ریاست کا پورا کنٹرول ہے۔کوئی بھی مذہبی تقریب حکومت کی پیشگی اجازت کے بغیر
منعقد نہیں ہوسکتی۔ کسی پبلک ہال۔میں نماز ادا نہیں کی جاسکتی۔ کوئی بھی عالم بغیر
اجازت عوامی جلسہ نہیں کرسکتا اور اسکولوں میں مذہبی تعلیم منظورشدہ نصاب کے تحت ہی
ہوسکتی ہے۔ نیز مسجدوں کو رجسٹر کرانا ضروری ہے۔ غیر رجسٹرشدہ مساجد کو یا توبند کردیا
جاتا ہے یا پھر منہدم کردیا جاتا ہے۔ یہ قانون صرف مساجد کے لئے نہیں ہے بلکہ چرچوں
اور سیناگوگ کے لئے بھی یہی قانون ہے۔ 2011ء میں 1500 غیر رجسٹر شدہ مساجد کو بند کردیا
گیا جبکہ 2017ء میں 1938 مساجد کو بند کردیا گیا۔ تاجکستان کی حکومت کے اس سیکولرائزیشن
مہم کی تاجکستان ، افغانستان اور امریکہ کی مسلم تنظیموں نے مذمت کی ہے اور حجاب پر
سے پابندی ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ تاجکستان کے دانشوروں ، مذہبی
شخصیات اور صحافیوں نے حجاب پر پابندی کی تنقید کی ہے لیکن وہاں بڑے پیمانے پر سڑکوں
پر پرامن یا پرتشدد احتجاج نہیں ہوئے کیونکہ وہاں کوئی اسلامی سیاسی یا مذہبی تنظیم
نہیں یے جیسا کہ پاکستان یا دوسرے ممالک میں ہیں۔ تاجکستان میں اسلامک رینے ساں پارٹی
تھی جسے حکومت نے دہشت گرد تنظیم قرار دے کر اس پر پابندی لگا دی۔ تاجک حکومت کی اس
سیکولرائزیشن مہم سے یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ امام علی رحمان ملک کو انتہا پسندی
، مسلکی فرقہ بندی اور دہشت گردی سے بچائے رکھنے کے لئے یہ سارے اقدامات کررہے ہیں
یا پھر وہ اسلام دشمن طاقتوں کے اشارے پر تاجکستان سے اسلام کو دھیرے دھیرے ختم کرنے
کی کوشش کررہے ہیں۔ آج پوری دنیا میں اسلامی حکومتیں نظریاتی انتہا پسندی کی راہ پر
ہیں۔ تاجکستان میں بچوں کو مذہب سے دور رکھنے کے لئے انہیں عیدی دینا اور تہوار کی
سرگرمیوں میں شامل ہونے پر بھی پابندی ہے تو دوسری طرف پاکستان میں اتنی مذہبی آزادی
ہے کہ وہاں مدرسوں میں چھ سات سال کے بچوں کو بھی "گستاخ رسول کی ایک سزا سر تن
سے جدا " کھلے عام پڑھایا اور رٹایا جارہا ہے۔اس کا نتیجہ یہ دیکھا جارہا ہے کہ
توہین کے الزام میں عیسائیوں اور مسلمانوں کو ہجوم کے ذریعہ تشدد کرکے ہلاک کرنے میں
بچے بھی شامل ہورہے ہیں۔ ایران میں عورتوں کو چہرہ کھلا رکھنے کی آزای ہے تو افغانستان
میں عورتوں کو پورا چہرہ ڈھکنے کا حکم ہے جبکہ دونوں ممالک کی حکومت اسلامی قوانین
کا حوالہ دیتی ہیں۔ایرانی دوشیزہ مہسا امینی کو مذہبی پولیس نے صرف اس لئے جان سے ماردیا
کہ اس نے سر کو دوپٹے سے ڈھکا تو تھا لیکن "ٹھیک سے " نہیں ڈھکا تھایعنی
دوپٹے سے بالوں کا کچھ حصہ نظر آرہا تھا۔ اس نظریاتی اختلاف اور نظریاتی انتہا پسندی
نےپوری
دنیا کے مسلمانوں کو الجھن میں ڈال رکھا ہے۔ انہیں سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کس نظرئیے
پر عمل کریں اور کس پر نہ کریں۔۔
------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism