ہیلن رزو
27 اگست، 2012
(انگریزی سے ترجمہ ، نیوایج اسلام )
یہ نظریہ نے کہ مغرب اور مشرق وسطی صنفی مساوات کے بارے میں انتہائی مختلف نظریات کا حامل ہے حالیہ برسوں میں تنزلی کاشکار رہا ہے ۔ تاہم، جب صنفی مساوات کی بات آتی ہےتو مغرب اور مشرق وسطی کے تحریک نسواں کے علمبردار اور ترقی پسند کارکن بہت اہمیت کے حامل ہیں ۔ حقوق نسواں کے علمبردار کی سرگرمیوں کی مختلف مثالوں پر ایک گہری نظر ڈالنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ دو علاقے کسی کی سوچ سے بھی زیادہ عام ہیں ۔
مغرب اور مشرق وسطی دونوں معاشروں میں لبرل تحریک نسواں کے پہلو انحطاط کا شکار ہیں ، خاص طور پرتعلیم اور کام میں خواتین کی رسائی کے مواقع میں اضافہ پر تاکید ۔ ورلڈ ویلیوز سروے (WVS) کے مطابق مسلم اکثریت والے ممالک میں 60 فیصد سے زائد شہریوں کی اکثریت اس نظریے سے اتفاق نہیں کرتی کہ یونیورسٹی کی تعلیم ایک عورت کے مقابلے میں ایک مرد کے لئے زیادہ اہم ہے ۔
لڑکیوں کی تعلیم کی راہ میں رکاوٹیں اب بھی حائل ہیں خاص طور پر ان دیہی علاقوں میں جہاں بعض خاندان ان کے تمام بچوں کی تعلیم کے لئے وسائل کی کمی کا شکار ہیں یا جہاں اسکول ان کے گھروں سے بہت دور ہے۔ اس کے باوجود ان تمام دشواریوں کے ہوتے ہوئے بھی ، عرب ممالک میں خواتین کی تعلیم نے ، شرح خواندگی میں دوگنے اضافے کے ساتھ دنیا میں بڑی حصول یابیاں کی ہیں اور صنفی اندراج کا فرق ڈرامائی طور پر 1970 ء کے بعد سے کم ہو رہا ہے۔
اور ساتھ ہی ساتھ کام کرنے والی خواتین کو بڑھتی ہوئی مقبولیت بھی حاصل ہو رہی ہے ۔ WVS کے مطابق، 77 فیصد مصر کے نوجوان ان ملازمتوں میں عورت کے حق کی حمایت کرتے ہیں جن کے وہ قابل ہیں ۔ اس کے علاوہ، 45 فیصد کویتی ومنس لیبر فورس کی شراکت اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق، مشرق وسطی میں سب سے زیادہ ہے۔ یہاں تک کہ مشرق وسطی اور مغرب دونوں میں مذہبی قدامت پسند خواتین بھی اس لبرل تحریک نسواں کے ان پہلوؤں کو تقویت فراہم کرتی ہیں ۔ جبکہ وہ بیویوں اور ماؤں کے طور پر خواتین کے کردار کی اہمیت پر توجہ مرکوز کرتی ہیں ، اسلامی جماعتوں میں خواتین کارکن زیادہ تر تعلیم یافتہ پیشہ ور ہیں - بالکل اسی طرح جیسے ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں عیسائی حقوق کے لئے خاتون کارکن اکثر گھر سے باہر کام کرتی ہیں۔
مشرق وسطی میں حقوق نسواں کی علمبردار کی پوزیشنوں کا تنوع مغرب میں کچھ لوگوں کو حیران کر سکتا ہے۔ کچھ حقوق نسواں کی علمبردار سیکولر ہیں اور ان کا یہ ماننا ہے کہ مذہب کو خواتین کے حقوق پر بحث سے الگ رکھا جانا چاہئے۔ سیکولر خیمے میں، لبرل، سوشلسٹ اوربنیاد پرست حقوق نسواں کی علمبردار صنفی بنیاد پر تشدد کے خلاف جنگ کرتے ہوئے ، سیاست اور روزگار اور اقتصادی انصاف میں امتیازی سلوک کو ختم کرتے ہوئے ایسے مسائل پر کام کررہی ہیں جو تولیدی حقوق کو شامل ہیں ۔
لیکن اسلامی حقوق نسواں کے ایسے علمبردار بھی ہیں جو براہ راست صنفی کردار کی آبائی تشریحات کو چیلنج کر رہے ہیں ۔ وہ بیویوں اور ماؤں کے طور پر خواتین کے کردار کی قدر کرتے ہوئے عورتوں کو مردوں سے کمتر نہیں سمجھتے ہیں اور نہ ہی انہیں نجی شعبوں تک محدود کرنا چاہتے ہیں ۔ وہ کامیابی کے ساتھ شادی اور طلاق، ڈریس کوڈ، روزگار، سیاسی شراکت داری اور تعلیم میں خواتین کے عظیم حقوق کا قائل کرنے کے لئے مساوات کی اسلامی تعلیمات کی تشریحات استعمال کرتے ہیں ۔وہ متحدہ امریکہ میں مذہبی حقوق نسواں کے علمبردار سے مشابہت رکھتے ہیں جو کہ حقوق کی وکالت کرنے کے لئے عیسائیت، یہودیت اور اسلام میں تعلیمات کا استعمال کرتے ہیں ۔
دونوں خطوں میں حقوق نسواں کے سرگرم کارکنوں کے لئے ان مشترکات کو استعمال کرنے اور مشترکہ مقاصد کے لیے مل جل کر کام کرنے کے بہت زیادہ امکانات ہیں۔
مثال کے طور پر، قاہرہ میں ہراس میپ وولنٹیئرانیشئٹو جیسے منصوبے، سوشل میڈیا اور موبائل فون کی رپورٹنگ نظام کا استعمال کرتے ہوئے جو کہ متاثرین کو گمنام طور پر ہراسمنٹ کی عوامی طور پر رپورٹ کرنے کی اجازت دیتا ہے ، ہراسمنٹ ختم کرنے کے لئے مصر اور مغربی رضاکاروں، حقوق نسواں کے سرگرم کارکنوں، عورتوں اور مردوں کو ایک ساتھ متحد کرتا ہے ۔ اس طرح کے منصوبوں مستقبل کے لئے ایک نقطہ نظر کا مظاہرہ ہیں - جس میں مغرب اور مشرق وسطی دونوں میں صنفی مساوات کے لئے جدوجہد کرنے والے تمام لوگ ایک مشترکہ مقصد کے لئے مل کر کام کریں گے۔
ہیلن رزو قاہرہ کی امریکن یونیورسٹی (AUC) میں سوشیالوجی کی ایسوسی ایٹ پروفیسر، اور کتاب ‘‘Islam, Democracy and the Status of Women: The Case of Kuwait’’ کی مصنفہ ہیں ۔
ماخذ:
http://www.eurasiareview.com/27082012-us-middle-east-myths-on-gender-equality/
URL for English article:
https://newageislam.com/islamic-society/us,-middle-east-myths-gender/d/8440
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/us,-middle-east-myths-gender/d/12785