حقانی القاسمی
17 اکتوبر، 2014
سرسید کے بعد تناظر ات بدلے ہیں، سیاسی، سماجی، معاشرتی، ثقافتی منظرنامہ تبدیل ہوا ہے۔مذہب کی تشکیل جدید، نیچرل سائنس کی روشنی میں مغربی تشریحات کا معاملہ، تجدد پسندی اور تعقل پرستی پر اصرار ، نیچریت پرمکمل انحصار اور سرسید کا تعلیمی تصور بھی پیرا ڈائم شفٹ کا ہی مظہر تھا ۔ ماڈرن سائنسی علوم و فنون پر اتکاز بھی قدیم تعلیمی تصورات سےانحراف کا نتیجہ تھا ۔ سرسید کے اس پیرا ڈائم شفٹ ، ان کے تفکر و تدبر، تجدید و تطور کو اسلامی تحت شعوری ذہن تسلیم کرنے کو قطعی تیار نہیں تھا ۔ اس لیے سرسید کی مخالفت کچھ طبقہ میں زیادہ ہوئی اور مدرسۃ العلوم کی تاسیس ، محمڈن اور نیٹل کالج کے قیام سے قوم اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا ہوگئی اور ادارے کرسٹان سازی کے مراکز کہلائے جانے لگے۔
سرسید نے جب فلسفہ اور نیچرل سائنس پر زیادہ زور دیا اور کہا کہ ہمارے دائیں ہاتھ میں فلسفہ ہوگا، بائیں میں سائنس تو شور و شر اور پھیلا ، کیونکہ انہوں نے ایک ایسی دقیانوسی معاشرے میں یہ آواز بلند کی تھی جہاں فلسفہ او رمنطق کو عرصۂ دراز تک الحاد و زندقہ کا باعث سمجھا جاتا تھا ۔جس قوم کی روایت ابن سینا اور ‘ اخوان الصفا’ کی تصنیفات نذر آتش کرنے کی رہی ہو۔ جس قوم میں ابن حبیب اشبیلو ی کو فلسفہ پڑھانے کے جرم میں سزائے موت دی گئی ہو، جہاں فخر الدین ابن الخطیب رازی پر مصائب کے پہاڑ صرف اس لیے توڑ ے گئے ہوں کہ یہ وہ جید قسم کا فلسفی تھا ۔ جہاں ابن رشد جیسے فلسفی پر بے دینی کا الزام لگا کر جلا وطن کردیا گیا ہو۔ جس قوم نے محمد بن احمد کو پچاس برسوں تک گھر سے باہر نہ نکلنے پر صرف اس لئے مجبور کیا کہ وہ روشن خیال اور تعقل پرست تھا ۔ جہاں تعقل پسندوں اور خرد مندوں کےمقدر میں سنگساری اور آتش زنی لکھی ہو، اُس قوم میں فلسفہ اور سائنس کی آواز بلند کرنا کسی ایٹمی دھماکے سے کم نہیں تھا ۔ ایسے قدامت پسند معاشرے میں برونو گلیلیو نہیں جنم لے سکتے تھے ۔ ایک ایسے ماحول میں جب اَشعر یوں اور اِشراقیوں کی اکثریت ہو، سرسید کے لبرل ریڈ یکل ، ماڈرنسٹ تصور کا اعتزال کے ذیل میں آنا فطری ہے ۔ اِس لیے سر سید بھی معتزلی قرار پائے ۔ اِس حقیقت کے باوصف اُس زمانے میں اگر اقل قلیل نے بھی سرسید کو قبول کر لیا ہوتا تو یہ ان کی خوش بختی اور بہت بڑی کامرانی ہوتی مگر سرسید نے تو جادو کی وہ چھڑی گھمائی کہ پورا ایک طائفہ تیار ہوگیا ۔
مسلمانوں میں پیراڈائم شفٹ کا احساس دلانا ہی سرسید کی ایک بڑی کامیابی تھی ۔ سرسید کے سینہ سوزاں کے خلوص و درد مندی کو محسوس کرتے ہوئے جن لوگوں نے سر سید کا ساتھ دیا وہ یقیناً ذہن و فکر کے حامل تھے اور تغیر کے حامی ۔ وہ زمانے کے تقاضوں سے با خبر تھے اور اِس بات سے آگاہ کہ مسلمانوں نے اپنے نظریے اور رویے میں تبدیلی نہیں کی، عصری چیلنجوں کا مقابلہ نہیں کیا تو ہر سطح پر پچھڑا پن مسلمانوں کامقدر ہوگا اور پوری قوم ظلمت جہلی اور قعرِ مذلت میں غرق ہوجائے گی۔
