برطانوی استعمار سے نبرد آزما صاحب قلم اور صاحب السیف مجاہد پایہ حرمین حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ
فاروق ارگلی
مجاہد ملک و ملت حضرت
مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ ولی اللہی تحریک آزادی کے سرگرم مجاہدین حضرت حاجی
امداد اللہ مہاجر مکیؒ،حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ،حضرت محمد قاسم نانوتوی ؒ،
حافظ ضامن شہیدؒ اور اس وقت برطانوی استعمار سے نبرد آزما ہزار ہافرزندان توحید کے
ہم عصر تھے جنہوں نے 1857 ء کے خونین انقلاب میں جوش ایمانی اور سرفروشی کی ایسی
مثال قائم کردی جو ابدالآباد تک اسلامیان بر صغیر کو مذہبی اور وطنی غیرت کالازوال
جذبہ اور دینی حریت کا سبق دیتی رہے گی۔مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ کاشمار دنیائے
اسلام کے ان مایہ ناز علماء و مجاہدین میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے دین سے محبت، علمی
عبقریت او رمجاہدانہ عزیمت سے اسلام پر حملہ آور باطل قوتوں کو لرزہ براندام کردیا۔1854ء
میں مغربی دنیا کے سب سے بڑے مسیحی عالم پادری فنڈ ر کو آگرہ کے تاریخی مناظر ے میں
ذلت آمیز شکست دینے،1857ء میں مولانا ف ضل حق خیر آبادیؒ کی تحریک پر جامع مسجد
دہلی سے جاری ہونے والے تاریخ ساز فتویٰ جہاد میں شرکت، انگریزوں کے خلاف اعلان
جنگ، کیرانہ میں آزاد حکومت کی سربراہی اور مکہ معظمہ میں عظیم اسلامی درس گاہ
مدرسہ صولتیہ کے قیام سے لے کر اسلام کی حقانیت پر مستند عالمانہ کتابوں کی تصنیف
و تالیف تک مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ کی ذات گرامی 19ویں صدی میں اسلامی تاریخ کی
نابغہ روزگار شخصیات میں نمایاں او رممتازہے۔مولانا کیرانویؒ کن حالات اور کیسے
ماحول میں اسلام کی حفاظت و صیانت کا پرچم لے کر عرصہ کارزار میں نمودار ہوئے اسے
سمجھنے کے لیے تاریخ کے اوراق گزشتہ پرنظر ڈالنا ضروری ہے۔
درحقیقت کفر و شرک کی سب
سے بڑی علامت صلیب اور توحید و حقانیت کے نشان ’ہلال‘ کی کشمکش تاریخ اسلام کا اہم
حصہ ہے۔ طلوع اسلام کے بعد سے ہی ہر دور میں صلیبی طاقتیں اسلام کے خلاف برسرپیکار
رہی ہیں۔ جب تک اسلامیوں میں دین کی
سربلندی کا جذبہ جواں رہا، فرزندان توحید جب تک اسلامی اصولوں پر کار بند رہے، ذلت
و رسوائی صلیبیوں کا مقدر بنی رہی لیکن پھر اسلامیوں کی ایمانی، اخلاقی اوراجتماعی
کمزوریوں کے باعث صلیبی طاقتیں اسپین کی اسلامی حکومت پر غلبہ حاصل کرنے میں کامیاب
ہوگئیں۔ ایک پوری اسلامی سلطنت سے اسلام کا نام و نشان مٹا کر مغرب نے گویا صدیوں
کی ذلت کا انتقام لے لیا۔ اسپین میں لاکھوں مسلمانوں کا خون بہانے والے مساجد کو
گرجاؤں میں تبدیل کرنے والے، لاکھوں کو بالجبر عیسائی بنانے والے صلیبی ہندوستان
کو مسلمانوں کا ملک سمجھ کر ہی تاجروں کے بھیس میں ہندوستان آئے۔ آخری مغلیہ
حکمرانوں کی نااہلی،طوائف الملوکی،مذہبی سماجی اور تہذیبی تفریق و عصبیت کا فائدہ
اٹھاتے ہوئے مشینیں،آلات،دوائیں اور کپڑے فروخت کرنے والے انگریز ہندوستانیوں کے
ضمیر اور غیرت کی خریداری کرنے لگے، اپنوں کو اپنوں سے ختم کرانے کی شاطرانہ سیاست
نے 19ویں صدی کے وسط تک صلیبوں کو اس ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بنادیا۔ایسٹ انڈیا
کمپنی کا برطانوی جرائم پیشہ گروہ خود کو فاتح اور ہندوستانیوں کو غلام سمجھنے
لگا۔ا س ملک پر ہمیشہ کے لیے اپنا اقتدار مضبوط کرنے کے لیے اسپین کا آزمودہ طریق
صلیبوں کے ذہن میں شروع سے ہی موجود تھا کہ برصغیر کے تمام انسانوں کو عیسائی بنا
لیا جائے۔عیسائی مشنریاں ہندوستان میں انگریزوں، پرتگالیوں اور فرانسیسیوں کے
داخلے کے ساتھ ہی اپنا کام کرتی آرہی تھیں۔ بہت پہلے گوا کے تمام ہندوستانی قبائل
کو عیسائی بنا لیا گیا تھا۔ اور جب شمالی ہند پر انگریزوں کی گرفت مضبوط ہوگئی تو
اس ملک کو عیسائی ملک بنانے کا ناپاک ارادہ سراٹھانے لگا۔ ملک میں مشنریوں کا جال
بچھا دیا گیا۔ برطانیہ سے ہزاروں مذہبی مبلغین یہاں آگئے۔ عیسائیت کے فروغ کے لئے
بڑے بڑے مذہبی مراکز قائم ہوگئے۔ ہندوستانی عوام کو لوٹ کھسوٹ،بے ایمانی، بے انصافی
اور ظلم و جبر کی طاقت سے ہر طرح کمزور اور شکستہ بنادیا گیا تھا۔ تھانے،تحصیل،کچہریاں،اسپتال،فوج
ہر شعبے میں عیسائیت کی تبلیغ زوروں پرتھی۔ عیسائی مذہب کے سب سے بڑے مرکز کلکتہ
کے سربراہ لاٹ پادری کی ایڈمنڈ نے اپنے ایک گشتی مراسلے میں یہ اعلان کردیا تھا
”اب وقت آگیا ہے جب پورے ہندوستان کے باشندوں کو عیسائی بنالیا جانا چاہیے۔مراسلے
میں ہندوستان کے ہندوؤں او رمسلمانوں کو دھمکی دی گئی تھی کہ اگر وہ اپنا بھلا
چاہتے ہیں تو دین عیسوی اختیار کرلیں ورنہ نتائج کے خود ذمہ دار ہوں گے“۔ یہ خط ایک
سرکاری سرکلر کی طرح تمام ہندو مسلم سرکاری ملازمین کو ارسال کیاگیا جس سے خوف
ودہشت کاماحول پیدا ہوگیا۔بہت سے کمزور دل اپنا مذہب چھوڑ نے کو تیار ہوگئے۔ اسی
زمانے میں انگریزوں کے ایک پالیسی ساز ریورنڈکنیڈی کی تحریر نامور مورخ پنڈت سندر
لعل نے اپنی کتاب”بھارت میں انگریزی راج“ (جلد دوم) میں نقل کی ہے:
”ہم پرکتنے بھی اعتراضات کیوں نہ ہوں۔ہندوستان میں ہر طرح سے ہمارا
اقتدار قائم ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولا چاہئے کہ ہمارا بنیادی مقصد اس ملک میں عیسائی
مذہب پھیلانا ہے۔ جب تک کنیا کماری سے لے کر ہمالیہ تک سارا ہندوستان عیسائی مذہب
اختیار نہ کرلے۔ او رلوگ ہندو دھرم اور اسلام کو برانہ کہنے لگیں تب تک ہمیں مسلسل
کوشش کرتے رہناچاہئے۔ اس کام میں ہمیں ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے،ہمارے ہاتھوں میں
جتنے اختیارات اور جتنی بھی قوت ہے اسے اسی مقصد کے لیے استعمال کرناچاہئے۔“
سرسید کا رسالہ اسباب
بغاوت ہند اور اس عہد کی مصدقہ و مستند تحریریں شاہد ہیں کہ عیسائی مشنریاں پوری
شدت کے ساتھ میدان میں آگئیں۔ عیسائی پادری پولیس کی حفاظت میں مسلمانوں اور
ہندوؤں کی عبادت گاہوں اور مذہبی اجتماعات میں گھس جاتے اور کھلے عام لوگوں کے
