ہارون یحیٰ
14 دسمبر 2013
پوری دنیا میں لوگوں کے شور و غل کے باوجود ڈھاکہ نے عبد القادر ملا کو پھانسی کے تخت پر لٹکا ہی دیا۔ ایسا لگتا ہے کہ اس نام نہاد ‘‘اسلامو فوبیا ’’ کے لئے بنیاد پرست رجحانات ہی ذمہ دار ہیں اسلام کی دیرینہ تعلیمات نہیں۔
شاید مغربی ممالک کے لیے یہ خوف عجیب وغریب نہیں ہے بلکہ انہیں مسلم ممالک میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ یہاں تک کہ ایسا لگتا ہے کہ اس مسئلہ پر مسلمانوں کے درمیان بھی اختلاف ہے۔ مسلم ممالک میں بہت ساری حکومتیں مقامی ‘‘انتہاء پسند’’ جماعتوں کے ساتھ معاملات کرنےمیں بہت محتاط ہیں۔ سوسائٹی میں بنیاد پرستی پنپنے کے خوف سے کبھی کبھی حکومتیں جبر و تشدد کا سہارا لینے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔
جماعت اسلامی کے بلند پایہ لیڈرعبد القادر ملا کوعمر قید کی سزا دینے کے بجائے پھانسی پر لٹکا دئے جانے سے کچھ حد تک اسی اندیشہ کی طرف اشارہ ملتا ہے ۔
ایسے حالات میں پوری دنیا اور اور اپنی اپنی سوسائٹی میں اپنے متعلقین اور لواحقین کے سامنے مذہب کی صحیح تصویر پیش کرنا ان مسلمانوں کی ذمہ داری بن جاتی ہے جو اسلام کی صحیح تعلیمات پر عمل کرتے ہیں ۔
اگر ایسا نہیں کیاجاتا ہے تو اس قسم کے ظلم و ستم کی شرح میں اضافہ ہو سکتا ہے جو دنیا کے بہت سارے ممالک میں مذہبی لوگوں کے خلاف انجام دیا جارہا ہے ۔
ناانصافی اور ظلم و ستم کے سامنے ایک سچا مؤمن کبھی خاموش نہیں رہ سکتا۔ سچے مؤمنوں کے اندر اسلامی اخوت کا شعور اور احساس ایسی کیفیت پیدا کر دیگا کہ ناانصافی اور ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کرنے کے علاوہ ان کے پاس اور کوئی راستہ نہیں رہ جائے گا ۔ وہ ایسے تمام اقدامات اٹھائیں گے جو ناانصافی اور ظلم و ستم کو روکنے کی خاطر ان کے لیے ممکن ہوں گے۔ انہیں اپنی آواز کو مضبوط بنانے کے لیے تمام تر ذرائع کا استعمال کرنا چاہیےاور ایسے لوگوں کی مدد کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جن پر ان کی تمام تر توانائیوں کے ساتھ ناانصافی کی گئی ہے ۔ بالکل اسی انداز میں ہم نے اپنے تمام تر ذرائع کے ساتھ عبد القادر ملا کی پھانسی کی زبردست مخالفت کی ہے اور پوری دنیا میں مسلمانوں کے عام جذبات کو ایک آواز دینے کی کوشش کی ہے ۔
ترکی کے مسلمانوں کی طرح، ہم نے سوشل میڈیا اور سیاسی ذرائع کے ذریعہ بھی بنگلہ دیش میں مسلمانوں کی آواز کو تقویت فراہم کر کے اس ظلم و ستم کو روکنے کا ایک راستہ بنا لیا ہے۔ اسلام مسلمانوں کو مصیبت کے اوقات میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کا حکم دیتا ہے اور ان سے ایک دوسرے کے اوپر ظلم و ستم کرنے کی امید نہیں رکھتا ۔ یہ بخشش اور صلح و آشتی کی دعوت دیتا ہے۔
