ہارون یحیٰ
23 مارچ، 2015
ایک 12 سالہ طالب علم ایک عام اسکول میں تختہ سیاہ (blackboard) پر ریاضی کا مسئلہ حل کر تا ہے۔ استاذ حیرانی کے عالم میں اس کی طرف دیکھتا ہےجبکہ دیگر طلباء خاموشی کے ساتھ اس کی طرف اپنی نظریں جمائے رہتے ہیں۔ ایک کلاشنکوف رائفل اور اسپیئر کارتوس کلپس استاد کی میز پر رکھے ہوئے ہیں۔ یہ کسی فلم کا نظارہ نہیں بلکہ یہ ایک عام پاکستانی تعلیمی ادارے کا ایک منظر ہے۔ اب پاکستانی اساتذہ اسلحہ رکھتے ہیں اور اسلحہ لے کر درسگاہوں میں داخل ہوتے ہیں۔ طالب علموں کو پولیس بم کو ناکارہ کرنے کا طریقہ اور ہتھیاروں کا استعمال کرنا سکھاتی ہے۔ یہ 2014 کے اوآخر میں پشاور کے ایک اسکول پر طالبان کے ایک خونریز حملے کا نتیجہ ہے۔
طالبان کے اس حملے میں بے رحمی کے ساتھ مارے جانے والوں میں اسکول کے 132 معصوم بچے بھی شامل تھے۔ حیوانیت کے اس خاص واقعہ کو پاکستان کا 11 ستمبر مانا جاتا ہے۔ ایسا کہا جاتا ہے کہ اسی المناک حادثے کے بعد پاکستان کی فوج نے 2014 کے موسم گرما کے دوران شمالی وزیرستان میں طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب نامی ایک انتقامی کارروائی کا آغاز کیا تھا۔ جس سے ایک بار پھر یہ ثابت ہو گیا کہ تشدد اور خونریزی کا نتیجہ بدتر ین تشدد اور خونریزی کی شکل میں ہی ظاہر ہوتا ہے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں دہشت گردی کے واقعات عام طور پر رونماں ہوتے ہیں۔ پاکستانی طلبہ کا انسداد دہشت گردی تربیت حاصل کرنے میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے۔ تاہم، تعلیمی اداروں کو ہتھیاروں سے آراستہ کرنا س بات کو یقینی نہیں بناتا کہ طالبان اپنی پیش قدمیوں کو روک دیگا، دہشت گردی کے واقعات کو ختم کر دیگا یا اس سے خونریزی کے واقعات و حادثات میں کوئی کمی واقع ہوگی۔ قتل وغارت گری کا ننگا ناچ کرنے والے بنیاد پرست دہشت گرد پہلے سے ہی مرنے کے لیے تیار ہیں، لہٰذا وہ اپنے سامنے آنے والے مسلح اساتذہ کی وجہ سے بھی ہتھیار اٹھانے میں کوئی تأمل نہیں کریں گے۔
ایک ہی خدا اور ایک ہی نبی پر ایمان رکھنے والی قوم ایک دوسرے کو موت کے گھاٹ اتار رہی ہے۔ وہ محبت، بھائی چارے اور دوستی کے بجائے بندوق اور بموں کے ذریعے حل تلاش کر رہے ہیں۔ وہ نفرت، تنازعہ اور ظلم کے جذبے سے سرشار ہیں اور بنیادی طور پر یہی ایسے شرمناک واقعات کی وجہ بھی ہے۔ اسکول کے قتل عام کے بعد فوری طور پر پاکستان کی حکومت نے بنیاد پرست تنظیموں کے خلاف ایک فوجی آپریشن کا اعلان کیا تھا۔ اس کے تحت ایک 20 نکاتی منصوبہ پیش کیا گیا تھا جو کہ قومی لائحہ عمل کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس منصوبے کا مقصد سخت اقدامات، فوجی آپریشن اور سزائے موت کے ذریعے دہشت گردی کا مقابلہ کرنا تھا۔ تاہم، اس منصوبہ میں ایک بنیادی خامی تھی اس لیے کہ اس میں اصل مجرموں پر توجہ مرکوز نہیں کی گئی تھی۔
داعش کے تئیں وفاداری کا حلف اٹھانے والے پاکستانی طالبان اور مختلف دوسری جماعتوں نے اپنی پیش قدمی کا واحد ذریعہ دہشت گردی اور تشدد کو ہی مان لیا ہے۔ وہ مذاکرات کا ذہن رکھنے والے افغانی طالبان سے کہیں زیادہ فطری طور پر انتہا پسند ہیں۔ وہ پوری بے رحمی سے چھوٹے بچوں، بے گناہ خواتین، مساجد میں عبادت کر رہے شیعہ مسلمانوں اور بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے کی کوشش کر رہے حفظان صحت کے کارکنوں کو قتل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ نفرت سے اس قدر بھرے پڑے ہیں کہ بے گناہ طالبات کے چہرے پر تیزاب پھینک دیتے ہیں۔