مذہب کو برا بھلا کہتے اور اپنے دین کی تعریف کرکے دعوت دیتے۔ عیسائیوں کے خلاف ایک
لفظ بھی منہ سے نکالنے کی سزاموت تھی۔ کمپنی کی سرکاراپنے مذہبی مبلغوں کے ساتھ
کھڑی تھی۔ ہندوستان کو عیسائی مملکت میں بدلنے کے کار عظیم کو تکمیل پہنچانے کا
ارادہ لے کر برطانیہ کا اسقف اعظم پادری سی جی فنڈ ہندوستان آیا۔ سی جی فنڈ انگریزی
جرمن، فرانسیسی اور عبرانی کے علاوہ ترکی، تاتاری، آرمینیانی اور فارسی زبانوں پر
عبور رکھتا تھا۔ اس نے اسلام کے خلاف اپنی مشہور کتاب میزان الحق 1829ء میں لکھی
تھی جسے فارسی۔ انگریزی،اردو،مراٹھی، ترکی اور عربی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔اس
نے بہت سے ملکوں میں اپنے مذہب کا پرچار کیا،1837 ء میں فنڈہندوستان بھیجا گیا اور
آگرہ کے مسیحی مرکز کا سربراہ بنا، آگرہ میں ہی اس نے اردو زبان سیکھی اور ”میزان
الحق“ مکمل کی۔ اس شخص کو اپنے علم اور اسلامی معلومات پر اتنا بھروسہ تھاکہ یہ
دعویٰ کرنے لگا تھا کہ کوئی مسلمان عالم اس کا سامنا نہیں کرسکتا۔ فنڈ راکثر دہلی
آتا اور جامع مسجد کے دروازے پرکھڑے ہوکر مسلمانوں کو للکار تا تھا اور اسلام کی
تکذیب کرتاتھا۔ موت کے خوف سے لوگ توہین کا یہ زہر پی کر خاموش رہ جاتے، یہ
ہندوستان کی اسلامی تاریخ کا سب سے شرمناک دور تھا جب بادشاہ انگریز کا پنشن دار
تھا۔ مسلمان علماء فقہا اپنے دین پرکیے جارہے حملوں سے تڑپ رہے تھے۔ مشہور مستشرق
گار ساں وتاسی کے خطبات سے پتہ چلتا ہے کہ انگریز جامع شاہجہاں کو عظیم الشان کیتھڈرل
میں تبدیل کرنے کے ارادے باندھ رہے تھے۔ایسے میں ایک مرد مجاہد نے پادری فنڈ راور
مولانا کے درمیان آگرہ کے مسیحی مرکز میں جو تاریخی مناظرہ ہوا جس کے نتائج بہت
دور رس تھے۔ مولاناؒ نے جس غیر معمولی علمیت اور ایمانی طاقت کے ساتھ اسلام کی
حقانیت ثابت کی اور مسیحی دعوؤں کو باطل ثابت کرکے سب سے بڑے مسیحی عالم کو ذلیل و
خوار کردیا۔ اس نے مسلمانوں کو نیا حوصلہ بخشا اور صرف ہندوستان ہی نہیں پورے بلاد
اسلامیہ اور یورپ میں ان کے نام کا ڈنکا بجنے لگا۔
مجاہد اسلام حضرت مولانا
رحمت اللہ کیرانویؒ 1817 ء میں قصبہ کیرانہ ضلع مظفرنگر کے علم پرور دین دار اور
متمول و معزز گھرانے میں پیدا ہوئے ان کے والد کا نام نامی شیخ خلیل اللہ تھا۔
مولانا رحمت اللہ کے جد ّ امجد الشیخ عبدالرحمٰن گاز رونی،محمود غزنوی کے ساتھ ہندوستان
آئے تھے او رپانی پت میں سکونت اختیار کی تھی۔ مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ کاسلسلہ
نسب 35واسطوں نے خلیفہ سوئم حضرت عثمان غنیؒ سے ملتا ہے۔ صدیوں سے یہ خوش نصیب
خاندان بزرگی روحانیت، علم وفضل اور فن طبابت کے باعث محترم اور معززرہا۔ اسی
خانوادے میں کبیر الاولیاء حضرت مخدوم جلالؒ پیدا ہوئے جن کے صاحبزادے حضرت شیخ
عبدالکریم بہت بڑے عالم تھے،مغل شہنشاہ اکبرنے انہیں شیخ الزماں کے خطاب سے سرفراز
کیا تھا، ان کے فرزند مقرب خاں بادشاہ جہانگیر کے امراء میں سے تھے، توزک جہانگیری
