سراج نقوی
10 جنوری 2025
علی گڑھ کی جامع مسجد کے تعلق سے ایک آر ٹی آئی کارکن کے دعوے کو شہر کی ایک عدالت نے سماعت کے لیے اس کے باوجود منظورکر لیا ہے کہ سپریم کورٹ ایسے تمام معاملوں کی سماعت پرروک لگا چکا ہےاور ایسا کرنا سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کے متراد ف ہے۔لیکن شاید اب کچھ ججوں کے لیے سپریم کورٹ کے حکم سے زیادہ اہم شر پر مبنی ہندوتووادیوں کی’ آستھا ‘ہے،یا شاید گزشتہ دس برس کے دوران عدلیہ میں منصوبہ بند طریقے سے سنگھی ذہنیت کے لوگوں کو داخل کیا گیا ہے، تاکہ روز مسجد مندر تنازعہ شروع کرکے ملک کے فرقہ وارانہ ماحول میں زہر گھولا جائے اور اس طرح سیاسی مفادات کی تکمیل کی جائے۔
واضح رہے کہ سنبھل کی جامع مسجد کے سروے کا ایک مقامی عدالت کے ذریعہ حکم دینے کے بعد شروع ہوا تنازعہ سپریم کورٹ پہنچنے کے بعد عدالت نے ایسے تمام معاملوں کی سماعت پر فوری روک لگا دی تھی۔ سنبھل کی جامع مسجد کے سروے کا عدالت سے حکم ملنے کے بعد اتر پردیش کے مختلف شہروں میں ایسے معاملوں کا سیلاب آگیا تھا۔’فساد مافیا‘نے باغپت،بدایوں،بریلی اور فیروز آباد کی مساجد میں بھی مندر تلاش کرنے کی مہم شروع کر دی اور یہ سب اس کے باوجود کیا گیا کہ آ ر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے کم از کم زبانی طور پر مساجدکے نیچے مندر تلاش کرنے کی مہم پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا، لیکن بھاگوت کی اس ظاہری ناراضگی اور نیت کا فرق تھا یا کوئی اور سبب کہ فرقہ پرستوں کی مہم اس کے بعد بھی اس وقت تک جاری رہی جب تک کہ اس معاملے میں سپریم کورٹ نے واضح الفاظ میں پابندی عائد نہ کر دی۔لیکن اب علی گڑھ کی جامع مسجد کے تعلق سے نیا تنازعہ شروع کر دیا گیا ہے۔ ایک آر ٹی آئی کارکن اور نام نہاد ’اینٹی کرپشن آرمی‘ کے لیڈر پنڈت کیشو دیو گوتم نے نے دعویٰ کیا ہے کہ علی گڑھ کے اوپر کوٹ علاقہ میں واقع جامع مسجد دراصل ہندوراجائوں کا بڑا قلعہ تھا اور جعلی دستاویزوں کی بنیاد پر اس جگہ جامع مسجد قائم کی گئی۔گوتم کا دعویٰ ہے کہ اس نے محکمہ آثار قدیمہ اور بلدیہ سے حاصل معلومات کی بناء پر یہ پایا ہے کہ مسجد کی جگہ پر پہلے بودھ استوپ،جین مندر یا شیو مندر تھا۔حالانکہ گوتم کو فراہم کی گئی معلومات میں صرف یہ کہا گیا تھاکہ مسجد سرکاری زمین پر بنائی گئی ہے اور یہ کسی فرد کی ملکیت نہیںہے۔ اس کے باوجود گوتم مسجد کی جگہ بودھ،جین یا ہندو عبادتگاہ ہونے کا دعویٰ کرکے جوشر پیدا کر رہا ہے اسے ہندوتو کے جنون کے سوا کیا کہا جائے۔کیا یہ بات ہی گوتم کے دعوے کے پیچھے چھپی بد نیتی کوظاہر نہیں کرتی کہ اسے یہ تک یقین نہیں ہے کہ مسجد کی جگہ پر بودھ استوپ تھا،یاجین مندر تھا یا پھر شیومندر؟ اس طرح کا دعویٰ ہی یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ اس کا مقصد صرف ماحول خراب کرنا اور مسلمانوں کی دل آزاری کرنا ہے،لیکن اس کے باوجود سامنے کے حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے اور اس سلسلے میں سپریم کورٹ کی واضح ہدایت موجود ہوتے ہوئے بھی علی گڑھ کے سیول جج گجیندر سنگھ نے گوتم کے دعوے کو سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے اس معاملے کی سماعت کے لیے ۱۵؍ فروری کی تاریخ مقرر کی ہے۔حالانکہ یہ دعویٰ ابتدائی مرحلے میں ہی خارج ہو جانا چاہیے تھا۔
دراصل اس طرح کے تمام معاملات بے سبب نہیں ہیں۔ان سب کے پس پشت وہی ذہن کام کر رہا ہے جس کی پرورش اور تربیت سنگھ پریوار نے کی ہے۔موہن بھاگوت بھلے ہی یہ کہہ چکے ہوں کہ ہر مسجد کے نیچے مندر تلاش کرنا مناسب نہیں،لیکن اس طرح کے واقعات یا دعوؤں کے لیے ان کی تنظیم ہی ذمہ دار ہے کہ جس نے آستھا کے نام پر عدلیہ میںبھی فرقہ پرستی کا زہر گھول دیا ہے۔موہن بھاگوت کے مذکورہ بیان کی ایک قابل غور بات یہ بھی ہے کہ انھوں نے کہا تھا کہ اس طرح کے نئے معاملے شروع کرکے کچھ لوگ ہندو لیڈر بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔یعنی بھاگوت کا درد دراصل یہ نہیں کہ روز اس طرح کے نئے معاملے کیوں شروع کیے جا رہے ہیں،بلکہ ان کا درد یہ ہے کہ انھوں نے یا ان کی تنظیم نے ہندوتو کا جو راستہ اختیار کیا تھا اس پر ان کے پیروکاروں کے علاوہ بھی کچھ لوگ قابض ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔یعنی معاملہ یہ نہیں کہ کیوں روز ایک مسجد کے نیچے مندر تلاش کرنے کی مہم شروع ہو رہی ہے، بلکہ اصل درد یہ ہے کہ جس ہندوتو پر سنگھ پریوار اپنی اجارہ داری سمجھتا تھا وہ اجارہ داری اب خطرے میں ہے اور دیگر عناصر بھی اب اسی راہ پر چل کر اپنی سیاست چمکانے یا خود کو اس بہانے نمایاں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔جہاں تک علی گڑھ کی جامع مسجد کے معاملے میں عدالت کے ذریعہ اس معاملے کو سماعت کے لیے منظور کرنے اور آئندہ ۱۵؍ فروری کو اس کی سماعت کی تاریخ دینے کا تعلق ہے تو جج موصوف اس معاملے پر خواہ کچھ بھی فیصلہ دیں، لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ ایک ایسی درخواست پر عدالت کیوں راضی ہوئی کہ جس کا بظاہر مقصد سوائے شر پھیلانے اور مسلمانوں کو ہراساں کرنے کے اور کچھ نظر نہیں آتا۔سیول جج نے جس طرح اس معاملے میں سپریم کورٹ کے حالیہ موقف یا ہدایت کو نظر انداز کیا وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جج موصوف نے اس معاملے میں بادی النظر میں دیکھے جانے والے حقائق کو بھی نظر انداز کر دیا۔اس لیے کہ درخواست گزار آئی ٹی کارکن نے جن باتوں کا سہارا اپنی درخواست میں لیا ہے اس سے بادی النظر میں بھی اس کا دعویٰ قابل سماعت نظر نہیں آتا۔دوسرے یہ کہ جب عبادتگاہوں سے متعلق قانون پر داخل عرضیوں پر سپریم کورٹ نے ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں سنایا ہے تو یہی مانا جائےگا کہ مذکورہ قانون نافذ ہے۔اس لیے کہ اس تعلق سے سپریم کورٹ نے کوئی حکم امتناعی بھی جاری نہیں کیا ہے۔ان تمام حقائق کی موجودگی میں اگر کوئی عدالت فتنہ و فساد پیدا کرنے والی عرضیوں کی سماعت کے لیے رضامند ہوتی ہے تو عدالت کی نیت پر سوال اٹھنا بالکل فطری بات ہے۔عدالت کی نیت اس لیے بھی سوالوں کے گھیرے میں ہے کہ اسی طرح کے ایک معاملے میں سنبھل میں دو فرقوں کے درمیان ٹکرائو کے نتیجے میں تقریباً چھ افراد کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا تھا اور پولیس کی زیادتیوں کے سبب سیکڑوں افراد گرفتار ہو چکے ہیں۔ان حالات کو سامنے رکھتے ہوئے عدلیہ اور انتظامیہ دونوں کی ذمہ داری ہے کہ اس طرح کے تنازعات کے معاملے میں محتاط رویہ اختیار کریں۔لیکن ایسا لگتا ہے کہ عدلیہ میں اب عدل سے زیادہ ’آستھا‘ یا آستھا کے نام پر کی جانے والی شر انگیزی کو آگے بڑھانے والے افراد کی تعدا بڑھ رہی ہے۔کسی بھی جمہوری نظام کے لیے یہ انتہائی خطرناک اور الارمنگ صورتحال ہے۔اس لیے کہ ہندوستان میں عدلیہ ہی اقلیتوں اور انصاف سے محروم طبقات کی امیدوں کا واحد سہارا ہے۔اگر عدلیہ نے بھی نے اپنے دروازے انصاف کے متلاشیوں کے لیے بند کر دیے تو اس کے نتائج پورے سماج کو کمزور کرنے اور اقلیتوں میں عدلیہ کے تئیں عدم احترام کا سبب بن سکتے ہیں۔یہ عدم احترام ملک کو فرقہ وارانہ منافرت کی سمت لے جائےگا اور ظاہر ہے اس سے صر ف اقلیتیں ہی نہیں بلکہ ملک بھی کمزور ہوگا۔یہ بات بھی باعث تشویش ہے کہ اس طرح کے معاملے سب سے زیادہ اتر پردیش میں ہی سامنے آ رہے ہیں اور ان میں اضافہ ’بلڈوزر انصاف‘ پر سپریم کورٹ کے ذریعہ قدغن لگانے کے بعد ہوا ہے ۔کیا اسے محض اتفاق سمجھا جائے یا اس کے پس پشت حکمرانوں کا اشارہ کام کر رہا ہے؟بہرحال وجہ جو بھی ہو علی گڑھ کی جامع مسجد کے معاملے میںدائر عرضی کو سماعت کے لیے منظور کرنے کا معاملہ باعث تشویش اس لیے ہے کہ اس سے ریاست کی پہلے ہی سے خراب فرقہ وارانہ فضا کے مزید متاثر ہونے اور مسلم اقلیت میں غم و غصہ پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔
10 جنوری، 2025، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
-------------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/hearing-place-supreme-court-order/d/134303
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism