New Age Islam
Fri Mar 21 2025, 10:09 PM

Urdu Section ( 29 March 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Hazrat Fatima Always Maintained a Balance between the Rights of Allah and the Rights of the Humans حضرت فاطمہؓ نے حقوق اللہ اور حقوق العباد میں ہمیشہ توازن برقرار رکھا

ڈاکٹر علی اکبر الازہری

29مارچ،2023

اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کی سورہ الفتح میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عام صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی صفات بیان فرمائی ہیں کہ وہ:(1) اہل کفر کے لئے سخت ہیں (2) اہل ایمان کے لئے پیکر رحمت و شفقت ہیں اور (3) ان کی پیشانیوں میں سجدوں کی کثرت کی واضح علامت ہے۔ یعنی ان کے شب و روز حالت رکوع وسجود میں اور رضائے الہٰی کی طلب میں گزرتے ہیں۔

صاف ظاہر ہے کہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کامقام ومنصب اس بات کا متقاضی تھا کہ وہ ان صفات عالیہ میں عام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بڑھ چڑھ کر اپنی قربت اور خصوصیت کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عملاً ایسا کرکے دکھایا۔ آپ بچپن سے فیضان نبوت ورسالتؐ کے براہ راست امین تھے۔ عارف کامل اور زاہد شب زندہ دار تھے۔ان کے پیش نظر اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی تھی۔ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ عنہا کی شخصیت مطہرہ پر بھی یہی صفات غالب تھیں۔ دونوں نے مببط وحی میں پرورش پائی تھی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات دونوں کے پیش نظر تھے اس لئے دونوں ہستیوں کااوڑھنا بچھونا اسلام کی خدمت اور عبادت وریاضت تھا۔ اس کا اعتراف سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے ازدواجی زندگی کے ابتدائی دنوں میں کرلیا جب سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا،”سناؤ علی! شریک حیات کسی ملی ہے؟“ حضرت علی علیہ السلام نے عرض کیا ”نعم العون علی العبادۃ“ یعنی میری شریک حیات فاطمہؓ عبادت گزار ی کے معاملے میں میری بہترین معاون ہیں۔

حضرت علیؓ کی کل کائنات یہ گھر اور آپ کاسب سرمایہ علم تھا جس کے متعلق سرکار دوعالم نے خود ارشاد فرمایا: ”میں علم کا شہر ہوں او رعلی اس کا دروازہ ہیں۔ ”سیدنا علیؓ اس نعمت عظمیٰ پر ہمیشہ فخر کرتے تھے۔

حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ دولت علم سے مالا مال تھے لیکن سیم وزر سے آپ کا دامن ہمیشہ خالی رہا اس لئے حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا ء رضی اللہ عنہا کی ساری زندگی فقر وفاقہ اور تنگ دستی میں گزری۔کونین کے مالک کی لاڈلی دودو اور تین تین دن کچھ کھائے پئے بغیر گزار دیتیں لیکن حرف شکایت زبان پر نہ لاتیں۔حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دینی فرائض سے فرصت پاکر محنت مزدوری کرتے،جو ملتا وہ لاکر سیدہ کائنات رضی اللہ عنہا کے ہاتھ میں رکھ کر دیتے اور آپ اسے صبر وشکر کے ساتھ قبول فرمالیتیں۔کبھی ایسانہیں ہوا کہ فقر وتنگ دستی آپ دونوں کے خوشگوار تعلقات پر اثر انداز ہوئی ہو۔

تنگ دستی پر صبر وضبط کرلینا شاید آسان ہولیکن اس حالت پر راضی اور خوش ہوکر اللہ کا شکر اداکرتے رہنا اور چہرے پر کبھی ناگواری کے آثار تک نہ لانابہت برے حوصلے اور پختہ کردار کی علامت ہے۔ ایسا کیوں نہ ہوتاکہ آپ ”الفقر فخری“ کہنے والے عظیم پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت یافتہ عظیم بیٹی ہیں۔ کئی بار ایسا ہوا کہ سیدہ کونین رضی اللہ عنہا کو دوتین دونوں کے فاقہ کے بعد کچھ ملا۔اپنے شہزادوں اور شوہر کو کھلانے کے بعد اس کا کچھ حصہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ”میری بیٹی تمہاراباپ یہ لقمہ چار دن کے بعد کھا رہا ہے۔“ہاں! یہ وہی گھرانہ ہے جہاں سے مخلوق کو دونوں جہانوں کے خزانے تقسیم کئے جاتے تھے اور اب تک کئے جارہے ہیں لیکن فقر اختیاری تھا کہ اپنی ذات پر ہمیشہ دوسروں کو ترجیح دی۔

کل جہاں ملک اور جو کی روٹی غذا

اس شکم کی قناعت پر لاکھوں سلام

(یعنی پوری دنیا پر ان کا اقتدار تھامگر جو کی روٹی پر گزارا کیا، ایسی قناعت لائق تعظیم ہے، اس پر لاکھوں بار سلام پیش کیا جائے۔)

حضرت سیدہ فاطمہؓ نے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں ہمیشہ توازن برقرار رکھا۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ عبادت وریاضت میں محوہوکر شوہر کی خدمت او ربچوں کی پرورش میں کمی آئی ہو، یابچوں اور شوہر کے حقوق کی ادائیگی میں عبادت وریاضت کامعمول متاثر ہوا ہو۔ اللہ کی عبادت اور شوہر کی اطاعت میں یہی حسن توازن ہے جو خاتون جنت کی کامیاب ترین اورمثالی حیات مقدسہ کا طرہ امتیاز ہے۔ ورنہ عام طور پر ان دونوں محاذوں پر خواتین وحضرات انصاف نہیں کر پاتے خصوصاً خواتین کے لئے یہ کافی مشکل ہوجاتاہے۔

حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”فاطمہ رضی اللہ عنہ جس طرح اللہ تعالیٰ کی عبادت کو فریضہ سمجھتی تھیں اسی طرح میری اطاعت بھی کرتی تھیں۔ عبادت و ریاضت کے انتہائی سخت معمولات میں انہوں نے میری خدمت میں ذرہ بھر فرق نہ آنے دیا۔ وہ ہمیشہ گھر کی صفائی کرتیں، چکی پر گردوغبار نہ پڑنے دیتیں، صبح کی نماز سے پہلے بچھوناتہہ کرکے رکھ دیتیں، گھر کے ہمیشہ برتن صاف ستھرے ہوتے، ان کی چادر میں پیوند ضرور تھے مگر کبھی میلی نہ ہوتی تھی۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ گھر میں سامان خوردونوش موجود ہو او رانہو ں نے کھانا تیار کرنے میں دیر کی ہو، خود کبھی پہلے نہ کھاتیں، زیور اور ریشمی کپڑوں کی کبھی فرمائش نہ کی، طبیعت میں بے نیازی رہی، جو ملتا اس پر صبر اور شکر کرتیں، میری کبھی نافرمانی نہیں کی، اس لئے میں جب بھی صبر وشکر کے اس پیکر (فاطمہؓ) کو دیکھتا تو میرے تمام غم غلط ہوجاتے۔“

سب عظمتیں اور رعنائیاں جو کسی بشر میں ہوسکتی ہیں ان کے درکی خیرات ہیں۔ رسول اکرم صل اللہ علیہ وسلم کی عظیم بیٹی نے اگر بچوں کی تربیت کی خاطر خود تکلیف اٹھائی اور ان کی بہترین تربیت کی تو آج کی مسلمان عورت اس کی ذمہ دار ی سے کیونکر راہ فرار تلاش کرسکتی ہے؟ بچوں کی پرورش ونگہداشت ان کی صفائی، ستھرائی، لباس اور خوراک کا خیال رکھنا اور گھریلوں امور کی پاسبانی ہی عورت کی سب سے بڑی قربانی ہے۔ عورت کے اسی کردار کی آج سخت ضرورت ہے۔ آج کے ترقی یافتہ معاشرے کی غیر محفوظ عورت اگر اپنا وقار،عزت ومرتبہ اور حقیقی مقام دوبارہ حاصل کرنا چاہتی ہے تو اسے چادر زہرہؓ کے سائبان کے نیچے آنا ہوگا۔ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرہ ؓ کی سیرت طیبہ ہماری ماؤں، بہنوں او ربیٹیوں کے لئے خوبصورت نمونہ عمل ہے۔

29 مارچ،2023،بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

----------

URL:  https://newageislam.com/urdu-section/hazrat-fatima-maintained-balance-allah-humans/d/129434

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..