ہارون یحیی
26 جولائی 2014
امن کی اپنی ایک الگ ہی زبان ہے لیکن صرف نیک، علم و دانش میں گہرائی و گیرائی رکھنے والے اور عقل و فہم کا استعمال کرنے والے لوگ ہی اس سے صحیح معنوں میں آگاہ ہیں۔ امن کی زبان میں وہ تاثیر ہے جو تمام حدود کو توڑتے ہوئے دلوں تک پہنچ جاتی ہے اور تمام سرحدوں کو مٹا دیتی ہے۔
اس زبان کا استعمال کرنے کے لئے صبر و تحمل، عزم و حوصلہ اور عقل و دانش کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس زبان کے اثرات کا مظاہرہ سخت ترین حالات میں بھی ہونا اور غصے اور اشتعال انگیزی کا شکار نہ ہونا ضروری ہے۔ اور یہ بھی ضروری ہے کہ یہ زبان گستاخانہ یا توہین آمیز الفاظ یا دشنام طرازیوں سے متاثر نہ ہو۔ وہ لوگ جو اس زبان کا استعمال کرتے ہیں ان کا عقلمند ہونا اور اس بات سے واقف ہونا ضروری ہے کہ کون سی بات امن کے لیے نقصاندہ ہو سکتی ہے۔ انہیں نرم گفتار سے اور سخت زبان کے تباہ کن اثرات سے واقف ہونا چاہیے۔
آج دنیا میں اتنی تاریکی پھیل گئی ہے کے ماضی میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ ترکی کے محکمہ مذہبی امور کے سربراہ مہمت گرمیز کے ایک تازہ ترین بیان کے مطابق تقریبا ایک ہزار مسلمان روزانہ ہلاک ہوتے ہیں جن میں سے 90 فیصد لوگوں کی ہلاکت خود ان کے بھائیوں کی ہاتھوں ہوتی ہے، یعنی آج مسلمان اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو قتل کر رہے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ ایک انسان کو دوسرے انسان کی موت سے اس قدر خوشی کیسے حاصل ہو سکتی ہے۔
جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا ہے لوگ اس المناک صورت حال سے اور بھی زیادہ برہم ہوتے جارہے ہیں۔ چند مرکزی دھارے میں شامل اور سوشل میڈیا بڑے پیمانے پر تباہ کن اثرات کے حامل ہیں۔ اس غصے اور اشتعال انگیزی کے نتیجے میں دنیا میں یہ نظریہ بڑے پیمانے پر پھیل گیا ہے کہ جارحیت کا جواب اور بھی زیادہ جارحیت پسندی سے اور غصے کا جواب غیض و غضب سے دیا جانا چاہیے۔ یہ ذہنیت ایسی ہے جو صرف نفرت بھرے الفاظ کا تقاضہ کرتی ہے۔ اس ذہنیت کی وجہ سے مزید قتل و غارت گری اور زبر دست نفرت و عداوت کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔
اگر مسلمان اس خطرناک صورت حال سے نکلنا چاہتے ہیں جہاں بچوں کو بھی اجتماعی طور پر قتل کیا جا رہا ہے اور وہ واقعی امن چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ وہ اسلام کے دکھائے ہوئے راستے پر چلیں اور مسلسل امن کا ہی تقاضہ کریں۔ انہیں کبھی بھی یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ نفرت لامحالہ اور بھی زیادہ نفرت کو جنم دیگا اور اس کا انجام کوئی المناک حادثہ ہوگا اور یہ کہ جنگ سے کسی جنگ کا خاتمہ نہیں کیا جا سکتا۔ انہیں ہمیشہ امن کا راستہ اختیار کرنا چاہیے، جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے " ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ" (سورہ البقرہ، آیت 208) یہ سب سے بڑی ذمہ داری صرف مسلمانوں کے ہی اوپر نہیں ہے بلکہ تمام نیک اور باشعور لوگوں پر بھی ہے۔
ہمیں اس بات کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ جنگ بھڑکانے کے مقصد سے اٹھایا گیا کوئی بھی قدم کسی چھوٹی سی کمیونٹی کے فائدے کے لیے ہوتا ہے اور اس سے نقصان اکثر معصوم لوگوں کا ہوتا ہے جبکہ جنگ بھڑکانے والے لوگ محاذوں سے دور بیٹھ کر اپنی آسانی اور حفاظت تلاش کرتےہیں۔ انہیں مصیبت اور مشکلات میں گرفتار معصوم لوگوں کا ذرا بھی خیال نہیں ہوتا۔