بنگلہ دیش میں آج جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ اسلام کی صحیح تعلیمات کے خلاف ہے ۔ مسلمان کی سب سے اہم خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ معاف کرتا ہے اور دوسروں کے ساتھ مہربانی اور رحمت و شفقت کا معاملہ کرتا ہے۔ ایک اچھا نتیجہ حاصل کرنے کے لیے تسلسل کے ساتھ ایک ہی غلطی کے وقوع کو روکنا اور اس نقطہ سے دامن چھڑانا ضروری ہے۔ گزشتہ واقعات کو نظر میں رکھتے ہوئے بنگلہ دیش کے مسلمانوں کو رحمت و محبت کو نہ کہ بدلہ اور انتقام کو اپنے اقدامات کی بنیاد بنا کر پیش قدمی کرنی چاہیے۔ قرآن میں اللہ کا فرمان ہے کہ بخشش اور مہربانی میں خیر کثیر ہے۔ اسی وجہ سے بنگلہ دیش کی حکومت کو بھی مجرمین کو حراست میں رکھنے کے دوران اور سزا دینے میں یہ اعلی اخلاقی تفہیم فراموش نہیں کرنا چاہیے۔
پوری دنیا کے مسلمانوں کو چھوٹے موٹے اختلافات کو ختم کر کے اپنی صفوں میں اتحاد د پیدا کرنا ضروری ہےجیسا کہ اس کا حکم اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)نے دیا ہے۔
اسلام مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق کا زبردست حامی ہے اور اسلام نے مسلمانوں کو اگاہ کیا ہے کہ اتحاد و اتفاق کے بغیر مسلمان کمزور ہو جائیں گے اور پیش آنے والے تمام محاذوں پر شکست خوردہ ہی رہیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ آپس میں ایک دوسرے سے اتحاد و اتفاق پیدا کرنا اور اس دنیا میں ظلم و نا انصافی کے سامنے ایک واحد آواز کے طور پر سرگرمیاں انجام دینا مسلمانوں کے لئے بہت آسان امر ہے ۔ تاہم اس قسم کا اتحاد و اتفاق ایک مضبوط سیاسی رضاء اور اسلام کی صحیح تعلیمات کی پیروی کی سچی خواہش کا مطالبہ کرتا ہے۔
بہت سارے مسلم ‘‘مفکرین ’’ نے مسلمانوں کے درمیان اس قسم کے اتحاد و اتفاق کے قیام کے نظریہ کو مسترد کر دیا ہے اور ان کا دعویٰ یہ ہے کہ دور حاضر کے عالمی تناظر میں ایسا ہو پانا بالکل ہی ممکن نہیں ہے ۔ اس قسم کی ذہنیت ایک اتحاد و اتفاق کے قیام میں موانع پر قابو حاصل کرنے میں کبھی معاون نہیں ہوگی ؛ بلکہ اس قسم کی ذہنیت سے معاملات لایعنی طوالت کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ایسے عناصر کا ماننا ہے کہ عالمی عدم توازن، دلچسپی میں تنازعات، سماجی و سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی اختلافات مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق کو نا ممکن بنا سکتے ہیں یا اس سمت میں اٹھائے گئے اس قسم کے اقدامات کوغیرمؤثر کر سکتے ہیں ۔ جبکہ سچائی یہ ہے کہ ایسے کسی مانع کا وجود ہی نہیں ہے جسے دفع نہ کیا جا سکے۔
لوگوں کو اس سے اتفاق کرنا ہوگا کہ تنگیاں پیش آتی ہیں لیکن ان تنگیوں کی وجہ سے مسلمانوں کو اس سمت میں کوشش کرنے سے باز نہیں رہنا چاہیے۔
مسلمانوں کے درمیان اتحاد واتفاق سے دوسرے ممالک کے لیے بھی اطمنان و سکون کی فضاء قائم ہوگی۔ مسلمانوں کے درمیان اس قسم کی تبدیلی سے تمام ادیان و مذاہب کے لوگوں کے درمیان ایک پر سکون اور پر مسرت زندگی کا یقین بیدار ہوگا۔
(انگریزی سے ترجمہ : مصباح الہدیٰ ، نیو ایج اسلام)
ہارون یحیٰ نے سیاست ، مذہب اور سائنس جیسے مختلف موضوعات پر تین سو سے زائد کتابیں تصنیف کی ہیں جن کا تقریبا 73 زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے۔
ماخذ: http://www.arabnews.com/news/492286
URL:
https://newageislam.com/islam-terrorism-jihad/it-time-reflect/d/35024
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/it-time-reflect-/d/35095