میں بادشاہ نے مقرب خاں کا ذکر بڑی محبت کے ساتھ کیا ہے۔ مولانا رحمت اللہ پیدائشی
طور پر ذہین تھے، پرورش بڑے ناز ونعم سے ہوئی۔12 سال کی عمر تک انہوں نے کیرانہ میں
ہی عربی اردو فارسی اور دینیات میں خاصی دستگاہ حاصل کرلی۔آگے کی تعلیم کے لیے دہلی
بھیجے گئے اور لال قلعہ کے پاس واقع مدرسہ حیات میں داخل ہوئے پہلے قیام مدرسہ میں
ہی رہا بعد میں ان کے والد راجہ ہندوراؤ کے منشی ہوکر دہلی آگئے، انہیں رہنے کے لیے
کوٹھی ملی تو رحمت اللہ والد کے ساتھ رہنے لگے مگر تعلیم کا سلسلہ برقرار
رہا۔مدرسہ کی تعلیم کے علاوہ مولانا نے اس وقت کے نامور اساتذہ سے اکتساب علم کیا
فارسی زبان و ادب کی تعلیم مولانا امام بخش صہبائی سے پائی۔طبابت کا فن ان کے
خاندان میں پستوں سے چلا آرہا تھا۔مولاناؒ نے فن طب کی بھی تعلیم و تربیت حاصل کی۔
مولاناؒ کی ذہانت اور قابلیت دیکھ کر راجہ نے ان کے والد کو زمین جائیداد کی دوسری
ذمہ داری دے کر انہیں اپنامنشی بنالیا۔ لیکن اچانک خلیل اللہ صاحب کا انتقال ہوگیا
تو مولانا رحمت اللہ کیرانہ واپس آگئے۔ ان کی شادی گوجر خاندان کی ایک نیک سیرت
خاتون سے ہوگئی۔انہوں نے کیرانہ میں ایک مدرسہ قائم کیا اور درس تدریس میں مشغول
ہوئے لیکن دشمنان اسلام کی فتنہ پروازیوں سے ان کا دل بہت بے چین تھا۔اپنے مذہب
اور اہل وطن کی حالت پر وہ اکثر رودیا کرتے تھے۔ اسی زمانے میں انہوں نے عیسائیت
کے خلاف اسلام کی برتری اور حقانیت کے موضوع پر تصنیف و تالیف کا سلسلہ شروع کردیا۔
جن دنوں آپ ازالیہ الاوہام کے عنوان سے اپنی مشہور زمانہ کتاب رات و دن محنت کرکے
لکھ رہے تھے بیمار ہوگئے۔مرض اس قدر بڑھا کہ معالجوں کو بھی ان کے بچنے کی امید نہ
رہی۔ مولاناؒ کے مطابق اسی عالم میں ایک شب کو خواب میں سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ
وسلم تشریف لائے، صدیق اکبرؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے، انہوں نے فرمایا
اے جوان صالح تجھے رسول اللہ کی خوشخبری ہے، اگر کتاب ’ازالتہ الاوہام‘ تیرے مرض
کا باعث ہے تو یہی کتاب تیرے لیے باعث شفا ہوگی۔
اس بشارت کے بعد مولانا حیرت
انگیز طور پر صحت یاب ہوگئے اور اپنی کتاب پوری کرلی اس کے بعد انہوں نے مسلسل چار
سال تک عیسائیو ں کی تمام مذہبی صحیفوں،مختلف انجیلوں اور ان کے مفسرین و مسیحی
علماء کی بڑی بڑی کتابوں کے مطالعے اور تجزیے میں مشغول ہوکر انصرانیت کے باطل
عقائد کے خلاف خود کو پوری طرح تیار کرلیا۔ اس دوران آپ نے ردنصر انیت پر کئی تحقیقی
کتابیں لکھ ڈالیں۔1853ء کے آخر میں مولاناؒ اپنی کتاب کی طباعت کے لیے دہلی گئے تو
وہاں ان کی ملاقات آگرہ میں سرکاری اسپتال کے ڈاکٹر وزیر خان سے ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب
انگیزی،عبرانی اور دوسری مغربی زبان کے ماہر تھے اور انگریزوں کے ملازم ہونے کے
باوجود عیسائیت کے خلاف زبردست معلومات رکھتے تھے۔ مولانا جنوری 1854 ء میں آگرہ
پہنچے اور دہلی کی جامع مسجد پر کھڑے ہوکر اسلام کی توہین کرنے والے پادری فنڈر کو
آگرہ جاکر مناظرے کا چیلنج دے دیا کہ جو فریق علمیت کے نشے میں چور پادری کو یہ چیلنج
قبول کرنا پڑا۔ مناظر ے کی شرائط کئی ماہ میں تحریری سوال وجواب کے ذریعہ طے ہوئے
شرائط کے مطابق مناظرے میں مولانا کا ساتھ ڈاکٹر وزیر خاں اور فنڈر کے معاون کے
طور پر پادری فرنچ کو ساتھ ہونا تھا۔10اپریل 1854ء کو آگرہ کے اس مقام پریہ مناظر
ہ شروع ہوا جو عیسائیت کاگڑھ تھا۔ مناظر ے میں 500 معزز اہل علم مسلمان وہند و اور
انگریز افسران موجود تھے۔
برطانیہ کے اس نامور مسیحی
عالم نے پوری قوت کے ساتھ انجیل کی حقانیت حضرت مسیح کی الوہیت اور عقیدہ تثلیت کو
برحق اور اسلامی نظریات و عقائد کو بے بنیاد ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن دو دن چلنے
والے اس عدیم المثال مولاناؒ اور ڈاکٹر وزیر خاں نے پادری فنڈر او رمناظرے میں اس
کے ساتھی پادری فرنچ کے ہر دعوے کو پاش پاش کردیا او رعیسائیوں کی ہی کتابوں سے
ثبوت و دلائل پیش کرکے مسیحی دنیا کے ان نامور پادریوں کو یہ تسلیم کرنے پر مجبور
کردیا کہ ان کی کتاب تحریف شدہ، ان کے عقائد باطل اور ان کا مذہب گمراہی و ضلالت
ہے۔ مولانا نے پادری کی کتاب،میزان الحق کو بری طرح رد کردیا جس کی عیسائی دنیا میں
دھوم مچی ہوئی تھی۔ عیسائیت اور اسلام کے اس تاریخی مناظرے کی تفصیلات خاصی طویل ہیں
جو عربی زبان میں ”المناظرۃ الکبریٰ“ کے عنوان سے شائع ہوئیں، اردو میں اس موضوع
پر مولانا امداد صابریؒ کی شاہکار تالیف،فرنگیوں کاجال‘ اور مولانا اسیر ادروی کی
”مجاہد اسلام مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ،میں خاصی معلومات فراہم کی گئی ہیں۔مختصراً
یہ کہ اپنے دور کا وہ سب سے بڑا مسیحی عالم خود اپنے ہم قوموں کی نظر میں ذلیل و
خوار ہوکر ہندوستان سے بھاگ کھڑا ہوا۔ عیسائیت کی اس ہار سے پورے ملک میں عیسائی
مشنریوں کو زبردست دھکالگا اور ان کے لیے اسلام پر حملہ کرنا دشوار ہوگیا۔ عیسائیت
پر مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ کی اس علمی فتحیابی نے ان کا نام ہندوستان اور اسلامی
ممالک سے لے کر یورپ تک مشہور کردیا۔
1857ء کی جنگ آزادی میں مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ ان سرفروش علماء
اسلام کی صف میں شامل تھے جو اپنے وطن کی آزادی کے لئے مصروف جہاد تھے۔ آپ
مولانافضل حق خیر آبادیؒ کے ساتھ جامع مسجد دہلی میں حاضر تھے جب علماء کرام کی بڑی
جمعیت نے تاریخی فتویٰ جہاد جاری کیا تھا۔ جب حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کی قیادت
میں تھا نہ بھون او رشاملی میں آزادی کا پرچم لہرادیا گیا تو کیرانہ میں ہزاروں غیور
گوجر اور شیوخ آپ کے جھنڈے کے نیچے جمع ہوگئے تھے اور آپ کی قیادت اور کیرانہ آزاد
کرالیا گیا،علاقہ میں اعلان ہونے لگا’ملک کے بادشاہ کا حکم مولانا رحمت اللہ ؒ
کا‘۔ مولاناؒ نے کیرانہ کو ایک زبردست فوجی محاذ میں تبدیل کردیا تھا اور جب انگریز