سرسید کےسامنے مسلمانوں کے بخت کی بر گشتگی کا پورا نقشہ تھا ۔ اس لیے انہوں نے وہ طرق اختیار کیے جو مسلمانوں کے لیے مہلک اور مضرت رساں نہ ہوں بلکہ منفعت بخش ہوں۔ برطانوی امپائر او رکلچر سے وفاداری مصالحانہ او رمسلمانوں کے مفاد سے مشروط تھی، انگریزوں کے وجود کو تسلیم کرنا، مسلمانوں کے ملی وجود اور بقا کے لیے ناگزیر تھا ۔ سر سید نے ‘‘ اسباب بغاوت ہند ’’ انگریزوں کو حقیقت حال اور نفس الامر سےآگہی کے لیے لکھا تھا ۔ جب پوری قوم کا قافیہ ہی تنگ ہورہا تھا تو ایسے میں سرسید نے وہ راہ اپنائی جو ذہنی کشادگی اور قلبی وسعت کا مظہر تھی اور قرآن کی اِس آیت کریمہ پر عمل بھی کہ : لا یجر منکم شنآن قوم علی الا تعد لوا ‘‘ کسی قوم کی دشمنی تمہیں جادۂ اعتدال سے ہٹانہ دے۔’’سرسید نے جادہ اعتدال اختیار کیا اور حقیقت حال سے انگریز حکمرانوں کو آگاہ کیا ۔ قوم و ملت کی زندگی میں ایسے نازک مرحلے آتے ہیں جب اس طرح کے طریقے اختیار کرنا پڑتے ہیں۔ انشاء اللہ خاں انشانے ، جیسے مصحفی بھانڈ کہتے تھے ، کس قدر معنی خیز شعر کہا ہے:
خیال کیجئے کیا آج کام میں نے کیا
جب ان نے دی مجھے گالی سلام میں نے کیا
سرسید کی طبع وقّاد اور فردابیں نگاہوں نے برطانوی ہند کے بعد کے خدشات او رمسلمانوں کے تعلیمی ، ثقافتی، مذہبی تشخص پر منڈلاتے منحوس بادلوں کو محسوس کر لیا تھا ۔ اس لیے انہوں نے وہ نسخہ حیات بخش استعمال کیا جس سے مسلمان گمشدہ حکمت کے ہتھیار سے اپنے مذہب اور مستقبل کو محفوظ کرسکیں۔
سرسید نے مسلم امہ کےبہت سے مسلمات سے انکار کیا۔ معجزہ ، معراج، وحی وغیرہ کا انکار بھی سرسید نے اس لیے نہیں کیا تھا کہ اُن کے سینے میں سر ملکوت ظاہر نہ ہوسکا ۔ بلکہ اس لیے کیا کہ معجزات اور وحی کی کوئی سائنسی اَساس نہیں تھی ۔ اب جب کہ سائنس انہی معجزات کی اساس پر نئی تحقیقات کررہی ہے اور معجزے سائنس کی تحقیق کا حصہ بنتے جارہے ہیں آج کے سائنسی اکتشافات اور معجزاتی حقائق میں سر سید امتزاج دیکھتے تو انہیں پیرا ڈائم شفٹ کی ضرورت محسوس ہوتی اور اپنا نظریہ یکسر تبدیل کرلیتے کہ اُن کا ایمان بہر حال کامل تھا، حالات نے انکار کی راہیں ہموار کردی تھیں تاکہ مسلمانوں کو مذہب سے برگشتہ کرنے کا مسیحیوں کو سائنسی جواز نہ مل جائے اور مسلمانوں پر جہالت اور تو ہم پرستی کا بہتان لگا کر مذہب اسلام کی انقلابی روح اور اسپرٹ کو مجروح اور شکستہ نہ کردیں ۔
سرسید نے علی گڑھ تحریک کے ذریعہ جدید تعلیم کا جو تصور دیا، وہ منطقی او رمثبت تھا ۔ مگر سر سید پر ہی ہمارے تجسس اور تفکر کی منزل آکر ختم نہیں ہوجاتی ۔ ہمارے سامنے جہاں اور بھی ہیں، ہمارے آگے آسماں او ربھی ہیں ۔ سرسید بھی ایک منزل پر ٹھہرے نہیں ۔ نئے نئے عوالم تلاش کرتے رہے اور مسلم قوم کو ذہنی جمود اور محکومی سے باہر نکال کر نئے ممکنہ جہانوں سے باخبر کیا ۔ اِس لیے ضرورت ہے کہ ہمارا تصور اور تفکر بھی سر سید پر آکر ٹھہر نہ جائے بلکہ زمانے کے حالات کے ساتھ ہمیں اور آگے بڑھنا ہے کہ بہت سی منزلیں ہمارے انتظار میں ہیں، بہت سے خواب ہماری راہ میں ہیں ۔ سرسید کا بھی یہی پیغام تھا، فردا کا پیغام ۔
17 اکتوبر، 2014 بشکریہ : روز نامہ راشٹریہ سہارا ، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/sir-syed-paradigm-shift-/d/99573