حسن مسعود، نیو ایج اسلام
ٹائمز آف انڈیا نے ایک 11 سالہ بچی کی ہولناک کہانی شائع کیا تھا جسے اتر پردیش میں سہارنپور ضلع کے قطب شیر علاقے میں اغوا کیا گیا، تین مردوں نے اس کی اجتماعی عصمت دری کی اور اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔ ایک اور عصمت دری کا شکار بہار کی وہ نوجوان لڑکی بھی ہے جس کی بارہ برس کی عمر میں ہی آبرو ریزی کر دی گئی، اور اس نے انصاف کی تمام امید کھو جانے کے بعد خود کشی کی اجازت طلب کرنے کے لیے ہندوستان کے صدر سے درخواست کی ہے۔ متعدد قارئین نے آبروریزی کےمجرمین کے لئے تشدد سمیت "موت" کی سزا کی وکالت کی ہے۔ بہت سے لوگوں نے ہمارے عدلیہ کی سست رفتاری اور اس میں مجرمین کے لیے موجود راہ فرار کی گنجائش پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے، جیسا کہ ابھی بین الاقوامی سطح پر مشہور دہلی کے نربھیا کیس میں چل رہا ہے۔ مجرموں کو پھانسی سے بچانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ انصاف آہستہ آہستہ ختم ہوتا جا رہا ہے جبکہ غریب متاثرین کی آہ و بکاء ان سنی کی جا رہی ہے۔
اغوا، عصمت دری اور قتل ہر جگہ ایک روز مرہ کا معمول بن چکا ہے۔ انسانی اقدار کا فقدان، قانون سے بے خوفی اور سست اور مشکل ترین قانونی عمل ان تمام محرکات نے معاشرے کے کمزور طبقے کے مردوں، عورتوں اور بچوں کے خلاف جرائم کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
اللہ تعالی امت مسلمہ سے یہ سوال فرماتا ہے "اور (مسلمانو!) تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں (غلبۂ دین کے لئے) اور ان بے بس (مظلوم و مقہور) مردوں، عورتوں اور بچوں (کی آزادی) کے لئے جنگ نہیں کرتے جو (ظلم و ستم سے تنگ ہو کر) پکارتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں اس بستی سے نکال لے جہاں کے (وڈیرے) لوگ ظالم ہیں، اور کسی کو اپنی بارگاہ سے ہمارا کارساز مقرر فرما دے، اور کسی کو اپنی بارگاہ سے ہمارا مددگار بنا دے،" (4:75)۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور تم میں سے ہر ایک اپنی ذمہ داریوں کے لیے جوابدہ ہے؛ لوگوں کا امام (حکمران) ایک ولی ہے اور وہ اپنی رعیت کے لیے جوابدہ ہے؛ ایک مرد اپنے خاندان (گھر) کا ولی ہے اور وہ اپنے ماتحتوں کے لیے جوابدہ ہے؛ ایک عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں کی نگہبان ہے اور ان کے لئے جوابدہ ہے؛ اور ایک شخص کا غلام اپنے مالک کے مال و اسباب کا ولی ہے اور وہ اس کے لئے جوابدہ ہے۔ اور بے شک، تم میں سے ہر ایک دوسرے کا نگہبان ہے اور ان کے لئے جوابدہ ہے"(بخاری، ج 9 / کتاب 89 / حدیث 252)۔
امت مسلمہ کو ایک "بہترین امت" قرار دیا گیا ہے جسے مجموعی طور پر انسانیت کے فلاح و بہبود کے لئے زمین پر بھیجا گیا ہے۔ اور ایک 3 نکاتی ایجنڈا ان کے حوالے کیا گیا ہے، (1) نیکی کا حکم دینا،(2) برائی سے منع کرنا اور (3) اللہ پر ایمان رکھنا(3:110 قرآن کریم)۔ انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے ، اسلام "سماجی و سیاسی اور معاشی انصاف کے نظام" کے طور پر معروف ایک سہ رخی فریم پیش کرتا ہے۔
سماجی انصاف کا نظام: خدا کی وحدانیت کا تصور سماجی انصاف کے لیے بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اگر خدا ایک ہے تو پوری انسانیت بھی ایک ہے۔ یہ اصول انسانوں کے درمیان طبقاتی تقسیم کی تمام بندشوں کو ختم کر دیتا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پوری انسانیت اللہ کا ایک خاندان ہے۔ انسان ایک کنگھی کے دندان کی مانند یکساں اور برابر ہیں۔ اس طرح، اسلام انسانی استحصال کو روکنا چاہتا ہے۔ انسانیت قومیت، مذہب، ذات، رنگ یا مذہب کی بنیاد پر معاشرے میں برتری اور کمتری کے مروجہ اختلافات کی وجہ سے بے شمار مصائب و آلام کا شکار ہے۔ اسلامی سماجی انصاف کا نظام "خدا کی وحدانیت" کی اپنی پالیسی کے ذریعے ان تمام انسان مخالف رکاوٹوں کو ختم کرتا ہے۔ سب سے بڑا اور برتر و بالا صرف خدا ہی کی ذات ہے۔ بیرونی خصوصیات کا فرق صرف آپسی پہچان اور شناخت کے لیے ہے(قرآن مجید، 49:13)۔ آرنلڈ جے ٹوین بی کا کہنا ہے کہ "مسلمانوں کے درمیان سے رنگ و نسل کے فرق کا خاتمہ اسلام کی شاندار حصولیابیوں اور کامیابیوں میں سے ایک ہے"۔ ہندوستان میں آدیواسیوں، دلتوں، نچلی اور پچھڑی ذات کے لوگوں کو مختلف قسم کے مظالم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستانی معاشرے میں جہیز، جبری مزدوری، بھتہ خوری، اغواء، عصمت دری، جبرن جسم فروشی اور اس قسم کی دیگر بے شمار برائیاں بھی موجود ہیں۔ لہٰذا، معاشرے میں بیداری پیدا کرنا، ہر ایک کی مشکلات کو دور کرنا اور خود اعتمادی کے ساتھ ہر ایک کی زندگی کو اپنا تعاون پیش کرنا امت مسلمہ کا فریضہ ہے۔
سیاسی انصاف کا نظام: اسلام ایک ایسا سیاسی انصاف کا نظام فراہم کرتا ہے جو جمہوریت سے قریب ہے۔ عالمی جمہوریت اور اسلامی جمہوریت کا تصور مساوی ہے۔ ان کے درمیان اختلاف صرف قوانین کے نفاذ کے طریقہ کار میں ہے۔ عام جمہوری نظام میں اکثریت کی طرف سے منظور شدہ کوئی بھی بل قانون بن جاتا ہے۔ لیکن اسلامی جمہوریت میں الہی قوانین اٹل ہیں اور ان میں کوئی ترمیم نہیں کی جا سکتی اگر چہ اسے 100 فیصد کی اکثریت حاصل ہو۔ مثال کے طور پر اسلام میں 'سود' پر مبنی معیشت اس سختی کے ساتھ حرام ہے کہ پارلیمانی اکثریت بھی اس کو تبدیل نہیں کر سکتی۔ لیکن ایسے دیگر تجاویز کی صورت میں جو الہی قوانین کے خلاف نہ ہوں اکثریت کا فیصلہ حتمی اور اٹل ہو گا۔ موجودہ جمہوری نظام میں غریب عوام کسی جبر یا خطرے یا عام تحفے اور تحائف کے بدلے میں ایک مضبوط سیاسی پارٹی کے لئے ووٹ ڈالنے پر مجبور ہے۔ پارلیمنٹ میں داخل ہونے کے بعد وہ عوام کو بھول جاتے ہیں۔ وہ پارلیمانی کارروائیوں میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔ اسلام راست بازی، تقویٰ و طہارت اور تمام بدعنوانیوں کے خاتمہ کو امت مسلمہ کے لیے لازم قرار دیتا ہے تاکہ لوگ آزادانہ طور پر اپنی پسند کے امیدوار کو منتخب کر سکیں۔ ان منتخب لوگ کو عوامی فلاح و بہبود کے لئے لگن کے ساتھ کام کرنا چاہئے۔ دہلی وزیراعلی اروند کجریوال اس کی ایک زندہ مثال ہیں۔ ان کے مثبت اور عوامی فلاح و بہبود کے لیے اٹھائے گئے اقدامات نے قومی حکمرانوں کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔
اقتصادی انصاف کا نظام: بادشاہ سے لیکر مہتر تک ہر طبقے کے لوگ انسانی بقا کے لئے اہم ہیں۔ اگر تمام لوگ اعلیٰ ملازمتوں کو ہی منتخب کر لیں تو چپراسی، ڈرائیور اور جاروب کشی جیسی چھوٹی ملازمتیں کون کرے گا؟ اللہ نے انسانوں کو مختلف صلاحیتوں اور نقائص کے ساتھ پیدا کیا ہے تاکہ تمام انسانوں کا انحصار ایک دوسرے کے ساتھ ہو اور معاشرہ زندہ رہے۔ ملازمتوں کی نوعیت کے مطابق ان کی انفرادی آمدنی بھی مختلف ہوگی۔ اس سے دولت کی تقسیم میں تفاوت پیدا ہوتا ہے جو کہ ناگزیر ہے۔ اس تفاوت پر قابو پانے کے لئے اسلامی معیشت مال و دولت کی 'منصفانہ' تقسیم کا تصور پیش کرتی ہے، تاکہ کوئی بھی فرد اپنی بنیادی ضروریات سے محروم نہ رہے۔ اسلام سالانہ زکوة، صداقت الفطر اور دیگر عطیات کو لازمی قرار دیتا ہے۔ اگر تمام مسلمان ایمانداری کے ساتھ اور منظم طریقے اپنے اوپر واجب تمام زکوٰۃ، صدقات اور خیرات کو ادا کریں تو یقینا غربت ختم ہو جائے گی۔ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد غربت کا شکار ہے اور اس کی وجہ ان زکوٰۃ، صدقات اور خیرات کی عدم ادائیگی، غلط ادائیگی اور غیر منظم ادائیگی ہے۔ 1835میں لارڈ میکالے نے برطانوی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ، "میں نے ہندوستان کے تمام طول و عرض کا سفر کیا ہے لیکن میں نے کسی کو بھیک مانگتے اور چوری کا ارتکاب کرتے ہوئے نہیں دیکھا" در اصل اسلامی معیشت کا مقصد یہی ہے۔ وہ مغلیہ سلطنت کے آخری ادوار تھے۔
اسلام 'سود' کو حرام قرار دیتا ہے لیکن "مشارکہ یا منافع کے اشتراک" کو فروغ دیتا ہے۔ 'سود' پر مبنی سرمایہ کاری میں زیادہ سے زیادہ آمدنی سالانہ 8 فیصد ہے۔ ایک لاکھ روپے کی سرمایہ کاری کی ماہانہ آمدنی 700 روپے ہے۔ ‘‘مشارکہ’’ میں اگر خالص ماہانہ منافع 10فیصد ہو تو سرمایہ کار کو 5 ہزار روپے حاصل ہوں گے۔ تاجر بہت عقلمند ہوتے ہیں ہر مہینہ 10فیصد سے بھی زیادہ منافع حاصل کرنے کے لیے فنڈز کا بہتر استعمال کر سکتے ہیں۔ زیادہ منافع حاصل کرنے کے لیے ممکنہ منصوبوں کی شناخت کرنا اور ان میں سرمایہ کاری کرنا بینکوں کی ذمہ داری ہے۔ اگر ہندوستان میں "اسلامی بینکاری" کو متعارف کرایا جاتا ہے تو 'سود' ختم ہو جائے گا۔ ملیشیا میں اسلامی بینکاری کے 40 سے زائد صارفین غیر مسلم ہیں اس لیے کہ انہیں اس سے بہت زیادہ نفع حاصل ہوتا ہے۔
ایچ ایس بی سی، اسٹینڈرڈ چارٹرڈ، سٹی گروپ، جے پی مورگن، ڈاؤ جونز اور ان جیسے تقریبا تمام بڑے بین الاقوامی بینکوں میں اسلامی بینکاری کا بھی شعبہ ہے۔ اسلامی بینکاری کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے لیے مسلم ماہر اقتصادیات کو ایک اہم کردار کرنا ہے۔
URL for English article: https://newageislam.com/islamic-society/socio-politico-economic-justice-system/d/105946
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/socio-politico-economic-justice-system/d/106010