کی ٹڈی دل فوج نے کیرانہ پر حملہ کیاتو موالاناؒ نے ایک بہادر جرنیل کی طرح دشمن
کا مقابلہ کیا۔ برٹش فوج کی زبردست گولہ باری سے اس جنگ کا وہی انجام ہوا جو مجاہدین
کو معلوم تھا، یہ آزادی کے جذبات کی جنگ تھی جس میں لڑنے والے ہارجاتے ہیں،فنا
ہوجاتے ہیں لیکن جذبات اور عقیدے پہلے سے زیادہ طاقتور ہوجاتے ہیں۔ اس جنگ میں
انگریز فتحیاب ہوا، کیرانہ شہر پوری طرح خاک کا ڈھیر بنا دیا گیا۔برطانوی درندوں
نے وہاں ہندوستانیوں کے خون کا دریا بہا دیا۔ مولانا کے خاندان محلات صفحہ ہستی سے
مٹا دیے گئے۔ مولاناؒ کو برطانوی فوج تلاش کرتی پھررہی تھی مگر مولاناؒ بچ کر پنجیٹھ
پہنچ گئے،فوجیوں نے وہاں بھی انہیں گھیر لیا لیکن بہ تائید غیبی مولاناؒ وہاں سے
صاف نکل گئے، دشواریوں اور مصائب کا سامنا کرتے ہوئے مولاناؒ پیادہ پاسورت کی
بندرگاہ پہنچے، نام بدل کر بحری جہاز میں سوار ہوئے اور مکّہ معظمہ پہنچ
گئے۔مولانا کا سب کچھ لٹ چکا تھا۔ وطن ہمیشہ کے لیے چھوٹ چکاتھا۔ عزیز واقارب سب
سے جدا ہوچکے تھے ان کی لاکھوں کی جائیداد تھی جسے انگریزوں کوڑیوں میں نیلام کردیا
تھا لیکن مولاناؒ کے دل میں جذبہ ایمانی سلامت اور جوان تھا۔ آخری وقت تک خدمت دین
کے آرزو لیے دیار حرم میں حاضر ہوئے جہاں مجاہد آزادی حضرت مولانا امداد اللہ
مہاجر مکّی پہلے سے ہی موجو د تھے، مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ کے علم و فضل کاشہرہ
پہلے ہی وہاں پہنچ چکا تھا، علماء حرم کی خواہش پر آپ نے اپنا حلقہ درس شروع کیا۔
آگرہ کے مناظرے میں ذلت آمیز شکست کے بعد پادری فنڈر ہندوستان سے بھاگ کر لندن چلا
گیا تھا،وہ اپنی قوم کی نظروں میں بری طرح ذلیل و خوار ہوگیا تھا لیکن اپنی شیطنت
پر قائم تھا، وہ جگہ جگہ گھوم کر یہی کہتا پھرتاتھا کہ ہندوستان کے مسلم علماء اس
سے ہار گئے ہیں، بہت جلد ہندوستا ن کا ہر ہندو مسلم عیسائی ہوجائے گا۔کچھ سال بعد
وہ ترکی پہنچ گیا او روہاں اسلام کے خلاف بدزبانیاں کرنے لگا۔ خلیفۃ المسلمین
سلطان عبدالعزیز کو معلوم ہوا کہ اس بدلگام پادری کو دھولچٹانے والا مجاہد مکہ
معظمہ میں موجود ہے۔ سلطان نے اپنے گورنر کی معرفت مولاناؒ کو شاہی اعزاز کے ساتھ
قسطنطنیہ بلوایا۔ پادری فنڈر کواطلاع ملی کہ مولانا کیرانویؒ ترکی آرہے ہیں تو ان
کے پہنچنے سے پہلے ہی راتوں رات ترکی سے فرار ہوگیا۔ سلطان عبدالعزیز آپ سے بے حد
متاثر ہوئے،انہوں نے مولاناؒ سے آگرہ کے تاریخی مناظر ے کی رودداد قلم بند کرنے کی
فرمائش کی جس کی تعمیل میں آپ نے چھ ماہ قسطنطنیہ میں قیام کر کے ”اظہار الحق“ کے
نام سے اپنی گرانقدر تالیف مکمل کی جس میں آگرہ کے مناظرے میں زیر بحث آنے والے
موضوعات کے علاوہ بے حد تفصیل اوردلائل و براہین کے ساتھ دین نصاریٰ کے منسوخ
ہونے،انجیل میں تحریف اور ردوبدل کے بارے میں تحریر فرمایا۔ خلیفۃ المسلمین سلطان
عبدالعزیز نے مولاناؒ کو ’پایہ حرمین‘ کے خطاب اور تمغہ مجیدی درجہ دوئم سے سرفراز
