حمودہ عبدلاتی
15 نومبر 2014
قرآن کی ایک خصوصیت قدرت اور انسان، روحانیت اور مادیت، انفرادیت اور اجتماعیت کے درمیان اعتدال پسندی یا ہم آہنگی کا تصور پیش کرنا بھی ہے۔ قرآن زندگی کے تمام حقائق اور انسانوں کی تمام ضروریات پر خاطر خواہ توجہ دیتا ہے، اور ان تمام معاملات کا حل اس طرح پیش کرتا ہے کہ جس سے انسان کو اپنے وجود کے عظیم مقاصد کا احساس ہونے میں مدد مل سکے۔ اور اعتدال پسندی کے اسی نقطہ نظر کے تحت قرآن مسلمانوں کو "امت وسط" کا خطاب عطا کرتا ہے(2:143) اور اسی "وساطت" کے ساتھ انہیں بہتر امت کہا گیا ہے، جو بھلائی کا حکم دیتے ہیں، برائی سے روکتے ہیں اور خدا پر ایمان رکھتے ہیں (آل عمران 3:110)۔
قرآنی حکمت کا محور تین اہم جہتیں ہیں: باطن، ظاہر اور بلندی ۔ باطنی طور پر یہ دل کی گہرائیوں تک داخل ہوتا ہےاور ذہن و دماغ میں مکمل طور پر سرایت کر جاتا ہے۔ اس کا مقصد فرد کی باطنی اصلاح کرنا ہے۔ یہ باطنی گرفت میں کسی بھی دوسرے قانونی یا اخلاقی نظام سے مختلف ہے کیونکہ قرآن کا کلام خدا کے نام سے ہے اور وہ تمام امور کو خدا سے ہیں منسوب کرتا ہے۔
قرآن کی جن تعلیمات کا تعلق ظاہر سے ہے اس میں تمام شعبہائے زندگی شامل ہیں جو ذاتی معاملات سے لیکر پیچیدہ بین الاقوامی تعلقات تک انسانی امور کے تمام شعبوں کے اصولوں کا احاطہ کرتا ہے۔
قرآن ایسے تمام قانونی اور اخلاقی نظام کا بھی احاطہ کرتا ہے جو سیکولر نظامِ قانون میں نہ ہوں یا کسی مذہب کے اخلاقی اصول میں نہ پائے جاتے ہوں۔ اس سلسلے میں قرآن کے بارے میں جو بات قابل ذکر ہے وہ یہ ہے کہ یہ انسانی معاملات کا حل اس انداز میں پیش کرتا ہے کہ جس سے انہیں ایک روحانی اور اخلاقی ذائقہ حاصل ہوتا ہے۔ یہ تمام معاملات میں خدا کی موجودگی کا احساس پیدا کرتا ہے اور خدا کو ہی ہدایت کا اولین مصدر و سرچشمہ تسلیم کرتا ہے اور خدا کی ہی ذات کو تمام معلات کا مقصد و منتہیٰ مانتا ہے۔ یہ انسانوں کا روحانی پیشوا، ان کا قانونی اور اخلاقی نظام اور سب سے بڑھ کر ان کا نظام حیات ہے۔
قرآن کی جن تعلیمات کا تعلق بلندی اور عروج سے ہے ان میں ایک قادر مطلق کے وجود پر توجہ دی گئی ہے۔ جو کچھ بھی کائنات میں تھا، ہے یا ہوگا اسے اسی زاویہ نظر دیکھا جانا چاہیے اور وہ کائنات میں خدا کی موجودگی ہے۔ انسان خدا کی اس وسیع کائنات میں صرف ایک متولی ہے اور انسان کی تخلیق کا واحد مقصد خدا کی عبادت کرنا ہے۔
کسی بھی بہانے سے زندگی سے چھٹکارا یا راہ فرار اختیار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ زمین پر انسان کو خدا کی بہترین خصوصیات کا حامل بننے کی ایک کھلی دعوت ہے۔ جب قرآن خدا کی ذات و صفات پر روشنی ڈالتا ہے تو یہ انسانوں کے سامنے افکار و خیالات کے نئے نئے افق عیاں کرتا ہے، اسے اعلی اخلاقیات کے ایک بے نظیر معیار کی ہدایت عطا فرماتا ہے اور اسے امن اور نیکی کے دائمی ذرائع کی معرفت عطا کرتا ہے۔
صرف خدا کو ہی انسان کا ایک حتمی مقصد سمجھنا انسانی سوچ اور مذہبی عقائد میں مقبول رجحانات کے خلاف ایک انقلاب ہے، ایک ایسا انقلاب جس کا مقصد دماغ کو شکوک و شبہات سے آزاد کرنا، روح کو گناہ سے آزاد کرنا اور ضمیر کو محکومی اور غلامی سے آزاد کرنا ہے۔
قرآن کی حکمت اپنی تمام جہات میں قطعی اور فیصلہ کن ہے۔ یہ نہ ہی جسم کی مذمت کرتا ہے اور نہ ہی اسے تشدد کا شکار بناتا ہے، اور نہ ہی یہ روح کو نظرانداز کرتا ہے۔ یہ خدا کو "انسانی صفات سے متصف" نہیں کرتا، اور نہ ہی انسان کو خدا کا درجہ عطا کرتا ہے۔ خدا کے تخلیقی منصوبے کے تحت پورے احتیاط کے ساتھ تمام چیزوں کو وہیں رکھا گیا ہے جو اس کا مناسب مقام ہے۔ اعمال اور انعامات کے درمیان اور ذرائع اور ضروریات کے درمیان ایک متناسب تعلق ہے۔ قرآنی حکمت غیر جانبدار نہیں ہے۔ قدرداں اور عقلمند اس کے مطالبات کا پوری خوشی کے ساتھ خیر مقدم کرتے ہیں۔
قرآن کی حکمت افکار و خیالات میں سچائی اور عمل میں تقوی، مقصد میں یکجہتی اور ارادے میں خیرسگالی کا مطالبہ کرتی ہے:
{اس کتاب (کے اللہ کی کتاب ہونے) میں کوئی شک نہیں پرہیزگاروں کو راه دکھانے والی ہے (2:2)}۔ {الرٰ! یہ عالی شان کتاب ہم نے آپ کی طرف اتاری ہے کہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے اجالے کی طرف ﻻئیں، ان کے پروردگار کے حکم سے، زبردست اور تعریفوں والے اللہ کی طرف (ابراہیم 14: 1)}۔
مصنف کی کتاب اسلام ان فوکس (Islam in Focus) کے اقتباسات ہیں جن میں کچھ ترمیم کی گئی ہے۔ یہ مضمون WAMY ویب سائٹ سے لیا گیا ہے۔
ماخذ:
Source: http://www.onislam.net/english/shariah/quran/reflections/429939-moderation-in-the-quran.html
URL for English article: https://newageislam.com/islam-spiritualism/moderation-qur-an/d/100120
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/moderation-qur-an-/d/100368