ڈاکٹر حمید اللہ صدیقی
دنیا میں بیشتر ایسے
ممالک ہیں، جو اپنی جدید تکنیک او رسائنسی علوم کی وجہ سے مشہور ہیں، لیکن کئی ایسے
ممالک بھی ہیں،جو اپنی قدیم تہذیب و ثقافت اور روایت کی وجہ ے تاریخ میں اہم مقام
رکھتے ہیں۔یمن کا شمار بھی ایسے ہی ممالک میں ہوتا ہے،جو زمانہ قدیم سے ہی تاریخی
و تہذیبی اہمیت کا حامل رہے ہیں۔صدیوں قبل یمن ایک خوشحال ملک ماناجاتاہے۔ مصالحہ
اور معدنیات کی یہاں بھر مار تھی۔ جنوبی یمن 1967 میں انگریز وں کے چنگل سے آزاد
ہوکر عرب دنیا کا پہلا ایسا ملک تھا، جو اشترا کی ملک بنا۔شمالی یمن کا قیام 1962
ء میں ہوا تھا، جب کہ جنوبی یمن 1967 میں آزاد ہوا۔ شمالی یمن اور جنوبی یمن کا
22مئی 1990 میں ایک دوسرے کے ساتھ انضمام ہوا اور ایک جمہوری ملک ہونے کا اعلان
ہوا،لیکن کچھ ہی برسوں بعد اپریل 1994 میں شمالی یمن اور جنوبی یمن کے فوجی گروہوں
میں تصادم ہوا اور 5مئی 1994 ء کو یہاں ایمر جنسی کا نفاذ کردیا گیا۔21مئی 1994ء
کو جنوبی یمن نے متحدہ یمن سے خود کو علیحدہ کرتے ہوئے آزاد مملکت کا اعلان کردیا،
لیکن دو مہینے چلی اس خانہ جنگی میں شمالی یمن کی فوجوں نے جنوبی یمن پر قبضہ کرلیا
اور اس طرح 7جولائی 1994 کو یہ لڑائی اختتام پذیر ہوئی۔اس لڑائی میں تقریباً 3بلین
ڈالر کا نقصان ہوا۔28جولائی کو یمن حکومت نے یہ اعلان کیا کہ وہ شکست خوردہ جنوبی یمن
کے ساتھ آپسی مذاکرات کے لیے اقوام متحدہ کی ثالثی قبول نہ کرکے،خود ہی آپسی و گھریلوں
ماحول میں بات چیت کر کے ایک ساز گار ماحول بنائے گا۔بہر حال اپریل 1997 میں یہا ں
پارلیمانی انتخابات ہوئے۔
یمن کی اقتصادی قوت تیل
او رزراعت پر منحصر ہے۔ کافی، کھجور،جڑی بوٹی، موٹے اناج،کپاس وغیرہ یہاں کی اہم پیداوار
ہیں۔ کھال اور چمڑے کی برآمدات بھی بڑے پیمانے پر ہوتی ہے۔کسی بھی ملک کی ترقی کے
لیے اقتصادی قوت سے زیادہ سیاسی استحکام کی ضرورت ہوتی ہے۔ یمن میں سیاسی اتھل
پتھل بہت ہوئی،لیکن یہاں کی سیاست میں علی عبداللہ صالح کی گرفت کافی مضبوط ہے،
1978 سے ہی وہ یہاں کے اقتدار پر اپنا سکہ جمائے ہوئے ہیں۔1978 میں وہ شمالی یمن
کے صدر مملکت بنے،اس کے بعد 1990 میں جب یمن دوبارہ متحد ہوا، تو بھی وہی صدر
جمہوریہ کے عہدے پر رفائز ہوئے۔
ستمبر 2006 کے انتخابات یہاں
کی جمہوریت کے لیے کافی اہم تھے، کیونکہ عالمی برادری کے زیر نگرانی یہ انتخابات
کرائے گئے، تاکہ کوئی بدنظمی یا بدعنوانی نہ ہو۔ ان انتخابات میں عوام کے ہر طبقے
نے اپنی سیاسی بیداری کا ثبوت دیا اور سیاسی استحکام کے لیے کوششیں کیں۔ اپریل
2003 میں یہاں پارلیمانی انتخابات ہوئے۔ ان انتخابات میں GPC یعنی جنرل پیپلز کانگریس پارٹی نے اکثریت حاصل کی۔
اس الیکشن کی خاص بات یہ بھی رہی کہ اس میں گذشتہ انتخابات کے مقابلے تشدد وتصادم
کے واقعات میں کافی کمی دیکھنے کو ملی۔
یمن آئین کے مطابق ایک
جمہوری ملک ہے۔ یہاں ایک منتخب صدر ہوتا ہے اور وہ وزیر اعظم کا انتخاب کرتاہے، لیکن
وزیر اعظم کے لیے دوتہائی اراکین پارلیمنٹ کی حمایت حاصل ہونی ضروری ہوتی ہے۔عہدہ
صدارت کی مدت 7 سال ہوتی ہے، جب کہ ارکان پارلیمنٹ کی میعاد 6سال ہوتی ہے۔18 سال
اور اس سے زائد کاہر شخص ووٹ ڈالنے کا حقدار ہوتا ہے۔
یمن کی پارلیمنٹ میں دو
طرح کے ارکان ہوتے ہیں۔ ایک عوام کے ذریعہ منتخب ہوتے ہیں، جن کی تعداد 301 ہے، جب
کہ 111 ارکان نامزد کیے جاتے ہیں،دونوں مل کر حکومت کی باگ ڈور سنبھالتے ہیں۔ 301
منتخب ارکان ایوان نمائندگان کے رکن مانے جاتے ہیں، جب کہ 111 مقرر کردہ ارکان شوریٰ
کاؤنسل کے ممبرہوتے ہیں۔ صدر جمہوریہ ملک کا سربراہ ہوتا ہے اور وزیر اعظم حکومت
کا رہبر مانا جاتا ہے۔حالانکہ ساتوی صدی میں یمن اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں
اسلامی خلیفہ ہوا کرتے تھے، جن کے ہاتھ میں حکومت کی باگ ڈور ہوتی تھی۔ جب خلفاء
کا دور ختم ہوا، تو امام مقرر ہونے لگے اور وہ ملک کی رہنمائی کا کام انجام دیتے
تھے۔ یہ امام مختلف فرقو ں کے ہوتے تھے، جن میں زیدی فرقہ ایسا تھا،جس کے دور میں یہاں
کے سیاسی نظام میں پائیداری آئی، جوجدید دور تک قائم رہی۔ اس کے بعد سولہویں صدی میں
مصر کے سنی خلفا نے بھی یہاں پر حکمرانی کی، جو انیسوی صدی تک جاری رہی۔ حالانکہ
وقفے وقفے سے یہاں اماموں کا قبضہ بھی ہوتا رہا۔
1839 میں انگریزوں نے یمن کے کچھ علاقوں پر اپنا قبضہ جما لیا۔
شمالی یمن اور جنوبی یمن میں اکثر جنگیں بھی ہوتی رہیں، لیکن 1967 میں انگریزوں کے
جانے کے بعد 1992 میں شمالی یمن او رجنوبی یمن دو ملک کے بجائے ایک ملک ہوگئے اور
ایک جمہوری نظام قائم ہوا۔یہاں کے موجودہ وزیر اعظم علی محمد او رنائب صدر جمہوریہ
عبدالرب منصوری الہاوی ہیں۔ یمن کے موجودہ نظام میں ایک آزاد عدلیہ بھی ہے، جو
سابق شمالی یمن او رجنوبی یمن کے قوانین سے مل کر بنے ایک مشترکہ قانون کے مطابق
عمل کرتی ہے۔ یہاں کے عدالتی نظام میں دو طرح کی عدالتیں قائم ہی، ایک اقتصادی
معاملات کے لئے ہے اور ایک سپریم کورٹ ہے، جو ملک کے دارالحکومت ”صنعاء“ میں قائم
ہے۔ یمن چونکہ ایک اسلامیملک ہے، اس لیے یہاں زیادہ تر معاملے شرعی قانون کے مطابق
حل کیے جاتے ہیں،زیادہ تر جج او رماہرین قانون مذہبی اسکالر ہوتے ہیں۔ خاص بات یہ ہے
کہ عرب و دیگر اسلامی ممالک کی طرح یہ شدت پسند ملک نہیں ہے۔ یہاں اسلامی قانون
ضرور نافذ ہے، لیکن بیشتر معاملات میں اعتدال پسندی سے کام لیا جاتاہے۔ نظام حکومت
بہتر طریقے سے چلانے کے لیے یمن کو 20ریاستوں اور ایک ایک میونسپلٹی میں بانٹا گیا
ہے۔ ہرریاست میں کم و بیش 333اضلاع اور 38284 گاؤں ہوتے ہیں۔ یمن سعودی عربیہ کے
جنوب اور عمان کے مغرب میں واقع ہے۔ اس کا رقبہ 5,31,000مربع کلومیٹر ہے۔ فرانس کے
بعد یمن دنیا کا 49واں سب سے بڑا ملک ماناجاتا ہے، جو کم وبیش تھائی لینڈ کے برابر
ہے۔ یہاں کی آبادی 2کروڑ 30لاکھ 13ہزار 376 سے زیادہ ہے۔ یہاں کی سرکاری زبان عربی
ہے۔ یہاں شرح خواندگی 50.2فیصد ہے اور اسلام یہاں کا اہم اور سب سے بڑا مذہب ہے۔ یہاں
کی فی کس آمدنی 900 ڈالر ہے اور یہاں کی کرنسی کا نام ریال ہے۔ شرح پیدائش کے
اعتبار سے یمن کا شمار سر فہرست ممالک میں ہوتا ہے۔ یہاں فی عورت اوسط 7بچے پیدا
کرنا ہے، جو سعودی عرب سے کم و بیش 2گناہ زیادہ ہے اور دیگر ترقی پسند عرب ممالک
کے 3گنا کے برابر ہے۔ یہاں کم وبیش 15سال کی عمر میں لڑکیوں کی شادیاں ہوجاتی ہیں۔
URL: https://newageislam.com/urdu-section/islamic-republic-yemen-tradition-modernity/d/2175