کیا۔ دربار خلافت سے آپ کو گرانقدر وظیفہ اور خلعت پیش کیا گیا۔ترکی میں ایک سال
کے قیام کے بعد آپ مکہ معظمہ وپس آئے،مہاجر طلبہ کی تعداد او ردلچسپی کو دیکھتے
ہوئے اپنا مدرسہ قائم کرنے کا خیال آیا۔ ایک مخیر دوست نے طلبا ء کی تعداد دیکھ کر
اپنے مکان میں جگہ دی جو ناکافی تھی، اللہ کی مدد نیک ارادے کا ساتھ دیتی ہے،
ہندوستان کی ایک رئیس خاتون صولت انساء بیگم حج کے لیے مکہ معظمہ آئیں، مولانا کے
مدرسہ کا حال معلوم ہوا۔ 30ہزار کی خیر رقم سے زمین خرید کر مدرسہ کی عمارت بنوادی،مولانا
نے انہی نیک خاتون کے نام مدرسہ کا نام مدرسہ صولتیہ رکھا۔مولانا نے اپنی باقی
ماندہ زندگی اسلامی تعلیم کے فروغ اور مدرسہ صولتیہ کی ترقی کے لیے وقف کردی۔ چند
سال بعد پٹنہ کے ایک رئیس میر واحد حسین نے دارالاقامہ تعمیر کرادیا، بعد میں ایک
شاندار مسجد کی تعمیر بھی مکمل ہوگئی جسے ہندوستانی معماروں نے یہاں کے روایتی طرز
پر تیار کیا۔ مولانا اسیر ادروی مولانا کے آخری ایام کے بارے میں لکھتے ہیں:۔
”ہجرت کے بعد حرم مکہ میں مستقل طور پر تیس برسوں تک درس و تدریس ہی مشغلہ رہا۔ ان
حالات میں اگر ان کی دلی آرزو مکہ شریف میں ایک دارالعلوم قائم کرنے کی تھی تو یقینا
یہ آرزو آپ کے ذہن و مزاج اور جذبہ اخلاص تحفظ اسلام کے عین مطابق تھی۔ اور جب
مدرسہ صولتیہ منصہ شہود میں آگیا تو مقصد زندگی کی تکمیل ہوگئی۔ یہ زندگی کا آخری
دور تھا 70سال کی عمر ہوچکی تھی،آنکھوں کی روشنی کم ہوتی جارہی تھی،نزول الماء
(موتیا بند) کا عارضہ شروع ہوچکا تھا۔ آپ لکھنے پڑھنے سے معذور ہوگئے تھے۔مولاناؒ
نے پہلے اپنے بھتیجے مولانابدر الاسلام کو اپنے پاس بلواکر ان کی تعلیم و تربیت دی
تھی، جواب ترکی میں شاہی کتب خانہ حمیدیہ کے ڈائرکٹر ہوگئے تھے۔ مولاناؒ کے ساتھ
ان کے بھائی کے پوتے مولانامحمد سعید ان کی خدمت کررہے تھے جنہیں مولاناؒ نے ہی
تعلیم و تربیت سے سنوارا تھا۔ دربار خلافت کی طرف سے مولاناؒ کی آنکھوں کے علاج کے
لیے انہیں ترکی بلوایا گیا، آپ بہ ہزاردشواری ترکی پہنچے،ڈاکٹروں نے معائنہ کر کے
بتایا کہ آنکھوں میں پانی پوری طرح نہیں اتر ا ہے اس لیے آپریشن دو ماہ بعد کیا
جائے گا۔ سلطان عبدالعزیز کی طرف سے انہیں ہر طرح کی آسائش حاصل تھی لیکن مولاناؒ
حرم پاک او راپنے مدرسہ سے دوری کو برداشت نہیں کرسکے او ربغیر آپریشن کرائے مکہ
معظمہ واپس آگئے۔ کچھ سال بعد مقامی ڈاکٹروں نے آپریشن کیا جو کامیاب نہیں ہوا اور
آپ پوری طرح بصارت سے محروم ہوگئے۔ اس عالم میں آپ تین سال حیات رہے،ہر طرح کی
مجبوریاں تھیں لیکن حرف شکایت کبھی زبان پر نہ آیا۔“
آپ کی گراں قدر تالیفات،اظہار
الحق، ازالۃ الاوہام،ازالۃ الشکوک،اعجاز عیسوی المقلب بمقعلہ تحریف،اصح الاحادیث فی
ابطال الثلیث،بروق الامعہ، معدل الموجاح المیزان تقلیب المطاعن، معیار التحقیق،وغیر
ہ رد نصرانیت اوراسلام مخالف عیسائی علماء کے ابطال کے مو ضوع پر دنیائے اسلام میں
نہایت اہم علمی و تحقیقی کتابیں تسلیم کی جاتی ہیں۔