انہین جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے ہمیں اس نفرت اور دشمنی کی اصل جڑ کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم، ہمیں تعصب، غصہ اور کسی جذبات کے زیر اثر قدم اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستانی طالبان حکومت پاکستان کا تختہ الٹنے اور اپنے بنیاد پرست ماڈل کو نافذ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ، اور وہ اپنے علاوہ کسی بھی دوسرے مذہب یا نظریہ کو زندہ رکھنے کے حق کو تسلیم نہیں کرتے۔ وہ اپنے نظریات کے نام پر تشدد اور دہشت گردی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ بنیاد پرست نظریہ ہی طالبان کو خطرناک بناتا ہے نہ کہ ان کے ہتھیار ۔ طالبان کے نظریات بڑی حد تک توہمات، من گھڑت احادیث اور مختلف انتہا پسند عقائد پر مشتمل ہیں جس کی حقیقی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جس مذہب کے نام پر وہ مرتے اور مارتے ہیں اس کا حقیقی اسلام سے کوئی واسطہ نہیں ہے اور وہ قرآن مجید میں مذکور حقیقی اسلام کے یکسر مخالف ہے۔
طالبانی دہشت گردی کو جنم دینے اور اسے فروغ دینے والے بنیاد پرست مذہبی معتقدات کی بنیاد امریکی یا ہندوستانی خفیہ ادارے یا بین الاقوامی فورسز نہیں ہیں۔ اس مسئلے کی جڑ خارجی نہیں ہے، بلکہ اس مسئلے کی بنیاد پاکستانی معاشرے میں سماجی و سیاسی ادارہ جاتی ڈھانچے اور خاص طور پر تعلیمی نظام میں مضمر ہے۔ پاکستانی بچوں کی تعلیم عام طور پر یا تو مدارس میں ہوتی ہے یا سرکاری اسکولوں میں۔ پاکستان میں 30 ہزار مدارس ہیں جن میں تقریباً 1.5 ملین طالب علم زیر تعلیم ہیں۔ مدارس خاص طور پر غریب خاندانوں کے لئے مفت مذہبی تعلیم اور رہائش فراہم کرتے ہیں۔ تاہم، ایک بڑی تعداد میں یہ مدارس توہمات پر مبنی مذہبی تربیت فراہم کرتے ہیں اور ان مدارس میں سرکاری نصاب کے مطابق زیر درس کتابیں کالعدم ہیں۔ ان میں سے کچھ ریاست کو اطلاع کیے بغیر ہی سرگرم عمل ہیں اور مالی مدد کے ان کے ذرائع بھی واضح نہیں ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہےکہ ان مدارس میں طالب علموں کو اسلام کے نام پر انتہاپسندی، عداوت اور نفرت پر مبنی تعلیم فراہم کی جا رہی ہے۔ وہ تعلیم مکمل کر لینے کے بعد مذہبی حکام کی حیثیت سے بڑے پیمانے پر معاشرے میں ان تعلیمات کی تشہیر کرتے ہیں۔ اسلام کے نام پر سرگرم عمل بنیاد پرستوں کے لئے اس طرح کی جھوٹی تعلیمات ان کے پیروکاروں کو جمع کرنے کے عمل کو انتہائی آسان بنا دیتی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تشدد اور دہشت گردی کے حامیوں کا تعلق محض مدارس سے ہی نہیں ہے۔ سرکاری تعلیمی ادارے بھی انتہا پسند سوچ اور ذہنیت کے حامل افراد کو پیدا کرتے ہیں۔ "اسلام اور پاکستان خطرے میں ہیں" اور "پاکستان مغرب کے خلاف ایک قسم کی جنگ لڑ رہا ہے" جیسے خیالات سرکاری نصاب کا حصہ ہیں۔ دہشت گردی اور بنیاد پرستی کی افزائش سے پاکستان کو نجات دلانے کا واحد راستہ حقیقی اسلام پر مبنی تعلیم ہی ہے۔ ہدایت یا تہدید کا کوئی دوسرا ذریعہ اس کا حل نہیں پیش کر سکتا۔ پاکستانی اسکولوں سے نفرت بھرے مواد کو فوری طور پر ختم کر نا اور محبت، دوستی، ہمدردی اور اخوت کے اسلامی پیغامات کو عام کرنا ضروری ہے۔ پاکستانی مدارس کو اسلام اور قرآن مجید کی خالص اخلاقی اقدار کی تعلیم دینے والے ایک ادارےکی شکل میں سامنے آنا اور محبت و اخوت کو گلے لگانے والی ایک قوم کی تشکیل کرنا ضروری ہے۔ حالیہ دونوں میں رونما ہونے والے اسکول کے قتل عام کے واقعہ نے پاکستان کی عوام کو واقعی خطرناک اور ہولناک بنیاد پرستی کی حقیقت سے روبرو کیا ہے۔ ہم خلوص دل کے ساتھ یہ امید کرتے ہیں کہ ماضی کے برعکس اب اس سمت میں غیر معمولی قدم اٹھائے جائیں گے؛ ہمیں امید ہے کہ اب مسلح تصادم کے بجائے تعلیم پر زور دیا جائے گا۔
ہارون یحی سیاست، مذہب اور سائنس پر بے شمار کتب اور مضامین تحریر کرنے ولے ایک ترکی دانشور ہیں
ماخذ:
http://www.dailytimes.com.pk/opinion/23-Mar-2015/pakistan-s-superstitions
URL for English article: https://newageislam.com/islam-politics/pakistan’s-superstitions-root-problem-external;/d/102068
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/pakistan’s-superstitions-root-problem-external/d/102108