کچھ کائر لوگ یہ مضحکہ خیز بیان جاری کرتے ہیں کہ "ہم امن نہیں بلکہ بدلہ چاہتے ہیں"؛ عام طور ایسے لوگ یہ کہہ کر خود کو مطمئن کرتے ہیں کہ "میں خاموش نہیں رہ سکتا" جبکہ وہ میدان جنگ میں در پیش جان کے خطرات سے بہت دور ہیں۔ انہیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہے کہ ان علاقے میں رہنے والے لوگوں کو امن اور سلامتی کی ضرورت ہے۔
اچھے لوگوں کو قیام امن کے اپنے مقصد میں تمام ذرائع کو استعمال کرنے اور اسی کے مطابق اپنا لب و لہجہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ امن کا مطالبہ کرتے وقت ان لوگوں کے رد عمل یا باتوں کو نظر انداز کرنا ضروری ہے جو بنیادی طور پر اس امن کو کمزور کر سکتے ہیں؛ امن کی زبان میں کوئی بھی تخریب کار عنصر شامل نہیں ہونا چاہیے؛ اور ہمیشہ مصالحت کا راستہ تلاش کیا جانا چاہئے۔ فریق مخالف کا غصہ صرف پرسکون اور نرم زبان سے ہی ختم کیا جا سکتا ہے غنڈہ گردی سے نہیں۔ ہمیں ایسے نیک لوگوں کی ضرورت ہے جو پہلے سے کہیں زیادہ امن اب قائم کر سکیں۔
اس کے بغیر امن کی کوئی دعا نہیں کی جا سکتی۔ اس کے بغیر اس امن اور سلامتی کا قیام دنیا بھر میں نہیں کیا جا سکتا جس کا حکم اسلام دیتا ہے۔ اس کے بغیر بنیاد پرست لوگ اور بھی زیادہ بنیاد پرست بن جائیں گے، غم و غصہ کی لہریں اور بھی زیادہ تیز ہو جائیں گی اور اس کے بعد جنگ کو روکنا بالکل ناممکن ہو جائے گا۔ اس کو روکنے کے لئے ہمیں ایسے نیک لوگوں کی ضرورت ہے جو بھڑکے ہوئے لوگوں میں بھی جا کر یہ کہہ سکے کہ "امن سب سے بہترہے۔"
کچھ لوگ اپنے غصے کا جواز پیش کرنے کے لیے برے لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جبکہ ظالم و جابر کو سبق سیکھانے کے لیے امن کی زبان شرط اولین ہے۔ کسی ظالم و جابر کو برا بھلا کہنے یا اس کے خلاف لعنت ملامت کرنے سے وہ اپنے ظلم میں اور بھی سخت ہو جائے گا۔ لہٰذا انہیں صرف محبت کی زبان کے ذریعہ ہی ظلم و جبر چھوڑنے اور امن کا راستہ اختیار کرنے کی تعلیم دی جا سکتی ہے۔ شرارت اور شر انگیزی کا خاتمہ صرف محتاط اور اچھی تعلیم کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے۔
جب تمام لوگ غصے میں ڈوبے ہوئے ہوں تو اس وقت دشنام طرازیوں اور بداخلاقیوں کا مظاہرہ کر کے امن نہیں قائم کیا جا سکتا لیکن عزم اور مشکلات ہمیشہ نیکی اور خوش اخلاقی کے ساتھ ساتھ ہوتے ہیں۔ اللہ یہ چاہتا ہے کہ ہم امن قائم کرنے کی کوشش کریں۔ اگر ہمارا مشترکہ مقصد یہ ہے کہ اب مزید بچے بے موت نہ مارے جائیں زیادہ اور معصوم لوگ اب مزید بے گھر نہ ہوں تو ہمیں ایک عام راستہ اختیار کرنا ضروری ہے۔
عقلمند، حساس اور نیک لوگوں کو دنیا بھر میں امن کو فروغ دینے اور امن قائم کرنے کے لیے امن کی زبان کا استعمال کرنا چاہئے۔ انہیں اس بات پر پختہ یقین رکھنا چاہیے کہ صرف امن کا ہی راستہ واحد ایسا راستہ ہے جس کے ذریعہ جنگ کے تاجروں کی تمام سازشوں کو ناکام بنایا جا سکتا ہے اور معصوم لوگوں کی حفاظت کی جا سکتی ہے۔ اور ان کے ساتھ یقینا اللہ کی مدد ہو گی۔
ہارون یحیی سیاست، مذہب اور سائنس کے موضوعات پر 300 سے زائد کتابوں کے مصنف ہے جن کا 73 زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے۔
ماخذ:
http://www.arabnews.com/news/columns/607641
URL for English article:
https://newageislam.com/spiritual-meditations/we-need-special-language-peace/d/98302
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/we-need-special-language-peace/d/98951