عدنان فیضی، نیو ایج اسلام
10 مئی 2025
مغل دور کے آخری عظیم صوفی بزرگوں میں سے، حضرت شاہ کلیم اللہ جہان آبادی (1729-1650) نے سیاسی تبدیلی اور روحانی چیلنج کے دور میں، چشتیہ سلسلہ کے داخلی اصول و روایت کو محفوظ رکھا۔ انہوں نے اخلاقیات اور روحانی عاجزی پر زور دیا۔
اہم نکات:
1. دہلی میں سنہ 1650 میں فنکاروں اور علماء کے گھرانے میں پیدا ہوئے۔
2. استاد احمد لاہوری کے پوتے، جو تاج محل اور لال قلعہ کے معمار تھے۔
3. شیخ یحییٰ منڈی کے ہاتھ پر بیعت کی۔ چشتیہ سلسلے کو زندہ کیا۔
4. ہر مذہبی روایات کے سالکوں کو گلے لگانے کے لیے جانے جاتے ہیں۔
5. دہلی میں مدفون ہوئے، اور ان کا عرس آج بھی ان کے مزار پر منایا جاتا ہے۔
----
تعارف
حضرت شاہ کلیم اللہ جہان آبادی، اپنے دور کے سب سے بااثر صوفی بزرگوں میں سے ایک تھے۔ ان کا تعلق مغلیہ دور کے زوال پذیر ایام سے ہے، پھر بھی ان کی روحانی قابلیت، عاجزی و انکساری علم اور خاموشی سے ترقی پذیر ہوئی۔ پرانی دہلی میں ان کی خانقاہ خاموش اصلاح اور جامع تعلیم کا مرکز تھی۔ انہوں نے اپنے پیچھے ایک تحریری اور زندہ روایت چھوڑی ہے، جو اب بھی اپنا اثر رکھتی ہے۔
ابتدائی زندگی
حضرت شاہ کلیم اللہ جہان آبادی سنہ 1650 میں دہلی میں ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے، جو اپنی فن تعمیر اور روحانی خدمات کے لیے مشہور تھا۔ ان کے دادا، استاد احمد لاہوری، تاج محل اور لال قلعہ میں اپنی کاریگری اور فنکاری کے لیے مشہور تھے، جب کہ ان کے والد، نور اللہ، دہلی کے ایک معزز خطاط تھے۔ علم اور خوبصورتی کے درمیان پرورش پانے والے، حضرت شاہ کلیم اللہ نے مکمل طور پر تصوف میں داخل ہونے سے پہلے باضابطہ اسلامی تعلیم حاصل کی۔
بیعت اور روحانی سلسلہ
آپ صوفی بزرگ حضرت شیخ یحییٰ مندی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ پر تصوف کے سلسلہ چشتیہ میں داخل ہوئے۔ حضرت کلیم اللہ نے حضرت میر سید علی ہمدانی کے سلسلہ نسب کے عناصر کو بھی اپنی تعلیمات میں شامل کیا، اور چشتیہ روایات کو وسیع تر صوفی اثرات کے ساتھ ہم آہنگ کیا۔ انہوں نے مراقبہ، ذکر خفی، اور روحانی عاجزی کے ذریعے طہارت قلب و باطن پر توجہ دی۔
جیسا کہ انہوں نے لکھا ہے:
تصوف کا راستہ لفظوں میں نہیں بلکہ طہارت قلب و باطن میں ہے۔ سچے سالکوں کو معرفت الہی حاصل کرنے سے پہلے اپنے قلب و باطن کو صاف کر لینا چاہیے۔"
تعلیمات، خدمات، اور اثرات
حضرت کلیم اللہ کی خدمت سب کے لیے تھی، اور ان کی محفلوں میں پس منظر سے قطع نظر، ہر قسم کے سالکوں کا خیرمقدم کیا جاتا تھا۔ انہوں نے ہندو اور مسلم دونوں کا یکساں طور پر خیرمقدم کیا۔ ان کے سب سے ممتاز شاگرد حضرت نظام الدین اورنگ آبادی تھے۔ ان کی ادبی خدمات سے ان کی قلبی بصیرت کی عکاسی ہوتی ہے:
تلک عشرۃ کاملہ
کشکول کلیمی
مکتوبات کلیمی
مراقبہ کلیمی
سبع السبیل کلیمی
ان کے مدرسے میں طلباء کو مفت تعلیم، کھانا اور رہائش فراہم کی جاتی تھی، جس سے رسائی اور دیکھ بھال کی گہری صوفی روایت کی نمائندگی ہوتی ہے۔
وفات اور میراث
حضرت کلیم اللہ 1729 میں اس دار فانی سے ملک جاودانی کی طرف رخصت ہوئے۔ ان کی درگاہ پرانی دہلی میں لال قلعہ کے سامنے مینا بازار کے قریب واقع ہے۔ اگرچہ انگریزوں نے 1857 کے بعد ان کی خانقاہ کو تباہ کر دیا، لیکن ان کا مزار جوں کا توں باقی رہا۔ ان کا عرس اب بھی ہر سال منایا جاتا ہے، جو کہ ایک ایسی روایت ہے جو مغل بادشاہوں جیسے بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی نظر میں مقبول تھی۔ آج بھی ان کی تعلیمات ذکر اور خدمت کی زندہ روایات کے ذریعے خاموشی سے جاری و ساری ہیں۔
حضرت شاہ کلیم اللہ جہان آبادی کی میراث ان کی تحریروں، ان کے مزار، اور اس خاموش اخلاقی روح کے ذریعے زندہ ہے، جسے انہوں نے چشتیہ روایت میں ڈالا، جو کہ ایک ایسا سلسہ ہے جو آج بھی تماشے پر خاموشی، تفرقہ و انتشار پر فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور سب کے لیے محبت کو اہمیت دیتا ہے۔
__
English Article: Hazrat Shah Kalimullah of Jehanabad: The Quiet Reformer of Delhi during Mughal Period
URL: https://newageislam.com/urdu-section/hazrat-shah-kalimullah-reformer-mughal/d/135622
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism