حسن سرور
18مئی، 2012
(انگریزی سے ترجمہ‑
سمیع الرحمٰن، نیو ایج اسلام)
جنوبی ایشیائی نژاد کے فکر مند برطانوی مسلمان، اپنے مذہب کو تنقیدی تحقیقات اور بحث کے لئے کشادہ کرنا چاہتے
ہیں۔
"چلو ایماندار ہو جائیں۔ اسلام سے ایک واضح ربط ہے۔ "
نوجوان اور کمزور برطانوی لڑکیوں کے ساتھ جنسی بد سلوکی کے
سبب گزشتہ ہفتے جیل میں ڈالے گئے مسلمان مردوں
کے ایک گروپ کے متنازعہ معاملہ پر یہ ٹائمس
کے اداریہ کی سرخی تھی۔ ایک سوشل لبرل اور سابق کمیونسٹ کے علاوہ مصنف ڈیوڈ آرونووچ نے تجویز دی کہ اسلام موروثی طور
پر عورت سے نفرت کرنے والا مذہب تھا: ایک ثقافت
جو اپنی عورتوں کو استعمال کی چیز سمجھتا ہے۔
لیکن اس میں المیہ ہے: یہ ایک مسلم چیف کراؤن پراسیکیوٹر تھا جس نے اس معاملے کے بند ہو جانے کے بعد بھی معاملے کو دوبارہ کھولنے پر اصرار کیا اور جس کے
نتیجے میں ان لوگوں کی سزا کا راستہ ہموار
ہوا۔ بے شک یہ ان لوگوں کی مجرمانہ حرکت پر مسلم طبقے کی شرمندگی کے اخلاقی احساس کو کسی بھی
طرح سے کم نہیں کرے گا لیکن جب مسٹر آرونووچ
ایک گھنونے جرم کو ایک مخصوص فرقے اور ثقافت سے جوڑتے ہیں تو وہ مدعے سے ہٹتے
ہوئے لگتے ہیں۔ بہر حال، کسی نے بھی (اور بجا طور پر) پوری دنیا میں بچوں کے ساتھ بد سلوکی کے معاملے میں ملوث پائے گئے سینکڑوں پادریوں
کے عمل کے لئے عیسائیت کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا ہے۔
تو، وہ کیا ہے جو اسلام کے بارے میں اس طرح کے
بے لگام مفروضات کی اجازت دیتا ہے؟
ایک خیال کی گونج
حقیقت میں، ٹائمس کے مصنف
اسلام کے بارے میں پائی جانے والی ایک وسیع رائے موروثی طور پر پر تشدد اور غیر روادار مذہب، کو وہ
پیش کر رہے تھے۔ اسلام کے کچھ سخت ممنوع اور پرہیز گاری کے سیٹ کے تصور جس میں سب کچھ" عطا کیا" ہوا ہے اور جس
میں سنجیدہ تنقیدی غور و فکر کو تو چھوڑ دیجئے کسی اگر یا مگر کی گنجائش نہیں ہے، اور
یہ عوامی کے ذہنوں میں گہرائی سے سرایت کر گئے ہیں۔
اس کے لئے مسلم مخالف تعصب
کو ذمہ دار ٹھہرانا اور اسلامو فوبیا (اسلام
ہراسی) کے ناقدین پر الزام عائد کرنا آسان ہے۔
لیکن سچ تو یہ ہے کہ اسلام کے بارے میں عوامی غلط فہمی کی ایک بہت بڑی وجہ مسلمان خود ہیں۔ پڑوس میں رہنے والے مولوی صاحب کے ہر نظر
آنے والی چیز پر ڈرائونے فتویٰ سے لے کر سخت گیر علماء کے ذریعہ اسلامی صحیفوں
کے خود کے مفادات کو حل کرنے والی تشریح تک،
سبھی کو ایک اچھے مسلمان کا نظریہ بنانے میں مدد کرنی چاہئے تھی جو برطانوی فوجیوں کی ٹینیسن کے ذریعہ بنائے گئے کارٹون
کے جیسا ہوتا، جس نے لائٹ بریگیڈ کی تباہ کن حملے کی قیادت کی تھی: جہاں الٰہی احکام
کے نام پر " نہ جواب دیا جاتا ہے، ...کسی چیز کی وجہ نہیں پوچھی جاتی ہے ... لیکن
کرنا اور مرنا ہوتا ہے" ۔
لیکن اب زیادہ تر جنوبی ایشیاء
کے فکر مند برطانوی مسلمانوں کے ایک گروپ نے
اسلام کے اس تصور پر مباحثوں کی حوصلہ افزائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو ، نیک مسلمانوں کو تحقیق
کرنا منع ہے، جیسے مسائل کے ارد گرد پر ہوں۔ اہم بات یہ ہے، کہ اس پیش قدمی کے پیچھے
کے مرد اور خواتین واضح طور پر بائیں بازو کے آزاد خیال لوگ نہیں ہیں، یہ ایک ایسا لیبل جو
معمول کے طور " غیر مناسب" سمجھے
جانے والے مسلمانوں پر لگایا جاتا ہے، لیکن یہ لوگ گہرے اسلامی عقیدے کے ساتھ ہی با
عمل مسلمان ہیں۔ یہ طبقے کے اندر کی ہی آوازیں ہیں اور ان میں سے کئی اسلامی فقہا کا اچھا
علم رکھتے ہیں تاکہ اپنے دلائل کے لئے اسلامی صحیفوں کے ابواب اور آیات کی حمایت حاصل کر سکیں۔
لندن میں واقع ایک مسلم انسی
ٹیوٹ کی جانب سے جاری کردہ نیا بین الا قوامی سہ ماہی رسالہ، دی کریٹکل مسلم، بنیاد پرستوں سے دانشورانہ طور
پر اسلام
کو حاصل کرنے اور نئے زمانے کے لئے تشکیل نو کی کوشش ہے، کیونکہ یہ
ان لوگوں کا ردّ عمل ہے جن کا ماننا ہے کہ
اعتدال پسند مسلمان یا اعتدال پسند مسلمانوں کا نقطہ نظر جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ مسلم دانشورانہ تحقیق کی بہترین روایت کے ذریعہ "عصر حاضر کے زمانے کے عظیم مباحثوں" پر مسلم نقطہ نظر
کو سامنے لانے کی یقین دہانی کرتا ہے۔ مڈل سیکس یونیورسٹی کے قانون اور سماجیات کے
پروفیسر ضیاء الدین سردار اور کریٹیکل مسلم کے شریک مدیر کا خیال ہے کہ خاص طور سے
ہندوستان اور پاکستان میں مسلمانوں کو تنقیدی
نقطہ نظر سے غور و فکر کی فوری ضرورت ہے۔
ضیاء الدین سردار کا کہنا ہے کہ، "صدیوں سے تنقیدی خیالات کی کمی نے انتہا پسندی اور جہل پسندی
کو ہمارے معاشروں میں ذاتی بننے کی اجازت دے
دی ہے۔ تنقید اور وسیع تر دنیا کو گلے لگانے کے لئے کشادگی کے بغیر،
اسلام اور مسلمان بے معنی ہو گئے ہیں، جو نئے
اور اصل خیالات کو پیدا کرنے، ہمارے معاشروں کو درپیش مسائل کو حل کرنے، اور دنیا پر
اپنا اثر چھوڑنے کے قابل نہیں رہے ہیں۔"
تازہ شمارے کا موضوع 'اسلام
کا تصور' ہے جس میں تعاون کرنے والوں کی دلیل
ہے کہ اسلامی صحیفوں کے زیادہ متنازعہ تشریحات
پر جرّات مندانہ نظر ثانی کی ضرورت ہے جنہیں
خداداد بتایا جاتا ہے اور جن پر کوئی سوال نہیں کیا جا سکتا ہے۔ وہ افسوس کرتے ہیں
کہ اسلام کو ایک ممنوعہ علاقے میں تبدیل کر
دیا گیا ہے، جس پر مسلمانوں کو تو چھوڑ دیجئے، غیر مسلمانوں کو تحقیق کرنا منع ہے۔
گرفتار قیدی
ضیاء الدین سردار کی دلیل ہے کہ، "اسلام کے تصور کو قید میں
ڈال دیا گیا ہے اور ایک میں نہیں بلکہ بہت سی جیلوں میں ڈال دیا گیا
ہے"۔ اور ان کے مطابق غیر ملکیوں سے نفرت، عورتوں سے نفرت اور ہم جنس پرستوں سے نفرت سمیت، ان میں سے سب سے بڑی "جیل" شریعت یا اسلامی
قانون ہیں جن کا استعمال " اللہ کی زمین پر کسی بھی نا انصافی" کے جواز کے
طور پر کیا جاتا ہے۔
پاکستانی تارکین وطن کی بیٹی
اور ایک مصنف سامعہ الرحمٰن، اسلام میں عورتوں سے نفرت کے بارے میں
لکھتی ہیں‑
کس طرح مرد علماء کرام نے اسلامی صحیفوں میں سے
منتخب طور پر ان حصوں کو نکال باہر
کیا تاکہ پدرانہ نظام والے مسلم معاشروں میں عورتوں کو کمتر حیثیت دئے جانے کا جواز
پیش کیا جا سکے۔ وہ بتاتی ہیں کہ، اسلام عورتوں
کو مردوں کے مساوی حقوق نہیں دیتا ہے یہ تصور
اس قدر لوگوں کے ذہنوں میں بس گیا ہے
کہ آزاد خیال والے مغربی ممالک میں پیدا ہوئی اور پر ورش پائی نوجوان اور تعلیم یافتہ عورتیں
بھی اس پر یقین کرتی ہیں، بالکل اسی طرح جیسے نام نہاد اسٹاک ہوم سنڈروم، جس
میں قیدی
یرغمال بنانے والے شخص کے ساتھ اپنی شناخت کو دیکھنے لگتا ہے۔
وہ لکھتی ہیں کہ، "عورتوں
سے اس نفرت کو زیادہ تر قرآن اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی روایات کی بنیاد
پر جائز ٹھہرایا جاتا ہے... سوال یہ ہے کہ کس طرح اسلام کو عورتوں سے نفرت کے عمل اور اور اس کی تشریح کے دلدل سے باہر نکالا جائے اور عورتوں کی حمایت کرنے والے مزاج کو بحال کیا جائے۔"
دیگر مسائل جن پر جریدے میں بحث کی گئی ہے ان میں اسلام میں جہاد
کا تصور، مسلم قدامت پسندی کے بارے میں سوالات،
عالمیت پسندی جسے بہت سے لوگ مانتے ہیں کہ اس کا وجود نہیں ہے، قریب ترین "کزن" ہونے کے باوجود مسلمانوں
اور یہودیوں کے درمیان "دشمنی کی حالت"، شامل ہے۔ اور اگر آپ سوچتے ہیں
کہ جاز مکمل طور پر امریکی چیز ہے تو، اینڈی
سائمن کو پڑھیں جو اصرار کرتے ہیں کہ جاز اتنا
ہی مسلمان ہے جتنا کہ یہ امریکی ہے۔
کریٹکل مسلم میں پیش بحث کا
نتیجہ یہ ہے کہ اسلام کو ایک انقلاب کی ضرورت تاکہ اس کی جدید دور کے لئے تشکیل نو کی جا سکے۔
ضیاء الدین سردار کا کہنا
ہے کہ " یہ شریعت کی قید کو چھوڑنے کا ... روایتی نظریات سے آزادی اور 'اسلامی ریاست' کے تصور کو
دفن کرنے کا وقت ہے ...."۔
چاہے یہ ہو تا ہے یا نہیں، کم سے کم ایک بحث تو شروع ہو گئی ہے اور
یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ یہ یہاں سے کہاں جاتی ہے۔ آئندہ شمارہ پاکستان پر ہے۔ کیا معتدل پاکستانی اس بحث میں شامل ہوں گے؟
18مئی، 2012، بشکریہ: دی ہندو
URL
for English article: http://www.newageislam.com/ijtihad,-rethinking-islam/reshaping-islam-for-the-modern-age/d/7374
URL: