مولانا وحید الدین خان
31 مارچ 2014
ڈائنامائٹ کی ایجاد کرنے والے الفریڈ نوبل نے ہتھیاروں کی تجارت کر کےاسلحہ بنانے والی 90 فیکٹریاں قائم کی اوربھاری مقدار میں دولت اکٹھا بھی کیا۔ اس کے بعد ایک واقعہ پیش آیا جس کی وجہ سے اس کی پوری زندگی ہی بدل گئی۔
1888 میں اس کے بھائی کی موت پر کئی اخبارات میں غلطی الفریڈ کی موت کی خبر شائع ہو گئی۔ ایک فرانس کے اخبار میں یہ اعلان اس طرح شائع ہوا: (موت کے سوداگر کی موت)۔ موت کی اس خبر میں یہ بھی لکھا گیا کہ "پہلے سے کہیں زیادہ تیزی کے ساتھ لوگوں کو قتل کرنے کے طریقوں کی تلاش کر کے مالدار بننے والے شخص الفریڈ نوبل کی کل موت ہو گئی" الفریڈ یہ خبر پڑھ کر حیران ہو گیا اور اس کے بعد اس نے اپنی زندگی کے بارے میں ایک مثبت فیصلہ لیا۔ 1895 میں پیرس میں سویڈش نورویجین کلب میں نوبل نے اپنے آخری وصیت نامے پر دستخط کیا اور اپنی املاک کے ڈھیر کو معزز و محترم نوبل امن انعام سمیت پانچ نوبل انعام جاری کرنے کے لئے مختص کر دیا۔
صدمہ اور زخم ایک عظیم معلم ہے۔ یہ ذہنی الجھن کا ایک ایسا عمل شروع کرتا ہے جس سے ایک مکمل نئی ذہنیت کی تشکیل ہوتی ہے اور نتیجتاً ایک نئی انسانی شخصیت ابھر کر سامنے آتی ہے: صدمہ اور زخم پہنچنے سے پہلے وہ صرف ایک عام آدمی تھا لیکن صدمہ اور زخم کے بعد وہ سپرمین بن جاتا ہے۔
صدمہ اور زخم بڑے ہوں یا چھوٹے بہت عام ہیں۔ تقریبا ہر انسان کو اس کا تجربہ ہوتا ہے۔ لیکن زیادہ تر لوگ صدمہ اور زخم کو ایک منفی تجربہ سمجھتے ہیں اور ان سے سبق حاصل کرنے کےقابل نہیں ہوتے۔ تاہم جھٹکا ایک حادثہ نہیں ہے بلکہ جھٹکا فطرت کی زبان ہے۔ قدرت جھٹکے کی زبان بولتی ہے۔ اگر کوئی جھٹکے کا شکار ہونے کے بعد منفی بننے سے خود کو بچا لیتا ہے تو یہ اس کے لیے ایک انتہائی تخلیقی تجربہ ہو سکتا ہے۔
صدمے اور زخم آپ کے دماغ کو تحریک دیں گے اور آپ کی استعداد اور صلاحیتوں کو ظاہر کریں گے۔ اس سے تخلیقی سوچ کا عمل شروع ہوتا ہے۔ اس سے آپ کو اپنی زندگی میں بہتر فیصلے کرنے میں مدد ملتی ہے جس کی وجہ سے آپ غلط راستے سے ہٹ کر صحیح ٹریک پر واپس آ جاتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ آپ کے نقطہ نظر کو حقیقت پسندانہ بنا دیتا ہے۔
صدمے اور زخم لوگوں کی زندگی کا سب سے بڑا مثبت محرک ہے بشرطیکہ اس کے تئیں لوگوں کا رد عمل مثبت ہو۔ ہر کوئی الفریڈ نوبل کی طرح متاثر کن ہو سکتا ہے اور اس کے لیے صرف ایک ہی شرط ہے اور وہ یہ ہے کہ صدمے اور زخم پر لوگ ناراض اور غم و غصہ کرنے کے بجائے اسے سیکھنے اور تجربات حاصل کرنے کا ایک ذریعہ بنائیں۔
ایسے لوگوں کی بہت ساری مثالیں ہیں جنہیں صدمے اور زخم پہنچے لیکن ایک مثبت ذہنیت کے ساتھ ان کا سامنا کرنے کی حلاحیت ان کے اندر تھی۔ صدمے اور زخم ان کی ترقی کے لئے ایک زبر دست محرک ثابت ہوئے۔
اس کی ایک مثال ایم کے گاندھی کی ہے جنہون نے جنوبی افریقہ میں بیس سال گزارے۔ جون 1893 میں انہیں ٹرانسوال، پریٹوریا میں ایک سفر شروع کرنا تھا ایک ایسا سفر جس نے گاندھی جی کو پیٹرومیرٹبرگ پہنچا دیا۔ چونکہ گاندھی جی نے فرسٹ کلاس کا ٹکٹ خریدا تھا اسی لیے وہ ایک فرسٹ کلاس کمپارٹمنٹ میں سیٹ لے کر بیٹھ گئے۔ ریلوے حکام نے گاندھی جی کو وین کمپارٹمنٹ میں جانے کا حکم دیا کیونکہ گوروں کے علاوہ کسی کو بھی فرسٹ کلاس کمپارٹمنٹ میں بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی۔ گاندھی جی نے حکم کی تعمیل سے انکار کر دیا اس پر انہیں دھکہ دے کر ٹرین سے باہر کر دیا گیا اور موسم سرما کی زبردست سردی میں ان کے سامان کو پلیٹ فارم پر پھینک دیا گیا۔
گاندھی جی کے ساتھ جو ہوا وہ تشدد کی ایک مثال تھی۔ اس کے باوجود انہوں نے قیام امن کے لئے جد و جہد کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ ہندوستان واپس آئے اور انہوں نے اپنی ایک تحریک شروع کی جس کی بنیاد اہنسا یعنی عدم تشدد پر تھی۔ اور اس کے بعد جلد ہی وہ غیر متشدد سرگرمیوں کے چیمپئن بن گئے۔
فطرت کے قانون کے مطابق زندگی ایک آسان سفر نہیں ہے: یہ ایک ایسا سفر ہے جس میں مسافر کو صدمے اور زخم کے مراحل سے ہو کر گزرنا پڑتا ہے۔ اور ایک حقیقت کے طور پر اسے قبول کرنے کے علاوہ لوگوں کے پاس اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ بے شک فطرت جن راستوں کا تعین کرتی ہےوہ جھٹکوں اور چیلنجوں سے ہو کر گزرتا ہے۔ ہر وہ انسان جو کامیابی و کامرانی حاصل کرنا چاہتا ہےاس کے لیے ضروری ہے کہ وہ حقیقت کو سمجھے اور زندگی میں جھٹکوں اور چیلنجوں کو سنگ میل بنائے۔
(انگریزی سے ترجمہ: مصباح الہدیٰ، نیو ایج اسلام)
ماخذ:
http://timesofindia.speakingtree.in/spiritual-articles/new-age/here-are-some-shocking-truths
URL for English article:
https://newageislam.com/spiritual-meditations/here-some-shocking-truths/d/66360
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/here-some-shocking-truths-/d/97656