2مئی 1891ء کو مکہ معظمہ میں داعی اجل کو لبیک کہا اور جنت المعلیٰ
کی پاک سرزمین میں آرام فرما ہیں۔ رحمتہ اللہ علیہ۔
ڈاکٹر محمد وزیر خان:
ڈاکٹر محمد وزیر خاں کے
والد کا نام شرف الدین تھا، آپ کا تعلق پٹنہ کے ایک معززخاندان سے تھا آپ وہیں پیدا
ہوئے اور ابتدائی تعلیم فارسی عربی وغیرہ پٹنہ میں ہی حاصل کی۔ ڈاکٹری کی اعلیٰ
تعلیم کے لیے 1832ء میں انگلینڈ بھیجے گئے جہاں انہو ں نے میڈیکل سائنس کے مطالعہ
کے ساتھ ساتھ انجیل اور عیسائیوں کے مذہبی لٹریچر کابھی گہرا مطالعہ کیا۔ ان کے
ذہن میں یہ بات پہلے سے ہی موجود تھی کہ ہندوستان میں عیسائی مشنریاں اسلام اور
مسلمانوں کے عقائد پر جارحانہ حملے کر رہی ہیں۔ ڈاکٹر ی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد
جب آپ وطن لوٹے تو عیسائی مذہب کی بہت سی کتابیں بھی اپنے ساتھ لائے۔ ہندوستان میں
تاج گنج آگرہ کے سرکاری اسپتال میں چیف میڈیکل افسر مقرر ہوئے۔آپ نے 1835ء سے
1840ء تک رونصاریٰ کے لیے ضروری مواد جمع کیا اور آگرہ کے تاریخی مناظرہ میں حضرت
مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ کو عیسائیوں کی انگریزی عبرانی و یونانی کتابوں سے
متعلق ضروری واقفیت فراہم کی۔ مناظرے میں پادری فنڈر کو شکست دینے کے بعد ڈاکٹر
صاحب بھی انگریزوں کی نظر میں کھٹکنے لگے۔ 1857 ء میں آپ دہلی آئے اور مولانا فضل
حق خیر آبادی ؒ کے تاریخی فتویٰ جہاد جاری ہونے والے اجتماع میں موجود تھے۔ ڈاکٹر
صاحب بہادر شاہ ظفر اور جنرل بخت خاں کی طرف سے مجاہدین آزادی کی طبی خدمت پر مقرر
کیے گئے۔بخت خاں نے اپنے کو لارڈ آف آگرہ کا خطاب دیا تھا۔ڈاکٹر صاحب بعد میں اودھ
چلے گئے اور مولانا احمد اللہ شاہ کے ساتھ مل کر بطور ڈاکٹر ہی نہیں بلکہ ایک
بہادر فوجی جنرل کی طرح لکھنؤ کی جنگ آزادی میں حصہ لیا۔ انقلاب کی ناکامی کے بعد
ڈاکٹر صاحب بھی مکہ معظمہ پہنچ گئے جہاں آپ نے علاج و معالجے کا سلسلہ شروع کردیا۔
ایک بدوی قبیلے کے شیخ عبداللہ اسمینی کی بیوی بے حد بیمار تھی۔ معالجوں نے اس کے
مرض کو لاعلاج قرار دیا تھا لیکن وہ خاتون ڈاکٹر وزیر خان کے علاج سے بالکل ٹھیک
ہوگئی۔ بدوی شیخ آپ کا بے حد احترام کرنے لگا تھا۔ اسی دوران ہندوستان کی انگریز
سرکار نے حکومت ترکیہ سے ڈاکٹر وزیر خاں کی حوالگی کی درخواست کی،شریف مکہ کو ترکی
حکومت نے ڈاکٹر صاحب کی گرفتاری کا حکم بھیجا۔ بدوی شیخ عبداللہ کو جب اس کا علم
ہوا تو اس نے شریف مکہ کے پاس پیغام بھیجا کہ ڈاکٹر وزیر خاں میری امان میں ہیں،
جب تک میں قبیلے کے 20ہزار افراد کٹ نہیں جائیں گے۔ڈاکٹر صاحب کو حوالہ نہیں کیا
جائے گا۔ شریف مکہ نے یہ رپورٹ حکومت ترکی کو پیش کردی۔ باب عالی (مرکزی حکومت ترکیہ)
نے یہ پروانہ منسوخ کردیا۔ ڈاکٹر وزیرخاں نے اسی قبیلے اور زندگی بھر مکہ معظمہ میں
علاج و معالجہ کی خدمت انجام دیتے رہے۔(فرنگیوں کا جال،ایسٹ انڈیا کمپنی اور باغی
علماء)
URL: https://newageislam.com/urdu-section/hazrat-maulana-rahmatullah-kairanwi-great/d/1874